[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: شیخ عبد الحق محدث دھلوی رحمتہ اللہ تمام اختلافات بیان کرنے کے بعد لکھتے ھیں کہ"" صاحبِ جامع الاصول نقل کرتے ھیں کہ انکے اھلبیت نے گمان کیا ھے کہ ابو طالب دنیاسے مسلمان گئے واللہ اعلم بصحتہ
مدارج النبوةج۲ صفحہ ۸۴۲
شیخِ محقق اسی کتاب کے صفحہ ۷۸ پر لکھتے ھیں کہ ""غرضیکہ حضرت ابوطالب کا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت وامداد حمایت ورعایت کرنا اور آپکی مدح وثناکرنا آپکی شان کو بڑھانا اور آپکے مرتبہ کواونچا کرنا انکے اشعارواخبار میں بکثرت موجود ھے اسکے باوجود علماء کھتے ھیں وہ ایمان نھیں لائے اور مسلمان ھوکر اس جہان سے نھیں گئے اسکے جواب میں علماء فرماتے ھیں کہ گوکہ انھوں نے زبان سے اقرار نھیں کیا مگر دل سے تصدیق کی اورانکی جانب سے اذعان وقبول اوراطاعت وجود میں نھیں آیا اوروہی تصدیق واقرار معتبر ھے جواذعان وقبول اورانقباد تسلیم کیساتھ شامل ھو ""نیز اسی کتاب کے صفحہ ۴۰ اور ۷۸ پر انکے ایمان کی بھی روایت نقل کی ھے اور صفحہ ۸۰ پر انکی تکفیر سے متعلق سکوت اور صرفِ نظر کا حکم دیا ھے
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: دیکھ رھا ھوں کہ فدائے کفروشرک بھت دیر سے سیدنا ابوطالب سلام اللہ علیہ کے ایمان کی روایت کامطالبہ کررہا ھے جبکہ مدعینِ ایمان متعدد دلائلِ شرعیہ یکے بعدیگرے پیش کررہے ھیں مگر اسکا جنھم سب کچھ ھضم کرتا جارھا ھے لھذا اگر واقعی روایتِ ایمان بغرضِ طلبِ حق مانگی جارہی ھوگی تو امید قوی ھے کہ اب انھیں کافر کھنے کی جراءت نھیں ھوگی
روایت نمبر۱
قَالَ العباس واللہ لقد قالَ اخی الکلمتہ اللتی امرتہ بھا
یعنی حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کے رسول سے کہا خداکی قسم میرے بھائی نے وہ کلمہ پڑھ لیا ھے آپ انھیں جس کلمہ کے پڑھنے کا حکم دے رھے تھے
روض الانف مع سیرت ابن ھشام ج ۱ صفحہ ۲۸۵
حضرات! سیدناسرکار ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کلمہ پڑھ لینے کی یہ وہ شھادت ھے جو اسی وقت دی گئی جس موقع پر آپ سے تلقینِ کلمہ کا معاملہ درپیش تھا
اس روایت کے ہوتے ھوئے وہ روایتں کیونکر دلیلِ کفر بنائی جاتی ھیں جنکے راویان نہ تو اس مجلس میں موجود تھے اور نہ ھی حضرت عباس سے زیادہ ثقہ وقوی ھیں
روایت نمبر ۲
اِنَّ اللہ تعالیٰ احیاللنبئِ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عمَّہ اباطالب وامنابہ
یعنی اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کیلئے ابوطالب کو زندہ فرمایا اور وہ بزرگوار ان پر ایمان لے آئے
مختصر تذکرۂ قرطبی ج۱ صفحہ ۶
حضرات!
