Type Here to Get Search Results !

Dargha Zinda Shah Madar makanpur

Hindustan k Pahele Sufi buzurg Aur awwal daayie islam Hazrat Syed Badiuddin ahamad QutbulMadar Zinda Shah Madar Halabi o shami :

شیر خدا علی مرتضی علیہ السلام

💐 🌱  شیر خدا  🌱💐

   🌿علیہ السلام 🌿

ازقلم ۔۔

سید ازبر علی جعفری المداری
دارالنور مکن پور شریف
##############

سطر قرآن است  ابروئے علی
مصحفے باشد مرا روئے علی

گر بجنت بگذرم  راضی  نیم
جنتے باشد  مرا کوئے علی

(از  حضور المدار)

آغاز سخن اپنے جد کریم داعئ اسلام،  محسن ہندوستان، حضرت سید بدیع الدین شیخ احمد قطب المدار رضی اللہ عنہ کے کلام سے کرکے اس کی بارگا ہ میں نذرونیاز کے سلسلے کی بنا ڈالی ہے جسے دنیا بڑے پیار سے اور پورے اعتبار سے
شاہ صفدر ،ولایت کے مصدر، فاتح خیبر ، جانشین پیمبر ، بوتراب و حیدر،  نائب احمد مختار ، نورعیون اخیار ، شاہ مرداں ، شیریزداں،  قوت پروردگار ، حیدرکرار میدان شجاعت کے شہسوار ، دیوان سخاوت کے صدر نشین، امیر المومنین ، خلیفتہ المسلمین ،  مولائے کائنات ، مشکل کشا ، شیر خدا علی المرتضیٰؓ
بن ابی طالب( کرم اللہ وجہه ورضی اللہ عنه ) وغیرهم اسمآء و القاب سے یاد کرتی ہے
شیر خدا    دین محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس طاقت کا نام ہے  جس کے دم سے شجراسلام کی شاخیں پھیلیں
تو ایک  عالم اس شجر متبرکہ کے سائے میں اماں لینے آ گیا
علی اسلام کے اس شہپر کانام ہے کہ جس کی قوت خدا داد پر سید عالم و عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم ناز کناں ہیں
اور کیوں نہ ہوں کہ
اعلان نبوت سن کر سب سے پہلےلبیک کہنے والا یہ تیرہ برس کا بچہ آگے بڑھ کرعہد و پیمان وفا کرکے ، عزم مصمم ، یقین محکم اور عمل پیہم کے ذریعہ  اسے سچ کر دکھانے کیلئے ہر حال میں فداکاری و جاں نثاری کا ایمان افروز نمونہ  زندگی بھر پیش کرتے رہے
چاہے شعب ابی طالب کے تین سالہ ہولناک مصائب ہوں
خواہ شب ہجرت پر خوف و خطر بستر نبوت ہو
سفر و حضر کی صعوبتیں مشقتیں ہوں یا میدان کارزار میں شجاعتیں اور آفتیں
کوئ بھی مشکل ہو
کیسا  ہی براوقت آیا  ہو
علی نے نبی کا ساتھ نہ چھوڑا
ابن سعد نے طبقات الکبری میں روایت کیا ہے
حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ حضرت علی غزوہ بدر سمیت ہر معرکہ میں حضور کے علمبردار رہے
اور  اسلام کے شجر کو اپنے لہو سے سیینچتے رہے
اور جب غزوات کا دور شروع ہوا تو تو چرخ نیلی فام نے دیکھا کہ
چاہے غزوہ بدر ہو
چاہے غزوہ احد ہو
چاہے غزوہ خندق ہو
چاہے سرئہ فدک ہو
چاہے غزوہ خیبر ہو
چاہے فتح مکہ ہو
چآہے غزوہ حنین ہو
چاہے غزوہ تبوک  ہو
ہر معرکہ میں سیدنا علی مرتضی  شیر خدا شمشیر بکف اور سینہ سپر سرفروشی کے جوہر دکھاتے رہے جدهر رخ کرتے تھے کشتوں کے پشتے لگادیتے تھے کبھی میمنہ پر حملہ آور ہوتے تو کبھی میسرہ کو پھاڑ دیتے کبھی قلب میں داخل ہوکر تیروتار کردیتے
غرض جدھر تلوار اٹھتی تھی ادھرلاشوں کا انبار ہوتا تھا
ذوالفقار حیدری سے گاجر مولی  کی طرح گوسفندان مشرکین کی لاشیں بکھر جاتی تھیں
اور زمانہ اس شجاعت کے پیکر کو کچھ اس طرح خراج عقیدت پیش کرتا تھا

