محرم الحرام کا شرعی حکم
کیا جائز کیا ناجائز
...🌺🍀🍀🍀🍀🌱🌱🍀🍀🍀🌱🌱..............
ومن یعظم من شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب
..................
محترم قارئین حضرات
محرم الحرام تقدیس وتحریم کی اس اونچی اور عالی مرتبت بلند و بالا فلک بوس چوٹی کا نام ہےجس پر تمام اشہر الحرم رشک کناں ہیں اس مقدس مہینہ کی دسویں تاریخ کو حضرت آدم سے لیکر ایدم تک منفرد مقام حاصل ہوتا چلا گیا
یوم عاشورہ کا مقام و مرتبہ انبیاء علیھم السلام کی یادگار بن گیا
ہمارے نبی کی شریعت میں اس دن کثرت سے عبادات و ریاضات اور روزہ کی فضیلت کا اہتمام موجو د ہے
اللہ کو یہ دن اتنا پیارا ہے کہ اس نے اپنے مخصوصہ کاموں کیلئے اسی دن کا انتخاب فرمایا چنانچہ اللہ نے عاشورہ کے دن زمین و آسمان ، لوح ،و قلم ، آدم ، حواکو پیدا فرمایا
نیز حضرت آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تخلیق سعید کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ بھی اسی دن قبول کی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کو جودی کاکنارہ بھی اسی دن ملاحضرت ادریس علیہ الصلٰۃ و السلام کو بھی مکان علیا کی طرف اسی دن اٹھایا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسی دن خلیل بنایا گیا حضرت داؤد علیہ السلام کو اسی دن تمغہ سے سجایا گیا حضرت سلیمان علیہ السلام کو اسی دن دوبارہ حکمرانی وسطانی بخشی گئ حضرت خدیجۃ الکبری ٰ
کا نکاح آسمانوں پر اسی روزہوا اسی روزقیامت قائم ہوگی اسی روز حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلااور آپکے رفقاء وانصار کواور نونہالوں کو و نوجوانوں کو و بھائیوں کو بھتیجوں کو بھانجوں کو گھر پریوا خاندان و کنبہ وغیرہ کو نہایت بے دردی کے ساتھ شہیدکیاگیا
بس عشاق اہلبیت نے تمام فضائل کا انکار نہ کرتے ہوئے یوم عاشورہ کو خصوصاً امام حسین کے ساتھ منسوب کرلیا نماز روزہ کیساتھ ساتھ انہیں کی یادگار سجانے لگےجو ان کا فریضہ منصبی بھی ہے
اب اس کو منانے کیلئے الگ الگ طریقے اپنائے گئے کہیں امام کے نام پر لنگر ، کہیں سبیل ، کہیں قرآن خوانی ، کہیں مجالس ، کہیں صدقات حسینی کی فراوانی ،کہیں نماز ، کہیں روزہ ، کہیں تعزیہ ، کہیں ، علم ، کہیں مہدی ، کہیں تخت ، کہیں دلدل ، دیوانوں کا اپنا اپنا انداز وارفتگی ہے جس پر فتویٰ نہیں دیا جا سکتا مذکورہ تمام طریقے جائز ہیں
اپنی اپنی بساط علمی یا کم مائیگی کے مطابق عصبیت مولٰی میں ڈوب کر فتویٰ دیا گیا اگر غورو خوض ، تحقیق و جستجو اور عشق حسینی کے التزام کیساتھ فتویٰ دیا جا تا تو امت میں بد گمانیاں ہرگز پیدا نہیں ہوتیں
ہر آدمی نے حسینیات میں بقدر ظرف حصہ لیا صاحب حیثیت حضرات نے لنگر ،کسی نے قرآن خوانی کسی نے سبیل کسی نے مجلس کسی نے تعزیہ شریف پھر تعزیہ شریف میں کسی نے بطور اعلان ڈھول بجاکر اس غم میں شرکت کی
یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ صرف ڈھولک ہی کو ناجائز نہیں کہا گیا بلکہ اکاؤنٹ کرو
حسین کے نام کی سبیل حرام ، کھچڑا ، حرام تعزیہ حرام ، علم حرام ، تخت ،حرام مہدی حرام ،بلکہ حسین باغی، یزید امیرالمومنین
العیاذ باللہ
سب نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق حرام کہا پوری حسینیت کو حرام کہنے والے سبھی مفلوج العقل صرف ڈھول نقارہ کو حرام و ناجائز کہتے تو میں بھی سوچتا بلکہ کہتا کہ ٹھیک فرمایا ،لیکن جب پوری حسینیت لپیٹے میں لے لی گئ تو سازش ہے کہ حسین اور حسین کے نام کی ہر چیز ناجائز بتاؤ یہ خوارج اپنے گھروں میں ٹیلی ویژن پر مزامیر سے لطف اندوز ہوتے ہیں
جائز .
