تعزیہ داری اہلسنت کا معمول
تعزیہ داری اھلسنت کا معمول ھے
حسنیت
زندہ باد تھی
ھے
اور رہیگی
یزیدیت مردہ باد تھی
مردہ باد ھے
مردہ باد رہیگی
یزید نواز چاہے جتنا زورلگالیں
مگر اسے زندہ باد نھیں کرسکتے
کیونکہ جسے اللہ پاک نے مردہ باد کردیا اب اسے کوئی بھی لابی زندہ باد نھیں کرسکتی
آج کل وھابیوں دیو بندیوں نے یزیدیت کے احیاء پر کافی زور باندھا ہواھے جگہ جگہ تعزیہ داری کے خلاف بلکہ مکمل محرم داری کے خلاف بدعت وحرام کے فتوئے داغ رہے ھیں
جبکہ اپنے پچاس سالہ مسلک کو منزل من السماء سمجھے ہوئے ھیں
مگر اللہ کا شکر ھے جسطرح پچھلی تین دھائیؤں میں یہ عملِ سلف وخلف وشغلِ اخیار وابرار کچھ متاثر ہوا اس کی بہ نسبت اس دھے میں اس کمی کوزیادتی کی طرف پھر رواں دواں دیکھا جا رہا ھے
افسوس صد افسوس قدیم معمولاتِ اھلسنت کے خلاف فتوئے بازی کرکے سنیت کی ترویج واشاعت کے دعوے ہورہے ھیں
تقریباً اکثر خانقاھیں آج بھی تعزیہ داری کرتی ھیں جنھیں اھلسنت کا قدیم مرکز ہونے کا شرف حاصل ھے
۲۵ محرم الحرام کو ھر سال حضور سیدنا سرکار بابا فریدالدین گنج شکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چلہ خانہ کھلتا ھے جسمیں عطاءالرسول سلطان الھند سیدنا غریب نواز قدس سرہ کا چاندی کا تعزیہ شریف آج بھی رکھا ہواھے
زائرین اسکی زیارت سے فیضیاب ھوتے ھیں
"دینِ محمدی اور تعزیہ داری "
سلسلۂ قادریہ کے عظیم المرتبت بزرگ اجلہ علماء فرنگی محل کےپیرو مرشد حضور سیدنا خواجہ عبدالرزاق بانسوی قدس سرہ فرماتے ھیں کہ "تعزیہ کو یہ نہ جانے کہ یہ خالی کاغز اور بتی ھے ارواحِ مقدسہ بھی اسکی طرف متوجہ ہوتی ھیں " کراماتِ رزاقیہ صفحہ ۱۵
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمتہ اللہ علیہ کا تعزیہ کو کاندھا لگانا علی التواتر مسموع ھے "منقول از سرالشھادتین صفحہ ۸۹
حضرت شاہ عبدالرزاق بانسوی قدس سرہ جس وقت تعزیہ اٹھتا ننگے پاؤں تشریف لے جاتے جب تک تعزیہ رکھا رہتا ھاتھ باندھے کھڑے رہتے "کراماتِ رزاقیہ صفحہ ۱۵
حضرت سیدنا شاہ نیاز بریلوی چشتی قدس سرہ شبِ عاشور دوبجے تعزیہ کی زیارت کیلئے تشریف لے جاتے جب حضور کو ضعف زیادہ ہوگیا تو دوسروں کی مدد سے تشریف لے جاتے حضرت نے تعزیہ کے تخت کو بوسہ دیا " کراماتِ نظامیہ صفحہ ۳۳۷
شیخ المشائخ خواجہ حسن نظامی فرماتے ھیں کہ "تعزیہ داری میں اشاعتِ اسلام کی بھلائی پوشیدہ ھے "منقول از فاطمی دعوتِ اسلام صفحہ ۱۲۱
حضورسیدنا شاہ قطب الدین سنبھلی رحمتہ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ جب "آپکے سامنے تعزیہ آتا تو آپ پلنگ سے نیچے اتر جاتے اور کھڑے ہوکر روتے رہتے "فتاویٰ تعزیہ داری صفحہ ۳
