Type Here to Get Search Results !

Dargha Zinda Shah Madar makanpur

Hindustan k Pahele Sufi buzurg Aur awwal daayie islam Hazrat Syed Badiuddin ahamad QutbulMadar Zinda Shah Madar Halabi o shami :

قطب المدار المعروف زندہ شاہ مدار ایک تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم


از قلم ابوالحماد  محمد اسرافیل حیدری المداری دارالنور مکن پور شریف کان پور نگر 


شاھے کہ کمال اسم اعظم با اوست
نقش   آدم   نگین   خاتم   با  اوست
در  ہند  ظہور   کرد  بر   نام  مدار
حقا  کہ  مدار   کار   عالم      با اوست

-------------------------------------------------


حضرت سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار قدس سرّه۔ 242ھ۔  838ه‍  کی ذات محتاج تعارف نہیں ہے
 آپ ھادی راہ شریعت ,امام ارباب طریقت, پیشواۓ اصحاب حقیقت و مقتدائے اھل  معرفت، صاحب تلوین و تمکين،  اہل صحو و یقین ، صوفئ صافئ مطلق ، رازدار اوامر حقیقت، کاشف رموز معرفت ، امین تجلیات الوہیت , نور یقین و معرفت،  امیر کشور فقرو عزلت ،   شاہ اقلیم عرفاں ، امیر عالم امر ، شاہ معمورۂ خلق، انیس محفل انبیاء، جلیس جلوہ گاہ ذات کبریا ، مستغرق ذات ذوالجلال ، ناطق بلسان احوال غریباں ، عروۂ سلسلئہ طبقۂ حیدریاں ،منبع عوارف و معارف ، مصدر کرامات و خوارق، بلند و بالا، اعلی و اسنی، مصفًٰی و مزکًیٰ، متصرف عالم علویت و سفلیت ، مصرّف مقام صمدیت، مجدد قول قم باذن اللہ ، نظر حق بیناں عین جمال اللہ ،مترنًم ترانۂ شوق، متصرفً مقامات ما فوق ' مظہر شان تفرید ،آفتاب آسمان تجرید ،معدن عشق و وفا، بحر صدق و صفا ،فخر عالم نوری، مفتخر  جہان بشری، دلیل ولایت کمال ، برہان محویت و اتّصال ،شاہباز ولایت جلی، درّیگانئہ صدف ولایت علی نزھت آرائےچمن توحید ،تراوت پیرائے گلشن تجرید، خلیل آتش عشق خدا  ، جلیل امت محمد مصطفٰی ،  صاحب کمال اسم اعظم، مثل و مثال نقش آدم آئنئہ تجلیات ربانی ، مصحف انوار سبحانی ، غیرت خورشید تاباں، جلوہ سامان بدر آسماں ،  نیّر برج قطبیت، ماہتاب چرخ ولایت ،

قاسم نعمات الٰہی ،مقسم فیوض ذات لا متناہی، اجمل اھل جمال،  اکمل  اصحاب  کمال،  شمع کاشانۂ احمدیت، بدر منیر آستانئہ محمدیت ،مصباح المقربین، سراج السالکین، ملک العارفین، امام المتقین، قدوہ اہل یقین، مفسر آیات ولایت سبحانی،
 مترجم مقالات عاشقان رحمانی، مخدوم خاد مان حضرت رحمانی، مٌحدًث کلمات دیوان گان بار گاہ نورانی، مطلوب طالبان اسرار یزدانی، قمرالافاق، شمس الافلاک، شیخ  الاولیاء ،سر حلقہ اصفیاء، سر گروہ اتقیا، صدر الشریعۃ بدرالطریقۃ، قطب الحقیقۃ، شمس المعرفۃ، سرالاسرار ،نورالانوار، قمرالاقمار ،مظہر جمال کبریائی، معدن انوار الٰہی، مصدر فیضان احمدی، منبع تجلیات محمدی، اویس امام مہدی و علی، اویسئ حجرۂ عنایت نبی، واقف حالات عرشیان ، سامع مقالات نوریان ، شہباز باغ انس ، بلند پرواز ریاض قدس،جامع اسرار علوم صفات، لمعۂ لامع انوار عالم ذات،غوّاص بحرالحقائق والمعانی سیاح عالم حقیقی نورانی، صاحب نعمات دو جہانی ، محرم قصر سلطانی ،قطب ربانی ، محبوب صمدانی ،خاصہ بارگاہ رحمانی ، خضر مقامات معنوی ،مجمع بحرین حقیقی و مجازی،موسئ طور جلال،عیسئ دم جمال ،یوسف مصر حسن لا یزال،زکریاۓ صاحب حسن مقال،ایوب شکیب خصال قطب الاوتاد ، قطب الابدال قطب النجباء قطب النقباء قطب الاولیاء قطب ہر قطب، قطب الامامین، قطب الثقلین، قطب الکونین، قطب عالم ،قطب کبری، قطب اکبر ،قطب الاقطاب، قطب الارشاد قطب الدائرہ ،قطب المدار ،فرد الافراد، محبوب حقیقی،  حسنی و حسینی جعفری،ابن قدوۃالدین علی الحلبی  ،سید السادات ہیں۔۔

آپ مرتبۂ قطب المدار سے ہی زیادہ مشہور ہوئے 
اتنا زیادہ کہ عہدہ  ہی اسم بامسمًٰی کی طرح ہوگیا 


*قطب   المدار کا تعارف*

اللّٰہ تعالی کا جو بندہ مرتبۂ قطب المدار پر مسند نشین ہوتا ہے اللّٰہ تعالی کی طرف سے اسے حلۂ برکات و کرامات عطا کیا جاتا ہے اور اس کے سر پر تاج کرامت رکھ کے اسے تخت دل نشین پہ بٹھایا جاتا ہے اور اللّٰہ تعالی اپنی خلافت و نیابت سے اسے سر فراز فرما کر اس دور میں اسے عالمین کا مطاع و مراد قرار دے دیتا ہے۔

چنانچہ شیخ اکبر فتوحات مکیہ میں فرما تے ہیں کہ,,
 جب اللّٰہ تعالی کسی بندہ کو مرتبئہ قطبیت کبری میں متولی فرماتا ہے تو عالم مثال میں اس کیلئیے ایک تخت بچھا کر اس پر اس کو بیٹھاتا ہے اور اس مکان کی صورت بحیثیت اس کے مرتبہ کے بناتا ہے مثلا اس کو عرش پر مستوی ہونے کی صورت بناتا ہے اپنی ہر چیز کے ساتھ احاطۂ علمی کے ذریعے ،
اور اللّٰہ سے بڑھ کر کون اعلی مثل دے سکتا ہے،؟ تو جب وہ تخت بچھا لیا جاتا ہے تو اس کے بعد اس کو تمام اسماء کا خلعت دیا جاتا ہے جن کا طالب تمام عالم ہے اور اسماء اس عالم کے طالب ہوتے ہیں پھر اس سے حلًے ظاہر ہوتے ہیں وہ سب اس قطب کو پہناکر اور تاج کرامت دے کر اس کو تخت پر بٹھا تے ہیں  اسوقت اس کی حالت خلیفہ کی ہوتی ہے پھر اللّٰہ جل شانہ تمام عالم کو حکم دیتا ہے اس سے بیعت کرنے کا
 اس شرط پر  کہ سب لوگ اس کی اطاعت کریں ،
اور سختی اور راحت ہر حال میں کریں ۔
 پس سارا عالم ادنی و اعلیٰ سب اس کی بیعت میں داخل ہو جاتے ہیں سوائے عالون کے 

