🌹مختصر سوانح حیات 🌹
قطب الاقطاب
حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون
جانشین قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ
ازقلم
سید ازبر علی شکوہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبط انوار
قصبہ چنار
گھنے اور بلند قامت درختوں کے سائے میں آباد
جنت نشاں ایک چھوٹا سا قصبہ-،،چنار ،،
اتنا دلکش اور خوبصورت جیسے صناع عالم نے تمام تر رعنائیوں کی مہر تصدیق اسکے صفحئہ مقدر پر ثبت کردی ہوں
قصبئہ چنار کے دامن میں تاروں کی بارات ،
مانگ میں کہکشاں کا سندور ،گھنیرے درختوں کے سائے زلف واللیل کا صدقہ
پھولوں کی شباہت ورنگت
اللہ اللہ..
باغ مدینہ کی بھینی بھینی مہک نے جہاں کے خاروں پر عطر بیزی کا کام کیا ہو
ہر طرف رونق و خوبصورتی ہے ویسے بھی ماہ نور کی آمد آمد کا ڈنکا اہل ایمان کی بستیوں میں بج رھا تھا جس کی دھمک سے کفر والحاد کے بلند و بالا قلعوں کی فصیلیں درہ کھا گئیں تھیں عکس مدینہ سے تابندہ تر منور ومجلی
سپیدئہ سحر درخشاں درخشاں
قصبہ چنارمیں آج اتنی رونق تھی
جیسے اہل حق کی بستیوں میں رمضان المبارک کی آمد آمدپر چہل پہل اور خوشیوں کی لہر ہوتی ہے
ماہ صفر کی الوداع تھی مطلع افلاک مطلع انوار بن چکا تھا
جس پر ماہ ربیع الاول کے چاند کی نمود نے اھل ایمان کو تصورات میں زیارت مدینہ کراکے چہر وں پر تازگی کے آثار ،
آنکھوں کو نور دلوں کو سرور بخشا
خاصان خدا کی جماعتوں میں اتنا طرب ،
.اتنی شادمانی
..اتنی مسرتیں تھیں جس سے بزم ولایت میں نیرنگیاں جھلک رہی تھیں .
حسب معمول امام الاصفیا ء ،
خاصہ کبریاء سید الطائفئہ اہل تقا
قطب الاقطاب حضرت سید عبداللہ دلبند زھرا نے نماز عشا ادا فرمائ اور مصلے پر معمولات میں مشغول ہوگئے
ساری رات اتنی رونق رہی اور اس رات کا صدقہ بٹتا رہا جب
ستارے انجمن در انجمن اتر کر
کاشانئہ عبداللہ پر بوس کناں تھے
اور کچھ واپس ہورہے تھے
پوری رات ستاروں کا جس رات آواگون جاری رہا ہو
اس آمنہ کے لخت جگر کی آمد والی رات کا صدقہ لٹ رہا تھا
حضرت عبداللہ نے نماز تہجد ادا فرمائ
کسی نے آواز دی عبداللہ اپنے نصیبہ کی ارجمندی پر ناز کرو یہ آواز تین بار آئ پھر موذن نےاللہ اکبر کی صداؤں سے فجار کی دیوارں پر شگاف ڈالدئیے
ادھر موذن نے تکبیر کے کلمات ادا کئے
ادھر ایک ایسی ذات آئ
جس نے قلوب کی کرسیوں پر قبضہ کیا
ایسی ذات آئ جو رونق بزم جہاں بنی
ایسی ذات آئ جو رونق بزم اہل وفا بنی
ایسا تالی قرآن آیا جس کی تلاوت سےگردش ایام ٹھہرجاتے تھے
یعنی مقتداے اولیاء ،خاصہ کبریاء ،
پیشوائے اصفیا شاہ باز آسمان ولایت و کرامات
شہسوار میدان سخاوت وقناعت ہادی شریعت ساقی جام طریقت معلم رازحقیقت واقف اسرار حقیقت
غواص بحر معرفت
مورد فیوض الٰہی
پیکر اخلاق مصطفی
ٰ وارث اوصاف مرتضیٰ قدوۃالکاملین
عمدد ۃالعارفین رہبر
دین قبلہ اہل یقین
قطب العصر غوث الدھر سلطان العارفین خواجئہ خواجگان حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون جعفری مداری حلبی جانشین مدارالعالمین نے قدوم ناز جب آغوش مادر میں پسارے تو دنیا کے تمام عیش وطرب انکے در پر کھڑے خیرات مانگنے لگے
🌱تاریخ پیدائش 🌱
یکم ربیع الاول بروز جمعہ بوقت صبح صادق ہجری 783میں
خاندان فاطمی میں قاضی سید علی حلبی کی نسل میں ایک پھول کھلا جس سے مشام کائنات معطر ہوگئ
