بسم اللہ الرحمن الرحیم
*سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار علیہ الرحمہ کی ہندوستان آمد اور انکی خدمات* www.qutbulmadar.org
*از قلم*
*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی*
تاریخ شاہد عدل ہے کہ ہردور اور ہرزمانے میں بنی نوع انسان کی رشدوہداہت اور انسانی معاشرہ کی اصلاح وفلاح کیلئے کوئی نہ کوئی رہبرورہنمابحکم الہی اس خاکدان گیتی پر جلوہ افروز ہوتا رہاہے اور شمع رشدوہداہت بن کر انسانیت کے تاریک ماحول کو منور ومجلی کرتا رہا خواہ انبیاء ومرسلین کا مقدس طبقہ ہو یا خلفاء راشدین اور صحابہ وتابعین کا نورانی قافلہ ،محدثین ومفسرین اور فقہاء ومجتہدین کی مبارک جماعت ہو یا مشائخ عالمین اور اوراولیاء کاملین کا قابل احترام گروہ علماء فضلاء ہوں یا صوفیاء ذوی الاحترام کا روحانی سلسلہ جس دورمیں جیسی گمراہی اور جس طرح کی بے راہ روی رہی پروردگار عالم جل شانہ نے اس کے سدباب کیلئے حالات اور ماحول کےتقاضوں کے مطابق اس دنیا میں ویسی ہی شخصیتوں کو بھیجا تاکہ وہ اپنی خداداد صلاحیت ،دانائی وحکمت، فہم وفراست ،بصیرت وبصارت اور کشف وکرامت سے حالات کا رخ موڑدیں اور ماحول کو جرائم سے پاک کرکے امن وامان کا خوشگوار گہوارہ بنادیں -
یہ امر اہل بصیرت اور ارباب فکرودانش کی نظروں سے اوجھل نہیں کہ جب ہندوستان میں کفار ومشرکین اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ہرچہار جانب سے مسلمانوں پر حاوی ہوچکے تھے ،محمد بن قاسم کی حکومت زوال پذیر ہوچکی تھی اور جادووسحر وغیرہ ان جیسی باطل قوتوں سے مسلمانوں کے نام ونشان نیست ونابود کئے جارہے تھے توایسے نازک اور بھیانک دور میں قدوة السالکین،زبدة العارفین، امام الواصلین، حضور سیدنا سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رحمة اللہ تعالی علیہ قاطع کفروضلالت ،مزیل تاریک وظلمت ،شمع رشدو ہداہت ابررحمت وشفقت، رہبرآدمیت و انسانیت ،مخزن علم وحکمت اور صاحب کشف وکرامت بن کر ہندوستان تشریف لائے- جوں ہی آپکی آمد سعید ہندوستان ہوئی تو آپکے قدوم میمنت لزوم کی قدم رنجائی کی برکت سے سرزمین ہند معطر ہوگئی ، اسلام کو نئی زندگی مل گئی ، اسلام کا خزاں رسیدہ باغ سر سبزشاداب ہوگیا، چمن اسلام لہلہا اٹھا ، باطل طاقتیں سرنگوں ہوگئیں آپ نے اپنے کرداروعمل سے باطل پرستوں کو ایسا دندان شکن اور مسکت جواب دیا کہ آج تلک باطل قوتیں اسکا جواب دینے دے قاصر ہے اور دشمن اسلام پر تیر ونشتر برساکر انہیں ایسا چور چورکردیا کہ الی ھذایومنا انکے ماتھےپر نشانی نظر آرہی ہے اور ان شاء اللہ العزیز تا صبح قیامت کفروضلالت کی پیشانی پر یہ مداری زخم برقرار رہے گا -
: *حضور سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار علیہ الرحمہ کی ہندوستان آمد کب اور کیسے ہوئی*
تو اس بارے
قیصر مداریت حضرت علامہ قیصررضاعلوی المداری رقم طراز ہیں کہ
"قطب الاقطاب سید ناسید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار قدس سرہ کے تذکرہ نگاروں کا اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ آپ 282 ہجری میں بحکم رسول مقبول علیہ السلام ہندوستان تشریف لائے"-