عالون سے مراد 
وہ لوگ ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کے جلال میں درآئے ہوئے ہیں اور وہ لوگ بالذات حق کی عبادت کرتے ہیں نہ کہ امر ظاہری شرعی کی وجہ سے
 اور قوم ملاء ا علیٰ بھی اس قطب کے پاس سب سے پہلے آتے ہیں 
اپنے مراتب کے مواقف یعنی کوئی پہلے کوئی پیچھے اور وہ سب اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں بناکسی سختی و راحت کی قید کے 
اور وہ لوگ ان دونوں صفتوں کو اپنے میں جانتے ہی نہیں 
اس لئے کہ کسی شیئ کی شناخت کما حقہ بغیر اس کی  ضد کے نہیں ہوتی 
اور ملاءاعلیٰ ایسے ذوق میں ہوتے ہیں جس میں امر مکروہ کی گنجائش ہی نہیں ہوتی

تو جو روحیں قطب کے پاس بیعت کیلئے آتی ہیں تو اس سے علم الہیٰ سے متعلق کوئی
مسلئہ ضرور پوچھتی ہیں
 اور وہ جواب میں کہتا ہے اے شخص کیا تو فلاں فلاں امر کا قائل ہے جب وہ اس کا اقرار کرتا ہے تو قطب اس سے کہتا ہے اس مسلئے میں دو جہتیں ہیں اور وہ دونوں  جہتیں متعلق  علم الٰہی ہیں 
 جن میں ایک دوسرے سے اعلیٰ ہیں جو اس شخص کو معلوم ہوتی ہیں
 تو ہر بیعت کرنے والا اس قطب سے مستفید ہوتا ہے اور وہ علم حاصل کرتا ہے جو اسکو معلوم نہیں ہوتا ہے ،،
حضرت شیخ اکبر فرماتے ہیں میں نے کل سوالات قطبیت ایک علیحدہ رسالے میں لکھا ہے اور مجھ سے پہلے کسی نے ان کو نہیں لکھا ھے اور وہ مسائل معین نہیں ہوتے ہیں کہ بار بار اس قطب سے وہی پوچھے جائیں ۔بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ خود بخود سائل کے دل میں ڈال  دیتا ہے  یعنی پہلے سے وہ سوال اس کے ذہن میں نہیں ہوتا ہے بلکہ پوچھنے کے وقت فوراً ذہن میں آجاتا ہے ۔
شیخ اکبر فرماتے ہیں پہلے اس قطب سے عقل اول سوال کرتی ہے پھر نفس پھر وہ ملائکہ جو مقدم ہیں ان ملائکہ سے جو آسمان و زمین کے بنانے والے ہیں یا ان پر مؤکل 
پھر وہ روحیں جو ان ہیاکل کے مدبّرہ ہیں جنہوں نے بعد انتقال اپنے جسموں سے مفارقت کی ہے
پھر اجنّہ پھر مولّدات پھر باقی وہ جو اللہ کی تسبیح کرتے ہیں
(فتوحات مکیہ 336واں باب بحوالہ الدر المنظم)

عبارت فتوحات سے واضح ہے کہ پوری خلقت زمانے کے قطب المدار کے ہاتھ پر بیعت کرتی ہے اور اس وقت قطب المدار کی شان عظمت کا اظہار اللّٰہ تعالی کی طرف سے بڑے حسین طور پر کیا جاتا کہ اسے حلّۂ نورانی زیب تن کرایا جاتا ہے اور سر پر تاج کرامت رکھ کر اسے تخت نشین کیا جاتا ہے،
 اور پھر اسکی خلافت و نیابت کی بیعت تمام عالم سے لی جاتی ہے اور تمام عالم میں اس کا تعارف کرایا جاتا ہے

 * قطب المدارپر خلق کے احوال روشن ہوتے ہیں*

چونکہ قطب المدار پر خلق کے احوال گردش کرتے رہتے ہیں اسلیئے قطب المدار مخلوق کے احوال کو جانتا ہے 
خلق کی حالت اس پر آشکار رہتی ہے 
چنانچہ شیخ عبدالرزاق کا شانی رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول رسالہ ابن عابدین  الشامی میں حضرت امام ابن عابدین الشامی اس طرح نقل فرماتے ہیں
,,
القطب فی اصطلا ح القوم اکمل الانسان  متمکّن فی مقام الفردیۃ تد و رعلیہ احوال الخلق,,
_________________________
ترجمہ قطب المدار اس کامل انسان کو کہتے ہیں جو مقام فردیت میں متمکن ہو اس پر مخلوق کے احوال دورہ کرتے ہیں

(رسالہ ابن عابدین الشامی ص 265)
اسی رسالے میں مزید فرماتے ہیں,,
الخليفة الباطن و هو سيد اهل زمانه سُمّي قطبا لجمع جميع المقامات والاحوال ودورانها عليه,,
ترجمه.... قطب المدار باطن میں خلفۂ رسول اللہ فی الارض ہوتا ہے اور وہی اپنے زمانے کا سردار ہوتا ہے اس کا نام قطب المدار اس لیئے رکھا گیا کہ کہ وہ تمام مقامت و احوال کا جامع ہوتا ہے ،تمام مقامات ومراتب اسی کے گردا گرد گھومتے ہیں 
رسالہ ابن عابدین شامی ص264



*مرتبۂ قطب المدار*
…......................................
حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ قطبیت کبری قطب الاقطاب کا مرتبہ ہے کہ جو مرتبہ باطن نبوت آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کا ہے
 اور یہ مرتبہ سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ورثہ کیلئے مخصوص ہے
 اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم
 صاحب نبوت عامہ و رسالت شاملہ ہیں سارے عالم کے لئے اور اکملیت کے ساتھ مخصوص ہیں تو خاتم الولایت اور قطب الاقطاب وہی ہوگا جو باطن خاتم النبوت پر ہو _

(فتوحات فصل 31 باب 198 بحوالہ الدرالمنظم صفہ 150 )


* مرتبۂ قطب المدار منتہائے درجہ ولایت ہے _*
 
====================
قطب المدار کا درجہ و مقام نہایت ہی بلند و بالا ہوتا ہے۔ 
صاحب الدرالمنظم فرماتے ہیں" قطب الاقطاب وہ ہے جس کے مرتبہ سے اعلی سواے نبوت عامہ کے اور کوئ مرتبہ نہ ہو اسی وجہ سے قطب الاقطاب صدیقوں کا سردار ہوتا ہے 
(الدرالمنظم ص 50) 

حضرت باسط علی قلندر قدس سرہ الاطہر فرماتے ہیں مقام قطب الارشاد بہت رفیع المنزلت ہے جس کے آگے اولیاء کا مقام نہیں
 (الدرالمنظم فی مناقب غوث الاعظم ص 60) 

حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرًہ النورانی فرماتے ہیں کہ فتوحات مکیہ میں ہے 
_اما القطب و ھو واحد الذی موضع نظر اللہ تعالی من العالم فی کل زمان و جمیع اوان و ھو علی قلب اسرافیل علیہ السلام والقطب الکبریٰ ھی مرتبۃ قطب الاقطاب و ھو باطن نبوتہ صلی اللہ علیہ وسلم فلایکون  الالورثتہ لاختصاصہ عليه السلام بالاكملية فلا يكون خاتم الولاية وقطب الاقطاب الا عليٰ  باطن خاتم النبوة  

ترجمہ ۔۔ قطب سے مراد ایک ذات ہے کہ تمام عالم میں جس پر اللہ کی نظر ہوتی ہے ہر وقت اور ہر گھڑی اور وہ قلب اسرافیل علیہ السلام پر ہوتا ہے 
قطب کبریٰ کا مرتبہ 
قطب الاقطاب کا ہے اور وہ باطن نبوت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم پر ہوتا ہے اور یہ اکملیت اور خصوصیت نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوتی ہے
 یہ مرتبہ کمال نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے وارثوں کے لئے ہے 
اسلئے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہی اکملیت سے مختص ہیں تو خاتم الولایت اور قطب الاقطاب باطن نبوت پر ہی ہوتا  ہے 
لطائف اشرفی مطبوعہ مخدوم اشرف اکیڈمی ص132

*اختیارات و تصرفات قطب المدار **
۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوں کہ قطب المدار جامع کمالات ولایت محمدیہ علی صاحبھا الصلوات و التسلیمات ہوتا ہے، رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر اتم اور سید اہل زمانہ اور خلیفۃ اللہ فی الارض ہوتا ہے۔ وہی باطن خاتم نبوت پر ہوتا ہے۔ اسلیئے بغیر کسی دوسرے کے واسطہ کے فیضان محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تقسیم اس کے زمانہ میں اسی کے ذریعے ہوتی ہے 
اسی کو نعمات حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم پر متصرف و مختار بنا دیا جاتا ہے
 اور مدار انعامات الہی ہونے کے شرف سے اسی کو مشرف کر دیا جاتا ہے
 زمام عزل و نصب اسی کے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا ہے

حضور سیدنا نصیر الدین چراغ دلی قدس سرہ کے خلیفہ حضرت میر جعفر مکی علیہما الرحمہ اپنی کتاب بحرالمعانی میں رقم فرماتے ہیں_
،،
اے محبوب گوش دار کہ مراتب اقطاب و قطب المدار چیست؟ مراتب اقطاب آنست کہ ایشاں اگر بخواہند ولی را از ولایت معزول کنند و بجائے اودیگر را نصب کنندومرتبۂ قطب المدار یعنی قطب عالم آنست کہ  او اگر بخواہد اقطاب را از مقام قطبیت معزول کند 
و اگر اللّٰہ تعالی 
فر شتہ را کا رفرمودہ با شد بگفت قطب مدار ازاں کار فرشتہ را معزول کند 
و بگفت قطب مدار حضرت جلًت قدرتۃ لوح محفوظ را نیز محو گر داند 
وزندہ کردن موتیٰ و انتقالات عرش و کرسی ایں جمیع تصرفات مر قطب مدار باشد ،،

_________________________
قطب عالم یعنی قطب مدار متصرف بر جمع اقالیم و بر جمیع اقطاب باشد و از عرش تا ثری متصرف بود 

 ( بحرالمعانی ص 92 میر جعفر مکی )
_________________________
ترجمہ- اے محبوب غور سے سنو کہ اقطاب اور قطب مدار کے مراتب کیا ہیں ؟؟
اقطاب کا مرتبہ یہ ہے کہ یہ لوگ اگر چاہیں تو ولی کو ولایت سے معزول کر دیں اور اسکی جگہ دوسرے کو مقرر فرما دیں اور قطب مدار یعنی قطب عالم کا مقام یہ ہے کہ اگر وہ چاہے تو قطبوں کو قطبیت سے معزول کر دے اور اگر اللّٰہ تعالی فرشتوں کو کسی کام کا حکم فرما چکا ہو اور قطب مدار کی مرضی ہو کہ یہ کام نہیں ہونا چاہئے تو اللّٰہ تعالی اپنے اس محبوب کی رضا کی خاطر فرشتوں کو اس کام سے روک دے 
قطب مدار کے کہنے پر اللّٰہ تعالی لوح محفوظ کے نوشتہ کو بھی تبدیل فرما دے 
مردوں کو زندہ کرنا عرش و کرسی کے لکھے ہوئے کو بدلنا یہ سب قطب مدار کے خصوصی تصرفات ہیں 
مزید فرماتے ہیں کہ 
 قطب مدار یعنی قطب عالم تمام اقالیم اور سارے اقطاب پر متصرًف ہوتا ہے ،،

**قطب مدار عرش سے فرش تک ہر چیز پر متصرف ہوتا ہے**
====================

حضرت میر جعفر مکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔          ،،
مقام جبروت یعنی مقام جبر و کسر خلائق مقام قطب مدار است یعنی قطب مدار کہ او متصرف است از عرش تا ثریٰ
 و جبر و کسر درشش جہات کند
 و قطب عالم یعنی قطب مدار را فیض از عرش مجید کہ تعلق بعزلیت و نصبیت دارد ،،
_____________________________
ترجمہ= مقام جبروت یعنی مخلوق کے جبر و کسر کا مقام قطب مدار سے متعلق ہے یعنی قطب مدار جو متصرف ہوتا ہے عرش سے تحت الشری تک چھ جہتوں فوق و تحت شمال و جنوب شرق و غرب میں جبر و کسر کرتا ہے 
قطب مدار کو عرش مجید سے فیض پہنچتا ہے جو عزل و نصب سے تعلق رہتا ہے بحر المعانی ص93میر جعفر مکی

** نظام کائنات وقت کے قطب مدار کے ہاتھوں میں ہوتا ہے**
===================


مولانا غلام علی نقشبندی مجددی درالمعارف میں رقم فرماتے ہیں
حق تعالی اجرائے کار خانۂ ہستی و توابع ہستی قطب مدار را عطامی فرماید و ہدایت و رہنمائی گمراہاں بدست قطب ارشاد می سپارد و بعد ازاں فرمودند کہ حضرت بدیع الدین شیخ مدار قدّس سرہ قطب مدار بودند و شانے عظیم دارند

 ترجمہ ..حق تعالی کار خانۂ ہستی و توابع ہستی کے اجراء کی ذمہ داری قطب مدار کے سپرد فرما دیتا ہے اور گمراہوں کی ہدایت و رہنمائی کا کام قطب ارشاد انجام دیتا ہے اس کے بعد فرمایا کہ حضرت بدیع الدین شیخ مدار قطب المدار تھے اور ایک عظیم شان کے مالک تھے 
( درالمعارف مطبوعہ استنبول ترکی ص 243 )

8
*عالم کا وجود قطب المدار کی برکت سے قائم رہتا ہے*
===================
حضرت مجدد الف ثانی امام ربانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت خضرعلیہ السلام نے دوران مکاشفہ ارشاد فرمایا،،
جعلنا اللّٰہ تعالی معینا لقطب المدار من اولیا اللّٰہ تعالی الذی جعلہ اللّٰہ تعالی مدار للعالم و جعل بقاء العالم ببرکة وجودہ و افاضته
( الحدیقۃ النديه فی شرح الطریقۃ النقشبندیه مطبوعہ اخلاص و فقی استنبابول)
 ،،
   حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قطب المدار کا معین بنایا وہ قطب المدار جو اللّٰہ تعالی کا ایسا ولی ہے جس کو اللّٰہ تعالی نے عالم کیلئے مدار قرار دیا ہے
 اور اللّٰہ تعالی نے عالم کی بقاء اس کے وجود کی برکت اور اس کے افاضہ پر مقرر فرما دیاہے،،

حضرت میر جعفر مکی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
قطب عالم در ہر زمانہ و عصر یکے باشد ووجودجمیع موجودات از اہل دنیا و آخرت یعنی سفلی و علوی بوجود قطب عالم قائم باشد و قطب عالم را فیض از حق تعالی بے واسطہ باشد و قطب عالم را قطب مدار نیز گویند یعنی مدار موجود ات سفلی و علوی از برکت وجود اوست 
ترجمہ= قطب عالم ہر زمانہ و ہر عصر میں ایک ہی ہوگا
 اور تمامی موجودات کا وجود اہل دنیا و اہل آخرت میں سے یعنی عالم علوی و عالم سفلی میں سے هر ايک کا وجود قطب عالم کے وجود کے سبب قائم ہوتا ہے
 اور قطب عالم کو حق تعالی سے بےواسطہ فیض پہنچتا ہے
 قطب عالم کو قطب مدار بھی کہتے ہیں 
یعنی موجودات عالم سفلی و علوی اس قطب مدار کے وجود کی برکت کے سبب ہوتا ہے

(بحرالمعانی ص 83)

