🔦🔦🔦🔦🔦🔦🔦🔦🔦🔦🔦🔦🔦
*فقہ حنفی کی روشنی میں خطبہ والی اذان کہاں ہو ؟*
اذان خطبہ جمعہ جس میں اختلاف ماضی قریب میں پیدا ہوا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ایک ہی اذان جمعہ کی ہوتی تھی
جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر جلوہ افروز ہوتے تھے اس پر امت کا اتفاق ہے
البتہ ابو داوود میں محمد ابن اسحاق کی روایت میں "بین یدیہ" اور "علی' باب المسجد" کے الفاظ کی زیادتی ہے
انکے علاوہ کسی اور راوی نے ان الفاظ کا اعادہ نہیں کیا ،جب عہد نبوی میں ایک ہی اذان تھی تو قرین قیاس ہے کہ مسجد کے دروازہ پر کوئ بلند جگہ رہی ہوگی جس پر اذان دینے سے داخل و خارج سب کو اطلاع ہوجاتی رہی ہو
اذان جمعہ سے دو اغراض وابستہ ہیں
ایک یہ کہ غیر حاضرین مسجد کو اطلاع دینا مقصود ہوتا ہےکہ ترک بیع و شراء کر کے مسجد میں آجائیں
دوسری غرض حاضرین مسجد کو انصات و ترک صلوتہ و کلام سے ہے
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور شیخین کے زمانے تک یہی ایک اذان رہی
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب مدینہ طیبہ کی آبادی وسیع ہو گئ اور یہ اذان اعلان کیلئے کافی نہ ہوئ آپ نے اس اذان سے پہلے ایک اذان زوراء پر جو متصل مسجد بازار میں ایک بلند مقام ہے دلوائی اس اذان کی زیادتی صحابہ کی موجودگی میں ہوئ اس لئے اس اذان اول پر اجماع ہو گیا اور یہ اذان بھی مسنون ہو گئ حسب ارشاد
"علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین"
اور جو احکام اذان خطبہ سے متعلق تھے ان میں سے اعلان عام اور وجوب سعی و ترک بیع و شراء اس سے حاصل ہو گئے
چنانچہ اکثر فقہاء کا یہی مذہب ہے ملاحظہ ہو شامی صفحہ نمبر 860
وجب السعی الیہ و ترک البیع بالاذان الاول فی الاصح وان لم یکن فی زمن الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بل فی زمن عثمان رضی اللہ عنہ قولہ فی الاصح
قال فی شرح المنیتہ اختلاف فی المراد بالاذان الاول باعتبار المشروعیتہ وھو الذی بین یدیہ المنبر لانہ کان اولا فی زمنہ علیہ السلام و زمن ابی بکر و عمر حتی احدث عثمان الاذان الثانی علی الزوراء حین کثر الناس والاصح الاول باعتبار الوقت وھو الذی یکون علی المنارتہ بعد الزوال
طحطاوی صفحہ نمبر282 قولہ فی وقال الطحطاوی
المعتبر ھو الاذان الثانی بین یدی المنبر
لانہ کان فی زمنہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم والشیخین بعدہ
قال فی البحر وھو ضعیف
مراقی الفلاح بڑی حاشیہ طحطاوی 282
فی الاصح لحصول الاعلام بہ لانہ لو انتظر الاذان الثانی الذی عند المنبر تفوتہ السنتہ و ربما لا یدرک الجمعتہ لبعد محلہ
عینی شرح ھدایہ 164
و عن الحسن ابن زیاد عنہ ابی حنیفہ
ھو اذان المنارتہ لانہ لو انتظر الاذان "عند المنبر" تفوتہ اداء السنتہ و استماع الخطبتہ بل تفوتہ اداء الجمعتہ اذا کان المصر بعید الاطراف
ان اقوال سے بخوبی معلوم ہو گیا کہ عام احکام وجوب سعی وترک بیع و شراء اذان ثانی سے جو منارے پر ہوتی ہے
اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بڑھا دی گئی ہے متعلق ہوگئے اور اذان خطبہ کا اکثر کام یہ اذان دے چکی ہے
اب اذان منبر کا کام صرف حاضرین مسجد کو اطلاع دینا رہ گیا
امام منبر پر آگئے خطبہ سننے کو تیار ہو جائو
اور در مختار اور شامی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے
شامی صفحہ نمبر 397
ھو لغتہ الاعلام و شرعا اعلام مخصوص لم یزل بدخول الوقت لیعم الفائتتہ و بین الخطیب
اب یہ امر مشرح ہو گیا کہ اذان کا بلند جگہ ہونا صرف اعلان عام کیلئے تھا اور اذان خطبہ سے یہ اعلان مقصود نہیں
اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اذان مسجد میں دینا مشروع ہے
مکروہ نہیں اسی لئے جو فقہاء
"یکرہ الاذان فی المسجد" یا " لا ینبغی اذان فی المسجد"
فرما رہے ہیں اذان خطبہ کو عند المنبر فرماتے ہیں مذکورہ بالا عبارت میں عند المنبر کے الفاظ کی صراحت موجود ہے
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور جملہ فقہاء کے زمانے میں اذان خطبہ عند الممبر ہوتی تھی اور صاحب نور الایضاح سارے شکوک و شبہات کو دور کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
و الجلوس قبل الشروع فی الخطبتہ والاذان بین یدیہ کالاقامتہ
جب امام منبر پر بیٹھ جائے اور اذان اسکے کے سامنے ہو جس طرح اقامت (صف اول میں ) پڑھی جاتی ہے
اور آج تک تمام تمام بلاد عرب و عجم میں یہی توارث چلا آتا ہے
انصاف سے بعید ہے کہ بلا ضرورت "عند المنبر" کے صاف بدیہی مضمون کو بدلا جائے عند المنبر کے صاف معنی باعتبار لغت و عرف منبر کے پاس اور نزدیک کے ہیں
الغرض حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس اذان کا کام اعلان اول سے حاصل ہو گیا تو اذان خطبہ کو بلند مقام پر مسجد یا خارج مسجد کہنے کی کوئی ضرورت نہ سمجھ کر مسجد میں منبر کے پاس منتقل کردیا اور اسی پر امت کا عمل درآمد چلا آتا ہے
اس اذان کو خارج مسجد کہنے میں خرابی یہ لازم آتی ہے کہ بسا اوقات مسجدوں میں دروازہ مسجد خطیب کے سامنے نہیں ہوتا ایسی صورت میں سامنے اور خارج کا التزام کیوں کر ہو سکتا ہے
لہذا
اذان مسجد کے اندر ہی دینے پڑتی ہے اور مئوذن کو اپنی جگہ سے اٹھ کر پچھلی صف میں جانے اور اذان کہہ کر واپس آنے میں تخطی الرقاب یعنی گردن پھاندھنا لازم آتا ہے
جو باتفاق مکروہ ہے اور مفتی بہ قول امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ کا یہی ہے یعنی جس وقت خطیب اپنی جگہ سے اٹھے خاموشی لازم ہے
مندرجہ بالا احادیث و اقوال فقہاء کی روشنی میں یہی واضح ہوتا ہے
کہ اذان خطبہ کو خطیب کے سامنے اور قریب کہنا مسنون ہے
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
از 🖋🖋🖋🖋🖋
حضرت مفتی اکبر علی صاحب قبلہ نور اللہ مرقدہ
سابق مدرس جامعہ عربیہ مدار العلوم خانقاہ عالیہ قدسیہ دار النور مکنپور شریف ضلع کان پور یوپی
کاتب
سید اشفاق علی جعفری المداری مکن پوری
www.qutbulmadar.org
plz visit Us: