ایمان.ابوطالب پرایک معلوماتی
ایمانِ ابوطالب
سلام اللہ علیہ
پیارے آقا سیدنا محمد مصطفیٰ علیہ السلام کے مشفق ومھربان چچا محسنِ اسلام شیخ المسلمین آقا ومولیٰ سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ خالص مومن وموحد ومسلمان تھے
از قلم
محمد قیصر رضا علوی حنفی مداری خادم درس وافتاء جامعہ عزیزیہ اھلسنت ضیاءالاسلام دائرة الاشراف جھراؤں ضلع سدھارتھنگر یوپی
🔦🔦🔦🔦🔦
دیکھ رہا ھوں کہ مسئلۂ ایمان ابوطالب کو لیکر گروپ کافی گرم چل رہاھے اور اھل علم کے درمیان دھواں دھار بحث جاری ھے قائلین ایمان دلیل ایمان لیکر اور منکرینِ ایمان دلیلِ کفر لیکر اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ھوئے ھیں
کوئی کسی بھی صورت میں اعتدال ووسطیت کو ھاتھ لگانے کیلئے تیار نھیں ھے
منکر چاھتاھے کہ ساری دنیا منکرایمان بن جائے
قائل چاھتاھے ساری دنیا قائل ایمان ھوجائے
یہ فقیر حقیر اس بابت عرض کرتا ھے کہ
""کفر ابو طالب پر جتنی ساری روایتیں ھیں وہ سب درایتہً ناقابلِ قبول اور بالکل من گڑھنت وجعلی ھیں ""
ھماری مذکورہ تحریر پر احباب اھلسنت میں سے کچھ حضرات اختلاف ظاھر فرماسکتے ھیں
لھذا میں ان تمام حضرات سے عرض گزار ھوں کہ آپ تمامی صاحبانِ علم وتحقیق کو اختلاف کا بھر پور حق حاصل ھے لیکن
واضح ہونا چاہئے کہ نام جنکا عمران اور کنیت ابو طالب ھے
جو دادا ھیں حضرت امام عالی مقام سیدنا آقا حسین پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
اور والد گرامی ھیں مولیٰ المسلمین سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے
اور
ھمدردوغمگسار
ووفا شعار
وجانثار
و عاشق زار
عمِّ باوقار
ہیں سید الانبیاء خاتم رسولاں سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
ان برزگوار کے ایمان واسلام کا مسئلہ کچھ اسطرح سے اختلاف کا شکار ھے
کہ فرقہُ ضالہ حشویہ کلّی طور پر انھیں کافر قرار دیتا ھے
اور اسی طرح سے دوسرا گمراہ فرقہ رافضیہ کلّی طور پر انھیں مسلمان وصاحبِ ایمان کہتاھے
لیکن اکابرین اھلسنت میں کچھ حضرات انکے کفر کا قول کرتے ھیں
اور کچھ حضرات انکے ایمان وکفر کے بارے میں سکوت کے قائل ھیں
لیکن اکثر اکابرین انکے ایمان واسلام کے قصیدہ خواں ھیں
خاص طور سے بزرگان دین اولیاء کاملین ایمان ابوطالب کا ہی دم بھرتے ھیں
اب جبکہ صورت حال کچھ اسطرح کی ھے تو کوئی صاحب انکے مسلمان اور صاحب ایمان ہونے کے قول کو پڑھکر
سنکر
یا انکے نام کے ساتھ "حضرت " یا " حضور" یا "رضی اللہ تعالیٰ عنہ" دیکھکر چو پایؤں کی طرح کیونکر چونک رہے ھیں؟
چلئے یہ بات اپنی جگہ مسلم کہ بخاری ومسلم وترمذی اور دوسری کتب احادیث کے اندر انکے خاتمہ بالکفر کی وہی دوتین روایتیں گھوم گھوم کر لکھی گئی ہیں
مگر انھیں کی طرح والدین رسول گرامی وقار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بھی تو خاتمہ بالکفر کی روایت انھیں محدثین کرام نے اپنی انھیں کتابوں میں تحریر کی ھے