موبائلوں میں ڈانس دیکھتے ہیں
جائز
برتھ ڈے میں ڈھپلی بجاتے ہیں
جائز
سینیما دیکھیں
جائز
حسین کا ڈنکا حرام
باقی سب جائز
مسلمانوں یزید کی کھال سمجھ کر بجاؤ
جلوس تعزیہ کی تشہیر کیلئے بجاؤ
قوت حسینی کے اظہار کیلئے بجاؤ
دشمن کو مرعوب کرنے کیلئے بجاؤ
آپ سوچ رہے ہونگے ازبر علی نے ڈھول جائز کردی تو نوٹ کرلو ازبر علی نے نہیں بزرگان دین نے اعلان کے طور پر ڈھول بجانا جائز لکھا ہے بس بزرگوں کی اتباع کرتے ہوئے بطور اعلان ڈھول جائز لکھ رہاہوں
پھر اعمال کا دارو مدار نیت پر ہوتا ہے جیساکہ بخاری شریف میں ابتدائ حدیث تحریر ہے انمالاعمال بالنیات وانما لامرمانوا یعنی عمل کے ثواب وجزا کا تعلق نیتوں پر ہے جیسی نیت ہوگی ویسی جزاہوگی اگر نیت محمود اور بہتر ہے تو ثواب و جزابھی بہتر ہے اور اگر نیت خراب ہے تو جزابھی اسی کے اعتبار سے ہے
عشرہ محرم الحرام میں مسلمان جوڈھول،ڈنکا، طبل ، تاشہ ،بجاتاہے اسکی غالباً نیت اطلاع جلوس اور آمد علم ، تعزیہ کا اعلان ہوتاہے اگر واقعی یہ نیت ہے تو محمود ہے
چنانچہ غوث العالم حضرت سلطان التارکین حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں طبل یعنی ڈھول کی دوقسمیں ہیں
ایک وہ جو لھو ولعب کیلئے بجایا جاتاہے لھو حرام ہے اور طبل ممنوع لیکن جو طبل جنگ کے وقت یافوج کے کوچ کے وقت بجایاجائے وہ مشروع ہے
حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ و السلام کی مزار پر اب تک یہ قاعدہ ہے کہ کھاناتقسیم ہوتے وقت طبل (یعنی ڈھول نقارہ) بجایا جاتاہے تاکہ سب مسافروں اور مجاوروں کو اطلاع ہوجائے اور ہر شخص اپنا اپناحصہ لے جائے
بعض مشائخ کوچ اور نزول کے وقت طبل بجاتے ہیں حضرت شیخ ابو اسحٰق گازونی کے روضہ پر کھانے کے وقت طبل بجایاجاتاہے اور وہاں کے مجاوروں نے سید اشرف کو بھی طبل اور علم کی اجازت دی تھی فقراء کا کھانا عبادت ہے اور جو فعل عبادت کی دعوت کرےوہ مشروع ہے لھٰذا کھانے کے وقت طبل بطور اعلان بجانادرست ہے
لطائف اشرفی حصہ دوم ص245
اسی طرح سیدنا سلطان الہند غریب نواز اجمیری رضی اللہ عنہ کے آستانہ عالیہ پر یکم رجب کو عرس کا اعلان بطور ڈھول تاشہ ہوتاہے اور ڈھول تاشہ ہی بجایا جاتا ہے تمام دنیا کا انسان اس اعلان کوجو تقریباً آٹھ سو سال سے ہورہا ہےسن رہاہے دیکھ رہاہے
حضور مخدوم علاءالدین صابر کلیری کے یہاں بھی اعلان عرس ڈھول تاشہ ہی سے ہوتا ہے جو آج بھی جاری و ساری ہے
تعزیہ شریف کا شرعی حکم صفحہ 23 /33
خانقاہ عالیہ بدیعہ مداریہ مکن پور شریف میں عرس کے موقع پر جب کشتی دمال شریف میں آتی ہے اور سجادہ نشین تخت نشین ہونے کو ہوتے ہیں تو صحن دمال شریف میں نقارچی نقارہ بجاتاہے اور دمال شریف کے پورے شغل میں نقارہ اسلام بجتا رہتا ہے نقارچی کا وظیفہ خانقاہ شریف کی طرف سے بندھاہواہے
فقہائے اسلام کے نزدیک ڈھول تاشے کا شرعی حکم