والد گرامئ مرتبت نے سخاوت کے دہانے کھول دئے سات دن تک خوشیوں کی ہماہمی رہی
عالم تصوف میں صوفی وجد کناں تھے
نام نامی اسم گرامی
،،محمد،،
لقب
،،ارغون ،،
.کنیت
،،ابو محمد ،،
. مولد
قصبہ،،
چنار،،
شہر حلب ملک شام
نسباً
سادات فاطمی حسنی حسینی جعفری
www.qutbulmadar.org
مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے
تو دل کی جو عمیق وادیوں سے قطب المدار کی زیارت کے سوتے پھوٹ رہے تھے انکے پریشر میں اچانک قرار آیا اب نہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ کسی کو بتانے کا ولولہ عشق عاشق و معشوق کی طرف خود ملتفت ہوگیا
بچے باپ کو تلاش کرہی لیتے ہیں
دیکھا کعبہ میں ،،کعبہ مثال ،،
جو تجلیاں کعبہ پر انہیں تجلیوں کا محبط انہیں انواروتجلیات کا مرکز فصیل کعبہ کے سائے میں رونق افزائش حرم بنا ہے
بچے بےتابانہ بڑھے تو مدارالعالمین نے بچوں کو چمٹالیا تینوں پر اسرار الٰہی کے پردہ منکشف ہوتے چلے گئے
وہ مل گیا جسکی تلاش تھی اسےچ پالیا جو آرزو تھا
وہ حاصل ہوا جو مقصد تھا
حضرت مدارلعالمین نے کمال شفقت سے بچوں پر دست مقدس رکھا فرمایا تم سب کامیاب ہوگئے
چاروفرزندگان اسلام کو بیعت کیا اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا یہیں سے اصل زندگی کا موڑ آجاتا ہے
تمام زندگی خدمت کرنے کا جذبہ بیدار ہوگیا
ایام حج کے بعد گنبد خضریٰ کے حسین سائے میں لطف زندگی پانے لگے سنہری جالیوں سے چھن چھن کر آنے والے آبشارو انوار سینہ پر انوار پر اس درجہ منعکس تھے جیسے شیشہ پر سورج کا عکس ہو
حضوری ہوئ سرکار ابد قرار شافع روز شمار صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں بدیع الدین ہندوستان جاؤ
یہ سنا پھر دل مچل گیا
عرض کیا حضور
حکم سر آنکھوں پر
(ہندوستان سے یہ آپ کا آخری حج تھا)
ہندوستان سے پہلے اپنے وطن عزیز کی طرف چلدیئے
جب آپ قصبہ چنار میں داخل ہوئے
تو اہل قصبہ نے زبردست خیر مقدم کیا
تینوں صاحبزادے سلوک کے منازل طئے کرنے لگے
اچانک ایک دن قطب المدار یوں لب کشاہوئے
کل میں یہاں سے ہندوستان جاونگا
بڑے بیٹے سید ابومحمدمحمد ارغون تقریباً تیرہ چودہ سال کے تھے دوسرےصاحب زادے دس گیارہ سال کے تھے تیسرے صاحب زادے جبکہ سات آٹھ سال کے تھے
جیسے تیسے اتناوقت گزرااور
لمحئہ شام سامنے آیا
اپنا انجام سامنے آیا
رات سخت تاریک تھی اتنا سناٹا کہ ایک دوسرے کی دھڑکنیں صاف سنائ دے رہی تھیں سنسان ویران دنیا نیند کی آغوش میں مزے لے رہی تھی ایک ماں تھی جو دل تھامے بیٹھی تھی ایک مامتا تڑپ رہی تھی ایک کلیجہ پھٹ رہا تھا ایک دل بیٹھ رھاتھا
ماں اٹھ کے دیکھتی رہی چہرہ تمام رات
ماں تھپکی دے کر سلارہی تھی آنسوؤں کےقطروں تلے بارش تلے بچے سو رہے تھے
جبکہ ماں محبت و شفقت کی اس آخری رات میں اس درجہ پالن کررہی تھی کہ کوئ قطرئہ اشک تینوں بچوں کے رخسار پر نہ پڑا
ماں کبھی بچوں کی طرف دیکھتی کبھی آسمان پر طلوع فجر کے آثار تلاش کرتی رہی ادھر رات بھر بے چین باپ نے اپنی جبیں سے عرق انفعال کے قطرے پونچھ کر نماز تہجد کیلے کھڑے ہوگئے ماں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا بچوں اٹھو تہجد پڑھ لو
بچے ایکدم اٹھ بیٹھے ماں کو اداس دیکھا کچھ محسوس کیا لیکن بچے نماز میں مشغول ہوگئے