پھر کیا بات ھے کہ ایک روایت تسلیم ھے اور ایک سے انکار ھے؟؟
حضرت ابو طالب کا کفر ثابت کرنے کے لئے بخاری ومسلم کو سرپر لیکر گھومنے والے کیا اب والدین پاک مصطفیٰ کو بھی کافر ومشرک تسلیم کرینگے؟؟
تمام اھلسنت سے مخاطب ہوں کہ آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو عقلِ سلیم بخشی ھے علم دین کے نور سے پرنور کیا ھے تو آپ اسکا بھی کھبی کبھی استعمال فرمایاکریں اور ھرکسی روایت کو درایتہً بھی پرکھنے کی کو شش فرمائیں
دلائل کی کمزوری ومضبوطی پر بھی نظر رہنی چاہئے محض یہ نظریہ رکھنا کہ حضرت فاضلِ بریلوی نے حضرت سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تکفیر پر رسالہ لکھدیا تو اب پوری امت پر انکی تکفیر واجب ہوگئی قطعی نادرست نظریہ ھے
حضرات!!
بخاری کی روایت ھے کہ جب حضرت سیدنا ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوگیا تو حضرت مولیٰ علی بارگاہِ نبوت میں تشریف لاےُ اور پیارے آقا علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوےُ فرمایا کہ ""یارسول اللہ آپکا گمراہ چچا مرگیا ""
اھل ایمان وانصاف بتائیں کہ جو لب ولہجہ ایک محسن اسلام اور حضور پاک کے محبوب چچا کے لئے خود انکے دلبند حضرت علی کی جانب منسوب کیا گیا ھے کیا ان سے یہ ممکن ھے؟؟
کیا رسول عربی کی پرورش وتر بیت نے حضرت علی پر اتنا بھی اثر نہیں کیا تھا کہ جس باپ کا جسدِ خاکی ابھی سپرد خاک بھی نہیں ہواھے اس باپ کے موت کی خبر اس درجہ غیر مھذب انداز میں دیں؟؟
کیا مذکورہ بالا لب ولھجہ باب علم نبی کا ہوسکتاھے؟؟
ھرگز نھیں
مسلم اور بخاری کی روایتوں کے من گڑھنت ہونے کیلئے فقط اسقدر جان لینا کافی ھے کہ ان روایتوں میں جس آیت کو کفر حضرت ابو طالب سلام اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل کے طور پر نازل ہونا لکھا ہے وہ آیت مکہ میں نازل ہی نہیں ہوئی بلکہ دس بارہ برس کے بعد اسکا نزول مدینہُ طیبہ میں ہوا اور یہ متحقق کہ وصال حضرت ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ھجرت سے تین سال قبل مکہ معظمہ میں ہوا ھے خود بخاری کے اندر بھی اسکا ثبوت موجود ھے
اسی طرح اس عنوان کی ایک روایت حضرت سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے منسوب کرکے بیان کی گئی ھے جبکہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح خیبر کے بعد سات ھجری میں مسلمان ہوےُ یعنی سرکار ابو طالب کے وصال پرملال کے دس سال بعد
یہ بزرگوار اسوقت نہ تو مسلمان ہوےُ تھے اور نہ مکہ میں موجود تھے اور نہ تو روایت میں ایسا کوئی جملہ ھیکہ مجھ سے یہ بات فلاں نے بیان کی
اور پھر کفر ابوطالب کا جنون جنکے آنکھوں کی نیدیں اڑا چکا ھے انھیں کیا تفاسیر میں یہ باتیں نہیں ملیں کہ آیات مبارکہ ""انَّکَ لا تَھدی من اَ حببت""الخ ' اور ما کان للنبیُ ""الخ 'حضرت ابو طالب کے حق میں نہیں ھیں؟؟
اگر نہیں ملیں تو مطالعے کو اور وسعت دیں اور اگر ملیں ھیں تو کیا سبب ھے کہ کفری روا یتوں پر ھی جان قربان کی جارہی ھے َ