تعزیہ کے سامنے جو کھانا رکھکر فاتحہ کیا جاتاھے وہ متبرک ھے "فتاویٰ عزیزیہ صفحہ ۷۵
بعض منھیات تقریباً اکثر معمولات کا حصہ بن چکے ھیں جسکا مشاھدہ جملہ اھلِ علم ودانش کو بھی ھے مگر کلیتہً انھیں ناجائز وحرام نھیں کہاجاتا
مگر یادگار شھدائے کربلا سے خداجانے کس بلا کی مخالفت دلوں میں گھر کئے ہوئے ھے کہ ھر سال تعزیہ شریف کی روک تھام کیلئے قلمی علمی مالی لسانی قربانی پیش کی جاتی رہتی ھے اور دعوئے اھلسنت بھی ہوتا رہتا ھے
آج اس سے زیادہ حیرت کی بات اور کیا ھوگی کہ پچیس پچاس سال والوں کے مزارات کانقشہ ٹوپیوں میں بناکر کتابوں میں بناکر کلینڈروں میں بناکر انکی تاریخ سازی کی جارہی ھے بلکہ بعض مواقع پر باندازِ تعزیہ بناکر گلی گلی گشت بھی کرایا جاتا ھے اس پر کوئی دارلافتاء حرکت میں نھیں آتا کسی مفتی کی رگ نھیں پھڑ پھڑاتی مگر محرم کا مھینہ آتے ھی بی پی بڑھ جاتا ھے
عظمتِ اسلام ھے تعزیہ شوکتِ دین ھے تعزیہ
نشانِ غلامئ حسین ھے تعزیہ
بلکہ
پہچانِ سنیت وشریعت ھے تعزیہ
آقاحسینِ پاک کی نسبت ھے تعزیہ
سرکوفہ میں شھیدوں کا جوگھموائے تھے لعیں
اسکا بس اِک جوابِ عقیدت ھے تعزیہ
بدمذھبوں واھلِ تسنن کے درمیاں
اِک صاف صاف خطِّ تفاوت ھے تعزیہ
تعزیہ داری اھلسنت کا معمول ھے
حسنیت
زندہ باد تھی
ھے
اور رہیگی
یزیدیت مردہ باد تھی
مردہ باد ھے
مردہ باد رہیگی
یزید نواز چاہے جتنا زورلگالیں
مگر اسے زندہ باد نھیں کرسکتے
کیونکہ جسے اللہ پاک نے مردہ باد کردیا اب اسے کوئی بھی لابی زندہ باد نھیں کرسکتی
آج کل وھابیوں دیو بندیوں نے یزیدیت کے احیاء پر کافی زور باندھا ہواھے جگہ جگہ تعزیہ داری کے خلاف بلکہ مکمل محرم داری کے خلاف بدعت وحرام کے فتوئے داغ رہے ھیں
جبکہ اپنے پچاس سالہ مسلک کو منزل من السماء سمجھے ہوئے ھیں
مگر اللہ کا شکر ھے جسطرح پچھلی تین دھائیؤں میں یہ عملِ سلف وخلف وشغلِ اخیار وابرار کچھ متاثر ہوا اس کی بہ نسبت اس دھے میں اس کمی کوزیادتی کی طرف پھر رواں دواں دیکھا جا رہا ھے
افسوس صد افسوس قدیم معمولاتِ اھلسنت کے خلاف فتوئے بازی کرکے سنیت کی ترویج واشاعت کے دعوے ہورہے ھیں
تقریباً اکثر خانقاھیں آج بھی تعزیہ داری کرتی ھیں جنھیں اھلسنت کا قدیم مرکز ہونے کا شرف حاصل ھے
۲۵ محرم الحرام کو ھر سال حضور سیدنا سرکار بابا فریدالدین گنج شکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چلہ خانہ کھلتا ھے جسمیں عطاءالرسول سلطان الھند سیدنا غریب نواز قدس سرہ کا چاندی کا تعزیہ شریف آج بھی رکھا ہواھے
