Type Here to Get Search Results !

Dargha Zinda Shah Madar makanpur

Hindustan k Pahele Sufi buzurg Aur awwal daayie islam Hazrat Syed Badiuddin ahamad QutbulMadar Zinda Shah Madar Halabi o shami :

غزوہ بدر کی تاریخی حیثیت اسلام کا اور لشکر اعداد

*غزوۂ بدر کی تاریخی حیثیت,  مسلمانوں اور لشکر اعداء پر اس کے اثرات,*  

*ابو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری مکن پور شریف* کانپور نگر 

  رسول رحمت جان دو عالم صلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مبارک زندگی کا ہر ہر  زاویہ اور ایک ایک پہلو ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ "اے مسلمانو! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں تمہارے لیئے اسوہ ہے " جب اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی میں ہمارے لیئے بہترین نمونہ بنادیا ہے تو ہمیں چاہئیے کہ رسول کریم کی حیات مبارکہ کے ہر ہر گوشے اور ایک ایک پہلو میں اپنے لیئے نمونہ تلاش کریں۔
 ۔آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا کچھ اہم ترین حصہ دشمنان اسلام   سے معرکہ آرائی میں گزرا۔جس میں آپ کو ابتداء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے  مشروط دفاعی قتال کی اجازت ملی اور پھر اس کے بعد اقدامی جہاد کا حکم بھی  دے دیا گیا  ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ جنگی مہمات  تاریخ اسلام کا ایک روشن اور زریں باب ہیں۔
 جس سے ظاہر ہوتا ہےکہ  دین کی دعوت و تبلیغ میں کبھی ایسا مرحلہ  بھی آتا ہے  جب داعاۃ  و مبلغین  کو اسلحہ اٹھانا پڑجاتا ہے،   اور دین کی دعوت میں رکاوٹ کھڑی کرنے والے شرپسند عناصر اور طاغوتی قوتوں کو بزور بازو روکنا پڑتا ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنی زندگی کے مبارک دنوں میں  تقریباً 27, غزوات میں بنفس نفیس شرکت فرمائی اور تقریبا 47, مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کو جنگی مہمات پر روانہ کرنا پڑا۔ تقریباً زیادہ تر جنگیں  اسلام و مسلمین کی دفاع کے لیئے ہوئیں  ۔
غزوہ مذہب اسلام میں اس معرکہ کو کہتے ہیں جس میں  بذات خود  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  شرکت کی ہو ۔ اور جن معرکوں میں آپ خود نہ جاکر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کو بھیجا ہو اسے سریہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  تقریباً 26یا27 غزوات اسلام میں شامل ہوئے، لیکن غزوۂ بدر اسلام کا سبسے انوکھا اور سب سے پہلا غزوہ ہے ۔
یہ غزوۂ اس دورمیں ہوا جب مسلمان مٹھی بھر تھے اور بہت غربت کے عالم میں تھے۔
 اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بہت بڑی بات کی طرف اشارہ فرمایا تھا:
"بَدَأَ الاسلامُ غريباً وسيعودُ إلي الغرباء"  اسلام کی ابتدا غربت میں ہوئی اور بالآخر ایک دن ایسا آئے گا جب یہ حقیقت میں غریبوں میں سمٹ کر رہ جائے گا۔ غالبا اسی لیئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غرباء کی دل جوئی کے لیئے یہ بھی ارشاد فرمایا : "
اللهم امتنى مسكيناً و احشرنا مع المساكين" اے میرے پالنہار ! میری موت مجھے اس شان سے عطا فرما نا کہ میرے کھاتے میں کچھ باقی نہ ہو ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو آپ کا کل خزانہ صفر میں تھا۔
ہر چیز اپنی فطرت کی طرف جاتی ہے ۔
اسلام غربت میں پرورش پایا ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا جب اللہ کا یہ دین پھر اسی غربت کی طرف لوٹ جائے گا‍۔ مسلمانوں پر نہایت ہی تنگی اور بے سروسامانی کا دور تھا  قریش کے آتنک وادیوں اور نفرتی چنٹووں نے نہتھے مسلمانوں پرجب  یلغار کرنا چاہا اور مسلمانوں کے خاتمہ کے متمنی ہویے۔ تو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ منورہ پر چڑھائی کی خبر دی گئی ۔ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ ہم  مدینہ منورہ سے ڈیڑھ سو میل دور بدر کے مقام پر انہیں گھیریں گے لھٰذا 
 17رمضان المبارک 2, ہجری جمعۃ المبارکۃ  کا  دن تھا جب غزوۂ بدر رونما ہوا۔
 قرآنِ مجید میں اسے ”یوم الفرقان“ کا نام دیا گیا۔
 (در منثور ،4/72،پ 10،
 سورۃ     الانفال تحت الآیہ:41)

*غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی تعداد* 
غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی کل تعداد 313, تھی۔
 جن کے پاس صرف 
 2 , عددگھوڑے،
70, عدد اونٹ، 
6عدد زرہیں  اور 8 عدد تلواریں تھیں۔
 جبکہ ان کے مقابلے میں لشکرِ اعداء کی تعداد ایک ہزار 1000 افراد پر مشتمل تھی جن کے پاس 100 گھوڑے، 700  اونٹ اور  کثیر تعداد میں  جنگی آلات و ہتھیار تھے۔

(زرقانی علی المواھب، 2/260،  معجم کبیر، 11/133، حدیث:11377، مدارج النبوۃ،2/81)

*جنگ سے قبل  کی رات*

 حضورنبی غیب داں صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے جنگ سے قبل رات اپنے چند جانثار صحابہ کرام کے ساتھ بدر کے میدان کو ملاحظہ فرمایا اور زمین پر جگہ جگہ ہاتھ رکھ کر فرمایا : کہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ یہ ہے۔
 اور کل یہاں فلاں کافر  کی لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ 
چنانچہ راوی فرماتے ہیں:  بالکل ویسا ہی  ہواجیسا غیب داں نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے  فرمایا تھا، اور ان میں سے کسی نےاس لکیر سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کیا۔
 ( صحیح مسلم، ص759، حدیث: 4621)
 
اس رات اللہ  سبحانہ وتعالیٰ  نے مسلمانوں  پر نعاس یعنی اونگھ طاری کر دی جس سے ان کی تھکاوٹ جاتی رہی اوراگلی صبح بارش رحمت بھی نازل فرمائی جس سے مسلمانوں کی طرف ریت جم کر ٹھوس ہو گئی اور پانی کی کوئی کمی نہیں رہی ۔ 
( الزرقانی علی المواہب ،2/271) 
رسول اللہ  صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے تمام رات اپنے پروردگار کے حضور گریہ و زاری اور  عجزو نیاز میں گزاری
 (دلائل النبوۃ للبیہقی،3/49)
اور صبح  میں مسلمانوں  کو نمازِ فجر کے لئے  بیدار فرمایا۔ نماز کے بعد آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ایک شاندار خطبہ ارشاد فرمایا جس سے مسلمان شوق ِ شہادت سے لبریز ہوگئے۔
    (سیرت حلبیہ، 2/212)

حضور رحمتِ دوعالم  صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نےپہلے مسلمانوں کے لشکر کی جانب نظر فرمائی پھر کفار  کی طرف دیکھا اور دعا کی  کہ یا ربی! اپنا وعدہ سچ فرما دے جو تو نے مجھ سے کیا ہے ، اگرمسلمانوں کا یہ چھوٹا سا گروہ آج ہلاک ہوگیا  تو پھر  روئے زمین پر تیری عبادت کوئی  کرنے والا نہیں رہے گا ۔ (مسلم، ص750، حدیث:4588ملخصاً)

اللہ سبحانہ و تعالیٰ  نے مسلمانوں کی مدد کے لئے پہلے ایک ہزار فرشتے نازل فرمائے، اس کے بعد یہ تعداد بڑھا کر تین ہزار اور پھر پانچ ہزار کر دی گئی۔ (پ 9،الانفال:9۔ پ4،
آل عمران،124،125)