مزید آپ لکھتے ہیں کہ" آپکے سفر ہند کا تذکرہ صاحب تذکرة المتقین نے اس طور پر فرمایا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے " حضرت قطب المدار را حکم فرمودند کہ بہ ہندوستان رفتہ درامرحق سعی بکار بری چناچہ از آنحضرت ﷺ اجازت حاصل کردہ عازم ہند گشتندہ ہدایت ارشاد خلق الله رافرمودہ ومخلوق را راہنمائی نمودہ برجہاز سوار شدند روزے حضرت فضائل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد می فرمودند کہ راکبان جہاز ازراہ عنادو اعتساف سخنہائے مخالفانہ سر کردندحضرت ازاو شاں ناخوش شدند وبہ مشیت ایزدی آں جہاز در تباہی آمد وآں ہمہ در بحر فنا ءغرق شدند مگرحضرت حضرت مع یازدہ کس ازاں گروہ پر خاش جو برتختئہ وبسی برنیامد کہ آں باقی ماندگان ہم راہ فناء گرفتند حضرت قطب المدار ناخدائے حقیقی بافضال خویش بر ساحل نجات رسانید عمارتے عالیشان از دور پدیدآمد وقتیکہ حضرت متصل وےرسیدند مردے بزرگ صورت فرشتہ سیرت رابر درش ایستادہ یافتند آں پیرمرد سبقت سلام کردہ در اں مکان رفیع الشان آنجناب را بہمراہی خود بردہ حضرت بآں مقام بزرگی راازنہایت جاہ وحشم ضروریراہزنی آیت جا و حشم بر تخت مرصع ومکلل زیب وسادہ یافتندومودب قریبش رفتند آں بزرگ از کمال شفقت و عاطفت نزدخود نشانید وطعامے پیش کرد آں طعام ملکوتی بودنہ لقمہ از دست خود نوش کنانید حنید لقمہ کہ از حلق فرو می رفت احوال یک طبق ازطبقات ارضی وسماوی بروی مکشوف می گشت الغرض از عرش تا ثری بر حضرت مبرہن گردید پس ازاں لباس بہشتی پوشانیدو فرمودند انشاء اللہ تعالی ترا گاہے خواہش اکل وشرب نخواہد شد وخرقہ کہ دادا ام کہنہ نخواہد گردید آں بزرگ سرحلقہ ملائکہ عنصری بودنامش شتخیشا است و بروایت چناں ہم آمدہ کی افتخار خرقہ وطعام از دست حق پرست حضرت رسول اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مرحمت شد ہمی قول اصح یافتہ شود مندوبہ باتفاق جمہور (تذکرة المتقین فارسی صفحہ 44- 45)
: حضرت قطب المدار کو ہندوستان جاکر تبلیغ دین کا حکم فرمایا چنانچہ حضرت مدار پاک آنحضرت علیہ السلام سے اجازت حاصل کرکے عازم ہندوستان ہوئے تاکہ خلق اللہ کے درمیان ہدایت و ارشاد کا کام جاری کریں- آپ جہاز پر سوار ہوئے ایک دن اثنائے سفر آپ نے حضرت علیہ السلام کے فضائل و مناقب بیان فرمائےجس کی وجہ سے جہاز پر سوار لوگ ازراہ عناد و تعصب صدائے مخالفت بلند کرنے لگے اس بات سے آپ خاطر ملول ہو گئے چنانچہ بہ مشیت الہی وہ جہاز تباہی میں پھنس کر فنا کے گھاٹ اتر گیا لیکن حضرت مدار پاک 11 آدمیوں کے ساتھ ایک تختہ کے سہارے پانی کے بہاؤ کے مطابق چلتے رہے یہاں تک کہ وہ 11 لوگ بھی فوت ہو گئے لیکن ناخدائے حقیقی یعنی اللہ عزوجل کے خاص فضل و کرم سے آپ ساحل نجات کو پہنچے آپ نےدور ہی سے خایک عالیشان عمارت دیکھی جب اس کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک بزرگ صورت فرشتہ سیرت شخص اس محل کے دروازے پر کھڑا ہے اس بزرگ شخص نے آگے بڑھ کر آپ کو سلام پیش کیا اورآپکو اپنےہمراہ اس محل میں لے گیا اس محل میں ایک بزرگ صاحب جاہ و حشم ایک تخت مرصع پر پوری سادگی کے ساتھ تشریف فرماتھے- آپ مودبانہ طور پر ان کے قریب پہنچے ان بزرگوار نے کمال شفقت و عاطفت کے ساتھ آپ کو اپنے قریب بیٹھا لیا اور تا میں ملک کو درپیش