*ایمان و ھدایت کا نور قطب المدار کے وسیلے سے ملتا ہے* "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام ربانی مجدد الف ثانی اپنے مکتوب میں رقم فرماتے ہیں کہ قطب ارشاد جو کمالات فردیہ کا بھی جامع ہوتا ہے بہت عزیزالوجود اور نایاب ہے
 بہت سے قرنوں اور بے شمار زمانوں کے بعد اس قسم کا جوہر وجود میں آتا ہے
 عالم تاریک اس کے نور ظہور سے نورانی ہوتا ہے اور اس کی ہدایت و ارشاد کا نور محیط عرش سے لے کر مرکز فرش تک تمام جہان کو شامل ہوتا ہے
 اور اس کے وسیلے کے بغیر کوئی شخص اس دولت کو نہیں پا سکتا 
- مثلا اس کی ہدایت کا نور دریائے 
 محیط کی طرح تمام جہان کو گھیرا ہوا ہے 
اور وہ دریا گویا منجمد ہے اور ہرگز حرکت نہیں کرتا اور وہ شخص جو اس بزرگ کی طرف متوجہ ہے اور اس کے ساتھ اخلاص رکھتا ہے یا یہ کہ وہ بزرگ طالب کے حال کی طرف متوجہ 
ہے
 تو توجہ کے وقت گویا طالب کے دل میں ایک روزن کھل جاتا ہے اور اس راہ سےتوجہ واخلاص کے مطابق اس دریا سے سیراب ہوتا ہے ایسے ہی وہ شخص جو ذکر الہیٰ کی طرف متوجہ ہے اور اس عزیز کی طرف بلکل متوجہ نہیں ہے 
انکار سے نہیں 
بلکہ اس کو یہی پتہ نہیں ہے تو اس کو بھی یہ افادہ حاصل ہو جاتا ہے لیکن پہلی صورت میں دوسری صورت کی بنسبت افادہ بہتر اور بڑھ کر ہے لیکن وہ شخص جو اس بزرگ ( قطب الارشاد قطب المدار )کا منکر ہے یا وہ بزرگ اس سے آزردہ ہے تو اگرچہ وہ ذکر الٰہی میں مشغول ہے لیکن وہ رشد و ہدایت کی حقیقت سے محروم ہے
 یہی انکار و آزار اس کے فیص کا مانع ہو جاتا ہے بغیر اس امر کے کہ وہ بزرگ اس کے عدم افادہ کی طرف متوجہ ہو یا اس کے ضرر کا قصد کرے کیوں کہ ہدایت کی حقیقت اس سے مفقود ہے وہ صرف مرشد کی صورت ہے اور صورت بے معنی کچھ فائدہ نہیں دیتی اور وہ لوگ جو اس عزیز (قطب المدار) کے ساتھ محبت و اخلاص رکھتے ہیں اگرچہ توجہ مذکورہ اور ذکر الٰہی سے خالی ہوں لیکن فقط محبت ہی کے باعث رشد و ہدایت کا نور ان کو پہنچ جاتا ہے- 
(مکتوبات امام ربانی جلد دوئم دفتر اول حصہ چہارم مکتوب 260)

فتوحات مکیہ ،رسالہ ابن عابدین الشامی، الدرالمنظم، لطائف اشرفی، بحرالمعانی، درالمعارف اور مکتوبات امام ربانی کی عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کے قطب المدار کے زیر تصرف عالم امرو عالم خلق، عالم علوی، عالم سفلی ،ھفت آسمان  ھفت اقلیم زمین ساری مقام عزل و نصب، مقام جبر و کسر، ہستی و توابع ہستی، عرش و فرش اور شس جہات و جمیع موجودات ہوتے ہیں ۔ ولایت و قطبیت کی سلطنت کا وہی بادشاہ وقت ہوتا ہے ۔رشد و ہدایت کی مملکت کا وہی تاجدار عصر ہوتا ہےاور وہی ترقی کر کے فرد الافراد اور محبوب حقیقی بنتا ہے

اسی لئے بزرگان طریقت کے سلسلے اور مشائخ حقیقت کے شجرے بھی اس قطب المدار کی نسبت سے معمور و منور ہوتے ہیں 
ہر نسبت میں اس کی نسبت اور ہر محبت میں اسکی محبت کی جلوہ فرمائی ہوتی ہے, انسان سمجھے یا نہ سمجھے اسی کی ہدایت کے نور سے وہ ھادی و ہدایت یافتہ بنتا ہے, اسی کے جوہر نور سے وقت, زمانہ, زندگی کی خوشی, اور ہر چہل پہل باقی رہتی ہے اسکا وجود مسعود سب کے وجود کا سبب بنتا ہے
 مصنف اسی کے مرہون منت, مفسر اس کے زیر احسان, محدث اسی کا منون ,مفکر کی فکر کو اسی سے سلامتی، مقرر کی زبان میں اسی سے حلاوت، اور حیات کی بقا اسی کے وجود کی برکت سے،بارش اسی کے فیض سے رزق اسی کے وسیلے سے،نعمتیں اسی کے صدقے سے  ملتی ہے ۔اپنے زمانہ میں ہر فیض کا مصدر اور  ہر بھلائی کا منبع وہی ہوتا ہے ۔
حضرت سید احمد بدیع الدین حلبی مکنپوری ولایت و قطبیت کے مقام کبری پر فائز ہوئے منصب  قطب المدار پر سرفراز ہوکر فردالافراد و محبوب حقیقی و محبوب نازنین قرار پائے 
سلطان العارفین با یزید بسطامی عرف طیفور شامی متوفی 261) 
سے ظاہری بیعت و خلافت سے مشرف ہو کر ملک العارفین اور محبوب صمدانی کے منصب جلیل سے ارجمند ہوئے 70مرتبہ آپ نے شب قدر کی زیارت فرمائی 
جناب لال بیگ بدخشی کی کتاب ثمرات القدس من شجرات الانس مصنفہ (1009) ھجری میں مرقوم ہے
سید بدیع الدین قطب الادوار لقب شاہ مدار قدس سرہ ھفتاد مرتبہ شب قدر را دریافتہ بود (ثمرات القدس من شجرات الانس مخطوطہ رضا لائبریری رام پور شمارہ کتاب نمبر 2304) 
ترجمہ ا سید بدیع الدین قطب الادوار لقب شاہ مدار نے 70 ستر مرتبہ شب قدر کی زیارت فرمائی تھی یہ تو شب قدر کی بات ہے اصحاب سیر فرماتے ہیں کہ بطور اؤیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ نے کئی بار رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت فرمائی
  اورمنصب اؤیس سے سرفراز ہوئے -

ملفوظات حضرت شیخ سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نورانی 707، ھ  808، ھ مطابق 1308،ء 1408، ء میں تذکرہ الاولیاء مصنفہ حضرت فرید الدین عطار   1145,  ء 1221.ء  نیشا پوری کے حوالہ سے مرقوم ہے-
،،
قومے از اولیاء اللّٰہ عز و جل باشند کہ ایں شاں را مشائخ طریقت و کبرائے حقیقت اؤیسیاں نامند کہ ایشاں را ظاہر بہ پیرے احتیاج نہ بود زیرا کہ ایشاں را حضرت رسالت پناہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم در حجرۂ عنایت خودپرورش و تعلیم  می دہند بے واسطہ غیرے چناںکہ اویس دادہ۔ایں عظیم مقامے بود و روش عالی تر ۔کہ ایں جا رسانند؟وایں دولت بکہ رونماید
 بموجب آیت کریمہ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم
ترجمہ۔ اللّٰہ عز و جل کے ولیوں میں سے کچھ لوگوں کو اویسی کہتے ہیں۔ حضرات مشائخ طریقت اور کبرائے حقیقت یہ بات فرماتےہیں۔ ان اویسیان کو بظاہر کسی پیر کی حاجت نہیں ہوتی ہے ۔اس لئے کہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے حجرۂ عنایت میں بذات خود ان کی تعلیم وتربیت فرماتےہیں بغیر کسی واسطے کے جس طرح حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیم وتربیت فرمائی۔یہ ایک عظیم مقام  اور بہت بلند روش ھے۔ اس مقام اویسیہ  تک کس کی رسائی ھے؟ اس دولت سے کون مشرف ہوتا ہے ؟یہ تو محض اللہ کا فضل ھے وہ جسے چاہتاہے عطا فرماتا ھے

