از قلم مفتی ابو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری آستانہ عالیہ حضرت سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار مکن پور شریف کان پور نگر
*گروہ خادمان*
گروہ خادمان حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاری ہے۔
آپ کے ساتھ آپ کے دو بھائی خواجہ سید ابو الحسن طیفور و خواجہ سید ابوتراب فنصور رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی گروہ خادمان کا اجراء ہوا ہے بغض کتابوں میں خادمان طیفوری،اور خادمان فنصوری کا ذکر ہوا ہے۔
ان تینوں بزرگوں کا حسب و نسب حضور بدیع الزماں سیدنا سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سگے بھائی سید محمود الدین سے ملتا ہے۔
ان ہرسہ خواجگان سے خادمان کے درج ذیل گروہ جاری ہوئے ہیں۔
خادمان ارغونی خادمان طیفوری خادمان فنصوری، اور خادمان ارغونی سے نقدارغونی، ابولفائضی، محمودی، سرموری، سلوتری ،غلام علوی، اَبَّنِی اور سکندری گروہ کا اجراء ہوا ہے۔
*خادمان کا مطلب کیا ہے*
خادمان کا مطلب درگاہ و مزار کے خادم و خدمت گزار نہیں ہے،جیسا کہ جہلاء سمجھتے ہیں
بلکہ خادمان اولیاء اللّٰہ کی وہ عظیم الشان جماعت ہے جو مقام ،، *مَاخَدَمنَاکَ حقًَ خِدمَتِکَ* کے وارث ہیں *مَا عَبَد نَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ* کے عابد ہیں اور *مقام مَاعَرَفنَاکَ حَقّ مَعرِفَتَکَ* کے عارف ہیں۔
یہ سلوک و طریقت میں ایک مقام ہے اور یہ تینوں عبارتیں حدیث نبوی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں۔
اول کا مطلب ہے اے اللّٰہ ہم نے تیری ویسی خدمت نہیں کی جیسی تیری خدمت کا حق ہے ۔ دوسری عبارت کا مطلب ہے اے اللّٰہ ہم نے تیری اسطرح عبادت نہیں کی جیسی تیری عبادت ہونی چاہئے
اور تیسری عبارت کا مطلب ہے اے اللّٰہ! ہم نے تجھےاس طرح نہیں پہچانا جس طرح تیری معرفت کا حق ہے۔
اہل عرفان کی یہ جماعت *مَن رَأٰنِی فَقَد رَأَی الحَقَّ* "جس نے مجھے دیکھا بلاشبہ اس نےحق کو دیکھا" کے رمز کو جاننے والی ہے۔ یہ لوگ خانقاہ اُلُوہیت میں باریاب ہیں اور بارگاہ اَحَدِیَت کے مقربین ہیں شریعت و طریقت کے مسلکوں اور معرفت و حقیقت کے راستوں کے رہبر ہیں۔ یہ حضرات روز بروز ان مقامات و مناصب پر ترقی پا کر انتہائے مدارج و مراتب کو پنہچے ہوئے ہیں۔ یہ ہستیاں بارگاہ احدیت میں اتنی عالی مرتبہ والی ہیں اتنا قرب خصوصی رکھتی ہیں کہ *من خَدَمَ خُدِمَ* انہیں پر صادق آتا ہے۔
در حقیقت انہیں کے لئے کہا گیا ہے،
*ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد*
*ہر کہ خود را دید او محروم شد*
*جس نے خدمت کی وہی مخدوم ہے خود نمائی جس نے کی وہ محروم ہے*
کتنی اچھی خدمت ہے جس کا ثمرہ مخدومی ہے۔ تذکرۃ المتقین میں ہے
ان خادمان حقیقی کے بارے میں شاہ عبدالحق مداری قدس سرہ نے اپنے رسالہ پنجم میں نقل فرمایا ہے کہ شاہ حسین مداری نے شاہ عبدالرشید طالبان المداری کو ایک مکتوب لکھا جس میں پوچھا گیا کہ حضور اصطلاح تصوف میں خادمان کن لوگوں کو کہتے ہیں۔ آپ نے اس کے جواب میں یہ تحریر فرمایا کہ میرے بھائی خادمان اولیاء اللّٰہ کا ایک گروہ ہے جن کا ظاہر حال او امر الٰہیہ متصف ہے اور منہیات شرعیہ سے پاک و مبرّا ہے، اور رعایت شریعت سے آراستہ ہے، اور ان کا باطن اللّٰہ و رسول کی محبت سے مزیّن و پیراستہ ہے۔ ورثہ عبدیت سے ان کو پورا حصہ ملا ہے جو الفاظ خادمان کا منشا بھی ہے۔