تو ہے محرب میرے مولی باب خیبر کہتا ہے
ضرب حیدر ضرب حق ہے بدر کا منظر کہتا ہے
ایسا بہم میں نے نہ دیکھا قول یہی ہے خندق کا
تجھ پہ مجیر خود فخر کونین کا بستر کہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم و فضل میں ،بزرگی و برتری میں، روشن ضمیری، عبادت و ریاضت میں ،تفقہ فی الدین میں،
غرض جہاں جہاں ہر کمال ہر خوبی ہر وصف میں مولی علی کی نظیر پوری دنیا پیش نہیں کرسکتی وہیں وہیں پر
،، قوت پروردگار،،
ایک ایسی تخصیص ہے جو علی سے شروع ہوکر علی پر ختم ہوتی ہے  بقیہ تمام جری و پہلوان  ، مجسمہ جبل ، پیکر بطل ،
بازوئے حیدر کا اتارہ بھی نہیں
علی سے گرا تو دنیا کو ملا چاہے مقدم ہوں یا موخر
سب علی کی قوت پر نثار
یہ علی کی شجاعت اور انہیں کی طاقت کا صدقہ ہے کہ آج اسلام اپنی طاقت سے پہچانا جارہا ہے
چاہے فتوحات ہوں یا غزوات علی کی طاقت کے بغیر فتح حاصل نہ ہوپائ
جسکی چند مثالیں ہدئہ قارئین کررہاہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولی علی کی شجاعت کے چند نمونے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)   تاریخ شاہد ہے کہ جنگ بدر میں  شیر خدا کی تلوار برق بے امان بن گئ اور اس نے کفار مکہ کے خرمن ہستی کو خاکستر کرڈالا
ذوالفقار حیدری جب چمکی
تو ولید بن عتبہ، حارث بن ربیعہ، حنظلہ بن ابی سفیان، عقیل بن الاسود، نوفل بن خویلد، عاص بن سعید ، حرملہ بن عمرو بن ابی عتبہ ابو قبیس بن الولید مسعود بن ابی امیہ، عبد اللہ بن ابی رفاعہ حاجز بن سائب ، نبیہ بن الحجاج عاص بن منیہ ، زمعہ بن الاسود،،حارث بن زمعہ عمروبن عثمان بن کعب ، مالک بن طلحہ ابن یتیم کے علاوہ کچھ اور مشرکین کے سر ہواوں میں اڑتے نظر آئے
امام حاکم نے مستدرک میں فرمایا ہے بدر کے دن ستر مشرکین قتل ہوئے جس میں پینتس کو صرف مولاعلی نے قتل کیا
اس شجاعت  کو دیکھ کر رضوان جنت جھوم جھوم کر کہنے لگے
لافتی الاعلی لاسیف الا ذوالفقار
شجاعت کے ایسے جوہر دکھائے کہ بڑے بڑے بہادر علی کی تلوار کا سامنا نہیں کرپارہے تھے بالآخر فتح و نصرت کے شادیانے بجنے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( 2 )   جنگ احد میں مولی علی شیر خدا نے سب سے پہلے مشرکین کے علمبردار طلحہ ابن ابی طلحہ
( جو بہت بڑا بہادر تھا )
کو ایک ہی وار میں جہنم رسید کردیا اس کے بعد ارتاتہ بن شرجیل کو بھی شیر خدا کے ایک  ہی وار نے ڈھیر کردیا