 حضور رحمتِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ و اٰلہٖ وسَلَّم نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر اعداء اسلام کی طرف اس شان سے پھینکی کہ ہر دشمن خدا کی آنکھوں میں جا پڑی۔ 
 (درمنثور ،4/40،پ 9،الانفال ، تحت الآیہ:17)
 جانبار مسلمان اس دلیری سے لڑے کہ لشکرِ اعداء کو عبرتناک شکست ہوگئی، 70  غیر مسلم واصلِ جہنم ہوئے اور اسی قدریعنی70گرفتار ہوئے۔
 (مسلم ، ص750، حدیث:4588ملخصاً) 
جبکہ 14مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔  اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دیا ۔
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی 
حق تو ہے یہ کہ حق ادا نہ ہوا                  
    (عمدۃ القاری،10/122)

*اسماے شہدائے بدر:* 

غزوۂ بدر میں جامِ شہادت نوش فرمانے والے صحابۂ کرام کے اسمائے مبارکہ حسب ذیل ہیں ۔

1, حضرت عبید ہ بن حارِث
2, حضرت عمیر بن ابی وَقَّاص
 3، حضرت ذُوالشِّمالین عمیر بن عبد عمرو
 4, حضرت عاقل بن ابی بکیر 5، حضرت مِہجَع مولیٰ عمر بن الخطاب 
6, حضرت صَفْوان بن بیضاء 
یہ چھ مہاجرین ہیں
 7,حضرت سعد بن خَیْثَمَہ 8,حضرت مبشربن عبدالمُنْذِر 9,حضرت حارِثہ بن سُراقہ 10,حضرت عوف بن عفراء 
11, حضرت معوذ بن عفراء 12,حضرت عمیر بن حُمام 13,حضرت رَافِع بن مُعلّٰی 14,حضرت یزید بن حارث بن فسحم 
یہ8 انصار صحابہ ہیں رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن۔
 (سیرت ابنِ ہشام، ص295)
ہر مسلمان کے گھر میں ان اسماء کا طغرہ ہونا چاہیئے، یہ اسماء مبارکہ وہ ہیں جن کے وسیلے سے دعائیں قبول فرماتا ہے اور اور ہم کو ہمارے ماضی کے جانبازوں کی یاد دلاتے ہیں۔

 *غزوۂ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں اور اللہ تعالیٰ کی نصرت*

غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم  صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسّلم   اپنے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو تھے، "اے ربّ العزّت، تو نے جو وعدہ کیا ہے اِسے آج پورا فرما دے"۔ کبھی سجدے میں گِر پڑتے اور فرماتے تھے کہ "اے میرے پروردگار ! یہ مٹھّی بھر تیرے نام لیوا لوگ اگر آج مٹ گئے تو پھر قیامت تک تیرا نام لینے والا اور تیری بارگاہ میں سجدہ ریزی کرنے والا پھر کوئی نہیں رہے گا"۔
اللّٰہ پاک نے اپنے حبیب صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی دعائے مستجابہ کو قبول فرمائی۔ اور، وحی کے ذریعے سے مسلمانوں کو نصرت و امداد کی نوید سنائی گئی۔۔ 
*بدر میں فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں  پر اللہ تعالیٰ کی خصوص امداد*

 سورہ انفال میں ارشادِ ربّانی ہے،

إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَٱسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّى مُمِدُّكُم بِأَلْفٍۢ مِّنَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ مُرْدِفِينَ۔
الانفال: 9
یاد کرو جبکہ تم لوگ اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ تو اس نے تمہاری دعا قبول کرلی تھی کہ میں تمہاری مدد کروں گا ایک ہزار ملائکہ کے ساتھ 
جو پے درپے آئیں گے۔

وَمَا جَعَلَهُ ٱللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِۦ قُلُوبُكُمْ ۚ وَمَا ٱلنَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ۔
الانفال: 10
یہ بات اللّٰہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو۔ اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللّٰہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ یقیناً اللّٰہ زبردست غالب اور دانا حکیم ہے۔
سورہ آلِ عمران کی آیات 13،  123،  124 اور  125 میں غزوہ بدر  میں اللّٰہ کی طرف سے حاصل ہونے والی غیبی مدد کا بیان ہے۔

 قَدْ كَانَ لَكُمْ ءَايَةٌۭ فِى فِئَتَيْنِ ٱلْتَقَتَا ۖ فِئَةٌۭ تُقَـٰتِلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌۭ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْىَ ٱلْعَيْنِ ۚ وَٱللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِۦ مَن يَشَآءُ ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَعِبْرَةًۭ لِّأُو۟لِى ٱلْأَبْصَـٰرِ۔
آلِ عمران: 13
تمہارے لیئے اُن دو گروہوں میں ایک نشان ِعبرت تھا، جو ( بدرمیں) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہو ئے۔ ایک گروہ اللّٰہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دُوسرا گروہ کافر تھا۔ دیکھنے والے بچشمِ سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے نبرد آزما ہے ہے۔ لیکن (نتیجے نے ثابت کردیا کہ) اللّٰہ اپنی فتح و نصرت سے جس کی چاہتا ہے، مدد کر دیتا ہے۔ چشم بینا رکھنے والے اصحاب بصیرت کے لیئے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے۔

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ ٱللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ ۖ فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔
آلِ عمران: 123
اور اللہ جل جلالہ نے جنگِ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی۔ حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تم کو چاہیئے کہ اللّٰہ کی ناشکر ی سے بچو۔ امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے۔

إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَن يَكْفِيَكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلَـٰثَةِ ءَالَـٰفٍ مِّنَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ مُنزَلِينَ۔
آلِ عمران: 124
اے حبیب ! جب آپ کہہ رہے تھے اہل ایمان سے کہ کیا تمہارے لیئے یہ کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتوں سے جو آسمان سے اترنے والے ہوں گے۔

   " بَلَىٰٓ ۚ إِن تَصْبِرُوا۟ وَتَتَّقُوا۟ وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ ءَالَـٰفٍ مِّنَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ مُسَوِّمِينَ۔"
آلِ عمران: 125
بے شک، اے حبیب! اگر تم صبر کرو اور اور اپنے مہربان رب سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو جس آن دشمن تمہارے اوپر چڑھ کر آئیں گے اُسی آن تمہارا رب (تین ہزار نہیں بلکہ) پانچ ہزار اصحاب نشان فرشتوں سے تمھاری مدد فرمائے گا۔

*میدانِ بدر میں جنگ کےکچھ خاص واقعات* 

بدر میں جب جنگ شروع ہوئی۔ دونوں طرف سے فوجیں آمنے سامنے آئیں۔ کفّار کی جانب سے عتبہ جو ہندہ کا بھائی اور یزید کا نانا  تھا  اپنے سینہ پر شتر مرغ کے پر لگا کر، 
  اپنے بھائی اور بیٹے کو لے کر للکارتا ہوا میدان میں آیا۔ عرب میں دستور تھا کہ سردار جب میدان جنگ میں آتے تو دوسروں سے ممتاز نظر آنے کیلئے کوئی خاص قسم کی علامت یا نشانی لگا کرآتے تھے۔

 عتبہ رعب جھاڑتے ہوے کہنے لگا، ہے کوئی ہم سے مقابلہ کرنے والا؟ ہے کوئی ہماری تلوار کو روکنے والا؟ مسلمانوں کی جانب سے حضرت عبدالرّحمٰن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ ،حضرت معاذ رضی اللّٰہ عنہ، حضرت عبداللّٰہ بن رواحہ رضی اللّٰہ عنہ مقابلےکرنے کے لئے آگے بڑھے۔ یہ تینوں حضرات انصار صحابہ میں سے تھے۔ 
آل بنوامیہ کے سرداروں میں سے
عتبہ بن ربیعہ نے آگے بڑھ کر  کہا، " اے محمّد! یہ انصار تو ہمارے جوڑ اور مقابلہ کے لائق  نہیں ہیں۔ ہمارے ہم پلّہ قریش میں سے کسی کو ہمارے مقابلے کے لیے بھیجو"۔
حضور مصطفیٰ جان عالم صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے حکم پر خاندان بنو ھاشم سے حضرت حمزہ ابن عبد المطلب رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت علی ابن ابی طالب ابن عبد المطلب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میدان میں اترے۔
چنانچہ عتبہ بن ربیعہ حضرت حمزہ ابن عبد المطلب رضی اللّٰہ عنہ سے اور ولید حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ سے مقابل ہوا۔ 
تھوڑی ہی دیر میں عتبہ بن ربیعہ اور ولید ابن عتبہ اللہ کے شیروں کی وار سے خاک و خون میں تڑپنے لگے اور جہنّم واصل ہو گئے۔
عتبہ کے بھائی شیبہ بن ربیعہ نے جب یہ منظر دیکھا تو جھٹ سے اس نے حضرت عبیدہ ابن حارث ابن عبد المطلب رضی اللّٰہ عنہ کے کندھے پر تلوار سے حملہ کر دیا جس سے وہ  شدیدزخمی ہوگئے۔ حیدر کرار، شیر خدا،اسد اللہ الغالب حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم و
 رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر   ایک ہی وار میں اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
حضرت عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللّٰہ عنہ زخمی حالت میں نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں لائے گئے۔ انہوں نے آپ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے دریافت کیا، 
 یا رسول اللّٰہ !، کیا میں شہادت کی دولت سے محروم رہا"؟