کامل طور خدمت الہیٰ بجالا نے کے سبب تقرب احدیت کی خصوصیت سے یہ لوگ سرفراز ہیں،
اور شریعت محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی و اطاعت گزاری میں کمال خدمت و اطاعت کی وجہ سے اور اپنے شیخ طریقت کی شفقت کی بنا پر مقام قرب اقرب پر سرفرازی حاصل کرتے ہیں اس لئے انہیں خادمان کہا جاتا ہے۔
*قطب زمن حضرت خواجہ سید محمد ارغون قدس سرہ*
مقتدائے اولیاء شاہ باز اتقیاء آسمان ولایت و کرامت، میدان سخاوت و قناعت، ھادئی راہ شریعت، جامع طریقت، معلم رموز حکمت، واقف اسرار حقیقت، غواص بحر معرفت، قدوۃ العارفین عمدۃ الکاملین رہبر دین، قبلہ اہل یقین، حضرت خواجہ سید ابو محمد محمد ارغون قدس سرہ خلیفہ و جانشین حضرت قطب المدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں خاندان عالیہ مداریہ کے سر گروہ اور جامع کمالات صوری و معنوی بزرگ ہیں ۔ آپ کے دو برادر حضرت خواجہ سید ابوالحسن طیفور و حضرت خواجہ سید ابو تراب فنصور قدست اسرارھم بھی حضور مدار پاک کے معزز خلیفہ اور سر گروہ خادمان اور
جانشین قطب المدار ہوئے ہیں ۔ آپ تینوں شہزادگان کو حضور مدار پاک اپنے ساتھ ارض مقدس ہندوستان لے کر آۓ
آپ کے خوارق کرامات و محاسن و کمالات کو بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہے۔
اس سر چشمئہ فیص و ارشاد سے ایک عالم سیراب ہوا۔
آپ قطب الافراد قطب وحدت حضور سیدنا سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے برادازادے ، فرزند معنوی، خلیفہ اور سجادہ نشین ہیں۔
*حضرت ابو محمد محمد ارغون قدس سرہ*
آپ کا اسم گرام
*محمد ہے۔اور کنیت ابو محمد ہے اور خوش آوازی کی بناء پر لقب ارغون رکھا گیا جو اب اسم با مسمَیٰ کی طرح ہو گیا۔*
آپ کا مولد قصبہ چنار شہر حلب ملک شام ہے۔ ۔۔۔ آپ سید السادات ہیں
*آپ کا نسب نامہ*
السید عبد اللّٰہ بن سید کبیر الدین بن وحید الدین بن سید یٰسین بن سید محمد بن سید داؤد بن سید محمد بن سید ابراہیم بن سید محمد بن سید اسمٰعیل بن سید محمد بن سید اسحاق بن سید عبدالرزاق بن سید نظام الدین بن سید ابوسعید بن سید محمد بن سید جعفر بن سید محمود الدین *برادر حضرت سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ* بن سید علی بن سید بہا الدین بن سید ظہیر الدین احمد بن سید اسمٰعیل ثانی بن سید محمد بن سید اسمٰعیل بن سید امام جعفر صادق بن سید امام محمد باقر بن سید علی زین العابدین بن سید امام حسین بن سید مولا علی رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین۔ ہے
*ولادت سریف* یوم جمعہ بوقت فجر یکم ربیع الاول 783ھجری ہے
*تعلیم و تربیت* جد بزرگوار نے تعلیم وتربیت فرمائی
آپ کے جد مکرم حضرت علامہ خواجہ سید ابراہیم قدس سرہ نے مدرسہ ابرھیمیہ بیروت میں جاری فرمایا تھا۔ وہ اپنے زمانے کے معتبر عالم و صاحب کمال بزرگ اور خانقاہ مداریہ بیروت کے گدی نشین تھے۔