اس جنگ میں بھی مولی علی شیر خدا کوہ استقامت بن کر ڈٹے رہے اور ثبات قدمی کو ذرا بھی جنبش نہ ہوئ
جب ایک اتفاقی غلطی سے مسلمانوں میں انتشار پھیلا تو مشرکین سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف حملہ آور ہوئے اس وقت اس شاہ مرداں نے شجاعت کے وہ جوہر دکھائے کہ جس سے  تنہا علی لشکر نظر آرہے تھے
حضرت  مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ  کی شہادت کے بعد علم بھی آپ نے لے لیا اور جس گروہ  نے سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر نرغہ کیا تھا شیر خدا نے اس سے بے جگری کے ساتھ مقابلہ کیا
علی  کی تلوار تھی کہ برق بیتاب
کفار تاب نہ لاکر بھاگنے لگے
تو
زبان اقدس سے یہ مژدہ نکلا علی منی وانا من العلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(3  ) سنہ 4  ہجری میں جب یہود بنی نضیر نے عہد شکنی کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے قلعہ کا محاصرہ فرمایا جسکی مدت پندرہ دن تک کی تھی مولاعلی شیر خدا اس میں سرکار کے ہم رکاب رہے اور اپنی شجاعت و مردانگی کے جوہر دکهاتے رہے آپ کے شدید حملوں سے وہ عاجز آگئے  یہانتک کہ  ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
( 4 )  سنہ 5 ہجری میں غزوہ احزاب (خندق )  پیش آیا
اس جنگ میں بھی شیر خدا کی شان الگ تھی
عمروبن عبدود جسکی طاقت ایک ہزار سواروں کے برابر تھی اس نے مسلمانوں کو مقابلہ کیلئے للکارا تو شیر خدا کھڑے ہوجاتے ہیں سرکار کائنات نے فرمایا اے علی بیٹھ جاو یہ عمرو بن عبد ود ہے
حضرت شیر خدا بیٹھ جاتے ہیں دوبارہ دعوت مبارزت دی
پھر علی کھڑے ہوگئے
سرکار نے پھر بٹھادیا
تیسری بار للکارا تو اب پهر شیر خدا ہی کھڑے   ہو تے ہیں  اس بار خود سرکار نے  بھی  اجازت عطافرمادی
اور اپنے دست مقدس سے عمامہ باندھا  پٹکا لٹکایا تلوار لٹکائ اور سجاکے بھیج دیا  آپ میدان میں تشریف لائے تو اس نے کہا پورے عرب میں دم نہیں جو میرے مقابلہ پر آجائے 
آخر تم ہو کون  ؟
جو میرے مقابلہ پر آگئے
آپ نے ارشاد فرمایا میں
علی ابن ابی طالب ہوں
اس نے کہا کہ تمہارے باپ سے میرے پرانے تعلقات ہیں اس لئے تم سے لڑنا نہیں چاہتا
حضرت علی نے فرمایا مگر میں تم سے لڑونگا
تب اس نے غصہ میں حضرت علی پر وار کردیا جس سے آپ کی پیشانی خون آلود تو ضرور ہوگئ
مگر جب قوت پروردگار نے پلٹ کر وار کیا  تو ایک ہی وار میں وہ پہلوان خاک پہ  ڈھیر ہوگیا - یہ منظر دیکھا تو
مبارک باد دی  حوروں نے  ملکر گیت یہ  گائے