زائرین اسکی زیارت سے فیضیاب ھوتے ھیں
"دینِ محمدی اور تعزیہ داری "
سلسلۂ قادریہ کے عظیم المرتبت بزرگ اجلہ علماء فرنگی محل کےپیرو مرشد حضور سیدنا خواجہ عبدالرزاق بانسوی قدس سرہ فرماتے ھیں کہ "تعزیہ کو یہ نہ جانے کہ یہ خالی کاغز اور بتی ھے ارواحِ مقدسہ بھی اسکی طرف متوجہ ہوتی ھیں " کراماتِ رزاقیہ صفحہ ۱۵
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمتہ اللہ علیہ کا تعزیہ کو کاندھا لگانا علی التواتر مسموع ھے "منقول از سرالشھادتین صفحہ ۸۹
حضرت شاہ عبدالرزاق بانسوی قدس سرہ جس وقت تعزیہ اٹھتا ننگے پاؤں تشریف لے جاتے جب تک تعزیہ رکھا رہتا ھاتھ باندھے کھڑے رہتے "کراماتِ رزاقیہ صفحہ ۱۵
حضرت سیدنا شاہ نیاز بریلوی چشتی قدس سرہ شبِ عاشور دوبجے تعزیہ کی زیارت کیلئے تشریف لے جاتے جب حضور کو ضعف زیادہ ہوگیا تو دوسروں کی مدد سے تشریف لے جاتے حضرت نے تعزیہ کے تخت کو بوسہ دیا " کراماتِ نظامیہ صفحہ ۳۳۷
شیخ المشائخ خواجہ حسن نظامی فرماتے ھیں کہ "تعزیہ داری میں اشاعتِ اسلام کی بھلائی پوشیدہ ھے "منقول از فاطمی دعوتِ اسلام صفحہ ۱۲۱
حضورسیدنا شاہ قطب الدین سنبھلی رحمتہ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ جب "آپکے سامنے تعزیہ آتا تو آپ پلنگ سے نیچے اتر جاتے اور کھڑے ہوکر روتے رہتے "فتاویٰ تعزیہ داری صفحہ ۳
تعزیہ کے سامنے جو کھانا رکھکر فاتحہ کیا جاتاھے وہ متبرک ھے "فتاویٰ عزیزیہ صفحہ ۷۵
بعض منھیات تقریباً اکثر معمولات کا حصہ بن چکے ھیں جسکا مشاھدہ جملہ اھلِ علم ودانش کو بھی ھے مگر کلیتہً انھیں ناجائز وحرام نھیں کہاجاتا
مگر یادگار شھدائے کربلا سے خداجانے کس بلا کی مخالفت دلوں میں گھر کئے ہوئے ھے کہ ھر سال تعزیہ شریف کی روک تھام کیلئے قلمی علمی مالی لسانی قربانی پیش کی جاتی رہتی ھے اور دعوئے اھلسنت بھی ہوتا رہتا ھے
آج اس سے زیادہ حیرت کی بات اور کیا ھوگی کہ پچیس پچاس سال والوں کے مزارات کانقشہ ٹوپیوں میں بناکر کتابوں میں بناکر کلینڈروں میں بناکر انکی تاریخ سازی کی جارہی ھے بلکہ بعض مواقع پر باندازِ تعزیہ بناکر گلی گلی گشت بھی کرایا جاتا ھے اس پر کوئی دارلافتاء حرکت میں نھیں آتا کسی مفتی کی رگ نھیں پھڑ پھڑاتی مگر محرم کا مھینہ آتے ھی بی پی بڑھ جاتا ھے
عظمتِ اسلام ھے تعزیہ شوکتِ دین ھے تعزیہ
نشانِ غلامئ حسین ھے تعزیہ
بلکہ
پہچانِ سنیت وشریعت ھے تعزیہ
آقاحسینِ پاک کی نسبت ھے تعزیہ
سرکوفہ میں شھیدوں کا جوگھموائے تھے لعیں
اسکا بس اِک جوابِ عقیدت ھے تعزیہ
بدمذھبوں واھلِ تسنن کے درمیاں
اِک صاف صاف خطِّ تفاوت ھے تعزیہ