*آمد ہندوستان* آٹھویں صدی ہجری کے آخر میں حضور سیدنا سید بدیع الدین احمد قطب المدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بغرض حج ہندوستان سے حجاز روانہ ہوئے۔ مکہ المکرمہ پہنچے حج و زیارت سے فارغ ہو کر آپ
نے ملک شام کا قصد فرمایا
قصبہ چنار شہر حلب پہنچے
تو حضرت سید محمد ارغون نے اپنے والد محترم حضرت سید عبد اللّٰہ سے شوق دیدار کا اظہار کیا۔۔حضور سیدی قطب المدار کی نگاہ ا لتفات آپ کی طرف ہوئی تو آپ کی پیشانی پر انوار سعادت دیکھ کر ہر سہ برادران خواجگان کو اپنی صحبت میں قبول فرمایا۔ اور ان پر نوازشات فرمائی۔ اور انہیں تقرب خاص سے نوازا۔ اور اپنے ساتھ رکھنا پسند فرمایا۔
جب حضور شاہ والا عازم ہندوستان ہوئےتو اپنے ساتھ انہیں ہندوستان لاۓ۔ تذکرۃ المتقین اور ملفوظات شاہ مینا و دیگر کتب سیر میں ہے کہ
۔ مختلف مقامات پر تبلیغ و اشاعت دین متین فرماتے ہوئے لکھنؤ جلوہ افروز ہوئے۔
مخلوق خدا کو مستفیض فرمایا اسی دوران حضرت مخدوم شاہ مینا قدس سرہ العزیز کی ولادت ہوئی۔ آپ نے ان کی ولادت اور ولایت کو ظاہر فرمایا ۔
مختلف مقامات کا دورہ فرماتے ہوئے جونپور تشریف لائے کچھ عرصہ قیام کے بعد پھر لکھنؤ آئے لکھنؤ میں حضور شہاب الدین پر کالہ آتش کی معرفت سے مخدوم شاہ مینا کو اپنی جاءۓنماز تبرکاً عنایت فرمائی اور انکی قطبیت کا اعلان فرمایا 818 ھجری میں مکن پور شریف وارد ہوئے جو اس وقت غیر آباد تھا۔ اور رسول کریم کی بشارت کے مطابق یہیں طرح اقامت ڈال دی اور اسے خیرآباد بنایا ۔وقت گزرنے کے ساتھ علاقے میں شہرت پھیلی، لوگوں کی آمد رفت شروع ہوئی اور بالاٰخر مکن پور شریف معرض وجود میں آکر مرجع خلائق بنا
*نکاح* ایک دن حضور زندہ شاہ مدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خلفاء و مریدین کی مجلس میں ارشاد فرمایا کہ میں نے محمد ارغون کے نکاح اور انہیں اس زمین پر مستقلا آباد کرنے کا فیصلہ لے لیا ہے کیونکہ اسی میں رب تبارک تعالیٰ کی مرضی ہے۔
تذکرۃًکسی نے یہ بات حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون کو بتائی تو آپ نے انکار فرمایا ،مگر سرکار مدارالعالم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے انہیں طلب کیا اور ارشاد فرمایا اے فرزند تمہارا اور تمہارے بھائیوں کا نکاح ہونا مشیت ایزدی ہے اور تم سے اجراۓنسل ہونا ہے۔ اس لئے انکار نہ کرنا چاہئے ۔حضور والا کا حکم سن کر آپ خاموش ہو گئے حضرت خواجہ سید جمال الدین جان من جنتی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ قصبہ جتھرا مضافات کالپی میں جناب سید احمد خاندان فاطمی کے ایک ممتاز شخص ہیں ان کی صاحبزادی جنت النساء کیلئے پیغام پہنچایا جائے۔ غرض کہ پیغام پہنچایا گیا تو حضرت احمد جتھراوی نے اسے بسر و چشم قبول کر لیا اور یکم ربیع الاول سنہ 824ھ۔ میں آپ کا نکاح ہو گیا۔
بعد میں آپ کے دونوں چھوٹے بھائی حضرت خواجہ سید ابو تراب فنصور و حضرت خواجہ سید ابو الحسن طیفور رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما کے نکاح بھی پاس کے مواضع میں ہوئے۔
*خلافت و جانشینی*
آپ کو بیعت و خلافت کا شرف تو حضور قطب مدار قدس سرہ سے حاصل ہی تھا شیخ مرشد کی نگاہ انتخاب نے اپنا جانشین بھی آپ ہی کو مقرر فرمایا چنانچہ تذکرۃ المتقین میں ہے
کہ "حضور مدار پاک نے ایک دن اپنے قریب بلایا اور ارشاد فرمایا اے فرزند! ولایت دو قسم کی ہوتی ہے ایک صلبی اور دوسری روحانی. صلبی تو ماں باپ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا تعلق عالم خلق سے ہے جو کوئی آتا ہے اس لباس ظاہری کو پہنے ہوئے آتا ہے۔ ایک دن اسکو ترک کرنا بھی ہوگا۔اور روحانی ولایت مربی روح سے متعلق ہوتی ہے۔ اس کا تعلق عالم امر سے ہے جو میرا اور تمہارا تعلق ہے یہ قیامت تک قائم رہے گا ۔ میں نے تم کو اپنا جانشین بنایا۔ ظاہری تعلق بھی تمہارے ساتھ یہ ہے کہ تم میرے بھائی کی اولاد ہو اور بھائی کی اولاد بھائی کی طرف منسوب ہوا کرتی ہے چنانچہ قرآن پاک میں آیا ہے
*و اتبعت ملت آبائی ابراہیم و اسمٰعیل و اسحٰق و یعقوب*
اور ظاہر ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نسب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ملتا ہے نہ کہ حضرت اسحٰق علیہ السلام سے مگر چونکہ حضرت اسحٰق علیہ السلام حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کے بھائی تھے۔ ان کو بھی باپ کہا گیا۔ لہٰذا تم بھی میری اولاد معنوی ہو اور شریعت و طریقت میں میرے جانشین ہو ۔
اسی طرح سرکار قطب المدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے وصال سے قبل تمام خلفاء و مریدین سے ارشاد فرمایا کہ محمد ارغون کو میں نے اپنا جانشین کیا اور ان تینوں یعنی سید محمد ارغون، سید ابو تراب فنصور، سید ابو الحسن طیفور کو بجائے میرے کنفس واحدہ تصور کرنا اور جو کوئی مشکل پیش آئے تو ان کی طرف رجوع کرنا۔ باقی میں جس طرح اب تم لوگوں کی تربیت کرتا ہوں ۔ ان شاء اللّٰہ بعد وصال بھی اسی طرح تم نگاہ میں ہوگے جو کوئی مجھ سے ارادت رکھتا ہے میں نے اسے قبول کیا ۔ اوراس کی نسلوں کو بھی قبول کیا اور جو کوئی میرے ان فرزندوں سے ارادت رکھتا ہے میں نے اسے بھی قبول کیا ۔
*کرامات* آپ کی پوری زندگی اللّٰہ اور اس کے رسول علیہ السلام کی اطاعت، عبادت ، ریاضت ،مجاہدہ نفس، و تزکیۂ قلب اور رشدو ہدایت میں گزری۔
حالت نوم میں بھی ذکر الٰہی میں مصروف رہتے۔
جب تلاوت قرآن مجید فرماتے تو لوگ مسرورو مست ہو جاتے تھے۔ چرند پرند بھی پاس جمع ہونے لگتے تھے اور سنتے تھے۔
آپ کی آواز بہت دلکش تھی اسی وجہ سے
*لقب ارغون* سے ملقب فرمایا گیا ۔ ارغون ایک قسم کے نفیس باجے کو کہتے ہیں۔
*اولاد امجاد*
حضرت سیدنا سید ابو محمد محمد ارغون قدس سرہ کے پانچ بیٹے تھے
: 1
حضرت خواجہ ابو الفائض قدس سرہ۔
2: حضرت خواجہ سید محمود قدس سرہ،،
3: حضرت خواجہ سید داؤد قدس سرہ،،
4:
حضرت خواجہ سید اسمعٰیل قدس سرہ،،
5: حضرت خواجہ سید حامد محامد قدس سرہ
ان شاءاللہ ان حضرات کی نسل مبارکہ کی تفصیل مع شجرات کتاب کی دوسری جلد میں پیش کیا جاۓگی
*خلفاۓ کرام*
حضرت خواجہ سید ابوالفائض محمد سجادہ نشین، حضرت خواجہ سید محمود صدر نشین۔ حضرت خواجہ سید داؤد، حضرتِ خواجہ سید اسماعیل، شاہ سید حسین سر ہندی حضرت شیخ سیف الدین۔حضرت خواجہ سید محمد، شیخ کامل حضرت شاہ واصل حضرت شاہ قمر الدین حضرت شیخ کمال الدین مداری حضرت شاہ عبداللّٰہ حضرت پیر غلام علی شاہ حضرت نظام سنبھلی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھم *ہرسہ خواجگان سےجو سلسلے جاری ہوئے*