شاہ مرداں شیر یزداں قوت پروردگار
لا فتی الا علی  لا سیف الا ذوالفقار

(5) ہجری 6 یااوائل 7 میں
خیبر پر لشکر کشی ہوئ
خیبر میں یہودیوں کے  مضبوط قلعے تھے
کئی قلعے تو فتح ہوگئے
لیکن قلعہ
،،حصن قموص، ،
جو ایک مرحب یہودی کا تھا
کسی طرح فتح نہ ہوتا تھا
بڑے بڑے صحابہ تھک گئے مگر قلعہ فتح نہیں ہوا
سرکار ارشاد فرماتے ہیں کہ
کل میں اس شخص کو علم دونگا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا جو اللہ اور اسکے حبیب کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ و رسول اس کو محبوب رکھتے ہیں
پوری رات صحابہ جاگتے رہے اور رات اس انتظار میں تمام ہوئ کہ دیکھیں صبح کس کے نصیب میں یہ سعادت لکھی جاتی ہے
صبح ہوئ مدینہ سے مولی علی آشوب چشم لیکر حاضر خدمت ہوتے ہیں
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طلب کیا تو آپ کو حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سادھ کر خدمت اقدس میں لائے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لعاب دہن لگادیا
آنکھوں پر ستارے قربان ہونے لگے
مولائے کائنات ہاتھ میں علم اٹھائے قلعہ قموص کے قریب آگئے اور قریب ہی سنگریزوں پر علم گاڑدیا قلعہ کی فصیل پر ایک احبار یہودی تینات تھا اس نے پوچھا اے صاحب علم
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے ؟؟
آپ نے نے فرمایا
،،علی ابن ابی طالب ،،
وہ صفات علی کو توریت میں پڑھ چکا تھا
اپنی قوم سے مخاطب ہوا فاتح خیبر آگیا
اب تم مغلوب ہوجاوگے قسم توریت کی یہ بغیر فتح کئے واپس نہ جائیگا میں نے توریت میں یہی پڑھاہے کہ
،،علی ابن ابی طالب خیبر شکن ہوگا ،،
اتنا سن کر مرحب پہلوان کا بھائ حارث تین من کا نیزہ لیکر میدان جنگ میں اتر آیا اور متعدد صحابہ کو شہید کرکے علی کی طرف بڑھا وہ شہباز لامکانی کے بازوؤں سے واقف نہیں تهااور اسے یہ معلوم نہیں تها کہ وہ قوت پروردگار سے مقابلہ پر اترا ہے
علی کے ایک ہی وار نے جہنم رسید کردیا
قارئین اندازہ لگائیں جس کے ہاتھ میں ایک کونٹل بیس کلو کا نیزہ ہوگا اس میں طاقت کتنی ہوگی اور جو اس کو ایک ہی وار میں فوت کردے اس کی طاقت کا اندازہ کیا لگایا جاسکتا ہے
جب یہ خبر مرحب کو ملی تو بھائ کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے بہادروں کی ایک جماعت لی دوزرہیں پہنیں دوتلواریں لٹکائیں سرپر دوعمامے باندھنے کے بعد اوپرسے رانگے کا خور پہنا
اور میدان میں رجز کہتاہوانکلا
مولاعلی بھی رجز پڑھتے ہوئے نکلے
وہ بد بخت چاہتاتھا کہ علی اسکی تلوار کے نیچے آجائیں مگر علی سبقت کرگئے اور ایسا وار کیا کہ ایک ہی وار میں مرحب کے دو ٹکڑے ہوگئے
قارئین کی دلچسپی کیلئے مزید وضاحت کرتاچلوں
کہ مرحب خیبر کا سب سے بڑا پہلوان تھا اس کے مقابلے سے لوگ ڈرتے تھے
مولاعلی اس کے مقابلے میں آئے
اور ایک ہی وار میں رانگے کا خود ، لوہے کی زنجیریں،  دو  لوہے کی زرہیں ، غرض ایک آہنی مجسمے کو سر سے لیکے ران تک  ٹکڑوں میں بانٹ دیا
یہ تھی علی کی طاقت
اس کے مرنے کے بعد جنگ گھماسان کی شروع ہوئ ایک بد بخت نے شیر خدا کے ہاتھ پر وار کیا ڈھال چھوٹ کر گرگئ تو کوئ بد بخت  آپ کی ڈھال لے کر بھاگ گیا
اللہ نے مولا کو روحانی طاقت عطافرئ آپ وسیع و عریض خندق پھاند کر در خیبر تک پہنچ گئے  اور خیبر کے لوہے کے دروازہ کو اکھاڑ کر ڈھال بنائ اور جنگ کرنے لگے
حضرت سیدناسید امام محمد باقر سلام اللہ علیہ و علی آیائہ العطام واولادہ الکرام سے بیان کیا گیا کہ انہوں نے فرمایا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوازہ اکھاڑنے کے واسطے ہلایا تو پورا قلعہ ہی ہلنے لگا حتی کہ صفیہ بنت حی بنت اخطب تخت سے گرپڑی اور انکے چہرے کو زخم آئے
(مدارج النبوتہ جلد دوم )
جنگ ختم ہونے کے بعد حضرت علی نے اس آٹھ سو من کے دروازہ کو دو وجب کی دوری پر پھینک دیا جس کو ستر آدمی بھی جنبش نہ دے سکے
اللہ اللہ یہ طاقت حیدری تھی جس کو دیکھ کر اہل حق یہ کہنے پر حق بجانب ہیں کہ
علی کی طاقت ابتداء بھی تھی اور یہی انتہا بھی ہے
اللہ کے سوا کوئ طاقت و قوت نہیں ہے اس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ علی کے بازوں سے کرایا
آج بهی پوری کائنات اس ذات کو قوت پروردگار،  اسداللہ، ،شیر خدا ،، جیسے مقدس القاب سے نہ یہ کہ صرف یاد کرتی ہے بلکہ اس کی طاقت کا لوہا  بھی مانتی ہے
کیونکہ علی حریم نبوت کے پروردہ ہیں اور جسے سولہ سو آدمیوں کی طاقت کے برابر والا پرورش کرکے اسداللہ کہہ دے
اب کس کا یارا ہے جو اس شجاعت کے پیکر سے شیرخداسے ٹکر لے پائے