   
 
( لطائف اشرفی فارسی مطبوعہ نصرت المطابع دہلی ص 354)

مزید فرماتے ہیں حضرت شیخ بدیع الدین ملقب بشاہ مدار ایشاں نیز اویسی بودہ اند و بسے مشرب عالی داشتند وبعض  علوم نوادر از ھیمیاء و سیمیاء و کیمیاء و ریمیاء از ایشاں معائنہ شد کہ نادر ازیں طائفہ کسے را باشد 

( لطائف اشرفی 354)

حجرہ عنایت میں بذات خود ان کی پرورش و تربیت فرماتے ہیں اس امر میں کسی کا واسطہ نہیں ہوتا جیسا کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیم و تربیت رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دی یہ
 اویسیت ایک عظیم مقام اور بہت ہی بلند روش ہے ۔بھلا کسے اس مقام تک رسائی ہے؟ اس دولت سے کون مشرف ہوتا ہے؟ یہ تو صرف اللّٰہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے
مزید
فرماتے ہیں
 شیخ بدیع الدین ملقب بشاہ مدار قدس سرہ بھی اویسی ہوئے ہیں آپ بہت ہی عالی مشرب رکھتے ہیں ،بعض علوم نوادر جیسے ھیمیاء و سیمیاء و کیمیاء و ریمیاء آپ ہی سے مشاہدہ ہوئے
 اس جماعت اولیاء میں نادر ہی کسی کے پاس یہ علوم ہونگے 


* *قطب المدار کو براہ راست رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تعلیم و تربیت دی**

 مراۃ مداری میں ہے کے حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی خصوصی تعلیم وتربیت فرمائی چنانچہ فرماتے ہیں 

بعد از  صفائی باطن اورا حضور  تمام بروحانیت حضرت رسالت پناہ میسرگشت 
آنحضرت ازکمال مہربانی و کرم بخشی دست قطب المدار بدست حق پرست خود گرفتنہ تلقین اسلام حقیقی فرمود (مراۃ مداری مترجم ص 110 مطبوعہ المجمع المداری جہراوں سدھارتھ نگر) 
ترجمہ۔
 باطن کی صفائی کے بعد مدار  پاک کو حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانیت پاک کی  مکمل حضوری میسر آئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال کرم بخشی و لطف و مہربانی سے دست قطب المدار کو اپنے دست حق پرست میں لےکر اسلام حقیقی کی تعلیم فرمائی 

*اویس زمانہ کو علم ھیمیاء ، سیمیاء ، ریمیاء اورکیمیاء کی خبر ہوتی ہے**

صاحب بحر زخار علامہ وجیہ الدین اشرف فرنگی محلی  فضائل اویسیت کے باب میں  تحفۃالابرارسے نقل فرماتے ہیں


اویسیاں را اکثر نوادر علوم خبرمی باشد مثل ھیمیاء و سیمیاء و ریمیاء و کیمیاء 
 
یعنی جو حضرات منصب اویسیت سے سرفراز ہوتے  ہیں اکثر  انہیں نوادر علوم  ھیمیاء و سیمیاء و ریمیاء و کیمیاء وغیرہ  کی خبر ہوتی ہے 
(بحر زخار جلد سوم ••• ص 1007عکس علمی محفوظ مختار اشرف لائبریری کچھوجھہ شریف)

*ھیمیاء و سیمیاء و ریمیاء و کیمیاء کی تعریف*

ھیمیاء-------  کیفیت علم ھیمیاء عبارت
از تو سعئہ وقت و قیل انتقال روح یعنی اکثر روح می خواہند بجہت اتمام کمالات بدنی دیگر اقوی ازیں بدن اختیار کند ایں قسم را بتناسخ نمی گویند و جائز می دارند چنانچہ خضر علیہ السلام درہر صد سال برائے خود بدنے دیگر اختیار می کند---
ریمیاء------  عبارت از دانستن

تفعلات بدن و اظہار از عجائب و نمودار غرائب
 او آنست کہ روح اکثر خواہد از بدن جدا شدہ سیر فرماید و بدن حوالئہ معتمدے کند تاروزن مراجعت تلف نشود،،

در اصل علم ہیمیاء میں عالم علوی آسمانی کی قوتوں کو عالم سفلی کے عناصر سے مربوط کرنے کے ہنر سے بحث کرتے ہیں 
اس علم پر قدرت پانے والے کے لئے وقت میں وسعت اور امتداد پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے
 بعضے کہتے ہیں کہ انتقال روح پرقدرت پا جانے کا نام ہے یعنی کمالات بدنیہ کے  اتمام کے لئے روح چاہتی ہے کہ اس بدن سے زیادہ اقوی بدن کو پسند کرلے جسکی وجہ سے عالم کثیف سے عالم لطیف کا سیر ممکن ہو سکے جیسا کہ شب معراج میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیلئے ہوا  یا عالم نورانی سے عالم انسانی کا سیر  سہل ہو  سکے جیسےحضرت جبرائیل علیہ السلام کا حضرت دحیہ کلبیی رضی اللہ عنہ کی شکل میں آنا اس قسم کو تناسخ  نہیں کیا جا سکتا  ہے حضرت خضر علیہ السلام ہر سو سال میں اپنے لئے نیا بدن اختیار کر لیتے ہیں طریقہ نقشبمدیہ میں تفسیر مظہری و غیرہ میں حضرت خضر علیہ السلام کا قول منقول ہے
ان اللّٰہ تعالی جعل لارواحنا قوۃ نتجسد بھا ،،
یعنی اللّٰہ تعالی نے ہمیں ایسی قوت عطا فرمائی ہے کہ ہم جس شکل کو چاہیں اپنے لئے اختیار کر لیں  یا یہکہ بدن کے مناسب طریقئہ عمل اور اس کے فعلی اثر جاننے کو  سیمیاء سے تعبیر کرتے ہیں
 یعنی وہ علم جس میں بدن کی صلاحیتوں کے کمال عروج سے بحث کرتے ہیں اس سے بدن انسان کی اعلیٰ کار کردگی کے جوہر ابھر کر سامنے آنے لگتے ہیں جسکی وجہ سے عجائب کا ظہور اور غرائب کا نمود ہونے لگتا ہے
 اگرچہ روح کیلئے کوئی حجاب نہیں ہے لیکن جس بدن میں ساٹھ ستر سال رہی اور جس میں حشر کے بعد ابد تک رہے گی اس بدن سے روح کا تعلق زیادہ ہونا چاہئے ۔


واشارہ ریمیاء ------ عبارت از حیران در ہوا دانستہ اند


علم کیمیاء-------------  عبارت از ساختن اکاسیر
 از ایں جااست
کیمیاء و  سیمیاء و  ریمیاء۔ 


  ایں نمی دانند کس جز اولیاء  

روح اکثر یہ  چاہتی  ہےکہ اپنے بدن سے جدا ہوکر سیر کرے اور بدن اپنے آپ کو کسی معتمد کے حوالہ رکھنا چاہتا ہے تاکہ روح کی مراجعت کا راستہ کسی طرح تلف نہ ہو سکے 
علم ریمیاء،، مادی قوتوں کو مسخر کر کے اس سے عجیب و غریب آثار پیدا کرتا  ہےجیسے ہواؤں پر قدم جما دینا یا سمندر کی لہروں پہ مصلی بچھا دینا یا آگ سے با سلامتی گذر جانا وغیرہ
 یا یہ کہ
معدنی اجرام و قلذات کو دوسرے کے ساتھ خلط کر کے یا نگاہ کی قوت جاذبہ سے کسی شیئ کی ماھیت کو تبدیل کر دینے اور اکسیر بنانے کے فن کو علم کیمیاء کہتے ہیں اسی موقعے سے کسی نے کیا خوب کہا ہے
 