محبینِ ایمان واسلام کیلئے یہ روایت بھی کچھ کم نھیں ھے ھاں عشاقانِ کفروشرک کو ایک دفتر بھی ناکافی ھے
اس روایت کو قدرے کمی بیشی کیساتھ صاحب روح البیان علامہ اسماعیل حقی نے بھی بیان کیا ھے بلفظہ ملاحظہ فرمائیے
روایت نمبر ۳
وقد جاءفی بعض الروایات ان النبئ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لما عادَ مِن حجتہ الوداع احیئَ اللہ لہ ابویہ وعمہ فآمنوا بہ
یعنی اور بیشک بعض روایات میں آیاھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجتہ الوداع سے تشریف لائے تواللہ تعالیٰ نے آپکے لئے آپکے والدین اور چچا ابوطالب کو زندہ زندہ فرمایا اور وہ آپ پر ایمان لائے
روح البیان ج۳صفحہ ۴۱۶
علاوہ ازیں امام ابنِ حجر مکی قدس سرہ نے بھی آپکے ایمان کی یہ روایت نقل فرمائی ھے ملاحظہ کیجئے
روایت نمبر ۴
ومن معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم احیاءالموتیٰ وکلامھم وفی الخبر ان اللہ تعالیٰ أحیٰ لہ ابویہ وعمہ اباطالب فآمنواابہ
یعنی اللہ کے رسول علیہ السلام کے معجزات میں سے مردوں کو زندہ فرمانا اور انکے ساتھ گفتگو فرمانا ھے روایت میں آیاھے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کیلئے آپکے والدین کریمین اور عمِ محترم حضرت ابوطالب کو زندہ فرمایا اور وہ آپ پر ایمان لائے
النعمتہ الکبریٰ صفحہ ۹۱
حضرات! اسکے علاوہ امام عبدالوھاب شعرانی نے بھی آپکے ایمان کی روایت اس انداز میں بیان کی ھے ملاحظہ ھو
روایت نمبر ۵
ذکرَسلمہ بن سعید الجعفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ انَّ اللہ تعالیٰ احیاء للنبئِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمَّہ اباطالب وآمنَ بہ
یعنی روایت کیا حضرت سعید بن جعفی نے کہ بیشک زندہ کیا اللہ تعالیٰ نے حضورِ پاک کے لئے انکے عمِ محترم حضرت ابوطالب کو اور وہ ان پر ایمان لائے
حضرات اسطور کی بھت ساری روایتیں موجود ھیں مگر رشتہ دارانِ امام الوھابیہ صرف فدائے ابو الوھابیہ ھیں اسکے لئے احتمالات پہلو درپہلو شک درشک نکالتے نھیں تھکتے مگر افسوس ان سنگ دلوں سیاہ باطنوں پر جو تکفیرِ ابوطالب کو ضروریات دین واجباتِ اسلام تصور کرتے ھیں قائلِ ایمان پر پوراجرگہ اس انداز میں حملہ آور ھوتاھے جیسے کربلامیں جانثارانِ حسینیت پر لشکرِ یزید ٹوٹ پڑتا تھا
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: اور جہاں تک بات احمدرضارحمتہ اللہ علیہ کے رسالے کی ھے تو آپ ذرا آپ ھماری معلومات میں اضافے کی زحمت قبول فرمائیں اور بتائیں کہ پوری تاریخِ مجددیت میں کن کن مجددین نے اس عالی مرتبت کے کفر پر انھیں کی طرح باضابطہ تصنیفی خدمت انجام دی؟
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ جن سے یہ حکایت ذکر کی جاتی ہے موت ابی طالب کے بعد حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں۔ یارسول اﷲ ! حضور نے اپنے چچا ابوطالب کو بھی کچھ نفع دیا وہ حضور کا غمخوار طرفدار تھا ارشاد ہواہم نے اُسے سراپا جہنم میں غرق پایا اتنی تخفیف فرمادی کہ ٹخنوں تک آگ ہے میں نہ ہوتا تواسفل السافلین اس کا ٹھکانا تھا۔۔۴ ( ۴ ؎ صحیح البخاری مناقب الانصار باب قصّہ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۴۸)تو آپ اناحادیث کی تطبیق کیسے کروگے ،،
امتیاز صاحب حدیث کی صحت وغیر صحت کو پرکھنے کی کسوٹی قرآن پاک ھے جوحدیث مطابقِ قرآن ھو وہ صحیح اور جو مخالفِ قرآن ھو وہ سراسر جعلی من گڑھنت چنانچہ روایتِ مذکورہ میں بقول منکرینِ ایمانِ ابوطالب ایک مشرک کے عذاب میں تخفیف پائی گئی اسکاعذاب مخفف ھوگیا جبکہ مشرکین کے عذاب میں تخفیف نھیں ھوگی یہ فیصلہ قرآن عظیم کا ھے
جیساکہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ھے
اِنَّ الذینَ کفرواوماتُوا وھُم کُفَّار اُولٰئِکَ علیھم لَعنَتہُ اللہ وَالمَلٰئِکتہِ وَالنَّاسِ اَجمَعِین خالدینَ فیھا لایُخَفَّفُ عنھمُ العذاب ولاھم ینظرون
یعنی اورجولوگ کافر ھوئے اور کفر ھی میں مرگئے ان پرلعنت ھے اللہ تعالیٰ کی اوراسکے فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی ھمیشہ رہینگے نھیں تخفیف ھوگی انکے عذاب میں اور نہ انکو فرصت ملے گی
اسی طرح ایک دوسری آیتِ کریمہ میں بھی ذکر ھواکہ
فلایُخَفَّفُ عَنھُمُ العذابُ ولاھم یُنصرون
یعنی نہ تو انکے عذاب میں کمی ھوسکے گی اور نہ ہی انکے لئے مددگار ھوگا
جناب روایتِ مذکورہ قرآن کے خلاف ھے اور قرآن کے خلاف جو ھو وہ حدیثِ رسول ھوھی نھیں سکتا
یہ سب ازقبیلِ جعلیات ھے جس پر تفصیل کیساتھ میں نے اپنی سابقہ تحریر میں روشنی ڈالی ھے آپکی روایت کھتی ھے کہ حضور نے ایک مشرک ابوطالب کی مدد فرمائی جبکہ قرآن کھتا ھے کہ انکا کوئی مددگار نھیں ھوگا
آپکی روایت کھتی ھے ایک مشرک کے عذاب میں تخفیف ھوئی اور قرآن کھتاھے کہ انکے عذاب میں تخفیف نھیں ھوگی
لھذا قولِ رسول ھر جگہ موافقِ قرآن ھی ملے گا
مگر یہ جو آپ نے قولِ رسول سمجھکر پیش کیا وہ قول مخالفِ قرآن ھے
لھذامخالفِ قرآن قولِ رسول ھوہی نھیں سکتا
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: احمدرضارحمتہ اللہ علیہ نے جس شدومد کیساتھ حضرت ابو طالب کی تکفیر پر تمااونےپونے دلائل اکٹھاکرکے آپ لوگوں کو صحیفۂ آسمانی دیا ھے اسکی نظیر علماء اھلسنت مشائخ اھلسنت سے پیش کرو
خود انکے اور انکے باپ کے استاذِ حدیث نے انکے ایمان کے اثبات میں باضابطہ کتاب تحریر کی اسنیٰ المطالب
نیز انکی مقبولِ بارگاہِ رسالت کتاب سبع سنابل نے بھی انکے ایمان ومغفرت کی روایت لکھی باوجود اسکے ان صاحب نے انکی تکفیر پر باضابطہ تصنیف کو عبادت سمجھا کیا راز ھے؟
نیز یہ بھی بتاؤ کہ جب مقبولِ بارگاہ رسالت کتاب نے انکا ایمان اور انکی مغفرت کو حل کردیا تو لازم آیا کہ یہ بھی مقبولِ بارگاہِ رسول ھے پھر اس مقبولِ بارگاہِ رسول کیخلاف کتاب لکھنے کی ھمت آنحضرت نے کہاں سے جٹائی؟
اور ھاں اگر جٹابھی لی تو کیا ایک مقبولِ بارگاہِ رسول مومن ومغفور کو آنجناب کافر لکھکر خود مومن رہ گئے؟
جواب جو بھی دیجئے گا محققانہ اور سنجیدہ ورنہ ابھی بھت سی تہیں کھلنا باقی ھیں
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: اور پورے ذخیرۂ حدیث سے حضرت ابوطالب کا کوئی کلمۂ کفریہ وشرکیہ بھی ثابت کرو کیونکہ کافر ومشرک کھنے کیلئے صدورِ کفر وشرک لازم ھے جبتک اسکا وقوع نہ ھو تب تک کسی کو کافر یا مشرک نھیں کہا جاسکتا
نیزیہ بھی بتاؤ کہ احمدرضارحمتہ اللہ علیہ کے استاذِ حدیث علامہ دحلان مکی قدس سرہ حضرت ابوطالب کو مسلمان وصاحبِ ایمان لکھکر مسلمان رہ گئے یا نھیں؟ کیونکہ شرح المطالب میں لکھا ھے کہ انکے کفر کا انکار کرنے کیلئے کسی سنی میں مجال نھیں
لھذااس اعتبار سے بیان کرو کہ صاحبِ سبع سنابل حضرت میر عبدالواحد بلگرامی اور علامہ قاضی دحلان مکی سنی ھیں یانھیں؟
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: امتیاز صاحب! آپکا جرگہ سنیت کیلئے ناسور بنکر پیدا ہواھے اپنے مولویوں کی کتاب کو اگر بس چلے تو قرآن میں بھی شامل کرنے سے شائد گریز نہ کرو قرآن کے خلاف حدیث کیخلاف اولیاء اللہ کے خلاف کہتے رہو بکتے رہو کوئی پریشانی نھیں مگر اگر کہیں آسمان سے نازل شدہ مولویوں کی کسی ترچھی ٹیڑھی کے خلاف کسی نے کوئی قول کیا تو پھر اسکی ایسی تیسی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نھیں ھونے دیتے بتاؤ یہ کہاں کا اسلام ھے؟ یہ کونسی سنیت ھے
وہ آپ ھی کی جماعت ھے جو کہیں بجرنگ دل اور کہیں بھاجپا جیسے الفاظ سے اھلسنت کی مجلسوں یاد کی جاتی ھے
آخر اسکی کیا وجہ ھے؟
یہی ٹھکرائی ٹھیکیداری
داداگیری
آپکی جماعت ھر آئے دن دین وسنیت کا ستیہ ناس کرتی جارہی ھے تشدد وجبر کے ماحول کی پراگندگی پورے ملک میں دیکھی جارہی ھے خانقاھیں اب آپکی اس جماعت کو ایک آنکھ سے بھی دیکھنا پسند نھیں کرتیں آخر کیا بات ھے یہی کہ آپ حضرات اپنے مولویوں کو بمنزلِ پیغمبر سمجھتے ھو اور انکے خلاف بڑے سے بڑے فقیہ ومجتھد ولی اللہ کو ذرہ برابر بھی اھمیت نھیں دیتے ھو
آخر میں ھمارا مشورہ ھے کہ روشِ زندگی بدل دو
دینی واسلامی مزاج پیدا کرو کچھ سنیت کی فکر کرو ورنہ یاد رکھو یہ سب کچھ یہیں رہ جائگا قبر میں تنھاء جاؤگے
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: صاحب تحقیق ہیں یہ حضرات اور ایسے حضرات اپنی تحقیق میں اختلاف واتفاق کر سکتے اور ان پر حکم کفر عائد نہیں ہوگا ورنہ بات انہیں حضرات تک محدود نہ ہوگی بلکہ بہت آگے جائے گی اور آپ اس زد سے مو قع نہ پائیں گے
بھت خوب لشکرِ تکفیریہ کے ننھے سپاھی !!
اسی کوکہتے ھیں اونٹ کا پہاڑ کے نیچے آنا اب آپ ہی کی بات سے یہ مسئلہ بیچ سمندر سے نکل ساحل سے آلگا کہ جنھوں نے سیدنا ابوطالب سلام اللہ علیہ کے ایمان واسلام کا خطبہ پڑھا وہ رافضی شیعہ گمراہ نھیں بلکہ صاحبانِ علم وتحقیق ھیں اب جبکہ آپ ھی کی بات سے اس مسئلے کا یہ شاندار حل نکل گیا تو پھر ان صاحبانِ تحقیق کی پیروی میں جو خوش عقیدہ سنی مسلمان اس برگزیدۂ الھی کے ایمان واسلام کا دم بھر تے ھیں ان پر جرگۂ تکفیریہ کے بھیڑئے کیوں غرَّاتے ھیں؟