قوت بازوئے حیدر کی چند مثالیں قارئین کی بصارت و بصیرت کی نگہبان بنیں  چلتے چلتے وادئ جنات میں ہمت و قوت علی بھی ملاحظہ فرمالیں

🌼وادئ جنات میں شیرخدا🌼
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھنیرے اور دور تک بلند قامت درختوں کے سائے تلے گہرے  کنوئیں کا منظر دلکشا ہونا چاہئے تھا

مگروحشت ناک جنگل میں ہاہاہاہا  !!!
ہووو ہوووو!!!

کی ڈراؤنی آوازوں نے
سناٹوں کا تسلط ختم کردیاتھا دور دور تک بکھرے درختوں سے ٹپکتے ہوئے خون کا منظر ،
بلند قامت درختوں کی گھنیری چوٹیوں سے کٹے ہوئے سروں کا ٹپکنا ، شعلوں کابرسنا ،آتش فشاں منظر، ،کبھی چیخیں، کبھی قہقہے، کبھی چنگھاڑ، کبھی آہ و بکا، مسلسل بغیر طوفان کے پیڑوں کا جھومنا ،ہلنا ، گرنا  اور اٹھنا ،خون آشام دشت
متحیر کن تھا
ایک قدم رکھنے سے پہلے ایک کٹاہواسرگرتاتھا مزید جان لے لینے کیلئے انگارے برسنے لگتے تھے
اس دہشت ناک بیابان کے اس کنوئیں تک
کوئ پیاسا ،تشنہء جاں بلب  جان پر کھیل کر بھی  نہیں پہونچ سکتاتھا
صوت الصور جیسی

اووووو!!!