وارفتگانِ کفر وشرک نے
کیا یہ نہیں پڑھا کہ ایک شخص جوکہ قبیلہ تنوخ سے تھا اور قیصرِ روم کا قاصد بھی وہ کسی غرض سے پیارے آقا علیہ السلام کے دربار میں جب حاضر ہوا تو آنحضرت علیہ السلام نے اس پر اسلام پیش فرمایا جس پر اس نے جواب دیا کہ میں اپنی قوم کے مشورے کے بغیر کچھ نہیں کہہ سکتا آقا علیہ السلام
نے اسکی طرف دیکھر فرمایا "انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء "
(درمنثور، وابن کثیر )
بھائیو!! کیا صاحب قرآن کی اس تفسیر سے بھتر کسی کی تفسیر ھوسکتی ھے؟؟
نھیں ھرگز نھیں
اور اسی طرِح کیا یہ روایت نہیں پڑھی کہ ایک شخص اپنے مشرک والدین کے لئے دعاء مغفرت کررہا تھا جب یہ بات حضور پاک علیہ السلام کے پاس پہونچی تو آیتِ مبارکہ "ماکان للنبیُ "الخ نازل ہوئی ( ترمذی) پوری حدیث بلفظہ ملاحظہ کریں عن علی قالَ سمعت رجلا یستغفر لاَبویہ وھما مشرکان فقلت لہ اتستغفر لابویکَ وھما مشرکان فقال اولیسَ استغفر ابراھیم لابیہ وھو مشرک فذکرت ذٰلک للنبئ صلی اللہ علیہ وسلم فنزلت ماکان للنبئ والذین اٰمنواان یستغفرواللمشرکین ترمذی ج ۲ صفحہ ۱۴۱
دوستو! بتاؤ اس آیتِ مبارکہ کی جو تفسیر بابِ علمِ نبی حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بیان فرمائی اور صاف صاف بتادیا کہ اس آیت کا نزول ایک شخص کی دعاء مغفرت جو اسکے مشرک والدین کیلئے ھورہی تھی اس کے تحت ھوا
اب بتائیے کہ حضرت مولیٰ علی سے بڑا مفسرِ قرآن کون ھے جسکی روایت اس روایت پر ترجیح پاسکے ؟؟
علاوہ ازیں اسی ایتِ کریمہ کے تحت صاحبِ تفسیرِ مراحِ لبید فرماتے ھیں کہ
فظھرہ بھذالاخبار انَّ الآیتہ نزلت فی استغفارالمسلمین لاقاربھم المشرکین الانزلت فی حقِّ ابی طالب لانَّ ھٰذہ السُّورة کُلھا مدنیتہ نَزلت بعدتبوک اوبینھا وبین موت ابی طالب تکون اثنیٰ عشرسنتہ
یعنی پس یہ ظاھر خبریں ھیں اس آیت کے متعلق کہ اسکا نزول ان مسلمانوں کے حق میں ھے جنکے قریبی مشرک تھے اور نھیں نازل ھوئی یہ آیت حضرت ابوطالب کے حق میں تحقیق کہ یہ پوری سورة مدنی ھے اوراسکےنزول اور حضرت ابوطالب کی موت کے درمیان بارہ سال کاوقفہ ھے
تفسیر مراح لبید ج ۱ صفحہ ۳۵۷
کیا بات ھے جو یہ کہتے ہوےُ نہیں تھکتے کہ ایمان کا اگر احتمال واحد بھی پایا گیا تو منع تکفیر کے لئے کا فی ھے وہی حضرات ایمان ابوطالب سلام اللہ علیہ پر حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی یہ قسمیہ روایت قَالَ العباس واللہ لقدقال اخی الکلمتہ اللتی امرتہ بھا یعنی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسولِ پاک علیہ السلام سے بقسم بیان فرمایا کہ میرے بھائی نے وہ کلمہ پڑھ لیاجسکا حکم آپ نے انھیں دیاتھا
روض الانف مع سیرت ابن ھشام ج۱ صفحہ ۲۸۵
اللہ اکبر کبیرا
ھائےرے ستمگرانِ ابوطالب تمہیں انکے برادرِ گرامی کی قسم پر بھی اعتبارنھیں آتا
کیا احتمالِ واحد والا قانون صرف اسماعیل دھلوی کو آزاد کرانے کیلئے ھی استعمال ھوتاھے؟؟