کیمیاء و سیمیاء و ریمیاء 
 یہ وہ علوم اسرار ہیں کہ اولیاء کرام کے سوا دوسرے نہیں جانتے 
(بحر زخار عکس مخطوطہ ص 1007)
====================
*مفہوم اویسیت بزبان مدار پاک*
===============
حضور سید بدیع الدین احمد الحلبی مکنپوری اپنی اویسیت کا ذکر اپنی زبان سے خود فرماتے ہیں 
حضور مدار پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے  سوال کیا کہ  سنا ہے کہ آپ کو بے واسطہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کی سعادت حاصل ہوئی ہے
 یہ بات نہایت عجیب لگتی ہے اور دوسرے یہ کہ العلماء ورثۃ الانبیاء  سے مراد یہی علم ھے جسے ہم نے پڑھا ہے یا وہ کوئی دوسرا علم ہے ؟
اس کے جواب میں حضور مدار پاک سید بدیع الدین احمد قدس سرہ کا ایک مکتوب ہے جو کئی کتابوں میں الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ مرقوم ہے
 رضا لائبریری رام پور میں ایک مکتوب، مکتوب شاہ مدار کے نام سے ہے
جس کا سلوک فارسی نمبر 462  ھے مخطوطہ بحر زخار ،تحفته الابرار اور تذکرۃالمتقین میں بھی مکتوب مرقوم ہے میں یہاں مراۃ مداری مصنفہ شیخ عبدالرحمن چشتی کے حوالہ سے مکتوب شڑیف نذر قارئین کر رہا ہوں
 لیکن رضا لائبریری رام پور کے نسخے کا ابتدائیہ پہلے ملاحظہ کریں
مکتوب قطب الاقطاب شیخ بدیع الحق والشرع والدین شاہ مدار قدس سرہ بجانب قاضی شہاب الدین شمس عمر دولت آبادی بداں کہ کتابت شریف  بنبیرہ سید المرسلین سید طاہر ادام اللہ سیادتہ و نظام الدین بردرویش رسانیدہ ،،

مراۃ مداری میں ابتدائیہ اس طرح ہے ھوالموجود : برادرم قاضی شہاب الدین شمس عمر دولت آبادی بداں کہ مکتوب ،،،آں برادر بہ نبیرہ سیدالمرسلین سید طاہر ادام اللہ سیادتہ و نظافتہ بریں درویس 



از خویش رسانید ،در کتاب آں برادر چنیں باز دیدہ شد کہ از بیشتر مردماں تسامع می شود کہ مخصوص ملاقات حضرت سیدالمرسلین بے واسطہ بحسب ظاہر شمارا میسر بودہ است
 ایں معنئ سعادت روئے بنماید و ہیچ یکے ایں دربستہ نمی کشاید، کہ چگونہ بود ؟،دیگر آنکہ العلماء ورثته الانبیاء ہمیں علوم است کہ ما تحصیل کردۂ ایم یاآنکہ علم دیگر است ایں دو لطیفہ بجواب حل گردانیدہ مرقوم فرمایند

*مکتوب شریف*– اے برادر ! عوام را ادائے دانستن اسرار خواص حضرت الوھیت بس مشکل است ۔بداں کہ گوشہ نشینان خانقاہ عدم مردانند و بر مرکب نفخت فیه من روحی شہسوار اند  
کہ بندہ گاں را دراسرار شاھاں آں جا راہ نیست
 از بس کہ در مقام قرب اند و از سایۂ حدوث خویش دوراند جبرائیل علیہ السلام را برکاب برادری نمی گیرند ،و میکائیل را بغاشیہ برداری نمی پزیرند بیک تگ از ہر دو عالم بیروں شدہ اند

و بصحرائے الوھیت بعالم لا مکاں کہ نا محدود و نا متناہی است 
جولا نگری می نمایند، و لیس عند اللّٰہ صباح  ولا مساء مقام دارند ،بعلم ،،یمحو اللہ مایشاء و یثبت ،،محو در محو اند ،
بے نام و نشان، از جملہ خلائق دوراند، حق تعالی از غیرتے کے دریں قوم است ازمر دماں محفوظ و مستور می دارد 
و مگرآں کہ اور امیخواہد ،،له مقالید السموت و الارض ،،مر او را است ۔ایں درویش دربستہ بروے می کشاید ،و مامور بامر اللّٰہ تعالیٰ ،و اللّٰہ غالب علی امرہ، پیش می آید ۔و خویشتن را بکسوت بشریت بدو می نماید کہ بداں امراست حکایت دشت ارزن
، آں برادر شنیدہ باشد کہ اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ دو صد سال و کثیرے پیش از ولایت خود بہ امر حق تعالی بدن مثالی گرفتہ سلمان فارسی را از پیش شیر خلاص ساختہ بود پس ارواح مقربان درگاہ الوھیت را پیش از وجود عنصری و در وجود عنصری و بعد از گزاشتن وجود عنصری تصرف یکساں می باشد 
،گاہے لباس عنصری می پوشند و گاہے وجود مثالی، چنانچہ بعضے ازاں طائفہ در مقام مناجات مہتر موسیٰ صلاۃ اللّٰہ علیہ حاضر بودند، 
و چوں نود ہزار تکلم در مقام قاب قوسین او ادنی حق تعالی در شب معراج مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

مکتوب زندہ شاہ مدار ---- برادرم قاضی شہاب الدین شمس عمر دولت آبادی کو معلوم ہو آپ کا خط بذریعہ نبیرہ سیدالمرسلین سید طاہر ادام اللہ میادتہ و نظافتہ پہنچا اس مکتوب میں اس طرح سمجھا گیا ہے کہ اکثر حضرات سے سنا جاتا ہے کہ حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بغیر کسی واسطہ کے ظاہری طور پر آپ کو مخصوص ملاقات میثر ہوتی ہے یہ یعنی سعادت درویش ہے کوئی شخص اس راز سربستہ کو نہیں کھولتا ہے کہ ملاقات کیسے ہوئ دوسرا یہ کہ العلماء ورثته الانبیاء سے یہی علوم مراد ہیں جنہیں ہم نے حاصل کیا ہے یا کوئی دوسرا علم مراد ہے ان دونوں لطیفوں کا حل فرمایں حضور مدار پاک جواب میں ارشاد فرماتے ہیں اے برادر ! بارگاہ الوھیت کے خواص حضرات کے اسرار کا علم عام لوگوں کیلئے بہت مشکل ہے_ غور سے سمجھو کے وہ حضرات عدم کے گوشہ نشین اور ٫٫نفخت فیه من روحی,, کے میدان کے شہسوار ہیں غلاموں کو بادشاہوں کے اسرار تک رسائی کی کوئی راہ نہیں ہے- اسلئے کہ وہ ایسے مقام قرب الہیٰ میں ہیں کہ وہ اپنے حدوث کے سایئے سے بھی دور ہیں وہ جناب جبرائیل علیہ السلام کو بھی اپنی رکاب داری میں نہیں لیتے اور نہ جناب میکائیل کو اپنی غاشیہ برداری میں قبول کرتے ہیں وہ ایک قدم میں دونوں عالم کو عبور کر لیتے ہیں! اور صحرائے الوھیت سے عالم لامکانی میں جو لا محدود و نا متناہی ہے آتے جاتے رہتے ہیں
 اللّٰہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنے شب و روز گزار تے ہیں 
حال یہ ہے کہ بارگاہ ربّ العزت میں صبح و شام کی قید نہیں ہے اور٫٫ یمحو اللّٰہ مایشاء و یثبت,, کے علم میں مستغرق ہوکر۔۔