ماں نے کپڑے تیار کئے بچوں کو نہلایا کپڑے پہنائے تیار کیا پیشانی پر بوسہ دیا آج تاریخ اپنے آپکو دھرارہی تھی
جناب بی بی ہاجرہ نے اپنی اکلوتی اولاد کو قربان گاہ کیلے سجایا تھا سیدہ زینب نے اپنے بچوں کو کربل کے میدان کیلئے سنوارہ تھا آج کنیز زینب و ہاجرہ اپنے بچوں کو تبلیغ کیلئے رخصت کر رہی ہے
قربان جاؤ اس پتھر دل شھزادی پر جس نے اسلام کی خاطر بچوں کی جدائ کا صدمہ برداشت کرلیا
اصل معاملہ یہ ہے کہ جب مدارالعالمین قصبہ چنار میں تشریف لائے تھے آپ نے بچوں کے والد سے فرمایا میں تینوں صاحبزادوں کو اپنے ساتھ ملک ہندوستاں لے جاؤنگا جبھی سے والدین اداس غمگین پریشان رہتے تھے مگر جنبش لب کو یارانہ نہ تھا
جب بیٹے حضور مدارالعالمین کے ساتھ چلے تو والدین کے ضبط وشکیب کا بند ٹوٹ گیا زندگی بھر کی کمائ ماں باپ سے جدا ہورہی تھی ماں دروازہ تک چھوڑنے آئ دوپٹہ کے پلو سے آنسو پونچھ رہی تھی
پردہ کی اوٹ سے جھانک جھانک کر دیکھنے والا منظر کلیجہ پھاڑ رہاتھا
بچے مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتےرہے
گزشتہ سے پیوستہ
مختصر سوانح حیات
قطب الاقطاب خواجہ سید ابو محمد ارغون جانشین اول حضور مدارالعالمین
حضور مدارالعالمین تینوں شہزادوں کو ساتھ لیکر عازم سفر ہوئے
سفر کی ساری مصیبتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا ہندوستان کے مختلف مقامات کا دورہ فرماتے ہوئے آپ لکھنؤ پہونچے اور مخلوق خداکو مستفیض فرمایا
جب آپ لکھنؤ سے جونپور جانے لگے تو خلقت نے بہ عاجزی عرض کیا حضور آپ کی عنایات ہمارے لئے باعث قرار تھیں تڑپتے ہم تھے
سکون آپ دیتے تھے ہماری بے چینیوں کو
چین آپ نے دیا
نہ جانے شدت غم سے یہ کب کا چور ہوجاتا
آپ چلے جائینگے ہم بے سہارا ہو جائینگے ہم رؤنیگے آنسو کون پونچھے گا ہم گرینگےکون اٹھائیگا کون ہما ری آرزؤنکو بر لائے گا کس کا تبسم تسکین مرہم ہوگا
کس کی دعا مرادوں کی گرہیں کھولے گی کس کا دست شفا امراض کیلے مکمل شفا ہوگا
قطب المدار نے ارشاد فرمایا مین نے اس شہر کیلے شاہ مینا کو قطب منتخب کر دیا تم جاکے اپنا مدعا ان کو سنانا
آپ نے قاضی شہاب الدین دولت آبادی کو اپنا مصلی عنایت فرمایا اور فرمایا جاؤ شاہ مینا سےکہنا اہلیان مصر کےحق میں دعا کرو
حضرت قاضی شہاب الدین نے جاکر مصلی عنایت کیا حضرت شاہ مینا رحمۃ اللہ علیہ نے مصلی سر پر رکھا
اور
دعا کی
اے اللہ صاحب مصلی کے صدقے میں مخلوق کی حاجت روائ فرما
اللہ نے صاحب مصلٰی کے صدقےمیں میں ولایت عطاکردی
ادہر شاہزادوں کو لیکر حضور مدارالعالمین جونپور تشریف لے گئے
بادشاہ جونپور ابراہیم شرقی نے استقبال میں آنکھیں بچھادیں بھی یہاں بھی بکثرت خلق رجوعات نظر آئیں آپ نے یہاں بادشاہ ابرہیم شرقی پر
رعایا پر
ارکان دولت پر
بادشاہ کے حاشیہ برداروں پر خوب خوب عنایات نوازشات فرمائیں پھر آپ
مکن پور شریف جو اس وقت غیر آباد تھا کی طرف تشریف
لے گئے
کس قدر با وقار ہیں ارغون
جانشین مدار ہیں ارغون
سر بہ خم ہو کے آ یہاں شہرت
وقت کے تاجدار ہیں ارغون
گزشتہ ..سے پیوست
قطب الاقطاب خواجہ سید ابو محمد ارغون
جانشین اول مدارالعالمین رضی اللہ عنہ
حضور شہنشاہ اولیاءکبار قطب المدار مدارالعالمین حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار بحکم نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم مکن پور میں تشریف لائے جاں سے پیارے تینوں شہزادے ہمراہ تھے
