چمن میں تلخ نوائی مِری گوارا کر
دور حاضر کی نئی اصطلاح ""مسلک آعلیٰ حضرت ""کے استعمال پر ایک فکر انگیز تحریر جسے سنجیدگی کیساتھ پڑھنا اھلسنت کے تمام خواص وعوام پر لازم ھے آپ نے اگر ٹھنڈے دل سے پڑھا تو آپ سمجھ جا ئینگے کہ یہ نئی اصطلاح چند غیر مخلص اور ضدی مزاج علماء ء کے ذھن کی پیدا وار ھے حضور فاضلِ بریلوی کا اس اصطلاح سے کوئی تعلق نہیں ھے
وہ تو اپنے بزرگوں کی قائم کی ہوئی یادگاروں کی حفاظت کےلئے تا عمر ساری قوت داؤ پر لگاےُ رہے
🔦🔦🔦🔦🔦🔦🔦
محبان محترم احبابِ اھلسنت!! یہ بات کون نہیں جانتا کہ حضور ختمی مرتبت سیدنا محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور آپکے نائبین نے تمام فرقہاےُ باطلہ کے درمیان بحیثیت گروہِ ناجیہ اھلسنت وجماعت کو ممتاز فرمایا اور خیر القرون سے لیکر آج تک تمامی اھل اللہ اسی جماعتِ حقّہ کی ایک کڑی بن کر رھے اور تمام اولیاء کاملین وعلماء ربَّا نیئین اپنے اپنے ادوار میں حتّٰی المقدور ا سی جماعت حقہ کے عقائد و معمولات کی حفاظت واشاعت کے لئے سر بہ کفن نظر آےُ تاریخ شاھد ہے کہ فقھاء کرام و مجتھد ین عظام کے دور میں جب مذاھب ومسالک کی شیرازہ بندی ہوئی تو اھلسنت وجماعت کے چار مذھب ومسلک وجود میں آےُ جنھیں چار عظیم المرتبت مجتھدینِ کرام کے ناموں سے تشھیر وتوسیع حاصل ہوئی بعدہ اکا برین اھلسنت نے یہ فیصلہ لکھا کہ وھذہ الطائفتہ الناجیتہ قد اجتمعت ِ الیومَ فی مذاھبِ اربعة وھم الحنفیون والمالکیون والشا فعیون والحنبلیون رحمھم اللہ تعالیٰ ومن کان خارجاً عن ھذہ الاربعة فی ھذا الزَّ مان فھوَ من اھلِ البد عة والنَّار یعنی گروہ ناجیہ اب چار مذھب ومسلک میں منحصر ھوچکا ھے اور وہ حنفی مالکی شافعی حنبلی ھیں ان میں سے اگر کوئی خارج ہو جاےُ تو وہ بدعتی اور جہنمی ھے پوری دیانت داری کیساتھ عرض ھے کہ اسوقت سے لیکر آج تک تقریباً بارہ سو سالہ تاریخ اسلام میں اھلِ حق صرف اھل سنت وجماعت کے نام سے تمام گمراہ جماعتوں کے درمیان ممتاز ومنفرد رھے فرقہاےُ باطلہ کی کمی نہ تو کل تھی اور نہ آج ہے صرف اپنے آپکو ہی متّبعِ رسول واصحاب رسول کہنے والی باطل جماعتیں ہر دور میں موجود رہیں اور انکا قلعہ قمع کر نے والے افراد بھی ایک سے بڑھ کر ایک آتے رہے مگر بزرگوں کا دیا ہوا یہ موروثی نشان کبھی بھی تبدیل وتحریف کا شکار نہیں ہوا ہمارے کسی بھی بزرگ نے اسکا متبادل جملہ ایجاد کرنے کی جسارت نہیں کی باختلاف روایت شروع سے لیکر آج تک انتیس یا ساٹھ سے زیادہ مجددین پیدا ہوےُ مگر پوری تاریخ مجددیت کی چھان بین کرنے کے بعد بھی یہ کہیں نہیں ملتا کہ کسی مجدد کے پیرو کاروں نے مسلک اھلسنت کو چھوڑ کر مسلک فلاں مسلک فلاں کی کوئی اصطلاح رائج کی ہو سبھوں نے صرف اھلسنت پر ہی اکتفاء کیا اور اسی کو کافی وافی جانا مگر ہاےُ رے جماعت کی حرما ں نصیبی اس دور کے اھل سنت کے لئے اب نبوی اصطلاح ناقص ہوگئی اور اب اھل حق کے امتیاز کے لئے ""مسلک آعلیٰ حضرت "" ایک نئے نام کا اختراع کیا جانے لگا اور ا پنی ضد وھٹ کے پیش نظر اسی جملہُ غیر شرعیہ کو اھل حق کی پہچان بتایا جانے لگا ھے اور اس پر جراءت بیجا یہ کہ اگر کوئی اس جدید لیبل کا انکاری ہوجاےُ تو بیک جنبش زبان وقلم جماعت حقّہ سے خارج اب خانہُ اھل حق میں اسکے لئے پیر رکھنے کی بھی جگہ نہیں الآمان الآمان محبَّانِ اھلسنت!! یہ دہشت گردانہ اور آتنکی ماحول ہمارے ان احباب کا مرہون منت ہے جو اپنے آپکو ناشرِ اھلسنت تر جمانِ حنفیت فقیہ سنیت حضور فاضلِ بریلوی کا شیدائی اور وفادار گردانتے ہیں اسلام وسنیت کی پوری زریں تاریخ سامنے رہنے کے باوجود ایک عالم ربّانی کے ساتھ عقیدت ومحبت کا یہ بَد تر مظاھرہ قابل افسوس مسُلہ ہے کسی بھی مذھبی شخصیت کے ساتھ کوئی منفی عقیدت جوڑدینا سنّی دنیا پر ظلم ھے
حضرت فاضل بریلوی کی دینی وفقہی خدمات سر آنکھوں پر آپکا علم وفضل بسروچشم قبول آپکے جذبہُ تحفظِ سنیت کو سلام آپکی جلالتِ علمی کا انکار آفتا بِ نصف النہار کے انکار کے مترادف مگر اس کلمہُ غیر شرعیہ سے اسے کیا نسبت کیارشتہ کیسی مناسبت؟؟؟ اور دوسری بات یہ کہ اھلسنت میں حضورفاضل ہی کوئی اکلوتے فقیہ ومفتی نہیں ہوےُ ان سے قبل ان سے بڑےبڑے صاحب بصیرت فقھاےُ عظام علماےُ اسلام محدثین کرام پیداہوےُ جنکی کتابوں کی خوشہ چینی نے ہی حضرت والا محترم کو مفتی و فقیہ بنایا مگر ان میں سے کسی کے نام کے ساتھ مسلک کا انتساب نہیں کیا گیا تو پھر آخر ہمارے دور کے بعض علماء کو حضورفاضل بریلوی کے نام کے ساتھ مسلک کے انتساب کی جراءت کہاں سے ملی؟؟
ایک صاحب سے اس بابت گفتگو ہونے لگی تو انھوں نے اس کلمہُ غیر مقبولہ کو اسطرح سے مبرہن کیا کہ چونکہ ذاتِ آعلیٰ حضرت اس دور میں علامت اھلسنت بن چکی ھے اس منا سبت سے ہم مسلک آعلیٰ حضرت کہتے ہیں ھم نے کہا مِرے عزیز!! تمہاری عقل وسوچ پر مجھے بے پناہ افسوس ہے تہمیں اس خداےُ قہَّار وجبَّار کا واسطہ جسکے خوف سے پہا ڑوں کو بھی پسینہ آتا ھے سچ بولنے میں کسی کی رعایت نہ کر نا ایمانداری کیساتھ بتاؤ کہ کیا دور حاضرہ میں آٹھ سوسال گزرنے کے باوجود اھلسنت وجماعت کی جتنی بڑی اور بھاری بھرکم علامت سیدنا سرکار غریب نواز خوآجہ معین الدین چشتی قدس سرہ کی ذات والا صفات کو جانا جاتا ھے کیا اسی طرح حضرت فاضلِ بریلوی کو بھی جانا جاتا ھے؟؟؟ کیا کڑوروں سنّی مسلمان جس انداز فرزانگی کا مظاھرہ آستانہُ غریب سے ظاھر کرتے ھیں کیا یہی حال آستانہُ سرکار فاضل بریلوی کا بھی ھے؟؟؟ میں نے کہا جناب!! جواب باصواب یہی ھے کہ ھزار اشتھار وپرچار کے باوجودآج بھی حضرت فاضل بریلوی کو اس مقبو لیت خداداد کا ایک حصہ بھی نہیں حاصل ہے اور نہ کبھی حاصل ہو سکے گا اوراسی طرح صدہا اولیا ےُ کاملین علماء ربَّانیئین ھیں جنھیں حضور فاضل بریلوی سے کہیں زیادہ شھرت ومرجعیت ومقبولیت نصیب مگر انتساب مسلک انکے ناموں سے بھی نہیں نہ جانے یہ حماقت کس بازار سے خریدی گئی
بھائیو!! کیا سرکار مخدوم سالار غازی
مخدوم سرکار صابر کلیری
مخدوم شرف الدین احمد یحیٰ منیری
مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی
حضور محبوب الھی
خوآجہ قطب الدین بختیار کاکی
حضور سیدی بابا فرید الدین گنج شکر
حضور سیدی سرکار غوث آعظم حضور سیدی سرکار مدار آعظم قدس اللہ اسرارھم سے بڑے خادم دین تھے فاضل بریلوی ؟؟؟ کیا مذکورہ بزرگان دین سے زیادہ خدمتیں ھیں حضور فاضل بریلوی کی؟؟؟ بھائیو!! زیادہ تو دور کی بات ایک حصَّہ بھی نہیں ھیں پھر کیا وجہ ھے کہ آپ اپنے حلقوں میں مسلک آعلیٰ حضرت کا نعرہ تو لگا تے ھو مگر ان بزرگواروں کے مسلک کا نعرہ نہیں لگاتے
ھمیں تو لگتا ھے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ھے ورنہ حضرت امام محمد امام ابی یوسف امام زفر امام طحاوی صاحب قدوری صاحب شرح وقایہ صاحب ھدایہ صاحب کنز الدقائق صاحب بحرالرائق رضی اللہ عنھم جیسے عظیم فقھا ء کے ناموں سے کبھی انتساب مسلک نہیں ھوا صرف حضرت فاضل بریلوی ھی کی شخصیت اس لا ئق ھے کہ انتساب مسلک انکے نام سے کیا جاےُ؟؟؟
ایک صاحب کہنے لگے چونکہ دیوبندی بھی اپنے آپکو کبھی کبھی اھلسنت کہدیتے ھیں اسلئے ان سے امتیاز کے لئے ھمیں مسلک آعلیٰ حضرت کہنا پڑتا ھے
ہم نے کہا بدھّو !! اگر تمہاری دلھن کو کوئی اپنی دلھن کھدے تھارے مکان کو اپنا مکان کھدے تھماری دوکان کو اپنی دوکان کھدے تو کیا کروگے سب اسکے حوالے کرکے اپنے لئے دوسرا انتظام کروگے؟؟؟ یا اسے جوتے مار کر بھگاؤگے؟؟؟ سارے بد عقیدہ فرقے اللہ تعالیٰ کو بھی اپنا معبود کھتے ھیں بولو آپ اپنے لئے کوئی دوسرا خدا تراشو گے؟؟؟ اگر یہی فکر ھے تو پھر آپکو دوسرا نبی دوسرا قرآن بھی تلاش کر نا پڑےگا نمازوں کی تعداد میں بھی کمی بیشی کر نی پڑےگی تمام معمولات زندگی کو درھم برھم کرنے والی فکر کو لات مارو اور ببانگ دھل کہو کہ اھلسنت کی اصطلاح ھماری آبائی اور موروثی اصطلاح ھے یہ اصطلاح ھمیں اپنے اسلاف سے ورثے میں ملی ھے کسی بھی باطل جماعت کا اس اصطلا ح سے کوئی رشتہ نہیں ھے
یہ نہ تو حضورفاضل بریلوی سے بغاوت ھے اور نہ ہی دشمنی حضور فاضل بریلوی کی گونا گوں فضائل وکمالات کا اس اصطلاح جدید یعنی """مسلک آعلیٰ حضرت """ سے کوئی تعلق نہیں ھے بعض لوگ اسے حضرت فاضل بریلوی کے آن بان کا مسُلہ بنارھے ھیں جو سراسر دھوکہ اور فریب ھے البتہ انکی آن بان ضرور داؤ پر لگی ہوئی ہے جو اس اصطلاح جدیدہ کے موجد ہیں بعض حضرات برادران اھلسنت کو فریب دینے کے لئے کہتے ھیں کہ مسلک آعلیٰ حضرت مسلک اہلسنت ہی ہے ایسے لوگوں سے میرا سوال ہے کہ عالی قدر!! آپ اپنی اس جراءتِ بے جا کو عملِ سلف وخلف سے مبرہن کب کروگے؟؟ کیا امام ربَّانی مجدد الف ثانی قدس سرہ النورانی اور دیگر سلف وخلف کے دور کے حامیان اہلسنت بھی آپکی طرح مسلک اھلسنت کو اپنے دور کے اکابر کی طرف منسوب کرکے مسلک فلاں حضرت زندہ باد مسلک فلاں حضرت زندہ باد کا نعرہ لگاتے تھے؟؟ بھائیو!!! خدا کے واسطے ترس کھاؤ سنیت پر
سنیت کو اپنی ضد کی بھیٹ مت چڑھاؤ مشاھدے کی بات ھے کہ آج آپکی اس ضد نے درمیانِ اہلسنت اختلاف وانتشار کا ایک طوفان کھڑا کردیا ھے درمیانِ اھلسنت باضابطہ گروہ بندی کروا رکھا ہے غالباً شہزادہُ ابو البرکات حضرت علامہ سید سبطین حیدر مارہروی مد ظلہ العالی کا لکھا ہوا یہ شعر ہے کہ
مسلک پتہ چلے گا گر کھل کے بات ہو
میں تو علی کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو عرض کرتا ہوں کہ راقم الحروف محمد قیصررضا ضلع فتح پور کے ایک گاؤں کے ایک جلسے میں حاضر ہوا تو ایک عالم ہلسنت جو نظامت فرما رہے تھے انھوں نے جب میری تقریر کا اعلان کیا تو یہ شعر پڑھا کہ
مسلک کی بات ہے تو یہ صاف بات ہے
میں تو رضا کے ساتھ ہوں تو کس کے ساتھ ہے
بتائیے صاحب! یہ ہورہا ہے آجکل پہاڑ جیسی بلند وبالا فکر کا جواب خدمتِ سنیت کے زعم میں رائی جیسی فاسد فکر کیساتھ ھمارے علماء دے رہے ہیں مشاھدہ ھےکہ کچھ ضدی قسم کے لوگ اپنی حماقتوں کے بل بو تے یہ کہتے نظر آتے ھیں کہ مسلک آعلیٰ حضرت سنّیوں کی پہچان ھے ایسے حضرات جوشِ عقیدت میں یہ حقیقت کیونکر بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے پچّاس سے زیادہ ممالک ایسے ھیں جھاں برادرانِ اھلسنت بفضلِ مولیٰ تعالیٰ موجود ھیں اور ان میں سے چندممالک کو چھوڑ کر اکثر ممالک کے سنّی مسلمان حضور فاضلِ بریلوی کو ہی نہیں جانتے اب بتائیے کہ اس صورتِ حال میں ان تمام ممالک کے حامیانِ اھلسنت کی پہچان کس ٹائٹل اور لیبل سے کی جاےُ؟؟؟ احبابِ کرام بھی خوب مزے کے ھیں طرح طرح کے حیلے بھانے پیش کرکے اس جملے کو شرعی لبا س پہنانے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگاےُ ہوےُ ھیں ایک مرتبہ بہرائچ شریف کے ایک سفر کے دور ان کچھ علماء اھلسنت ٹرین میں اسی موضوع پر باھم تبادلہُ خیال فرما رہے تھے ایک صاحب نے کہا کہ جناب!! اب تو ایک بڑی دقت درپیش ھوگئی اور وہ یہ کہ سنّی دعوتِ اسلامی اور دعوتِ اسلامی اور علماء اشرفیہ مبارکپور بھی مسلک آعلیٰ حضرت کے قائل تھے لیکن بریلی شریف سے ان حضرات پر بھی صلحکلیت وگمرہیت کے فتوے لگ گئے لھذا اب تو خاص ٹناٹن اھلسنت کی پہچان کے لئے مسلک آعلیٰ حضرت والی اصطلاح بھی نا کا فی ہوگئ پاسبانانِ اھلسنت آناً فاناً اب کسی دوسرے شناختی کارڈ کا انتظام فرمائیں تقریباً تین سال قبل میں نے اجمیر شریف کلیر شریف رودولی شریف جھونسی شریف خانقاہ صابریہ پتیسر شریف کچھوچھہ شریف بدایوں شریف خانقاہ فردوسیہ منیر شریف خانقاہ ابوالعلائیہ میتن گھاٹ شریف اہلسنت کا قدیمی دارالافتاء فرنگی محل جامعہ نظامیہ حیدر آباد دائرہ شاہ اجمل الہ آباد خانقاہ قادریہ سنگم نیر وغیرہ سے اس اصطلاح جدیدہ کے بابت رابطہ کیا تھا چنانچہ ان تمام مقامات کے قائدین اھلسنت نے یہ جواب دیا تھا کہ مسلک آعلیٰ حضرت کہنے کی کوئی شرعی ضرورت نہیں ھے اور نہ ہی اس کا استعمال درست ھے آج بھی ھمارے پاس کچھ حضرات کی تحریریں موجود ھیں ھمارا ماننا تو یہ ھے کہ بلا تفریق سب اھلسنت ھمارے ہیں ""صرف"" والا نظریہ ہی اختلاف وانتشار کا جنم داتا ھے
اللہ پاک ھم سب کو دین کی سمجھ عطا فرماےُ آمین
💡💡💡💡💡💡 ولی عہد خانقاہ مداریہ سید ظفر مجیب مداری مکنپوری
Www.qutbulmadar.org
دور حاضر کی نئی اصطلاح ""مسلک آعلیٰ حضرت ""کے استعمال پر ایک فکر انگیز تحریر جسے سنجیدگی کیساتھ پڑھنا اھلسنت کے تمام خواص وعوام پر لازم ھے آپ نے اگر ٹھنڈے دل سے پڑھا تو آپ سمجھ جا ئینگے کہ یہ نئی اصطلاح چند غیر مخلص اور ضدی مزاج علماء ء کے ذھن کی پیدا وار ھے حضور فاضلِ بریلوی کا اس اصطلاح سے کوئی تعلق نہیں ھے
وہ تو اپنے بزرگوں کی قائم کی ہوئی یادگاروں کی حفاظت کےلئے تا عمر ساری قوت داؤ پر لگاےُ رہے
🔦🔦🔦🔦🔦🔦🔦
محبان محترم احبابِ اھلسنت!! یہ بات کون نہیں جانتا کہ حضور ختمی مرتبت سیدنا محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور آپکے نائبین نے تمام فرقہاےُ باطلہ کے درمیان بحیثیت گروہِ ناجیہ اھلسنت وجماعت کو ممتاز فرمایا اور خیر القرون سے لیکر آج تک تمامی اھل اللہ اسی جماعتِ حقّہ کی ایک کڑی بن کر رھے اور تمام اولیاء کاملین وعلماء ربَّا نیئین اپنے اپنے ادوار میں حتّٰی المقدور ا سی جماعت حقہ کے عقائد و معمولات کی حفاظت واشاعت کے لئے سر بہ کفن نظر آےُ تاریخ شاھد ہے کہ فقھاء کرام و مجتھد ین عظام کے دور میں جب مذاھب ومسالک کی شیرازہ بندی ہوئی تو اھلسنت وجماعت کے چار مذھب ومسلک وجود میں آےُ جنھیں چار عظیم المرتبت مجتھدینِ کرام کے ناموں سے تشھیر وتوسیع حاصل ہوئی بعدہ اکا برین اھلسنت نے یہ فیصلہ لکھا کہ وھذہ الطائفتہ الناجیتہ قد اجتمعت ِ الیومَ فی مذاھبِ اربعة وھم الحنفیون والمالکیون والشا فعیون والحنبلیون رحمھم اللہ تعالیٰ ومن کان خارجاً عن ھذہ الاربعة فی ھذا الزَّ مان فھوَ من اھلِ البد عة والنَّار یعنی گروہ ناجیہ اب چار مذھب ومسلک میں منحصر ھوچکا ھے اور وہ حنفی مالکی شافعی حنبلی ھیں ان میں سے اگر کوئی خارج ہو جاےُ تو وہ بدعتی اور جہنمی ھے پوری دیانت داری کیساتھ عرض ھے کہ اسوقت سے لیکر آج تک تقریباً بارہ سو سالہ تاریخ اسلام میں اھلِ حق صرف اھل سنت وجماعت کے نام سے تمام گمراہ جماعتوں کے درمیان ممتاز ومنفرد رھے فرقہاےُ باطلہ کی کمی نہ تو کل تھی اور نہ آج ہے صرف اپنے آپکو ہی متّبعِ رسول واصحاب رسول کہنے والی باطل جماعتیں ہر دور میں موجود رہیں اور انکا قلعہ قمع کر نے والے افراد بھی ایک سے بڑھ کر ایک آتے رہے مگر بزرگوں کا دیا ہوا یہ موروثی نشان کبھی بھی تبدیل وتحریف کا شکار نہیں ہوا ہمارے کسی بھی بزرگ نے اسکا متبادل جملہ ایجاد کرنے کی جسارت نہیں کی باختلاف روایت شروع سے لیکر آج تک انتیس یا ساٹھ سے زیادہ مجددین پیدا ہوےُ مگر پوری تاریخ مجددیت کی چھان بین کرنے کے بعد بھی یہ کہیں نہیں ملتا کہ کسی مجدد کے پیرو کاروں نے مسلک اھلسنت کو چھوڑ کر مسلک فلاں مسلک فلاں کی کوئی اصطلاح رائج کی ہو سبھوں نے صرف اھلسنت پر ہی اکتفاء کیا اور اسی کو کافی وافی جانا مگر ہاےُ رے جماعت کی حرما ں نصیبی اس دور کے اھل سنت کے لئے اب نبوی اصطلاح ناقص ہوگئی اور اب اھل حق کے امتیاز کے لئے ""مسلک آعلیٰ حضرت "" ایک نئے نام کا اختراع کیا جانے لگا اور ا پنی ضد وھٹ کے پیش نظر اسی جملہُ غیر شرعیہ کو اھل حق کی پہچان بتایا جانے لگا ھے اور اس پر جراءت بیجا یہ کہ اگر کوئی اس جدید لیبل کا انکاری ہوجاےُ تو بیک جنبش زبان وقلم جماعت حقّہ سے خارج اب خانہُ اھل حق میں اسکے لئے پیر رکھنے کی بھی جگہ نہیں الآمان الآمان محبَّانِ اھلسنت!! یہ دہشت گردانہ اور آتنکی ماحول ہمارے ان احباب کا مرہون منت ہے جو اپنے آپکو ناشرِ اھلسنت تر جمانِ حنفیت فقیہ سنیت حضور فاضلِ بریلوی کا شیدائی اور وفادار گردانتے ہیں اسلام وسنیت کی پوری زریں تاریخ سامنے رہنے کے باوجود ایک عالم ربّانی کے ساتھ عقیدت ومحبت کا یہ بَد تر مظاھرہ قابل افسوس مسُلہ ہے کسی بھی مذھبی شخصیت کے ساتھ کوئی منفی عقیدت جوڑدینا سنّی دنیا پر ظلم ھے
حضرت فاضل بریلوی کی دینی وفقہی خدمات سر آنکھوں پر آپکا علم وفضل بسروچشم قبول آپکے جذبہُ تحفظِ سنیت کو سلام آپکی جلالتِ علمی کا انکار آفتا بِ نصف النہار کے انکار کے مترادف مگر اس کلمہُ غیر شرعیہ سے اسے کیا نسبت کیارشتہ کیسی مناسبت؟؟؟ اور دوسری بات یہ کہ اھلسنت میں حضورفاضل ہی کوئی اکلوتے فقیہ ومفتی نہیں ہوےُ ان سے قبل ان سے بڑےبڑے صاحب بصیرت فقھاےُ عظام علماےُ اسلام محدثین کرام پیداہوےُ جنکی کتابوں کی خوشہ چینی نے ہی حضرت والا محترم کو مفتی و فقیہ بنایا مگر ان میں سے کسی کے نام کے ساتھ مسلک کا انتساب نہیں کیا گیا تو پھر آخر ہمارے دور کے بعض علماء کو حضورفاضل بریلوی کے نام کے ساتھ مسلک کے انتساب کی جراءت کہاں سے ملی؟؟
ایک صاحب سے اس بابت گفتگو ہونے لگی تو انھوں نے اس کلمہُ غیر مقبولہ کو اسطرح سے مبرہن کیا کہ چونکہ ذاتِ آعلیٰ حضرت اس دور میں علامت اھلسنت بن چکی ھے اس منا سبت سے ہم مسلک آعلیٰ حضرت کہتے ہیں ھم نے کہا مِرے عزیز!! تمہاری عقل وسوچ پر مجھے بے پناہ افسوس ہے تہمیں اس خداےُ قہَّار وجبَّار کا واسطہ جسکے خوف سے پہا ڑوں کو بھی پسینہ آتا ھے سچ بولنے میں کسی کی رعایت نہ کر نا ایمانداری کیساتھ بتاؤ کہ کیا دور حاضرہ میں آٹھ سوسال گزرنے کے باوجود اھلسنت وجماعت کی جتنی بڑی اور بھاری بھرکم علامت سیدنا سرکار غریب نواز خوآجہ معین الدین چشتی قدس سرہ کی ذات والا صفات کو جانا جاتا ھے کیا اسی طرح حضرت فاضلِ بریلوی کو بھی جانا جاتا ھے؟؟؟ کیا کڑوروں سنّی مسلمان جس انداز فرزانگی کا مظاھرہ آستانہُ غریب سے ظاھر کرتے ھیں کیا یہی حال آستانہُ سرکار فاضل بریلوی کا بھی ھے؟؟؟ میں نے کہا جناب!! جواب باصواب یہی ھے کہ ھزار اشتھار وپرچار کے باوجودآج بھی حضرت فاضل بریلوی کو اس مقبو لیت خداداد کا ایک حصہ بھی نہیں حاصل ہے اور نہ کبھی حاصل ہو سکے گا اوراسی طرح صدہا اولیا ےُ کاملین علماء ربَّانیئین ھیں جنھیں حضور فاضل بریلوی سے کہیں زیادہ شھرت ومرجعیت ومقبولیت نصیب مگر انتساب مسلک انکے ناموں سے بھی نہیں نہ جانے یہ حماقت کس بازار سے خریدی گئی
بھائیو!! کیا سرکار مخدوم سالار غازی
مخدوم سرکار صابر کلیری
مخدوم شرف الدین احمد یحیٰ منیری
مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی
حضور محبوب الھی
خوآجہ قطب الدین بختیار کاکی
حضور سیدی بابا فرید الدین گنج شکر
حضور سیدی سرکار غوث آعظم حضور سیدی سرکار مدار آعظم قدس اللہ اسرارھم سے بڑے خادم دین تھے فاضل بریلوی ؟؟؟ کیا مذکورہ بزرگان دین سے زیادہ خدمتیں ھیں حضور فاضل بریلوی کی؟؟؟ بھائیو!! زیادہ تو دور کی بات ایک حصَّہ بھی نہیں ھیں پھر کیا وجہ ھے کہ آپ اپنے حلقوں میں مسلک آعلیٰ حضرت کا نعرہ تو لگا تے ھو مگر ان بزرگواروں کے مسلک کا نعرہ نہیں لگاتے
ھمیں تو لگتا ھے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ھے ورنہ حضرت امام محمد امام ابی یوسف امام زفر امام طحاوی صاحب قدوری صاحب شرح وقایہ صاحب ھدایہ صاحب کنز الدقائق صاحب بحرالرائق رضی اللہ عنھم جیسے عظیم فقھا ء کے ناموں سے کبھی انتساب مسلک نہیں ھوا صرف حضرت فاضل بریلوی ھی کی شخصیت اس لا ئق ھے کہ انتساب مسلک انکے نام سے کیا جاےُ؟؟؟
ایک صاحب کہنے لگے چونکہ دیوبندی بھی اپنے آپکو کبھی کبھی اھلسنت کہدیتے ھیں اسلئے ان سے امتیاز کے لئے ھمیں مسلک آعلیٰ حضرت کہنا پڑتا ھے
ہم نے کہا بدھّو !! اگر تمہاری دلھن کو کوئی اپنی دلھن کھدے تھارے مکان کو اپنا مکان کھدے تھماری دوکان کو اپنی دوکان کھدے تو کیا کروگے سب اسکے حوالے کرکے اپنے لئے دوسرا انتظام کروگے؟؟؟ یا اسے جوتے مار کر بھگاؤگے؟؟؟ سارے بد عقیدہ فرقے اللہ تعالیٰ کو بھی اپنا معبود کھتے ھیں بولو آپ اپنے لئے کوئی دوسرا خدا تراشو گے؟؟؟ اگر یہی فکر ھے تو پھر آپکو دوسرا نبی دوسرا قرآن بھی تلاش کر نا پڑےگا نمازوں کی تعداد میں بھی کمی بیشی کر نی پڑےگی تمام معمولات زندگی کو درھم برھم کرنے والی فکر کو لات مارو اور ببانگ دھل کہو کہ اھلسنت کی اصطلاح ھماری آبائی اور موروثی اصطلاح ھے یہ اصطلاح ھمیں اپنے اسلاف سے ورثے میں ملی ھے کسی بھی باطل جماعت کا اس اصطلا ح سے کوئی رشتہ نہیں ھے
یہ نہ تو حضورفاضل بریلوی سے بغاوت ھے اور نہ ہی دشمنی حضور فاضل بریلوی کی گونا گوں فضائل وکمالات کا اس اصطلاح جدید یعنی """مسلک آعلیٰ حضرت """ سے کوئی تعلق نہیں ھے بعض لوگ اسے حضرت فاضل بریلوی کے آن بان کا مسُلہ بنارھے ھیں جو سراسر دھوکہ اور فریب ھے البتہ انکی آن بان ضرور داؤ پر لگی ہوئی ہے جو اس اصطلاح جدیدہ کے موجد ہیں بعض حضرات برادران اھلسنت کو فریب دینے کے لئے کہتے ھیں کہ مسلک آعلیٰ حضرت مسلک اہلسنت ہی ہے ایسے لوگوں سے میرا سوال ہے کہ عالی قدر!! آپ اپنی اس جراءتِ بے جا کو عملِ سلف وخلف سے مبرہن کب کروگے؟؟ کیا امام ربَّانی مجدد الف ثانی قدس سرہ النورانی اور دیگر سلف وخلف کے دور کے حامیان اہلسنت بھی آپکی طرح مسلک اھلسنت کو اپنے دور کے اکابر کی طرف منسوب کرکے مسلک فلاں حضرت زندہ باد مسلک فلاں حضرت زندہ باد کا نعرہ لگاتے تھے؟؟ بھائیو!!! خدا کے واسطے ترس کھاؤ سنیت پر
سنیت کو اپنی ضد کی بھیٹ مت چڑھاؤ مشاھدے کی بات ھے کہ آج آپکی اس ضد نے درمیانِ اہلسنت اختلاف وانتشار کا ایک طوفان کھڑا کردیا ھے درمیانِ اھلسنت باضابطہ گروہ بندی کروا رکھا ہے غالباً شہزادہُ ابو البرکات حضرت علامہ سید سبطین حیدر مارہروی مد ظلہ العالی کا لکھا ہوا یہ شعر ہے کہ
مسلک پتہ چلے گا گر کھل کے بات ہو
میں تو علی کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو عرض کرتا ہوں کہ راقم الحروف محمد قیصررضا ضلع فتح پور کے ایک گاؤں کے ایک جلسے میں حاضر ہوا تو ایک عالم ہلسنت جو نظامت فرما رہے تھے انھوں نے جب میری تقریر کا اعلان کیا تو یہ شعر پڑھا کہ
مسلک کی بات ہے تو یہ صاف بات ہے
میں تو رضا کے ساتھ ہوں تو کس کے ساتھ ہے
بتائیے صاحب! یہ ہورہا ہے آجکل پہاڑ جیسی بلند وبالا فکر کا جواب خدمتِ سنیت کے زعم میں رائی جیسی فاسد فکر کیساتھ ھمارے علماء دے رہے ہیں مشاھدہ ھےکہ کچھ ضدی قسم کے لوگ اپنی حماقتوں کے بل بو تے یہ کہتے نظر آتے ھیں کہ مسلک آعلیٰ حضرت سنّیوں کی پہچان ھے ایسے حضرات جوشِ عقیدت میں یہ حقیقت کیونکر بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے پچّاس سے زیادہ ممالک ایسے ھیں جھاں برادرانِ اھلسنت بفضلِ مولیٰ تعالیٰ موجود ھیں اور ان میں سے چندممالک کو چھوڑ کر اکثر ممالک کے سنّی مسلمان حضور فاضلِ بریلوی کو ہی نہیں جانتے اب بتائیے کہ اس صورتِ حال میں ان تمام ممالک کے حامیانِ اھلسنت کی پہچان کس ٹائٹل اور لیبل سے کی جاےُ؟؟؟ احبابِ کرام بھی خوب مزے کے ھیں طرح طرح کے حیلے بھانے پیش کرکے اس جملے کو شرعی لبا س پہنانے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگاےُ ہوےُ ھیں ایک مرتبہ بہرائچ شریف کے ایک سفر کے دور ان کچھ علماء اھلسنت ٹرین میں اسی موضوع پر باھم تبادلہُ خیال فرما رہے تھے ایک صاحب نے کہا کہ جناب!! اب تو ایک بڑی دقت درپیش ھوگئی اور وہ یہ کہ سنّی دعوتِ اسلامی اور دعوتِ اسلامی اور علماء اشرفیہ مبارکپور بھی مسلک آعلیٰ حضرت کے قائل تھے لیکن بریلی شریف سے ان حضرات پر بھی صلحکلیت وگمرہیت کے فتوے لگ گئے لھذا اب تو خاص ٹناٹن اھلسنت کی پہچان کے لئے مسلک آعلیٰ حضرت والی اصطلاح بھی نا کا فی ہوگئ پاسبانانِ اھلسنت آناً فاناً اب کسی دوسرے شناختی کارڈ کا انتظام فرمائیں تقریباً تین سال قبل میں نے اجمیر شریف کلیر شریف رودولی شریف جھونسی شریف خانقاہ صابریہ پتیسر شریف کچھوچھہ شریف بدایوں شریف خانقاہ فردوسیہ منیر شریف خانقاہ ابوالعلائیہ میتن گھاٹ شریف اہلسنت کا قدیمی دارالافتاء فرنگی محل جامعہ نظامیہ حیدر آباد دائرہ شاہ اجمل الہ آباد خانقاہ قادریہ سنگم نیر وغیرہ سے اس اصطلاح جدیدہ کے بابت رابطہ کیا تھا چنانچہ ان تمام مقامات کے قائدین اھلسنت نے یہ جواب دیا تھا کہ مسلک آعلیٰ حضرت کہنے کی کوئی شرعی ضرورت نہیں ھے اور نہ ہی اس کا استعمال درست ھے آج بھی ھمارے پاس کچھ حضرات کی تحریریں موجود ھیں ھمارا ماننا تو یہ ھے کہ بلا تفریق سب اھلسنت ھمارے ہیں ""صرف"" والا نظریہ ہی اختلاف وانتشار کا جنم داتا ھے
اللہ پاک ھم سب کو دین کی سمجھ عطا فرماےُ آمین
💡💡💡💡💡💡 ولی عہد خانقاہ مداریہ سید ظفر مجیب مداری مکنپوری
Www.qutbulmadar.org