فرمود می شنیدند و بادرویشان صحابہ رضی اللہ عنہم مصا فحہ داشتہ اندو درحیات و ممات بایشاں حاضر بودند،
 و ہستند ،
کُل را دریافتہ اند تا  بجز چہ رسد 
چوں ایں معنی برادر را محقق و معلوم گشتہ۔۔


محو در محو ہو کر بے نام ونشاں ہو جاتے ہیں وہ جملہ خلائق سے دور ہیں حق تعالی کی اس قوم کے ساتھ ایسی غیرت ہے کہ اپنی غیرت داری میں لوگوں سے انہیں محفوظ و مستور رکھتا ہے٫٫ له مقالید السموت و الارض,, کا مژدہ انہیں کیلئے زیب ہے یہ فقیر اس بند دروازے کو اسی کیلئے کھولتا ہے جس کیلئے اللّٰہ تعالی کا حکم ہوتا ہے ،٫٫والله غالب علىٰ امره،،( اور اللّٰہ تعالی اپنے امر پر غالب ہے،)  پیش نظر  رکھتے ہیں اور خود کو جامۂ بشریت میں اسے ہی  دکھاتے ہیں جس کے لیئے اللہ کا حکم ہوتا ھے۔
 حکایت دشت ارزن اسی امر سے متعلق ہے اے برادر آپ نے سنا ہوگا کہ حضرت سیدنا اسداللہ الغالب حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم اپنی پیدائش سے کم و بیش دو سو سال پہلے اللّٰہ تعالی کے حکم سے بدن مثالی اختیار فرما کر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شیر کے حملہ سے رھائی دلائی تھی،
 پس  درگاہ الوھیت کے مقربین کی ارواح طیبہ کو وجود عنصری سے پہلے اور وجود عنصری میں اور وجود عنصری چھوڑ نے کے بعد بھی یکساں تصرف رہتا ہے ۔

کبھی لباس عنصری پہن لیتے ہیں اور کبھی وجود مثالی اختیار کر لیتے ہیں—
چنانچہ اسی طائف مخصوصہ میں سے بعض حضرات حضرت موسی صلاۃ اللّٰہ علیہ کے مقام مناجات میں حاضر تھے اور جب نوے ۹۰ ہزار کلام ٫٫مقامات قاب قوسین  او ادنی ,, میں حضرت حق تعالی نے شب معراج حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے فرمایا تھا تو یہ حضرات طائفہ مخصوصہ بھی سن رہے تھے اور اصحاب صفہ کے درویشوں سے مصافحہ کر تے تھے اور حیات و ممات میں ان کے ساتھ حاضر رہتے تھے اور اب بھی ہیں ۔
وہ کل کو حاصل کر چکے ہیں ان کیلئے جز کی کیا حقیقت ہے ،
جب یہ ایک بات آپ کو معلوم ہوگئی تو العلماء ورثۃ الانبیاء کے بارے میں بھی اب سماعت کیجئے 
،،،،،،الی آخرالمکتوب
(مراۃ مداری مترجم المجمع المداری جہراوں شریف سدھارتھ نگر یوپی)

                                                 

**شجرۂ اویسیہ مداریہ**

مکتوب شریف کے اس حصے سے حضور مدار پاک اپنی نسبت اویسیت کو خود آشکار فرما رہے ہیں اور اویسیت کا مفہوم و امکان صحبت رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وضاحت خود ہی فرماتے ہیں_
حضرت قاضی محمود الدین کنتوری بارہ بنکوی رحمة اللہ علیہ جو سرکار مدار پاک کے خلیفۂ اجل ہیں ، آپ نے ایک  مرتبہ حضور   مدار پاک سے یہ سوال کیا کہ حضور اپنا سلسلہ نسبت مجھے عنایت فرمائیں۔ کریم ابن کریم حضور سید بدیع الدین قطب المدار قدس سرہ نے اس شان سے ارشاد فرمایا 
٫٫اکتب اسمک ثمہ اسمی ثمہ اسم  رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ،،_ 
یعنی اپنا نام لکھو پھر میرا اور ميرےآگے جناب محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی۔
بندۂ عشق شدی ترک نسب کن جامی 
کہ دریں را فلاں ابن فلاں چیزے نیست—

تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ برکاتیہ  میں ھےکہ حضرت محمد جمال الدین عرف جمال اولیاء کوڑا جہان آبادی قدس سرہ نے بلا واسطہ حضرت سید بدیع الدین قطب المدار سے نسبت اویسہ حاصل کیا۔
 کاشف الاستار میں حضرت سید شاہ حمزہ مارہروی قدس سرہ  نے اپنے لئے ایسا ہی لکھا ہے کہ آپ کو حضور مدار پاک سے اویسی نسبت حاصل ہوئی
 (تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ صفحہ 130 عبدالمجتبی رضوی )
*قطب المدار کی اویسیت پر اھل بصیرت کا اتفاق**

حضرت عبد الرحمٰن چشتی قدس سرہٗ العزیز نقل فرماتے ہیں 
,,
اہل بصیرت بریں متفق اند کہ قطب المدار اویسی بود و از روحانیت حضرت علی کرم اللہ وجہ تربیت و تکمیل یافتہ،، - ترجمہ ۔۔۔
اہل بصیرت اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت قطب المدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اویسی تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی روحانیت سے تکمیل پائی تھی۔ ،،
(مرات مداری مطبوعہ المجع المداری ص 123)

**مدار پاک سے پہلے ہندوستان میں اویسیت کی اشاعت نہیں تھی* *
 میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ حضور مدار پاک کی آمد آمد سے پہلے ہندوستان میں خانوادۂ  اویسیہ کی نشرو اشاعت نہیں تھی- لکھتے ہیں ,,الغرض پیش از تشریف آوردن شاہ مدار در ہندوستان خانوادۂ اویسیہ انتشار نیافتہ بود ۔ بعضے مشائخ ہند ازیں مقدمہ واقف نشدہ بودند ۔ 
چوں حضرت شاہ مدار آمد ایں مشرب عالی قدر شائع گشت - 
یعنی
حضرت مدار پاک کی تشریف آوری سے پہلے ہندوستان میں خانوادہ اویسیہ کا نشر و انتشار نہیں ہوا تھا ۔ 
ہندوستان کے بعض مشائخ تو اس سلسلہ اویسیہ   کے مقدمات سے  واقف ہی نہیں تھے ۔جب حضور مدار پاک قدس سرہ تشریف لائے تو یہ مشرب عالی قدر شائع ہوا ۔

(مراۂ مداری ص 121)

ناچیز ابو الحماد محمداسرافیل حیدری المداری عرض کرتا ہے کہ
حضور مدار پاک کی قطبیت و مداریت اور اویسیت و صحبت کی قدرے تفصیل جاننے کے بعد ہندوستان میں آپ کی آمد اور آپ کی دعوت و تبلیغ کے اثرات کو سمجھنا سمجھانا بھی علمائے عصر اور فضلائے دہر کی ذمہ داری ہے۔
 242 ہجری میں پیدا ہونا اور 282 ہجری میں حجرۂ عنایات رسولِ مقبول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میں تعلیم علم مدنی ، تعلیم علوم نبوت اور معرفتِ ولایتِ رسالت سے سر فراز ہو کر بے شمار کرامات و نوازشات و شرفِ اویسیت سے مشرف ہونا اور مولی' علی باب العلم علیہ السلام سے تربیت و تکمیل و نسبت صغریٰ و نسبت کبریٰ سے شرف یابی اور  کتب حقائق و صحف آسمانی کی تعلیم وتحصیل کے بعد  مزید روحانیت حضرت امام مہدی موعود سے تربیت پانا,
 اشارہ کرتا ہے کہ داعی اسلام حضرت مدار پاک کو تمام تر تبلیغی صلاحیتوں سے مسلح و مبرہن و مبین و مزین فرما کر ہندوستان بھیجا گیا  ۔
282 ہجری میں ہندوستان میں اسلام اور تعلیم کا کیا حال رہا ہوگا اور یہاں کی تہذیب و ثقافت پر جہالت و توھم کا کتنا رنگ چڑھا ہوگا اہل شعور اور اہل سیر بخوبی جانتے ہوں گے ۔؟
جو پیغمبر جس قوم کے زمانے میں ہوتے تھے اس قوم کی قابلیت اور استعداد کے مطابق مبعوث کیئے جاتے تھے ۔
اسی طرح داعیان اسلام کو جن علاقوں کی دعوت کی ذمہ داری دی جاتی ہے وہاں کی قوموں کی استعداد و صلاحیت کے مطابق ہی ان ھادیوں اور داعیوں کا انتخاب ہوتا ہے۔
برصغیر کے لئے داعئ اسلام کا انتخاب بارگاہِ رسول سے ہو گیا ھے ۔
بحرزخار اور مراۃ مداری میں ہے کہ جب حضرت مہدی موعود علیہ السلام نے حضرت قطب المدار قدس سرہ کی تربیت فرماکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خدمت روحانیت میں پیش کیا تو حضرت مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے خوش ہوکر اپنی خلعت خاص معنوی سے مدار پاک کو سرفراز فرمایا اور مدینہ نبوی میں بھیج دیا  - آقائے کریم نے  نہایت ہی اکرام و نوازش فرما کر آپ کو ھندوستان جانے کا حکم صادر فرمادیا ۔
چنانچہ لکھتےہیں ,,
آنحضرت صلوات اللہ علیہ نہایت توجہ و مہربانی نمود  فرمود کہ حالا حضرت حق سبحانہ و تعالٰی ترا باسرار مخفی خود شناساگردانید۔
 بایدکہ بجہت اداۓ شکر نعمت الہی باز سعادت زیارت مکہ معظمہ بجا آر و از آں جابجانب ملک ہندوستان برو _...........
وگم گستگان بادیۂ ضلالت رابطریق صراط مستقیم ہدایت نما- (مراۃ مداری مطبوعہ المجمع المداری جہراؤں سدھارتھ نگر یوپی ص 120-119)
آنحضرت صلوۃ اللہ علیہ نے نہایت توجہ و مہربانی کا اظہار فرمایا اور حکم دیا کہ اب جبکہ حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو اپنے اسرار مخفیہ کا رازدار بنا لیا ہے تو آپ نعمت الہیہ کا شکر ادا کرنے کے لئے مکہ معظمہ جاؤ اور سعادت زیارت بجا لاؤ اور  اس کے بعد ھندوستان روانہ ہو جاؤ 
اور وھاں صحراۓ ضلالت میں بھٹکے ہوۓ لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرو


**سرزمین ہندکی پیشانی پر چار چاند لگ گئے* *

سرزمین ہند جس کی پیشانی پر آدمیت کا نمود ہوا -
جسکے سینے پر حضرت آدم علیہ السلام کا پہلا نقش چھپا ،جس کے رہ گزاروں اور لالہ زاروں میں بزبان آدم علیہ السلام اول اول صداۓ تکبیر گونجی، جس کا ذرہ ذرہ آدمیت کے نور کے پرتو سے آئینۂ تجلیات ربانی و عکس نور سبحانی بنا ،جس کے گلستانوں سے پھوٹنے والی ایمان و وفا کی خوشبو بارگاہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محسوس کی گئی۔
زبان اقبال بول اٹھی 
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
 میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
ایمان و وفا کی اس خوشبو سے اہل ہند کے دل و دماغ  اورفکر و شعور کو معطر کرنے کے لئے ہادئ عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے داعئ اسلام  حضرت قطب المدار کو ہندوستان بھیج دیا ہے

مدار پاک سید بدیع الدین احمد قدس سرہ نے ہندوستان میں  سب سے پہلے دعوت و تبلیغ کا کام اپنی شایان شان انجام دیا
قدیم ہندوستان کے گوشے گوشے اور خطے خطے میں دعوت اسلام پہنچائی،
 اس کے شواہد مدار پاک کے نقوشِ قدم آج بھی دیتے ہیں

مدار گنج، مدار نگر، مدار پور، مدار کھیڑا، مدار ٹولہ، مدار پہاڑ، مدار وادی مدار گاوں، مدار ٹیکری ، مدار اسٹیشن ، مدار گیٹ، مدار تکیہ ،مدار چلہ ، مدار کا چاند 🌙 مدار کا مہینہ ،مدار نالہ، مدار ندی مدار پل، مدار کا مالیدہ، مدار کا مرغا ، مدار کا بکرا ،مدار کا پٹہ  اور مدار بخش ، غلام مدار اور دیگر نشانیاں اور بر صغیر  میں چودہ سو بیالیس چلہ گاہ قطب المدار وغیرہ یہ  وہ سب منسوبات مدار پاک ہیں جو آپ کی دعوت و تبلیغ کی تکمیل کی شاہد ہیں
 علماء ،صلحاء ،صوفیاء، مشائخ، اہل سلسلہ،فقرائے ہفت گروہ ، شاہان اسلام، اہل جمع اللہ ،پیرزادگان، سجادہ نشینان سبھوں کے پاس قطب المدار کی نسبت کا تاج ہے 
رسول کونین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے جس شان سے اور جس کام سے حضور قطب المدار کو ہندوستان بھیجا تھا ہندوستان کے ہر وضیع و شریف میں اسی شان سے  آپ نےاپنے کام کو انجام دیا

آپ نے اپنے مابعد آنے والوں کے لئے بہترین پلیٹ فارم تیار کیا آپ کے پلاٹ پہ خواجہ بزرگ حضرت معین الدین چشتی نے دین کی اعانت فرمائی ،حضرت نظام الدین اولیاء نے نظام اسلام کو سنورا ،حضرت صابر کلیر نے صبر و رضا کے پیغام نشر کئے ، حضرت نصیر الدین چرغ دلی نے اہل ہند کی نصرت و امداد فرمائی ، حضرت اشرف جہانگیر نے شرافت خلق کا درس دیا ، حضرت یحییٰ منیری نے اسلام کو حیات بخشی ، حضرت دانا بریلوی نے لوگوں کو دانائی عطا فرمائی ، حضرت مینا لکھنوی نے لوگوں کو عشق رسالت کا جام و مینا پیش فرمایا
حضرت گیسو دراز نے بندہ نوازی کی ، مخدوم ماہم نے اہل خدمات تیار کئے، شیخ علاؤالدین نے اعلاۓ کلمتہ الحق فرمایا ، غوث گوالیاری نے ملھوفین کی داد رسی کی ،شاہ عالم نے لوگوں کو آداب شہی سکھاے ،اولیاء نے ولاۓ مولی کا اظہار کیا، فقراء نے فقر حیدری کا راز کھولا، قلندروں نے عشق و مستی کے جام لٹائے، ہندوستان کے افق پر  اسلام کا سورج طلوع ہوا صاحب برکات نے ہندوستان کو برکتوں سے مالامال کر دیا مجددین نے احیاء سنت کا کام کیا
 سچ کہا گیا 
صدائیں گونجتی ہیں ہند میں اللہ اکبر کی 
جو سچ پوچھو تو یہ صدقہ مدار العالمیں کا ہے
خاکپائے مدار اعظم
ابوالحماد  محمد اسرافیل حیدری المداری دارالنور مکن پور شریف9793347086

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.