مکن پور کا ایک تعرف
مکنپور شریف میں ابھی حضور قدم رنجہ نہیں ہیں ایک بیا بان گھنیرا جنگل دور دور تک رونق و خوبصورتی نام کی کوئ چیز نہ تھی چاندنی کے دو دھیا خزانے اترتے اترتے مٹیار جیسے ہو جاتے تھے پھولوں کا وجود بڑی بات تصور بھی ناممکن کانٹوں کا فرش چیڑنے پھاڑنے کیلئے تیار پتے کھڑتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کوئ تعاقب میں ہے وحشت اور خوف کا پیرہ تھا ایک تالاب مدتوں سے حضور مدارالعالمین کیلئے کے استقبال میں آنکھیں بچھائے بیٹھا تھا
مدت مدیدہ سے منتظر تھا
اچانک مرادوں کی گرہیں کھل گئیں وہ آیا جس کا انتظار تھا
حضور مدارلعالمین نے قدم ناز جمائے رحمتوں کا نزول ہونے لگا بہاروں کی آمد ہوئ بلبل چہچانے لگی چڑیوں نے گلوں کی شاخوں پر جھولے ڈالے چاندنی چھٹکی رونقیں اتریں حضور مدارالعالمین ہجری 818 میں مکن پور شریف میں رونق پذیر ہوئے تینوں شہزادوں کو اس سرزمین پر مستقل آباد ہونے کی وصیت کی
حضرت سید ابو محمد ارغون کا عقد مسنونہ
........... ......................
روز وشب اپنی گردش پر تھے حضور مدارلعالمین نے خلفا سے تذکرۃًفرمایا میں چاہتا ہوں کہ محمد ارغونکا نکاح کردیا جائے تاکہ خاندان رسالت کایہا ں نام و نشان باقی رہے
سرکار کے مقدس کلمات سن کر خلفاءکرام کی پاک جماعت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی
کسی نے یہ مژدہ جانفزا حضرت ارغون کو سنادیا ابو محمد ارغون فرمایا جب نکاح میرے آقا نے نہیں کیا تو ........
حضور مدارلعالمین کو بتایا گیا کی محمد ارغون انکار کر رہے ہیں
سرکار مدارلعالمین نے ابو محمد ارغون کو طلب کیا اور فرمایا
تمہیں نکاح کرناہے
اب کہاں تاب جو منع کرتے اب کہا ں ہمت جنبش لب جو ہلاتے ♡.♡وجود لرز گیا ناچار سر جھکاکر لوٹے
محسن ہندوستان مدارالعالمین نے فرمایا
اے جانمن جنتی تم ایک
صالحہ طاہرہ عفیفہ دختر نیک اختر تلاش کرو
کچھ دن بعد .
جانمن جنتی ...
حضور جتھرا (مضافات کالپی
میں سید احمد جو خاندان فاطمی سے ہیں انکی شہزادی جنت النسا ہے یہ رشتہ نیک ہے
حضور مدارلعالمین نےفرمایا رشتہ اچھا ہےپیغام پہونچایا جائے چنانچہ حضرت خواجہ سیدجمال الدین جانمن جنتی نے پیغام نکاح پہونچایا ..سید احمد جتھراوی نے بسرو چشم قبول کیا نکاح کی تاریخ منتخب ہوگئ دونوں طرف نکاح کی تیاریاں ہونے لگیں خلفاء میں خوشیوں کے نغمہ توحید گائے جاتے تھے ہر طرف شادمانی ..ہرطرف مسرتیں خوشیوں سے ہم آہنگ ماحول میں اتنا کیف وسرور پہلی بار تھا انکے جان جاناں کے لخت جگر کے سر سہرا بندھنے والا ہے خوشیوں کی ہماہمی میں وہ دن بھی آگیا جس کا انتظار برسوں سے تھا یعنی
یکم ربیع الاول بروز جمعہ ہجری824 کو حضور خواجہ سید ابومحمد ارغون کا عقد منعقد ہوگی
صاحبزاد کی ولاد ت
.........................................مکن پور شریف آباد ہونے کا فیصلہ صادر ہوچکا تھا نزول رحمت پروردگا کا محبط بن چکا تھا , بہارو ں کا مسلسل آنا جانا , کہکشاں کا رشک کرنا
, اٹھلاتی بل کھاتی ایسن کا دلفریب منظر آنکھوں کے سامنے , آسائش زندگی پیچھے پیچھے ,آرام جاں قدموں کی ٹھوکر,
اللہ والوں کا یہ گروہ پوری دنیا کا چکر لگانے کے بعد اس سرزمین
( مکن پور شریف)
پرمستقل پڑاؤ ڈال چکا تھا فقیروں کی یہ مقدس جماعت اپنے مرکز عقیدت کی ڈیوڑی پر سرگروہ خادمان حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون حضرت خواجہ سید ابوتراب فنصور حضرت خواجہ سید ابوالحسن طیفور رضوان اللہ علیھم کی سرکردگی میں صبح وشام سلام پیش کرنے جاتی تھی
خادمان آگے آگے ہیں دولھا بنے
پیچھے پیچھے ملنگوں کی بارات ہے
کتنا دلکشا منظر ہوگا ,
پھر ایسے حسین ماحول میں اگر رونق بزم مداریت کے یہاں شہزادہ تشریف لے آئے تو پھر خوشیوں میں کیوں چار چاند نہ لگے ہونگے آج مدارالعالمین کا مقصد تکمیل معراج پر تھا آج مدار کی آرز ؤں کو خوشی کی باہوں میں جھولا جھولتے دیکھا جارہا تھا
آج اسکی آمد ہونے والی ہے جو مدار کا نور نظر ہے آج وہ آرہا ہے جو مدار کی خواہش ہے وہ آرہا ہے جومقصد آبادئ مکن پور ہے
حریم ناز کے پردوں سے چھن چھن کر آنے والے نوری آبشاروں سے منور,اور تابناک ہجرہ جنت النساء آج رشک مہر و ماہ انجم بنا ہے کہکشاں جس کی گلیاں
اورجہاں اجنہ جاروب کش چاندنی چھٹکی
نور اترا آج وہ نور نظر آنے والا ہے جسکی منتظر جماعت صالحین رہی
حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون نے نماز تہجد ادا فرمائ کسی نے مژدہ جانفزا سنایا مبارک ہو مداریت کا وارث چمنستان مداریت پر بحیثیت بہار آنے والا ہے
چند لمحات کے بعد سعید ازلی کی ولادت کی خوشیاں منائ جانے لگیں
یعنی 12 ربیع الاول بروزپیر 825 ہجری کو آغوش مادر میں قدم رکھا حضرت ابو محمد ارغون نو زائیدہ کو شفقت پدری میں لیکر بارگاہ مدارالعالمین میں پہونچے سرکار مدار نے نگاہ ولایت اٹھائ اور دعائے خیر فرمائ اور شہزادہ کا نام , محمد ,رکھا بچہ نے آنکھیں کھولدیں مدارالعالمین کی آغوش محبت میں جیسے جگہ مل جائے تو اسکی تقدیر کو کائنات سلام کرتی ہے
حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون نے تقویٰ و طہارت میں زندگی بسر کرکےمقصد حیات میں کامیابی پائ آپ ایسے نادر الوجود قارئ قرآن تھے جسکی مثال مشکل نہیں نا ممکن ہے
قطب الاقطاب خواجہ سید ابو محمد ارغون جانشین او ل حضور مدارالعالمین
خالافت و جانشینی .. ............................ .. ..... جب قطب وحدت حضور مدارالعالمین کے وصال کے ایام نزدیک ہوئے تو آپ نے ایک دن حضرت خو اجہ سید ابو محمد ارغون کو بلا یاشفقتوں سے نوازہ اور فرمایا میرے بیٹے ولادت دو قسم کی ہو تی ہے ایک صلبی دوسری روحانی ..صلبی تو ماں باپ سے تعلق رکھتی ہے اس کا تعلق عالم خلق سے ہوتاہے جو کوئ آتا ہے اس لباس کو پہنے ہوئے آتا ہے ایک نہ ایک دن اس کو ترک کرنا بھی ہوگا رو حانی ولادت مربی روح سے تعلق رکھتی ہے اس کا تعلق عالم امر سے ہے جو میرا اور تمہارا تعلق ہے یہ قیامت تک قائم رہے گا اس کو فنا نہیں ہے میں نے تم کو اپنا جانشین بنایا ہے اور ظاہری تعلق یہ ہے کہ تم میرے بھائ کی اولاد ہو اور بھائ کی اولاد بھائ کی طرف منسوب ہوا کرتی ہے چنانچہ قرآن مجید میں آیا ہے ...و ا تبعت ملة اباي ابراهيم واسمعيل واسحق و يعقوب ظاہر ہے کہ حضور صلی ٰاللہ علیہ وسلم کا نسب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ہے نہ کہ حضرت اسحق سے چونکہ حضرت اسحٰق علیہ السلام انکے بھائ تھے اسلئے انکو بھی باپ کہا گیالہٰذا تم بھی میرے فرزند ہو شریعت و طریقت میں .. ...