ان ہرسہ خواجگان سے جو سلاسل مبارک جاری ہیں انہیں خادمان کہا جاتا ہے۔
خادمان ارغونی، خادمان فنصوری ،خادمان طیفوری،۔ خادمان ارغونی سے جو گروہ نکلے انکے نام یہ ہیں
نقد ارغونی یہ خاص حضرت سید دادا محمد ارغون سے ہی جاری ہے جو آپ کی اولاد پاک کا خاندانی شجرہ ھے ، خادمان ابوالفائضی :یہ سید ابو محمد محمد ارغون رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے بڑے صاحبزادے سید محمد ابو الفائض ارغونی سے جاری ہے ، خادمان محمودی حضرت سید محمود رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ سے جاری ہے :یہ حضرت سید محمد ارغون رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے بیٹے ہیں آپ سے خادمان محمودی سلسلہ جاری ہوا ۔۔ حضرت سید شاہ معین الحق ابن علی المعروف بہ بابا اَبَّن صدرنشین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے خادمان اَبَّنی اور آپ کے بعد آپ کے مریدین سے خادمان سلوتری، خادمان سرموری ،خادمان سکندری گروہوں کا اجرا ہوا۔۔ حضرت سید شاہ اَبَّن رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ چوتھی پیڑھی میں حضرت سید شاہ محمد ارغون رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے فرزند ہیں ۔ جیسا کہ تذکرہ صوفیاۓ میوات کے مولف نے تحریر کیا ہے۔ حضرت سید شاہ معین الحق ابن علی المعروف بہ بابا اَبَّن صدرنشین رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے ایک مرید اور خلیفہ حضرت خاکی شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ ہیں جنکا روضۂ مبارک زیارت گاہ خلائق ہے. قصبہ ساکرس تحصیل فیروز پور جھرکہ ضلع گوڑگاوں میں ۔آپ کا سالانہ عرس ہوتا ہے،جائداد و جاگیر وقف کردہ سلاطین دہلی تا ہنوز آپ کے خلفاء کے قبضہ و تصرف میں ہے۔ اور چند مقامات پر جاگیرات موجود ہیں۔ موضع مروڑہ، و رنیالہ،اولیٹہ وغیرہ میں اہل تجرید آپ کے خلفاء و مریدین ہنوز اس پر قابض و متصرف ہیں۔ (تذکرہ صوفیاۓ میوات صفحہ 437 مصنف محمد حبیب الرحمن خان میواتی۔) ا ،سرموری، سلوتری، اَبًنِی،غلام علوی اور سکندری
بحر زخار میں حضرت سید ابو محمد محمد ارغون قدس سرہ کے ایک خلیفہ حضرت شیخ کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ ہے
"مظہر امن و امان حضرت شیخ کمال الدین ابن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ
آپ نسباًقریشی ہیں گلزار ابرار میں مرقوم ہے کہ آپ تقویٰ توکل،تسلیم و رضا کے مقام بلند پر فائز تھے ،شاہ ارغون مداری کے مرید تھے آپ نے شیخ ابو الفتح ہدایت اللہ سرمست کے صاحبزادے اور خلیفہ شیخ رکن الدین شطاری کی بار گاہ سے دعوت اسماءاللہ اور اذکار کی اجازت پائی
پھر بہادر افغان شجاول خاں کے زمانے میں مندو تشریف لائے نگارندۂ گلزار کے والد سے دوستی قائم کی ، میرے والد نے مجھے ان سے قران مجید کی تعلیم دلائی۔آپ نے سو سال زندگی توکل میں بسر کی ،کسی سے راز ونیاز بیان نہ کیا،اپنے اور بیگانے کسی سے خواہش کا اظہار نہ کیا سنہ 973 ھ وفات پائی مندو میں مدفون ہوۓ۔