علاوہ ازیں اور دوسرے درجنوں اکابرین کے اقوال کیونکر بھول جاتے ھیں جو اس بزرگوار کے ایمان واسلام پر بین ثبوت ھیں
مثلاً
امام قرطبی
امام سھیلی
امام شعرانی
امام قسطلانی
امام عینی
امام صاوی
امام سیوطی
امام ابن حجر
امام ابونعیم
امام نوی
امام رازی
امام نبھانی
امام اسماعیل حقی
محدث عبدالحق دھلوی
محدث نورالحق دھلوی
علامہ نوربخش توکلی
علامہ معین واعظ کاشفی
علامہ شبلنجی
علیھم الرحمتہ والرضوان وغیرھم نے بھی تمام کفری روایتوں کے باوجود انکے ایمان کا قول فرمایا ھے
خدا جانے کس کی رعایت مد نظر ھے کہ اس مسئلے پر بعض علماء اھلسنت خود اپنے ہی اصول سے مسلسل صرفِ نظر فرما رھے ھیں
اور صبح وشام اس معاملے پر ھل من مزید کا نعرہ لگاتے رہتے ھیں
دوستو!!
واضح کرتا چلوں کہ ایمان ابو طالب کا مسئلہ یا اھلبیت پاک کے کچھ اور معاملات کو قصداً عمداً ارادة ً اختلافی بنایا گیا ھے
اس امت میں خیرون القرون سے لیکر آج تک اھلبیت کے ساتھ بلا کی دشمنی رکھنے والے موجود پاےُ گئے ہیں
بلکہ اس لحاظ سے دور صحابہ اور دورِ تابعین و تبع تابعین کچھ زیادہ ہی لائٹ میں رہاہے
یہ وہی ادوار ہیں کہ جنکے بیچ خاندانِ علی پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے شش ماھے سے لیکر بزرگوں تک کو بے دردی کیساتھ ذبح کیا گیا
پردیس میں نبی زادوں کا خیمہ لوٹا اور پھر جلایا گیا
بےقصور سکینہ کے رخساروں پر طمانچے مارے گئے
خواتین اھلبیت کے سروں کی چادریں چھینی گئیں
بے خطا عابد لا غرو بیمار کے ہاتھوں میں ہتکڑیاں پیروں میں بیڑیا ں ڈالکر بے جرم وخطا قیدی بنا یا گیا
ذلیل کرنے کی غرض سے اسی امت کے لوگوں نے انھیں شھر شھر گھمایا
اولاد رسول کے کٹے ھوےُ سروں کی نمائش کی گئ
اب اگر آپ اتنا سمجھ چکے تو بس جان لیجئے کہ جو قوم نبی زادوں کے ساتھ اتنا سب کچھ کرسکتی ھے ائمہُ اھلبیت کو زھر دیکر انکی جان لے سکتی ھے انکے بچوں کو یتیم اور انکی بیویوں کو بیوہ بنا سکتی ھے
تو بتائیے اس قوم سے یہ کب بعید ھے کہ ان تمام نفوسِ قدسیہ کے جدِّ اعلیٰ محسنِ اسلام جناب ابو طالب کے خلاف ایک ایسی روایت وضع کرلے اور اکابرین کے نام سے منسوب کرکے سپلائی کردے کہ جس سے انکے ایمان واسلام کا انکار کیا سکے
اور علی کے باپ کو بھی اسی صف میں کھڑا کیا جاسکے جس صف میں بڑے بڑے دشمنانِ رسول پہلے سے ہی کھڑے ہیں
چونکہ عہدِ بنو امیّہ میں علی اور خاندان علی کو ممبر ومحراب سے گالی دینا عام بات تھی جابر حکاّم اس پاکیزہ خاندان کے پیچھے پڑے ہوےُ تھے ظلم وبربریت کی حد یہ تھی کہ روایانِ حدیث پر باضابطہ یہ پابندی تھی کہ جس روایت میں علی کا نام ہو تو وہ روایت انکا نام نہ لیتے ہوےُ ڈائرکٹ نبی علیہ السلام کے نام سے بیان کردی جاےُ
ُ مطلب یہ کہ جہاں تک بن پڑے انکا نام کسی اچھی جگہ نہ آنے دیا جاے
دوستو!! کیا یہ غلط ھے کہ حضرت علی کو گالی دینے کے جنون میں خطبہُ عیدین ایک زمانے تک قبل نماز عیدین دیا جاتا رھا؟؟
ُ حضرات!!