فرماتے ہوئے نو لقمہ خود اپنے ہاتھ سے خود قطب المدارکو کھلایا چنانچہ لقمہ ملکوتی کا حلق کے نیچے اترنا تھا کہ طبقات ارضی و سماوی سے ایک ایک طبق آپ پر روشن ہو گیا یہاں تک کہ عرش سے لے کرتحت الثری تک کے تمام طبقات آپ پرروشن ہو گئے پھران بزرگ نے آپ کو لباس بہشتی پہنایا اور فرمایا کہ ان شاء اللہ تعالی اب تمہیں کھانے پینے کی حاجت نہ ہو گی اور جو خرقہ تمہیں دیاہے یہ کبھی میلا پرانا نہ ہوگا وہ بزرگ سرحلقہ ملائکہ عنصری تھے ان کانام شتخیشا ہے جبکہ ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ جنہوں نے اپنے دست حق پرست سے آپ کو خرقہ اور طعام عطا فرمایا تھا وہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تھے - اور یہی والا قول اصح ہے اسی پر جمہور کا اتفاق ہے : تذکرۃ المتقین کی مذکورہ تحریر سے یہ بات روشن ہو گئی کہ حضور سیدنا سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار علیہ الرحمہ کی ذات اقدس وہ اعزازی ذات ہے جو تبلیغ و ارشاد کے لیے ہندوستان اپنی مرضی سے نہیں بلکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء مبارکہ سے تشریف لائے اور آقائےدوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جب اپنے اس منتخب مبلغ اور داعی کو ہندوستان کے سفر کیلئے روانہ فرمایا تو دوران سفر ہی ایسے ایسے عطیات وتبرکات سے نوازا جو بہت کم اولیاء کرام رضی اللہ عنھم کو عنایت ہوئے کہ کبھی حضور ﷺ اپنے دست اقدس سے آپکو جنتی کھانا کھلارہے ہیں تو کبھی بہشتی لباس سے آپکو مزین فرمارہے ہیں -
*ع* ایں سعادت بزور بازونیست
یہی وجہ ہے کہ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے پھر اس کے بعد کبھی اس دنیا فانی کی کوئی چیز تناول فرمایا اور نہ کوئی چیز نوش فرمائی اور حیات ظاہری ایک ہی لباس پر اکتفاء فرمایا-
یاد رہے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہندوستان آنے کے بعد کسی ایک جگہ جامد و ساکت ہو کر تبلیغ واشاعت دین کے عظیم فریضہ کو انجام نہیں دیا بلکہ قرآن مقدس کا فرمان سیروا فی الارض کے مطابق زندگی کا ایک خاص حصہ دینی مذہبی سیروسیاحت میں گزارا ،درویش اور صوفیوں کی طرح آپ نے بھی مسافرت کی صعوبتیں اورتکالیف برداشت کی، فروغ دین و مذہب کے لیے ہندوستان وغیرہ کئی ممالک کا سفر فرمایا ہم یہاں طوالت مضمون کے خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے فقط چند ہندی شہروں میں آپ کی آمد مسعود سے جو دینی خدمات وقوع پذیر ہوئے ہیں انھیں اختصارکے ساتھ پیش کرتے ہیں-
*کاٹھیا واڑمیں آمد*
آپ ہندوستان سمندر کے راستے سے سب سے پہلے کاٹھیاواڑ پہنچ کر اپنے اس زمانے کے ایک مشہور کمانچہ میں کچھ دن قیام کیا وہاں رہ کر آپ نے ایک شغل بھی کیا جس کو شغل حیات ابدی بھی کہتے ہیں -
*جونپور میں آمد* -
حضرت سید بدیع الدین رحمۃ اللہ تعالی علیہ جب جونپور میں رونق افروز ہوئے تو خاص و عام لوگوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا سلطان ابراہیم شرقی اشرف خان اور رسید صدر جہاں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی آپ کے لئے مریدوں نے ایک حجرہ بنایا جس میں آپ عبادت کرتے تھے جون پور میں آپ جب تک رہے جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ ونصیحت فرماتے تھے آس پاس کے لوگ بھی اس مجلس میں کثیر تعداد میں شریک ہواکرتے تھے -