اس مقبولِ رسول مومن ومغفور کے اقرار ایمان کو جرم گردانتے ھوئے ایک گروپ میں آپ نے کہا تھا کہ یہ لوگ ابوطالب کو مسلمان مانتے ھیں بتائیے جناب عالی! یہ تو اب آپ اپنے سب سے بڑے حضرت کو بچانے کیلئے اس زھرِ جاں کش کو نوش کرنے کافیصلہ کئے ھو کیونکہ اگر سبع سنابل کے مقبولیت کی کہانی گڑھی ھوئی نہیں ھے تو پھر بڑے حضرت کا اللہ ھی خیر کرے کیونکہ رسول گرامی کے مقبول ومرغوب سے انحراف وانکار عاشقِ رسول ھونے کا پردہ بھی خوب زبردست انداز میں فاش کررہا ھے عشاق کی یہ مجال کہاں کہ اپنے محبوب سے بغاوت واختلاف کا تصور بھی کریں
جناب آپ تو اسکی مقبولیت کو بھی صاف کردیتے مگر کیاکروگے چونکہ سلسلۂ مداریہ کی مخالفت نے خود انھیں ھاتھوں سے ھی اسے مقبول بارگاہ رسول لکھوادیا ھے ورنہ دنیا لکھے آپ سے کیا سروکار
آپکا مسلک تو بس یہ ھے کہ
سبکی عزت سبکی عظمت سبکی شھرت ایک طرف
سارے حضرت اِک طرف ھیں اعلیٰ حضرت اِک طرف
اور یہ بھی کہ معتبر ھے انکا فرمایا ھوا
مدارج النبوةج۲ صفحہ ۸۴۲
شیخِ محقق اسی کتاب کے صفحہ ۷۸ پر لکھتے ھیں کہ ""غرضیکہ حضرت ابوطالب کا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت وامداد حمایت ورعایت کرنا اور آپکی مدح وثناکرنا آپکی شان کو بڑھانا اور آپکے مرتبہ کواونچا کرنا انکے اشعارواخبار میں بکثرت موجود ھے اسکے باوجود علماء کھتے ھیں وہ ایمان نھیں لائے اور مسلمان ھوکر اس جہان سے نھیں گئے اسکے جواب میں علماء فرماتے ھیں کہ گوکہ انھوں نے زبان سے اقرار نھیں کیا مگر دل سے تصدیق کی اورانکی جانب سے اذعان وقبول اوراطاعت وجود میں نھیں آیا اوروہی تصدیق واقرار معتبر ھے جواذعان وقبول اورانقباد تسلیم کیساتھ شامل ھو ""نیز اسی کتاب کے صفحہ ۴۰ اور ۷۸ پر انکے ایمان کی بھی روایت نقل کی ھے اور صفحہ ۸۰ پر انکی تکفیر سے متعلق سکوت اور صرفِ نظر کا حکم دیا ھے
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: دیکھ رھا ھوں کہ فدائے کفروشرک بھت دیر سے سیدنا ابوطالب سلام اللہ علیہ کے ایمان کی روایت کامطالبہ کررہا ھے جبکہ مدعینِ ایمان متعدد دلائلِ شرعیہ یکے بعدیگرے پیش کررہے ھیں مگر اسکا جنھم سب کچھ ھضم کرتا جارھا ھے لھذا اگر واقعی روایتِ ایمان بغرضِ طلبِ حق مانگی جارہی ھوگی تو امید قوی ھے کہ اب انھیں کافر کھنے کی جراءت نھیں ھوگی
روایت نمبر۱
قَالَ العباس واللہ لقد قالَ اخی الکلمتہ اللتی امرتہ بھا
یعنی حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کے رسول سے کہا خداکی قسم میرے بھائی نے وہ کلمہ پڑھ لیا ھے آپ انھیں جس کلمہ کے پڑھنے کا حکم دے رھے تھے
روض الانف مع سیرت ابن ھشام ج ۱ صفحہ ۲۸۵
حضرات! سیدناسرکار ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کلمہ پڑھ لینے کی یہ وہ شھادت ھے جو اسی وقت دی گئی جس موقع پر آپ سے تلقینِ کلمہ کا معاملہ درپیش تھا
اس روایت کے ہوتے ھوئے وہ روایتں کیونکر دلیلِ کفر بنائی جاتی ھیں جنکے راویان نہ تو اس مجلس میں موجود تھے اور نہ ھی حضرت عباس سے زیادہ ثقہ وقوی ھیں
روایت نمبر ۲
اِنَّ اللہ تعالیٰ احیاللنبئِ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عمَّہ اباطالب وامنابہ
یعنی اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کیلئے ابوطالب کو زندہ فرمایا اور وہ بزرگوار ان پر ایمان لے آئے
مختصر تذکرۂ قرطبی ج۱ صفحہ ۶
حضرات!