جب سلاطینِ زمانہ اس درجہ بغاوت پر آمادہ ہوں تو ان سے یہ کب غیر ممکن ھے کہ اس علی مرتضیٰ کے اس باپ کو جسکا گھردین اسلام کی دعوت کا اول مرکز بنا جو رسولِ گرامی وقار کا سب سے بڑا وفادار صلاح کار رہا جسکی موت کے سال کو رسول پاک علیہ السلام نے غم کا سال قراردیا اسکی تاریخ کیسا تھ بنی امیہ کے اوباش لونڈے کھلواڑ نہ کریں
اس کام کو مستقل تاریخ بنانے ُ کے لئے کچھ بزرگ اصحاب کے ناموں کا استعمال کیا گیا
تا کہ بعد کے لوگوں کا اعتبار قائم ہوسکے چنانچہ کچھ اس انداز فکر کیساتھ اس کام کو انجام دیا گیا جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ھمارے بھت سارے بزرگ بھی اس جھانسے میں آگئے اور متولئ کعبہ حضرت سیدنا ومولانا وملجانا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کا فر ومشرک لکھدیا
اور پھر انھیں کی اقتداء میں بعد کے بھی کچھ بزرگ اس کا شکار ہو گئے
جبکہ حدیثِ پاک کی روشنی میں ھمارے لئے اسقدر سمجھ لینا کافی تھا کہ مدارِ ھدایت ونجات اھلِ بیتِ رسول ھیں انھیں کیساتھ قرآن ھے اورانھیں کے پاس روح دین وایمان بھی ان سے بھتر قرآن فھمی شریعت شناسی بڑےسے بڑے مفسر
محدث
مجتھدوفقیہ
مجددومفتی کسی سے بھی متصور نھیں ھوسکتا
چنانچہ مشھورکتاب معارج النبوة میں ان عالی قدر کے تعلق سے کئی رواں روایات نقل کرنے کے بعد علامہ معین واعظ کاشفی قدس سرہ لکھتے ھیں ""ازاھلبیت ایشاں کہ اتفاق دارند برآنکہ ابوطالب بایمان رفتہ ""یعنی اھلِبیت کا اس بات پر اتفاق ھے کہ ابوطالب اس دنیا سے بایمان تشریف لےگئے
معارج النبوة رکنِ دوم صفحہ ۶۹
اس کتاب کا اردو ترجمہ رضااکیڈمی ممبئ نے بھی چھاپا ھے
حضراتِ باوقار اھلِ بیت جب دیگر معاملاتِ دینی میں بھی حرفِ آخر ھیں تو خود انھیں کے گھر کی بات کے تعلق کسی کی واھی تباھی کا کیااعتبار کیاجائگا
والسلام ولی عہد خانقاہ مداریہ
سیدظفر مجیب مداری کان اللہ.لہ
9838360930