نبی کریم آقائے نعمت صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا، "نہیں، تم نے شہادت پالی"۔

حضرت عبیدہ رضی اللّٰہ عنہ، غزوہ بدر کے بعد مدینہ واپسی کے دوران راستے میں ایک مقام پر خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانثاروں نے اللّٰہ کی نصرت سے باطل کو شکست فاش دے دی

باقاعدہ لڑائی شروع ہوئی۔ گھمسان کا رن پڑا۔ اسلام کے  313 , جانثاروں نے اللّٰہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے ساتھ  اعدائے اسلام کے  1000, کے لشکر کو شکست فاش دے دی۔ اور اُن کا  غرور خاک میں ملا کر  حق کو زندہ و جاوید فرما دیا۔

اعدائے اسلام کے بڑے  بڑے سردار ابو جہل، عتبہ، شیبہ اور اُمیّہ بن خلف وغیرہ اس غزوہ میں مارے گئے۔

 اللّٰہ تعالیٰ نے مشرکین کا تکبّر خاک میں ملا دیا
اس غزوہ میں  دشمنان اسلام کے بڑے بڑے 70، نامور جنگ جو سردار جہنّم واصل ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیئے گئے۔ جبکہ مسلمانوں میں سے چھ مہاجرین اورآٹھ انصار، کل چودہ مجاہدوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔

*غزوۂ بدر سے مسلمانوں کو سبق اور عبرت لینا چاہیئے*

غزوہ بدر حق و باطل کا وہ ناقابلِ فراموش معرکہ ہے جس سے ہر دور کے مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ جب تک کے ربّ العالمین کی مدد شاملِ حال نہ ہو، بڑی سے بڑی فوج بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔
ساری طاقت اور قوّت کا سرچشمہ اللّٰہ کی ذات ہے۔ مسلمانوں کو چاہیئے کہ اپنے رب کی ذات پر بھروسہ رکھیں  اور اپنے قائد کی اطاعت کریں اور اپنے ماضی کو سامنے رکھ کر اپنے حال اور مستقبل کی تعمیر وتدبیر کریں ۔ وقت ایک جیسا کبھی نہیں رکھتا اور زندگی میں بھی اتار چڑھاؤ ہوتا ہی رہتا ہے اگر وقت آپ کے موافق نہیں ہے تو صورتحال میں بہتری لانے کے لئیے قوم مسلم اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کو نمونہ بنائے  ہر روز آپ کے لیئے نیا پیغام لے کر آرہا ہے آپ کو بھی ہر روز  نئی تدبیر کر نی پڑے گی بدر میں مسلمانوں نے رسول کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں بڑے مشکل حالات میں جس سوجھ بوجھ سے اعداء اسلام کو شکست دیا تھا ہم بھی اپنے وقت کے مشکلات کو زیر کرکے  یقینا اس پر فتح حاصل کر سکتے ہیں  اگر ہمارے دلوں میں محبت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گرماہٹ ہو  اگر مسلمانوں کے قلوب محبت رسول کریم سے سرشار ہو جاے تو اصحاب بدر کی طرح مشکل سے مشکل حالات میں  بھی کامیاب ہو سکتے ہیں 
 اللّٰہ تعالیٰ شہدا ئے بدر کے درجات کو مزید بلند فرمائے۔ اور اُمّتِ مسلمہ کو ان کی اتّباع کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
پیش کردہ،،ولی عہد خانقاہ مداریہ مکنپور شریف حضرت علامہ مولانا پیر سید ظفر مجیب مداری مد ظلہ العالی 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.