محبینِ ایمان واسلام کیلئے یہ روایت بھی کچھ کم نھیں ھے ھاں عشاقانِ کفروشرک کو ایک دفتر بھی ناکافی ھے
اس روایت کو قدرے کمی بیشی کیساتھ صاحب روح البیان علامہ اسماعیل حقی نے بھی بیان کیا ھے بلفظہ ملاحظہ فرمائیے
روایت نمبر ۳
وقد جاءفی بعض الروایات ان النبئ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لما عادَ مِن حجتہ الوداع احیئَ اللہ لہ ابویہ وعمہ فآمنوا بہ
یعنی اور بیشک بعض روایات میں آیاھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجتہ الوداع سے تشریف لائے تواللہ تعالیٰ نے آپکے لئے آپکے والدین اور چچا ابوطالب کو زندہ زندہ فرمایا اور وہ آپ پر ایمان لائے
روح البیان ج۳صفحہ ۴۱۶
علاوہ ازیں امام ابنِ حجر مکی قدس سرہ نے بھی آپکے ایمان کی یہ روایت نقل فرمائی ھے ملاحظہ کیجئے
روایت نمبر ۴
ومن معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم احیاءالموتیٰ وکلامھم وفی الخبر ان اللہ تعالیٰ أحیٰ لہ ابویہ وعمہ اباطالب فآمنواابہ
یعنی اللہ کے رسول علیہ السلام کے معجزات میں سے مردوں کو زندہ فرمانا اور انکے ساتھ گفتگو فرمانا ھے روایت میں آیاھے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کیلئے آپکے والدین کریمین اور عمِ محترم حضرت ابوطالب کو زندہ فرمایا اور وہ آپ پر ایمان لائے
النعمتہ الکبریٰ صفحہ ۹۱
حضرات! اسکے علاوہ امام عبدالوھاب شعرانی نے بھی آپکے ایمان کی روایت اس انداز میں بیان کی ھے ملاحظہ ھو
روایت نمبر ۵
ذکرَسلمہ بن سعید الجعفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ انَّ اللہ تعالیٰ احیاء للنبئِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمَّہ اباطالب وآمنَ بہ
یعنی روایت کیا حضرت سعید بن جعفی نے کہ بیشک زندہ کیا اللہ تعالیٰ نے حضورِ پاک کے لئے انکے عمِ محترم حضرت ابوطالب کو اور وہ ان پر ایمان لائے
حضرات اسطور کی بھت ساری روایتیں موجود ھیں مگر رشتہ دارانِ امام الوھابیہ صرف فدائے ابو الوھابیہ ھیں اسکے لئے احتمالات پہلو درپہلو شک درشک نکالتے نھیں تھکتے مگر افسوس ان سنگ دلوں سیاہ باطنوں پر جو تکفیرِ ابوطالب کو ضروریات دین واجباتِ اسلام تصور کرتے ھیں قائلِ ایمان پر پوراجرگہ اس انداز میں حملہ آور ھوتاھے جیسے کربلامیں جانثارانِ حسینیت پر لشکرِ یزید ٹوٹ پڑتا تھا
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: اور جہاں تک بات احمدرضارحمتہ اللہ علیہ کے رسالے کی ھے تو آپ ذرا آپ ھماری معلومات میں اضافے کی زحمت قبول فرمائیں اور بتائیں کہ پوری تاریخِ مجددیت میں کن کن مجددین نے اس عالی مرتبت کے کفر پر انھیں کی طرح باضابطہ تصنیفی خدمت انجام دی؟
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ جن سے یہ حکایت ذکر کی جاتی ہے موت ابی طالب کے بعد حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں۔ یارسول اﷲ ! حضور نے اپنے چچا ابوطالب کو بھی کچھ نفع دیا وہ حضور کا غمخوار طرفدار تھا ارشاد ہواہم نے اُسے سراپا جہنم میں غرق پایا اتنی تخفیف فرمادی کہ ٹخنوں تک آگ ہے میں نہ ہوتا تواسفل السافلین اس کا ٹھکانا تھا۔۔۴ ( ۴ ؎ صحیح البخاری مناقب الانصار باب قصّہ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۴۸)تو آپ اناحادیث کی تطبیق کیسے کروگے ،،
امتیاز صاحب حدیث کی صحت وغیر صحت کو پرکھنے کی کسوٹی قرآن پاک ھے جوحدیث مطابقِ قرآن ھو وہ صحیح اور جو مخالفِ قرآن ھو وہ سراسر جعلی من گڑھنت چنانچہ روایتِ مذکورہ میں بقول منکرینِ ایمانِ ابوطالب ایک مشرک کے عذاب میں تخفیف پائی گئی اسکاعذاب مخفف ھوگیا جبکہ مشرکین کے عذاب میں تخفیف نھیں ھوگی یہ فیصلہ قرآن عظیم کا ھے
جیساکہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ھے
اِنَّ الذینَ کفرواوماتُوا وھُم کُفَّار اُولٰئِکَ علیھم لَعنَتہُ اللہ وَالمَلٰئِکتہِ وَالنَّاسِ اَجمَعِین خالدینَ فیھا لایُخَفَّفُ عنھمُ العذاب ولاھم ینظرون
یعنی اورجولوگ کافر ھوئے اور کفر ھی میں مرگئے ان پرلعنت ھے اللہ تعالیٰ کی اوراسکے فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی ھمیشہ رہینگے نھیں تخفیف ھوگی انکے عذاب میں اور نہ انکو فرصت ملے گی
اسی طرح ایک دوسری آیتِ کریمہ میں بھی ذکر ھواکہ
فلایُخَفَّفُ عَنھُمُ العذابُ ولاھم یُنصرون
یعنی نہ تو انکے عذاب میں کمی ھوسکے گی اور نہ ہی انکے لئے مددگار ھوگا
جناب روایتِ مذکورہ قرآن کے خلاف ھے اور قرآن کے خلاف جو ھو وہ حدیثِ رسول ھوھی نھیں سکتا
یہ سب ازقبیلِ جعلیات ھے جس پر تفصیل کیساتھ میں نے اپنی سابقہ تحریر میں روشنی ڈالی ھے آپکی روایت کھتی ھے کہ حضور نے ایک مشرک ابوطالب کی مدد فرمائی جبکہ قرآن کھتا ھے کہ انکا کوئی مددگار نھیں ھوگا
آپکی روایت کھتی ھے ایک مشرک کے عذاب میں تخفیف ھوئی اور قرآن کھتاھے کہ انکے عذاب میں تخفیف نھیں ھوگی
لھذا قولِ رسول ھر جگہ موافقِ قرآن ھی ملے گا
مگر یہ جو آپ نے قولِ رسول سمجھکر پیش کیا وہ قول مخالفِ قرآن ھے
لھذامخالفِ قرآن قولِ رسول ھوہی نھیں سکتا
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: احمدرضارحمتہ اللہ علیہ نے جس شدومد کیساتھ حضرت ابو طالب کی تکفیر پر تمااونےپونے دلائل اکٹھاکرکے آپ لوگوں کو صحیفۂ آسمانی دیا ھے اسکی نظیر علماء اھلسنت مشائخ اھلسنت سے پیش کرو
خود انکے اور انکے باپ کے استاذِ حدیث نے انکے ایمان کے اثبات میں باضابطہ کتاب تحریر کی اسنیٰ المطالب
نیز انکی مقبولِ بارگاہِ رسالت کتاب سبع سنابل نے بھی انکے ایمان ومغفرت کی روایت لکھی باوجود اسکے ان صاحب نے انکی تکفیر پر باضابطہ تصنیف کو عبادت سمجھا کیا راز ھے؟
نیز یہ بھی بتاؤ کہ جب مقبولِ بارگاہ رسالت کتاب نے انکا ایمان اور انکی مغفرت کو حل کردیا تو لازم آیا کہ یہ بھی مقبولِ بارگاہِ رسول ھے پھر اس مقبولِ بارگاہِ رسول کیخلاف کتاب لکھنے کی ھمت آنحضرت نے کہاں سے جٹائی؟
اور ھاں اگر جٹابھی لی تو کیا ایک مقبولِ بارگاہِ رسول مومن ومغفور کو آنجناب کافر لکھکر خود مومن رہ گئے؟
جواب جو بھی دیجئے گا محققانہ اور سنجیدہ ورنہ ابھی بھت سی تہیں کھلنا باقی ھیں
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: اور پورے ذخیرۂ حدیث سے حضرت ابوطالب کا کوئی کلمۂ کفریہ وشرکیہ بھی ثابت کرو کیونکہ کافر ومشرک کھنے کیلئے صدورِ کفر وشرک لازم ھے جبتک اسکا وقوع نہ ھو تب تک کسی کو کافر یا مشرک نھیں کہا جاسکتا
نیزیہ بھی بتاؤ کہ احمدرضارحمتہ اللہ علیہ کے استاذِ حدیث علامہ دحلان مکی قدس سرہ حضرت ابوطالب کو مسلمان وصاحبِ ایمان لکھکر مسلمان رہ گئے یا نھیں؟ کیونکہ شرح المطالب میں لکھا ھے کہ انکے کفر کا انکار کرنے کیلئے کسی سنی میں مجال نھیں
لھذااس اعتبار سے بیان کرو کہ صاحبِ سبع سنابل حضرت میر عبدالواحد بلگرامی اور علامہ قاضی دحلان مکی سنی ھیں یانھیں؟
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: امتیاز صاحب! آپکا جرگہ سنیت کیلئے ناسور بنکر پیدا ہواھے اپنے مولویوں کی کتاب کو اگر بس چلے تو قرآن میں بھی شامل کرنے سے شائد گریز نہ کرو قرآن کے خلاف حدیث کیخلاف اولیاء اللہ کے خلاف کہتے رہو بکتے رہو کوئی پریشانی نھیں مگر اگر کہیں آسمان سے نازل شدہ مولویوں کی کسی ترچھی ٹیڑھی کے خلاف کسی نے کوئی قول کیا تو پھر اسکی ایسی تیسی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نھیں ھونے دیتے بتاؤ یہ کہاں کا اسلام ھے؟ یہ کونسی سنیت ھے
وہ آپ ھی کی جماعت ھے جو کہیں بجرنگ دل اور کہیں بھاجپا جیسے الفاظ سے اھلسنت کی مجلسوں یاد کی جاتی ھے
آخر اسکی کیا وجہ ھے؟
یہی ٹھکرائی ٹھیکیداری
داداگیری
آپکی جماعت ھر آئے دن دین وسنیت کا ستیہ ناس کرتی جارہی ھے تشدد وجبر کے ماحول کی پراگندگی پورے ملک میں دیکھی جارہی ھے خانقاھیں اب آپکی اس جماعت کو ایک آنکھ سے بھی دیکھنا پسند نھیں کرتیں آخر کیا بات ھے یہی کہ آپ حضرات اپنے مولویوں کو بمنزلِ پیغمبر سمجھتے ھو اور انکے خلاف بڑے سے بڑے فقیہ ومجتھد ولی اللہ کو ذرہ برابر بھی اھمیت نھیں دیتے ھو
آخر میں ھمارا مشورہ ھے کہ روشِ زندگی بدل دو
دینی واسلامی مزاج پیدا کرو کچھ سنیت کی فکر کرو ورنہ یاد رکھو یہ سب کچھ یہیں رہ جائگا قبر میں تنھاء جاؤگے
[11/3, 1:01 AM] QAISAR RAZA: صاحب تحقیق ہیں یہ حضرات اور ایسے حضرات اپنی تحقیق میں اختلاف واتفاق کر سکتے اور ان پر حکم کفر عائد نہیں ہوگا ورنہ بات انہیں حضرات تک محدود نہ ہوگی بلکہ بہت آگے جائے گی اور آپ اس زد سے مو قع نہ پائیں گے
بھت خوب لشکرِ تکفیریہ کے ننھے سپاھی !!
اسی کوکہتے ھیں اونٹ کا پہاڑ کے نیچے آنا اب آپ ہی کی بات سے یہ مسئلہ بیچ سمندر سے نکل ساحل سے آلگا کہ جنھوں نے سیدنا ابوطالب سلام اللہ علیہ کے ایمان واسلام کا خطبہ پڑھا وہ رافضی شیعہ گمراہ نھیں بلکہ صاحبانِ علم وتحقیق ھیں اب جبکہ آپ ھی کی بات سے اس مسئلے کا یہ شاندار حل نکل گیا تو پھر ان صاحبانِ تحقیق کی پیروی میں جو خوش عقیدہ سنی مسلمان اس برگزیدۂ الھی کے ایمان واسلام کا دم بھر تے ھیں ان پر جرگۂ تکفیریہ کے بھیڑئے کیوں غرَّاتے ھیں؟
اس مقبولِ رسول مومن ومغفور کے اقرار ایمان کو جرم گردانتے ھوئے ایک گروپ میں آپ نے کہا تھا کہ یہ لوگ ابوطالب کو مسلمان مانتے ھیں بتائیے جناب عالی! یہ تو اب آپ اپنے سب سے بڑے حضرت کو بچانے کیلئے اس زھرِ جاں کش کو نوش کرنے کافیصلہ کئے ھو کیونکہ اگر سبع سنابل کے مقبولیت کی کہانی گڑھی ھوئی نہیں ھے تو پھر بڑے حضرت کا اللہ ھی خیر کرے کیونکہ رسول گرامی کے مقبول ومرغوب سے انحراف وانکار عاشقِ رسول ھونے کا پردہ بھی خوب زبردست انداز میں فاش کررہا ھے عشاق کی یہ مجال کہاں کہ اپنے محبوب سے بغاوت واختلاف کا تصور بھی کریں
جناب آپ تو اسکی مقبولیت کو بھی صاف کردیتے مگر کیاکروگے چونکہ سلسلۂ مداریہ کی مخالفت نے خود انھیں ھاتھوں سے ھی اسے مقبول بارگاہ رسول لکھوادیا ھے ورنہ دنیا لکھے آپ سے کیا سروکار
آپکا مسلک تو بس یہ ھے کہ
سبکی عزت سبکی عظمت سبکی شھرت ایک طرف
سارے حضرت اِک طرف ھیں اعلیٰ حضرت اِک طرف
اور یہ بھی کہ معتبر ھے انکا فرمایا ھوا