بہار شریعت میں حضرت امجد علی صاحب تحریر فرماتے ہیں نوبت بجانا اگر تفاخر کے طور پر ہو تو نا جائز ہے اور لوگوں کو اس سے متنبہ کرنا مقصود ہو یا نفخات صور یاد دلانے کیلئے ہو تو تین وقتوں میں نوبت بجانے کی اجازت ہے بعد عصر ،بعد عشاء ،بعد نصف شب کہ ان اوقات میں نوبت کو نفخ صور سے مناسبت ہے
بہار شریعت حصہ 16 ص130
مسئلہ عید کے دن اور شادیوں میں دف بجانا جائز ہے جبکہ جھانجھ نہ ہو
ردالمختار عالمگیری
احادیث میں دف بجانے کی اجازت
حضرت ا م المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اعلنوا ھذاالنکاح واجعلوا فی المساجد واضربوا علیہ بالدفوف
مشکٰوۃ جلد 2 ترمذی جلد ثانی
مشکٰوۃ کی شرح مرقات میں ملا علی قاری تحریر فرماتے ہیں
والضربوا علیہ بالدفوف لکن خارج المسجد قال الفقہا المراد بہ لا جل جلہ
مرقاۃ حاشیہ مشکٰوۃ ص 272
یعنی ان موقعوں پر دفوف مسجد سے باہر ہی بجاؤ اور فقہائے اسلام فرماتے ہیں دفوں میں جھانجھ نہیں ہونا چاہئے
حدیث شریف
عن محمد ابن حاطب الجمعی عن النبی قال فصل مابین الحلال و الحرام الصوت الدفوف فی النکاح
رواہ ابن ماجہ احمد ترمذی والنسائ مشکٰوۃ ص 272
ان حدیثوں سے واضع ہوگیا کہ اعلان کیلئے دف بجانا حکم رسول ہے
دف ، ڈھو ل طبلہ ، نقارہ ، یہ تمام کے تمام نیک مقصد اور اعلان کیلئے استعمال ہوسکتے ہیں
تعزیہ داری جائز ہے
از مفتی ابو الحماد خیر آبادی ص 38
اسی طرح سے تعزیہ شریف جائز ہے بلکہ باعث نجات ہے بزرگان دین نے اس کا اہتمام و احترام کیا ہے
ہر قدیمی سنی خانقاہ میں تعزیہ داری موجود ہے
تعزیہ اٹھانا بزرگوں سے علماء کرام اولیاء کرام سے ثابت ہے
جیسے عالم پناہ حاجی وارث علی شاہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دھلوی ، حضرت عبد الرزاق بانسوی ، شیخ المشائخ حضرت حسن نظامی ، حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی ، حضرت شاہ قطب الدین سنبھلی ، حضرت صدرالافاضل سید نعیم الدین مرادابادی حضرت اورنگ زیب عالمگیر ملک العلماء عبد العلی فرنگی محلی حضرت مولانا حافظ شاہ محمد فائق رضعان اللہ علیھم کے علاوہ حضرات سادات مکن پور شریف علماء مداریہ کا تعزیہ بنانے پر کلیہ فیصلہ ہے
اٹھاؤ سبط پیمبر کا تعزیہ لوگو
یہی نجات کا سیدھا ہے راستہ لوگو
غم حسین میں رونا سرکار ابد قرارکی سنت ہے لھٰذا جو غم حسین میں دوآنسو بہادے ان شاء اللہ اس کا بیڑاپار ہے مضمون کی طوالت کی وجہ سے اسے یہیں چھوڑ رہا ہوں
🌱ناجائز باتیں 🌱
ناچ گانا، کھیل کود، تماشہ ،عورتوں کا بے پردہ گھومنا مردوں میں شامل ہونا، جھانجھ بارات ، .مزامیر بجانا بین کرنا ، چھاتی کوٹنا ،( سینہ کوبی کرنا) بال نوچنا ، چوڑیاں پھوڑنا ، وغیرہ جو بھی خلافت شریعت کام ہوں سب ناجائز ہیں چاہے وہ تعزیہ شریف میں ہوں یا باہر ، ناجائز ناجائز ہی رہےگا اب اگر کسی جگہ یہ افعال بد پائے جاتے ہوں تو وہاں کے علماء کرام ذی شعور دانشمند ذمہداران حضرات ان پر پابندی لگائیں اور تعزیہ داری نہ
روکیں یا
سید ظفر مجیب مداری
www.qutbulmadar.org