آپ وصال یار کی لذتیں اور اوراس کےمزے پانے لگے تو اک دن آپ نے تمام خلفاء باوقار کو جمع کیااور فرمایا اے لوگوں میں رب کائنات کے دربار میں پہونچنے والا ہوں میں وصال خالق کیلئے چلا تم سب متحد ہوکر اپنا اپنا فریضئہ منصبی ادا کرنا اگر میرے بعد کوئ مشکل در پیش آئے تو تینوں شہزادوں (حضرت ابو محمد ارغون .ابو تراب فنصور ابو الحسن طیفور )کو میری جگہ سمجھنا ہر معاملہ میں ان سے رابطہ رکھنا انہیں اپنا مرکز عقیدت مرہون منت سمجھنا یہ فرماکر آپ نے خواجہ سید ابو محمد ارغون کو اپنا جانشین منتخب کیا اور تینو ں شہزادوں سے فرمایا ,, كنفس واحدة;;
تین جسم ایک جان ;
ہرسہ خواجگان ; آج سے تم تینوں ایک ہو متحد ہوکر اسلاف کے مشن کو آگے بڑھانا تم نے جس وجہ سے وطن کو چھوڑا میری بات پر لبیک کہہ کر تمام عصری تقاضوں کو پس پشت ڈالدیا تم تکمیل بندی میں کوئ لمحہ نہ چھوڑنا
پھر وہ وقت بھی آیا جب محسن ہندوستاں قطب الاقطاب فرد الافراد حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ عنہ کا انتقال ایک المناک حادثہ بنکر پوری دنیا کیلئے کرب ..بے چینی .تڑپ .آنسو .آہ و بکا. سسکیاں . مایوسیاں انکا مقدر بن گیا 17 جمادی الاول 838 ہجری میں جب مدارالعالمین کا انتقال ہوا تو خلفا و مریدین غش کھا کھا کر گرنے لگے لیکن ایک چہرہ تھا جو آس بنکر سامنے تھا ایک سراپا تھا جو امید بنکر استقامت پذیر تھا ایک ڈھارس تھی جو ابو محمد ارغون کی صورت میں جلوہ فگن تھی ..آپکے اکابر خلفاء جیسے سیدمحمد جمال الدین جانمن جنتی سرگروہ دیوانگان حضرت قاضی مطہر قلہ شیر سر گروہ عاشقان حضرت خواجہ محمود الدین کنتوری سرگروہ طالبان حضرت خواجہ سید ابو تراب فنصور حضرت خواجہ سید ابوالحسن طیفور حضرت مولانا حسام الدین سلامتی حضرت قاضی لہری وغیرھم رضوان اللہ علیھم اجمعین تمام خلفاء باوقار نے حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون کو جا نشین منتخب کیا اور نذرو نیاز تحفہ سوغات پیش کئے
حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون جب پہلی بار مسند سجادگی پر جلوہ افروز ہوئے تو حضرت جمال الدین جانمن جنتی نے آپکے ملنگان پاکباز نے حضرت خواجہ ارغون کے سامنے پہلی بار فرط مسرت سے شغل دمال کیا
نوٹ یہیں سے سجادہ نشین کے سامنے شغل دمال شروع ہوا جو ہر دور میں جانشین مدار کے سامنے ہوااورآج تک اسی کرو فر اسی اندازو ادا کے ساتھ سجادہ نشین خانقاہ مداریہ { پیر طریقت صوفئ با صفا حضرت علامہ الحاج سید محمد مجیب الباقی صاحب قبلہ دامت برکاتھم القدسیہ کے سامنے عرس مدارالعالمین کے موقعہ پر ملنگان پاکباز شغل دمال کرتے ہیں
مسند نشین ہونے کے بعد حضور خواجہ سید ابو محمد ارغون نے سب سے پہلے تمام خلفاء کو اکٹھا کیا حمدو ستائش اور درودوسلام کے بعد ارشاد فرمایا میرے عزیزو
سرکار سرکاراں حضور مدارالعالمین کے انتقال کے بعد آج پہلی بار میں آپ لوگوں کے رو برو آیاآپ جانتے ہیں کہ ہمارے آقا آپکے آقا آپکےحضور مدارالعالمین نے ارشاد فرمایا چھوٹ جائے جسے چھوٹنا ہو جڑ جائے جسے جڑنا ہو جو سنت مصطفیٰ کا پیرو نہیں وہ ہمارا نہیں ہے
لہذا جما ل اللہ کی پوری جماعت کو چاہئے سنتوں کی پیروی کرنا احکام خداو ندی پر گامزن رہنا اللہ پر تکیہ رکھنا ایمانیات سے ہے
طویل نصیحت کے بعد تمام خلفاء کو الگ الگ چلہ جات پر گدیوں پر تکیوں پر روانہ فرمایاادھر ابراہیم شرقی بادشاہ جونپور کو حضور مدارالعلمین کے انتقال کی خبر نے تڑپا کے رکھ دیا