کی  آوازیں ثابت کررہی تھیں کہ
اس جنگل  پر آسیب کادخل ہی نہیں بلکہ ہر سر کش جن کااثرورسوخ تھا
جو اسے ہیبت ناک کئے   تھا
مقام حجفہ کے قریب یہ مہیب جنگل اپنی بربادی کی داستان سنارہاتھا
صلح حدیبیہ کے دن مکہ  معظمہ کو  مراجعت فرماتے ہوئے صحرائے عرب کے نشیب و فراز سے گزرکر پاوں کے چھالوں کی سوزش کو محبوب کے نقش قدم سے ٹھنڈاکرتےکرتے  اللہ کے مقرب بندوں کا ایک پیاسہ قافلہ  پڑاو کرتا ہے
امیرکارواں صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب و دبدبہ کے سامنے شاہان زمانہ کا رعب سر بہ خم رہتا تھا
وہ دیوانے جنہیں جمال یار کی ایک  ہلکی سی جھلک نے دیوانہ بنادیاتھا
اب وہ  بار بار دیکھنے کیلئے حلقہ میں لئے رہتے تھے
مضطرب پیاسے ہمت و جراءت نہ رکھتے کہ جان جاناں سے کچھ عرض کرسکیں
ساقئ کوثر دیوانوں کی جاں بلب قطار وں پر نظر رحمت ڈال کر فرماتے ہیں
،،تم میں سے کون ہے جو فلاں کنوئیں پہ جا کے مشکیزے بھرکرپانی لے آئے تاکہ میں اسے جنت کی بشارت سنادوں
اتنا سنا تو ایک شخص کھڑاہوا اور کہا
حضور میں جاتاہوں
سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے سقوں کی ایک جماعت اس کے ہمراہ کردی 
راوی حضرت سلمہ بن اکوع
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
میں اس جماعت کے ہمراہ تھا جب ہم لوگ  اس کنوئیں کے قریب پہونچے تودرختوں سے ہولناک اور مہیب آوازیں سنکر انکی عجیب عجیب حرکتوں کو دیکھ رہے تھے کہ پیڑوں سے شعلے بلند ہو نے لگے جسے دیکھ کر دل بیٹھنے لگا
روح کانپنے لگی ایک قدم آگے نہ بڑھا   مجسمہ خوف و ہراس بن کر  واپس پلٹ آئے اور ساری سرگزشت فخر عالم و عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم سے کہدی
آپ تکلم ریز ہوتے ہیں کہ وہ جنوں کا ایک گروہ تھا جو تمہیں ڈراتاتھا اگر تم میرے کہنے کے مطابق قدم اٹھاتے رہتے تو کوئ گزند نہ پہنچتی اتنا سننا تھا کہ ایک شخص اور کھڑاہوا اور عرض کیا  حضور میں لا سکتا ہوں
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے
وہی جماعت انکے ساتھ بھی کردی جسے  لیکر چلے مگر خوف و ہراس کے ساتھ واپس آگئے
رفتہ رفتہ سورج ڈھلنے کے قریب آرہاتھا
شام کی سیاہی کا اثر آفاق کے رخسار سے نمایاں تھا سورج سرخی مائل ہورہاتھا
صحابہ کی زبانیں  پیاس سے سوکھ رہی تھیں 
سرکار ابد قرار ارشاد فرماتے ہیں
،،علی ،،
ادھر آو
مولا علیہ السلام سرنیاز خم کئے
خدمت میں حاضر ہوئے
جی حضور
سرکار فرماتے ہیں علی فلاں کنوئیں سے پانی بھر لاو
شاہ مرداں شیر یزداں قوت پروردگار آگے آگے یہ پڑھتے ہوئے
اعوذبالرحمان ان ابیلا
عن غرف جن اظہرت تنویلا وواقدتہ نیرانھا تعویلا
وفرعہ مع غرفھا الطویلا
چلے جارہے تھے
  صحابہ کی جماعت ہاتھوں میں تلواریں حمائل اور مشکیں آویزاں کئے  پیچھے پیچھے چلی ابھی تھوڑاہی چلے تھے کہ
وہی پردہ سماعت پھاڑدینے والی  چیخیں آنے لگیں درختوں نے ہلنا شروع کردیا
لوگ خوف و ہراس سے مضمحل ہونے لگے روح کانپ گئ دل بیٹھنے لگا صحابہ کے دل میں خیال آیا ہی تھا کہ علی بھی واپس لوٹینگے