*کنتور میں آمد*
جب آپکی جلوہ گری کنتور میں ہوئی تو وہاں کے لوگ آپکی بارگاہ میں حاضر ہوکر کچھ عرصے تک خوب خوب فیضیاب ہوئے اور کافی افراد آپکے حلقہ ارادت میں بھی داخل ہوئے اسی درمیان جب قاضی محمود نے آپکو ایک مسجد میں مشغول عبادت دیکھا تو اس پر عجب سی کیفیت طاری ہوگئی اور پھر کیا تھا کہ آپکے قدموں گرکر داخل سلسلہ ہوئے اور خلافت مداریہ سے سرفراز ہوئے-
*گھاٹم پور میں آمد*
کنتور سے آپ گھاٹم پور پہونچے اور وہیں عرفان کی خوب دولت لٹائی اور وہاں کے راجہ کو آپکی دعا سے اولاد نصیب ہوئی -
*سورت میں آمد*
گھاٹم پور سے آپ سورت میں جلوہ فگن ہوکر کچھ روز قیام فرمایا اور یہاں کے باشندے آپ سے کافی مستفیض ہوئے بعدہ آپ وہاں سے قنوج چلے گئے -
*قنوج میں آمد*
سیدنا سیدبدیع الدین زندہ شاہ مدار رحمة اللہ علیہ مختلف مقامات کو فیضیاب کرتے ہوئے قنوج تشریف فرما ہوئے جہاں لوگ جماعت درجماعت اور جوق درجوق آپکے حلقہ ارادت میں شامل ہوتے گئے اور بہت سے قلوب واذہان کے دریچے خانے کو ایمان کی ضیاوں سے روشن وتابناک کردیا - قنوج کے قریب ایک موضع رادھا نگر میں حضرت مخدوم شیخ اخی جمشید قدوائی رحمة اللہ علیہ
: کو جب آپکی آمد کی بشارت ملی تو وہ نہایت ہی عقیدت ومحبت کے ساتھ آپکی خدمت پرفیض میں حاضر ہوئے اور قدم بوسی فرمائی بعدہ دونوں بزرگوں کے درمیان کافی دیر تک رازونیاز اور اسرارورموز کی باتیں ہوتی رہی پھر قدوائی صاحب رحمة اللہ تعالی علیہ واپس رادھا نگر کو تشریف لے گئے
*مکن پور شریف آمد*
پھر آپ قنوج سے اپنی آخری آرام گاہ مکن پورشریف تشریف لے آئے اور وہیں زندگی کے آخری لمحہ تک یاد الہی ، اطاعت وبندگی اور رشدوہداہت میں مصروف رہ کر سلسلہ مداریہ کی تبلیغ واشاعت فرمانے لگے جسکے سبب مکن پور شریف سلسلہ مداریہ سے وابستگان کیلئے عقیدت کا مرکز بن گیا حضرت کے مکن پور شریف پہونچتے ہی وہ تالاب بھی خشک ہوگیا جس کے بارے میں حضورصلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے آپکو بشارت دی تھی اور اس تالاب کی لہروں سے یا عزیز کی آواز بھی آنا بند ہوگئی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق سب واقعات ہوئے - حضرت کے مریدین وخلفاء نے آپ کے رہنے کیلئے ایک عمارت بنائی جس میں آپ نے اپنی زندگی کے آخری انتالیس سال گزارے مکن پور میں آپ نے لوگوں کو بیعت سے نوازا - ایک دن شاہ محمد یاسین خان نامی ایک مرید سے آپ نے وضو کا پانی منگوایا انکو پانی نہ ملا تلاش بسیار کے باوجود جب اسے پانی حاصل نہ ہوسکا تو دعا مانگی جس سے پانی کا چشمہ جاری ہوا خوشی میں جب چشمہ کا پانی لیکر حضرت کے پاس لایا تو حضرت نے اس چشمہ کے بارے میں پیش گوئی فرمائی کہ ان شاء اللہ اس چشمہ کا فیض زمین وآسمان کے قیام تک جاری رہے گا ( ذوالفقار بدیع الدین )
از قلم
*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی*
مفتی وقاضی عالم ربانی سید احمد اشرف دارالافتاء والقضاء ناسک
واشرفی نقشبندی دارالافتاء ولساڑ
نگراں جامعہ اشرفیہ سرکارکلاں ناسک
وشیخ الحدیث و صدرالمدرسین جامعہ فاطمة الزہراء للبنات سلواس ولساڑ
*سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار علیہ الرحمہ کی ہندوستان آمد اور انکی خدمات* www.qutbulmadar.org
*از قلم*
*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی*
تاریخ شاہد عدل ہے کہ ہردور اور ہرزمانے میں بنی نوع انسان کی رشدوہداہت اور انسانی معاشرہ کی اصلاح وفلاح کیلئے کوئی نہ کوئی رہبرورہنمابحکم الہی اس خاکدان گیتی پر جلوہ افروز ہوتا رہاہے اور شمع رشدوہداہت بن کر انسانیت کے تاریک ماحول کو منور ومجلی کرتا رہا خواہ انبیاء ومرسلین کا مقدس طبقہ ہو یا خلفاء راشدین اور صحابہ وتابعین کا نورانی قافلہ ،محدثین ومفسرین اور فقہاء ومجتہدین کی مبارک جماعت ہو یا مشائخ عالمین اور اوراولیاء کاملین کا قابل احترام گروہ علماء فضلاء ہوں یا صوفیاء ذوی الاحترام کا روحانی سلسلہ جس دورمیں جیسی گمراہی اور جس طرح کی بے راہ روی رہی پروردگار عالم جل شانہ نے اس کے سدباب کیلئے حالات اور ماحول کےتقاضوں کے مطابق اس دنیا میں ویسی ہی شخصیتوں کو بھیجا تاکہ وہ اپنی خداداد صلاحیت ،دانائی وحکمت، فہم وفراست ،بصیرت وبصارت اور کشف وکرامت سے حالات کا رخ موڑدیں اور ماحول کو جرائم سے پاک کرکے امن وامان کا خوشگوار گہوارہ بنادیں -
یہ امر اہل بصیرت اور ارباب فکرودانش کی نظروں سے اوجھل نہیں کہ جب ہندوستان میں کفار ومشرکین اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ہرچہار جانب سے مسلمانوں پر حاوی ہوچکے تھے ،محمد بن قاسم کی حکومت زوال پذیر ہوچکی تھی اور جادووسحر وغیرہ ان جیسی باطل قوتوں سے مسلمانوں کے نام ونشان نیست ونابود کئے جارہے تھے توایسے نازک اور بھیانک دور میں قدوة السالکین،زبدة العارفین، امام الواصلین، حضور سیدنا سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رحمة اللہ تعالی علیہ قاطع کفروضلالت ،مزیل تاریک وظلمت ،شمع رشدو ہداہت ابررحمت وشفقت، رہبرآدمیت و انسانیت ،مخزن علم وحکمت اور صاحب کشف وکرامت بن کر ہندوستان تشریف لائے- جوں ہی آپکی آمد سعید ہندوستان ہوئی تو آپکے قدوم میمنت لزوم کی قدم رنجائی کی برکت سے سرزمین ہند معطر ہوگئی ، اسلام کو نئی زندگی مل گئی ، اسلام کا خزاں رسیدہ باغ سر سبزشاداب ہوگیا، چمن اسلام لہلہا اٹھا ، باطل طاقتیں سرنگوں ہوگئیں آپ نے اپنے کرداروعمل سے باطل پرستوں کو ایسا دندان شکن اور مسکت جواب دیا کہ آج تلک باطل قوتیں اسکا جواب دینے دے قاصر ہے اور دشمن اسلام پر تیر ونشتر برساکر انہیں ایسا چور چورکردیا کہ الی ھذایومنا انکے ماتھےپر نشانی نظر آرہی ہے اور ان شاء اللہ العزیز تا صبح قیامت کفروضلالت کی پیشانی پر یہ مداری زخم برقرار رہے گا -
: *حضور سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار علیہ الرحمہ کی ہندوستان آمد کب اور کیسے ہوئی*
تو اس بارے
قیصر مداریت حضرت علامہ قیصررضاعلوی المداری رقم طراز ہیں کہ
"قطب الاقطاب سید ناسید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار قدس سرہ کے تذکرہ نگاروں کا اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ آپ 282 ہجری میں بحکم رسول مقبول علیہ السلام ہندوستان تشریف لائے"-
مزید آپ لکھتے ہیں کہ" آپکے سفر ہند کا تذکرہ صاحب تذکرة المتقین نے اس طور پر فرمایا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے " حضرت قطب المدار را حکم فرمودند کہ بہ ہندوستان رفتہ درامرحق سعی بکار بری چناچہ از آنحضرت ﷺ اجازت حاصل کردہ عازم ہند گشتندہ ہدایت ارشاد خلق الله رافرمودہ ومخلوق را راہنمائی نمودہ برجہاز سوار شدند روزے حضرت فضائل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد می فرمودند کہ راکبان جہاز ازراہ عنادو اعتساف سخنہائے مخالفانہ سر کردندحضرت ازاو شاں ناخوش شدند وبہ مشیت ایزدی آں جہاز در تباہی آمد وآں ہمہ در بحر فنا ءغرق شدند مگرحضرت حضرت مع یازدہ کس ازاں گروہ پر خاش جو برتختئہ وبسی برنیامد کہ آں باقی ماندگان ہم راہ فناء گرفتند حضرت قطب المدار ناخدائے حقیقی بافضال خویش بر ساحل نجات رسانید عمارتے عالیشان از دور پدیدآمد وقتیکہ حضرت متصل وےرسیدند مردے بزرگ صورت فرشتہ سیرت رابر درش ایستادہ یافتند آں پیرمرد سبقت سلام کردہ در اں مکان رفیع الشان آنجناب را بہمراہی خود بردہ حضرت بآں مقام بزرگی راازنہایت جاہ وحشم ضروریراہزنی آیت جا و حشم بر تخت مرصع ومکلل زیب وسادہ یافتندومودب قریبش رفتند آں بزرگ از کمال شفقت و عاطفت نزدخود نشانید وطعامے پیش کرد آں طعام ملکوتی بودنہ لقمہ از دست خود نوش کنانید حنید لقمہ کہ از حلق فرو می رفت احوال یک طبق ازطبقات ارضی وسماوی بروی مکشوف می گشت الغرض از عرش تا ثری بر حضرت مبرہن گردید پس ازاں لباس بہشتی پوشانیدو فرمودند انشاء اللہ تعالی ترا گاہے خواہش اکل وشرب نخواہد شد وخرقہ کہ دادا ام کہنہ نخواہد گردید آں بزرگ سرحلقہ ملائکہ عنصری بودنامش شتخیشا است و بروایت چناں ہم آمدہ کی افتخار خرقہ وطعام از دست حق پرست حضرت رسول اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مرحمت شد ہمی قول اصح یافتہ شود مندوبہ باتفاق جمہور (تذکرة المتقین فارسی صفحہ 44- 45)
: حضرت قطب المدار کو ہندوستان جاکر تبلیغ دین کا حکم فرمایا چنانچہ حضرت مدار پاک آنحضرت علیہ السلام سے اجازت حاصل کرکے عازم ہندوستان ہوئے تاکہ خلق اللہ کے درمیان ہدایت و ارشاد کا کام جاری کریں- آپ جہاز پر سوار ہوئے ایک دن اثنائے سفر آپ نے حضرت علیہ السلام کے فضائل و مناقب بیان فرمائےجس کی وجہ سے جہاز پر سوار لوگ ازراہ عناد و تعصب صدائے مخالفت بلند کرنے لگے اس بات سے آپ خاطر ملول ہو گئے چنانچہ بہ مشیت الہی وہ جہاز تباہی میں پھنس کر فنا کے گھاٹ اتر گیا لیکن حضرت مدار پاک 11 آدمیوں کے ساتھ ایک تختہ کے سہارے پانی کے بہاؤ کے مطابق چلتے رہے یہاں تک کہ وہ 11 لوگ بھی فوت ہو گئے لیکن ناخدائے حقیقی یعنی اللہ عزوجل کے خاص فضل و کرم سے آپ ساحل نجات کو پہنچے آپ نےدور ہی سے خایک عالیشان عمارت دیکھی جب اس کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک بزرگ صورت فرشتہ سیرت شخص اس محل کے دروازے پر کھڑا ہے اس بزرگ شخص نے آگے بڑھ کر آپ کو سلام پیش کیا اورآپکو اپنےہمراہ اس محل میں لے گیا اس محل میں ایک بزرگ صاحب جاہ و حشم ایک تخت مرصع پر پوری سادگی کے ساتھ تشریف فرماتھے- آپ مودبانہ طور پر ان کے قریب پہنچے ان بزرگوار نے کمال شفقت و عاطفت کے ساتھ آپ کو اپنے قریب بیٹھا لیا اور تا میں ملک کو درپیش فرماتے ہوئے نو لقمہ خود اپنے ہاتھ سے خود قطب المدارکو کھلایا چنانچہ لقمہ ملکوتی کا حلق کے نیچے اترنا تھا کہ طبقات ارضی و سماوی سے ایک ایک طبق آپ پر روشن ہو گیا یہاں تک کہ عرش سے لے کرتحت الثری تک کے تمام طبقات آپ پرروشن ہو گئے پھران بزرگ نے آپ کو لباس بہشتی پہنایا اور فرمایا کہ ان شاء اللہ تعالی اب تمہیں کھانے پینے کی حاجت نہ ہو گی اور جو خرقہ تمہیں دیاہے یہ کبھی میلا پرانا نہ ہوگا وہ بزرگ سرحلقہ ملائکہ عنصری تھے ان کانام شتخیشا ہے جبکہ ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ جنہوں نے اپنے دست حق پرست سے آپ کو خرقہ اور طعام عطا فرمایا تھا وہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تھے - اور یہی والا قول اصح ہے اسی پر جمہور کا اتفاق ہے : تذکرۃ المتقین کی مذکورہ تحریر سے یہ بات روشن ہو گئی کہ حضور سیدنا سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار علیہ الرحمہ کی ذات اقدس وہ اعزازی ذات ہے جو تبلیغ و ارشاد کے لیے ہندوستان اپنی مرضی سے نہیں بلکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء مبارکہ سے تشریف لائے اور آقائےدوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جب اپنے اس منتخب مبلغ اور داعی کو ہندوستان کے سفر کیلئے روانہ فرمایا تو دوران سفر ہی ایسے ایسے عطیات وتبرکات سے نوازا جو بہت کم اولیاء کرام رضی اللہ عنھم کو عنایت ہوئے کہ کبھی حضور ﷺ اپنے دست اقدس سے آپکو جنتی کھانا کھلارہے ہیں تو کبھی بہشتی لباس سے آپکو مزین فرمارہے ہیں -
*ع* ایں سعادت بزور بازونیست
یہی وجہ ہے کہ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے پھر اس کے بعد کبھی اس دنیا فانی کی کوئی چیز تناول فرمایا اور نہ کوئی چیز نوش فرمائی اور حیات ظاہری ایک ہی لباس پر اکتفاء فرمایا-
یاد رہے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہندوستان آنے کے بعد کسی ایک جگہ جامد و ساکت ہو کر تبلیغ واشاعت دین کے عظیم فریضہ کو انجام نہیں دیا بلکہ قرآن مقدس کا فرمان سیروا فی الارض کے مطابق زندگی کا ایک خاص حصہ دینی مذہبی سیروسیاحت میں گزارا ،درویش اور صوفیوں کی طرح آپ نے بھی مسافرت کی صعوبتیں اورتکالیف برداشت کی، فروغ دین و مذہب کے لیے ہندوستان وغیرہ کئی ممالک کا سفر فرمایا ہم یہاں طوالت مضمون کے خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے فقط چند ہندی شہروں میں آپ کی آمد مسعود سے جو دینی خدمات وقوع پذیر ہوئے ہیں انھیں اختصارکے ساتھ پیش کرتے ہیں-
*کاٹھیا واڑمیں آمد*
آپ ہندوستان سمندر کے راستے سے سب سے پہلے کاٹھیاواڑ پہنچ کر اپنے اس زمانے کے ایک مشہور کمانچہ میں کچھ دن قیام کیا وہاں رہ کر آپ نے ایک شغل بھی کیا جس کو شغل حیات ابدی بھی کہتے ہیں -
*جونپور میں آمد* -
حضرت سید بدیع الدین رحمۃ اللہ تعالی علیہ جب جونپور میں رونق افروز ہوئے تو خاص و عام لوگوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا سلطان ابراہیم شرقی اشرف خان اور رسید صدر جہاں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی آپ کے لئے مریدوں نے ایک حجرہ بنایا جس میں آپ عبادت کرتے تھے جون پور میں آپ جب تک رہے جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ ونصیحت فرماتے تھے آس پاس کے لوگ بھی اس مجلس میں کثیر تعداد میں شریک ہواکرتے تھے -
*کنتور میں آمد*
جب آپکی جلوہ گری کنتور میں ہوئی تو وہاں کے لوگ آپکی بارگاہ میں حاضر ہوکر کچھ عرصے تک خوب خوب فیضیاب ہوئے اور کافی افراد آپکے حلقہ ارادت میں بھی داخل ہوئے اسی درمیان جب قاضی محمود نے آپکو ایک مسجد میں مشغول عبادت دیکھا تو اس پر عجب سی کیفیت طاری ہوگئی اور پھر کیا تھا کہ آپکے قدموں گرکر داخل سلسلہ ہوئے اور خلافت مداریہ سے سرفراز ہوئے-
*گھاٹم پور میں آمد*
کنتور سے آپ گھاٹم پور پہونچے اور وہیں عرفان کی خوب دولت لٹائی اور وہاں کے راجہ کو آپکی دعا سے اولاد نصیب ہوئی -
*سورت میں آمد*
گھاٹم پور سے آپ سورت میں جلوہ فگن ہوکر کچھ روز قیام فرمایا اور یہاں کے باشندے آپ سے کافی مستفیض ہوئے بعدہ آپ وہاں سے قنوج چلے گئے -
*قنوج میں آمد*
سیدنا سیدبدیع الدین زندہ شاہ مدار رحمة اللہ علیہ مختلف مقامات کو فیضیاب کرتے ہوئے قنوج تشریف فرما ہوئے جہاں لوگ جماعت درجماعت اور جوق درجوق آپکے حلقہ ارادت میں شامل ہوتے گئے اور بہت سے قلوب واذہان کے دریچے خانے کو ایمان کی ضیاوں سے روشن وتابناک کردیا - قنوج کے قریب ایک موضع رادھا نگر میں حضرت مخدوم شیخ اخی جمشید قدوائی رحمة اللہ علیہ
: کو جب آپکی آمد کی بشارت ملی تو وہ نہایت ہی عقیدت ومحبت کے ساتھ آپکی خدمت پرفیض میں حاضر ہوئے اور قدم بوسی فرمائی بعدہ دونوں بزرگوں کے درمیان کافی دیر تک رازونیاز اور اسرارورموز کی باتیں ہوتی رہی پھر قدوائی صاحب رحمة اللہ تعالی علیہ واپس رادھا نگر کو تشریف لے گئے
*مکن پور شریف آمد*
پھر آپ قنوج سے اپنی آخری آرام گاہ مکن پورشریف تشریف لے آئے اور وہیں زندگی کے آخری لمحہ تک یاد الہی ، اطاعت وبندگی اور رشدوہداہت میں مصروف رہ کر سلسلہ مداریہ کی تبلیغ واشاعت فرمانے لگے جسکے سبب مکن پور شریف سلسلہ مداریہ سے وابستگان کیلئے عقیدت کا مرکز بن گیا حضرت کے مکن پور شریف پہونچتے ہی وہ تالاب بھی خشک ہوگیا جس کے بارے میں حضورصلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے آپکو بشارت دی تھی اور اس تالاب کی لہروں سے یا عزیز کی آواز بھی آنا بند ہوگئی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق سب واقعات ہوئے - حضرت کے مریدین وخلفاء نے آپ کے رہنے کیلئے ایک عمارت بنائی جس میں آپ نے اپنی زندگی کے آخری انتالیس سال گزارے مکن پور میں آپ نے لوگوں کو بیعت سے نوازا - ایک دن شاہ محمد یاسین خان نامی ایک مرید سے آپ نے وضو کا پانی منگوایا انکو پانی نہ ملا تلاش بسیار کے باوجود جب اسے پانی حاصل نہ ہوسکا تو دعا مانگی جس سے پانی کا چشمہ جاری ہوا خوشی میں جب چشمہ کا پانی لیکر حضرت کے پاس لایا تو حضرت نے اس چشمہ کے بارے میں پیش گوئی فرمائی کہ ان شاء اللہ اس چشمہ کا فیض زمین وآسمان کے قیام تک جاری رہے گا ( ذوالفقار بدیع الدین )
از قلم
*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی*
مفتی وقاضی عالم ربانی سید احمد اشرف دارالافتاء والقضاء ناسک
واشرفی نقشبندی دارالافتاء ولساڑ
نگراں جامعہ اشرفیہ سرکارکلاں ناسک
وشیخ الحدیث و صدرالمدرسین جامعہ فاطمة الزہراء للبنات سلواس ولساڑ