بادشاہ جونپور نے بارگاہ خواجہ سیدارغون میں حضور مدارالعلمین کے روضہ مقدسہ کی تعمیر کیلئے نذرو نیاز پیش کیا جسے حضرت خواجہ ابو محمد ارغون نے قبول فرمایا اور اس سے روضہ مقدسہ کی تعمیر کرائ جو ھجری 840 میں مکمل ہوئ حضرت
ابراہیم شرقی جونپوری ہجرہ مقدسہ کو بلند وبالا تعمیر کرنا چاہتے تھے لیکن بارگاہ مدارالعالمین سے اجازت حاصل نہ تھی
خواجہ ابو محمد ارغون کی چند
کرامات
آپکی پوری زندگی تقویٰ وطہارت میں گزری اللہ و رسول کی اطاعت عبادت و ریاضت مجاہدہ نفس تصفیہ قلب اور رشدو ہدایت میں گزاری
جس کے انعام میں اللہ نے درجات بلند کردئے آپ سے عجیب عجیب کرامات کا ظہور ہونے لگا
حالت بیداری اور حالت نوم دونوں میں یکساں ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے
جب تلاوت کرتے تھے تو ہوا خاموش ہوجاتی تھی
ندی کی لہریں ٹھہر جاتی تھیں پرندہ بے ہوش ہوکر گرجاتے تھے اسی کی عکاسی کرتے ہوئے
علامہ سوز مکن پوری فرماتے ہیں
خاموش ہوائیں ہیں چپ سادھے پرندے ہیں
اللہ رےکیا لحن قرآن ہے
ارغونی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)💓اتنا سنا تو وجود لرز گیا زبان کو تاب گفتار پاؤں کو طاقت رفتار نہ تھی
قریب تھا کہ گر پڑتا آپ نے فرمایا ٹھہر جا ٹھہر جا پاؤں کو پائے ثبات عطا ہوا تب وہ اسقامت گزیں ہوا
معافی مانگی توبہ کی کلمہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہواحضور خواجہ سید ابو محمد ارغون نے ردائے رحمت میں چھپا لیا
اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص فقیروں کی جماعت میں بظاہر مسلمان بنکر رہتا تھا فقیر وں کو بھی نہیں معلوم تھا کہ یہ کافر ہے جب یہ فقرا کی جماعت حضرت سید ارغون کی خدمت میں آئ تاکہ تصفیہ قلب تزکیہ نفس کریں سلوک کے مراحل طئے کریں حضور نے خاص توجہ فرمائ ایسی تربیت فرمائ کہ باطن کی اچھی دھلائ ہوگئ لیکن وہ شخص جو مسلم نما کافر تھا جب فقرا کی جماعت اٹھی تو آپ نے اس سے فرمایا تم کب تک کفر کی تاریکیوں میں زندگی بسر کرتے رہوگے
وہ شخص فوراً قدموں پر گرگیا اسلام قبول کر کے داخل اسلام ہوا حضور سید ابو محمد ارغون نے اس کا نام عبید اللہ رکہافقرا چلنےلگےعبید اللہ رک گئے لوگوں نے کہا عبید اللہ چلو عبید اللہ بولے
دل اپنا ہے ارغونی اور جان ہے ارغونی
واللہ میرا دین و ایمان ہے ارغونی
تمام فقرا چلے گئے لیکن
عبید اللہ تمام زندگی حضرت والا کی خدمت میں رہ کر سلوک کے منازل و مراحل طئے کرتے رہے
کرامات تو بھت ہیں لیکن اتنے پر اکتفا کرتا ہوں
ایک دن الطاف بیکراں کے بادل چھائے اور حضرت عبید اللہ پر نسبتوں کی بارش ہونے لگی
یعنی خلافت سے مزین کئے گئے
💓تاب سماعت نہ لائے اور ہوش قربان ہونے لگے
جب قرات ختم ہوئ تو حضور خواجہ محترم نے دیکھا بیہوش پرندوں کی محفل میں ایک شخص مست و بیخود بھی ہے
آپ قریب گئے اور وارث جمال مداریت کے امین نے ایک جھلک .جمال جہاں آرا کی ڈال دی اور نورانی ہاتھ سے ہاتھ پکڑا تو ہاتھوں کی نرمی اور برودت سے وہ شخص مطمئن ہوگیا
آپ نے پوچھا شیخ حامد اصفہانی بتاؤ کیا حال ہے عرض کیا حضور آپکی قرات سن کر مست وبے خود ہوگیا تھا اب سکون ہے
آپ سے عجیب عجیب کرامتوں کا ظہور ہوا یوں تو آپکی پوری زندگی کرامت ہی کرامت تھی
......................... ....