مولا ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے پیچھے پیچھے آجاو
اور پلٹ کے مت دیکھنا مولی علی علیہ السلام کے مستحکم ارادہ اور ہمت و بہادری پر دہشت و ہراس غالب کرنے کیلئے کٹے ہوئے سر اور پیڑوں سے شعلے بلند ہو نے لگے مگر شاہ یزداں ہیں کہ سروں کو روندتے ہوئے یہ کہتے ہوئے کہ میرے قدم بہ قدم چلتے رہو اور دائیں بائیں مت دیکھنا
آخر کنوئیں تک پہونچ ہی جاتے  ہیں
راوی حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایک ڈول
اور بناء بن مالک نے بھی ایک یا دو ڈول ہی پانی بھرا تھا کہ رسی ٹوٹ گئ
مولی علی علیہ السلام فرماتے ہیں
ہے کوئ جو لشکر اسلام تک جاکر رسی ڈول لے آئے
کس کی ہمت تھی ؟؟؟
ساتھیوں نے عرض کیا حضور ہم ان پیڑوں سے گزر کر نہیں جاسکتے
تب مولی علی علیہ السلام نے اپنی کمر سے پٹکا باندھ کر
کنوئیں میں اترنے لگے
تو کنوئیں سے قہقہے بلند ہونے لگے ابھی آپ آدھا کنواں اتر بھی نہ  پائے ہونگے کہ پیر پھسل گیا 
اور آپ کنوئیں میں  گرگئے کنوئیں سے عجیب و غریب غلغلہ اٹھا  قہقہے بلند ہو نے لگے اور اس طرح آواز آنے لگی جیسے کسی کا گلا گھونٹاجارہا ہو
اچانک مولا کی آواز بلند ہوئ
اللہ اکبر اللہ اکبر اناعبداللہ واخو رسول اللہ
فرمایا مشکیں نیچے پھینکو آپ نے تمام مشکیں پانی سے بھر لیں منہ باندھ لئے اور ایک ایک کرکے باہر نکالدیں سارے ساتھیوں نے ایک ایک اٹھائ شیر خدا نے دو مشکیں اٹھائیں اور چلدئے آپ  آگے آگے صحابہ پیچھے پیچھے
اب جنگل میں منگل ہوچکا تھا علی بازی جیت چکے تھے
جہاں کٹے سر گرگرکر،  جگر خراش مناظر ، ٹپکتے خون ، ہولناک آوازیں ، قہقہے ہنگامے جھوم جھوم کر ڈراتے پیڑ ہمت و حوصلہ شجاعت و مردانگی بہادری و دلیری کے پائے ثبات میں لرزہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرچکے تھے
اب علی کی ہمت علی کی شجاعت علی کی بہادری اور علی کی دلیری نے بازی جیت لی سابقہ مناظر وقوع میں نہ آئے بلکہ
ہولناک آوازوں کے بجائے لحن داودی میں نعت سرورکونین اور منقبت مولا علی ہاتف غیبی گنگنارہاتھا
علی کی ٹھوکروں کے صدقہ پورا جنگل جنت نما بن گیا
جب امیرالمومنین نے تاجدار انس و جاں صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا وہ ہاتف عبداللہ جن تھا جس نے بتوں کے شیطان مسعر کو کوہ صفا میں قتل کیا تھا
شواہدالنبوتہ  (ملخصا )

اللہ اللہ کیا شان ہے شیر خدا کی
ایک تو شیر پھر خدا کا
اللہ اللہ
سمجھاہی نہیں کوئ کہ کیا شان علی ہے
بس سرور کونین کو عرفان علی ہے
ایک ہی ذات میں ہے علم و ہنر ، عدل و شجاعت
دنیامیں نہیں کوئ ہمشان علی ہے

مضمون کے ماآخذ و مراجع
مدارج النبوتہ جلد دوم
شواہدالنبوتہ
معارج النبوتہ
سیرت فاطمہ زہرا
علی اسم جلی

وماتوفیقی الاباللہ

ذرہء زیر پائے علی

سید ازبر علی جعفری مداری
خادم آستانئہ قطب المدار

دارالنور مکن پور شریف ضلع کانپور یوپی    
www.qutbulmadar.org
plz visit us:

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.