اللہ پاک نے آپکو وہ مقام ومرتبہ عطا کیا جو فھم وادراک سے ماورٰی ہے
آپ مرتبہ قطب عالم سے سرفراز کئے گئےچ
آپ منفرد بالشان تھے
ایسا نادرالوجود گوہر ولایت تھے جس کی چمک سے عالم ولایت روشن و تابناک ہے
اسکی کرنوں سے نفوس قدسیہ کے قلوب جگمگ جگمگ ہیں آپ اپنے لقب سے مشہور ہیں
آپکا لقب ارغون ہے محمد نام ہے
ارغون لقب کی وجہ تسمیہ
ارغون بارگاہ مدارالعالمین سے ملا ہوا لقب ہے ارغون مخفف ہے ارغنون کا ارغنون عربی میں ایک نفیس اور دلکش باجے کو کہتے ہیں چونکہ حضرت خواجہ ابو محمد ارغون لحن داؤدی کے وارث تھے عجیب دلکش آواز اللہ نے عطا کی تھی اسی وجہ سے آپ کو حضور مدارالعالمین نے لقب ارغون سے ملقب کیا
آپ سلسلہ مداریہ کے سرگروہ اور جامع کمالات صوری و معنوی بزرگ گزرے ہیں
غیر منقسم ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں آپ کے خوارق و کرامات محاسن و کمالات اور روحانیت و معرفت کی عام شہرت و مقبولیت ہے
تمام زندگی ارشاد و ہدایت کی مسند پر رونق افروز رہے بلآخر اک دن
يا ايتهاالنفس المطمئنة ارجعي الي ربك راضية مر ضيةفادخلي في عبادي وادخلي جنتي کا پروانہ آگیا
ا💓
وفات شريف
.........................................
5جمادی الآخر کو حضور خواجہ سید ابو محمد ارغون رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام صاحبزاد وں کو بلایا اور فرمایا
اللہ کی اطاعت اور رسول کی پیروی سے کبھی غافل مت ہونا اپنے اجداد بالخصوص فاتح کربلا کی قربانیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ان سے ایثارو وفا کا درس لینا دین پر قربان ہوجانا بہت سی نصیحتیں وصیتیں فرمائیں
ایکبار پھر مکن پورشریف غموں کے دبیز شامیانوں میں لپٹ گیا ہر طرف غموں کا تسلط سناٹوں اور اداسیوں کا پہرہ تھا اپنے بیگانے سب غمزدہ تھے یعنی 6جمادی الآخرہجری 891 کو آپ نے اس دار فانی سے کوچ فرمایا
نمازجنازہ آپکے بڑے صاحبزادے حضرت خواجہ سید محمد ابو الفائض محمد نے پڑھائ
مزار پر انوار خانقاہ مداریہ کے متصل مرجع خلائق مفیض انام ہےآپ کے بعد مدارالعالمین کی جانشینی کا منصب حضرت خواجہ سید ابو الفائض محمد کو حاصل ہوا
.......................................
آپکی اولاد امجاد
.........................................
حضرت خواجہ سید ابو الفائض محمدحضرت خواجہ سید محمود حضرت خواجہ سید داؤد حضرت خواجہ سید اسمٰعیل حضرت خواجہ سید شاہ پیارے حضرت خواجہ سید حامد حضرت خواجہ سید محامد عليهم الرحمة الله والرضوان .......
خلفاء با وقار
.........................................
سلطان الاولیاءسرگروہ مداریہ حضرت خواجہ سید ابو الفائض محمد سجادہ نشین
عمدۃالعارفین حضرت سید محمود صدر نشین حضرت شاہ سید حسین سرہندی حضرت خواجہ سید محمد حضرت شیخ سیف الدین شیخ کامل حضرت شیخ شاہ واصل حضرت قمر الدین حضرت شیخ کمال الدین بن شیخ سلیمان مداری حضرت شاہ عبید اللہ حضرت پیرغلام علی شاہ رضی اللہ عنہم
آپ کے دو بھائ اور تھےحضرت خواجہ سید ابو تراب فنصور حضرت خواجہ سید ابو الحسن طیفور رضی اللہ عنھماان تینوں بھائیوں کو ہر سہ خواجگان کہا جاتاہے
ہرسہ خواجگان سے جو سلاسل مبارکہ جاری ہیں انہیں خادمان کہا جاتا ہے خادمان ارغونی خادمان . فنصوری. خادمان طیفوری .خادمان ارغونی سے ..نقد ارغونی ..ابوالفائضی محمودی سرموریسلوتری سلاسل کا اجرا ہوا
💓مقالہ مرتب کرنے میں جن کتابوں سے مدد لی
ماٰخذ و مراجع
تذکرۃ المتقین .مداراعظم رسالہ ابو محمد ارغون.. جمال مداریت . .منقوط .قطب وحدت .. غیر منقوط ..مدارالمہام
ماہنامہ دم مدار وغیرہم
وما توفیقی الا باللہ
مضمون لکھنے میں جو بھی غلطیاں سرزد ہوئیں الٰھ العالمین انہیں در گزر فرما معاف فرما آمین بجاہ سید المرسلین علیہ التحیۃ والتسلیم
فقط والسلام سید ازبر علی ارغونی مداری
www.qutbulmadar.org
plz visit. us: