tag:blogger.com,1999:blog-67357919946729620072024-03-13T01:44:52.008-07:00Hazrat Sayyed Badiuddin Ahmed Qutbul Madar (Zinda Shah Madar)Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.comBlogger139125tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-43191232379649538852023-01-18T18:37:00.001-08:002023-01-18T18:37:27.123-08:00گروہ خادمان کا مطلب <div>از قلم مفتی ابو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری آستانہ عالیہ حضرت سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار مکن پور شریف کان پور نگر </div><div><br></div><div>*گروہ خادمان*</div><div><br></div><div>گروہ خادمان حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاری ہے۔</div><div>آپ کے ساتھ آپ کے دو بھائی خواجہ سید ابو الحسن طیفور و خواجہ سید ابوتراب فنصور رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی گروہ خادمان کا اجراء ہوا ہے بغض کتابوں میں خادمان طیفوری،اور خادمان فنصوری کا ذکر ہوا ہے۔</div><div>ان تینوں بزرگوں کا حسب و نسب حضور بدیع الزماں سیدنا سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سگے بھائی سید محمود الدین سے ملتا ہے۔</div><div>ان ہرسہ خواجگان سے خادمان کے درج ذیل گروہ جاری ہوئے ہیں۔</div><div>خادمان ارغونی خادمان طیفوری خادمان فنصوری، اور خادمان ارغونی سے نقدارغونی، ابولفائضی، محمودی، سرموری، سلوتری ،غلام علوی، اَبَّنِی اور سکندری گروہ کا اجراء ہوا ہے۔</div><div><br></div><div>*خادمان کا مطلب کیا ہے*</div><div><br></div><div> خادمان کا مطلب درگاہ و مزار کے خادم و خدمت گزار نہیں ہے،جیسا کہ جہلاء سمجھتے ہیں</div><div> بلکہ خادمان اولیاء اللّٰہ کی وہ عظیم الشان جماعت ہے جو مقام ،، *مَاخَدَمنَاکَ حقًَ خِدمَتِکَ* کے وارث ہیں *مَا عَبَد نَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ* کے عابد ہیں اور *مقام مَاعَرَفنَاکَ حَقّ مَعرِفَتَکَ* کے عارف ہیں۔</div><div>یہ سلوک و طریقت میں ایک مقام ہے اور یہ تینوں عبارتیں حدیث نبوی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں۔</div><div>اول کا مطلب ہے اے اللّٰہ ہم نے تیری ویسی خدمت نہیں کی جیسی تیری خدمت کا حق ہے ۔ دوسری عبارت کا مطلب ہے اے اللّٰہ ہم نے تیری اسطرح عبادت نہیں کی جیسی تیری عبادت ہونی چاہئے</div><div>اور تیسری عبارت کا مطلب ہے اے اللّٰہ! ہم نے تجھےاس طرح نہیں پہچانا جس طرح تیری معرفت کا حق ہے۔</div><div>اہل عرفان کی یہ جماعت *مَن رَأٰنِی فَقَد رَأَی الحَقَّ* "جس نے مجھے دیکھا بلاشبہ اس نےحق کو دیکھا" کے رمز کو جاننے والی ہے۔ یہ لوگ خانقاہ اُلُوہیت میں باریاب ہیں اور بارگاہ اَحَدِیَت کے مقربین ہیں شریعت و طریقت کے مسلکوں اور معرفت و حقیقت کے راستوں کے رہبر ہیں۔ یہ حضرات روز بروز ان مقامات و مناصب پر ترقی پا کر انتہائے مدارج و مراتب کو پنہچے ہوئے ہیں۔ یہ ہستیاں بارگاہ احدیت میں اتنی عالی مرتبہ والی ہیں اتنا قرب خصوصی رکھتی ہیں کہ *من خَدَمَ خُدِمَ* انہیں پر صادق آتا ہے۔</div><div> در حقیقت انہیں کے لئے کہا گیا ہے،</div><div>*ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد*</div><div>*ہر کہ خود را دید او محروم شد*</div><div>*جس نے خدمت کی وہی مخدوم ہے خود نمائی جس نے کی وہ محروم ہے*</div><div><br></div><div>کتنی اچھی خدمت ہے جس کا ثمرہ مخدومی ہے۔ تذکرۃ المتقین میں ہے</div><div>ان خادمان حقیقی کے بارے میں شاہ عبدالحق مداری قدس سرہ نے اپنے رسالہ پنجم میں نقل فرمایا ہے کہ شاہ حسین مداری نے شاہ عبدالرشید طالبان المداری کو ایک مکتوب لکھا جس میں پوچھا گیا کہ حضور اصطلاح تصوف میں خادمان کن لوگوں کو کہتے ہیں۔ آپ نے اس کے جواب میں یہ تحریر فرمایا کہ میرے بھائی خادمان اولیاء اللّٰہ کا ایک گروہ ہے جن کا ظاہر حال او امر الٰہیہ متصف ہے اور منہیات شرعیہ سے پاک و مبرّا ہے، اور رعایت شریعت سے آراستہ ہے، اور ان کا باطن اللّٰہ و رسول کی محبت سے مزیّن و پیراستہ ہے۔ ورثہ عبدیت سے ان کو پورا حصہ ملا ہے جو الفاظ خادمان کا منشا بھی ہے۔</div><div>کامل طور خدمت الہیٰ بجالا نے کے سبب تقرب احدیت کی خصوصیت سے یہ لوگ سرفراز ہیں،</div><div> اور شریعت محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی و اطاعت گزاری میں کمال خدمت و اطاعت کی وجہ سے اور اپنے شیخ طریقت کی شفقت کی بنا پر مقام قرب اقرب پر سرفرازی حاصل کرتے ہیں اس لئے انہیں خادمان کہا جاتا ہے۔</div><div> *قطب زمن حضرت خواجہ سید محمد ارغون قدس سرہ*</div><div><br></div><div>مقتدائے اولیاء شاہ باز اتقیاء آسمان ولایت و کرامت، میدان سخاوت و قناعت، ھادئی راہ شریعت، جامع طریقت، معلم رموز حکمت، واقف اسرار حقیقت، غواص بحر معرفت، قدوۃ العارفین عمدۃ الکاملین رہبر دین، قبلہ اہل یقین، حضرت خواجہ سید ابو محمد محمد ارغون قدس سرہ خلیفہ و جانشین حضرت قطب المدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں خاندان عالیہ مداریہ کے سر گروہ اور جامع کمالات صوری و معنوی بزرگ ہیں ۔ آپ کے دو برادر حضرت خواجہ سید ابوالحسن طیفور و حضرت خواجہ سید ابو تراب فنصور قدست اسرارھم بھی حضور مدار پاک کے معزز خلیفہ اور سر گروہ خادمان اور</div><div>جانشین قطب المدار ہوئے ہیں ۔ آپ تینوں شہزادگان کو حضور مدار پاک اپنے ساتھ ارض مقدس ہندوستان لے کر آۓ</div><div>آپ کے خوارق کرامات و محاسن و کمالات کو بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہے۔ </div><div>اس سر چشمئہ فیص و ارشاد سے ایک عالم سیراب ہوا۔ </div><div>آپ قطب الافراد قطب وحدت حضور سیدنا سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے برادازادے ، فرزند معنوی، خلیفہ اور سجادہ نشین ہیں۔</div><div>*حضرت ابو محمد محمد ارغون قدس سرہ* </div><div>آپ کا اسم گرام </div><div>*محمد ہے۔اور کنیت ابو محمد ہے اور خوش آوازی کی بناء پر لقب ارغون رکھا گیا جو اب اسم با مسمَیٰ کی طرح ہو گیا۔*</div><div>آپ کا مولد قصبہ چنار شہر حلب ملک شام ہے۔ ۔۔۔ آپ سید السادات ہیں </div><div><br></div><div>*آپ کا نسب نامہ*</div><div>السید عبد اللّٰہ بن سید کبیر الدین بن وحید الدین بن سید یٰسین بن سید محمد بن سید داؤد بن سید محمد بن سید ابراہیم بن سید محمد بن سید اسمٰعیل بن سید محمد بن سید اسحاق بن سید عبدالرزاق بن سید نظام الدین بن سید ابوسعید بن سید محمد بن سید جعفر بن سید محمود الدین *برادر حضرت سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ* بن سید علی بن سید بہا الدین بن سید ظہیر الدین احمد بن سید اسمٰعیل ثانی بن سید محمد بن سید اسمٰعیل بن سید امام جعفر صادق بن سید امام محمد باقر بن سید علی زین العابدین بن سید امام حسین بن سید مولا علی رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین۔ ہے</div><div><br></div><div>*ولادت سریف* یوم جمعہ بوقت فجر یکم ربیع الاول 783ھجری ہے</div><div>*تعلیم و تربیت* جد بزرگوار نے تعلیم وتربیت فرمائی</div><div> آپ کے جد مکرم حضرت علامہ خواجہ سید ابراہیم قدس سرہ نے مدرسہ ابرھیمیہ بیروت میں جاری فرمایا تھا۔ وہ اپنے زمانے کے معتبر عالم و صاحب کمال بزرگ اور خانقاہ مداریہ بیروت کے گدی نشین تھے۔</div><div>*آمد ہندوستان* آٹھویں صدی ہجری کے آخر میں حضور سیدنا سید بدیع الدین احمد قطب المدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بغرض حج ہندوستان سے حجاز روانہ ہوئے۔ مکہ المکرمہ پہنچے حج و زیارت سے فارغ ہو کر آپ </div><div>نے ملک شام کا قصد فرمایا</div><div><br></div><div> قصبہ چنار شہر حلب پہنچے </div><div>تو حضرت سید محمد ارغون نے اپنے والد محترم حضرت سید عبد اللّٰہ سے شوق دیدار کا اظہار کیا۔۔حضور سیدی قطب المدار کی نگاہ ا لتفات آپ کی طرف ہوئی تو آپ کی پیشانی پر انوار سعادت دیکھ کر ہر سہ برادران خواجگان کو اپنی صحبت میں قبول فرمایا۔ اور ان پر نوازشات فرمائی۔ اور انہیں تقرب خاص سے نوازا۔ اور اپنے ساتھ رکھنا پسند فرمایا۔</div><div>جب حضور شاہ والا عازم ہندوستان ہوئےتو اپنے ساتھ انہیں ہندوستان لاۓ۔ تذکرۃ المتقین اور ملفوظات شاہ مینا و دیگر کتب سیر میں ہے کہ</div><div>۔ مختلف مقامات پر تبلیغ و اشاعت دین متین فرماتے ہوئے لکھنؤ جلوہ افروز ہوئے۔</div><div>مخلوق خدا کو مستفیض فرمایا اسی دوران حضرت مخدوم شاہ مینا قدس سرہ العزیز کی ولادت ہوئی۔ آپ نے ان کی ولادت اور ولایت کو ظاہر فرمایا ۔</div><div>مختلف مقامات کا دورہ فرماتے ہوئے جونپور تشریف لائے کچھ عرصہ قیام کے بعد پھر لکھنؤ آئے لکھنؤ میں حضور شہاب الدین پر کالہ آتش کی معرفت سے مخدوم شاہ مینا کو اپنی جاءۓنماز تبرکاً عنایت فرمائی اور انکی قطبیت کا اعلان فرمایا 818 ھجری میں مکن پور شریف وارد ہوئے جو اس وقت غیر آباد تھا۔ اور رسول کریم کی بشارت کے مطابق یہیں طرح اقامت ڈال دی اور اسے خیرآباد بنایا ۔وقت گزرنے کے ساتھ علاقے میں شہرت پھیلی، لوگوں کی آمد رفت شروع ہوئی اور بالاٰخر مکن پور شریف معرض وجود میں آکر مرجع خلائق بنا </div><div> *نکاح* ایک دن حضور زندہ شاہ مدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خلفاء و مریدین کی مجلس میں ارشاد فرمایا کہ میں نے محمد ارغون کے نکاح اور انہیں اس زمین پر مستقلا آباد کرنے کا فیصلہ لے لیا ہے کیونکہ اسی میں رب تبارک تعالیٰ کی مرضی ہے۔</div><div>تذکرۃًکسی نے یہ بات حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون کو بتائی تو آپ نے انکار فرمایا ،مگر سرکار مدارالعالم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے انہیں طلب کیا اور ارشاد فرمایا اے فرزند تمہارا اور تمہارے بھائیوں کا نکاح ہونا مشیت ایزدی ہے اور تم سے اجراۓنسل ہونا ہے۔ اس لئے انکار نہ کرنا چاہئے ۔حضور والا کا حکم سن کر آپ خاموش ہو گئے حضرت خواجہ سید جمال الدین جان من جنتی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ قصبہ جتھرا مضافات کالپی میں جناب سید احمد خاندان فاطمی کے ایک ممتاز شخص ہیں ان کی صاحبزادی جنت النساء کیلئے پیغام پہنچایا جائے۔ غرض کہ پیغام پہنچایا گیا تو حضرت احمد جتھراوی نے اسے بسر و چشم قبول کر لیا اور یکم ربیع الاول سنہ 824ھ۔ میں آپ کا نکاح ہو گیا۔</div><div>بعد میں آپ کے دونوں چھوٹے بھائی حضرت خواجہ سید ابو تراب فنصور و حضرت خواجہ سید ابو الحسن طیفور رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما کے نکاح بھی پاس کے مواضع میں ہوئے۔</div><div>*خلافت و جانشینی*</div><div> آپ کو بیعت و خلافت کا شرف تو حضور قطب مدار قدس سرہ سے حاصل ہی تھا شیخ مرشد کی نگاہ انتخاب نے اپنا جانشین بھی آپ ہی کو مقرر فرمایا چنانچہ تذکرۃ المتقین میں ہے</div><div> کہ "حضور مدار پاک نے ایک دن اپنے قریب بلایا اور ارشاد فرمایا اے فرزند! ولایت دو قسم کی ہوتی ہے ایک صلبی اور دوسری روحانی. صلبی تو ماں باپ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا تعلق عالم خلق سے ہے جو کوئی آتا ہے اس لباس ظاہری کو پہنے ہوئے آتا ہے۔ ایک دن اسکو ترک کرنا بھی ہوگا۔اور روحانی ولایت مربی روح سے متعلق ہوتی ہے۔ اس کا تعلق عالم امر سے ہے جو میرا اور تمہارا تعلق ہے یہ قیامت تک قائم رہے گا ۔ میں نے تم کو اپنا جانشین بنایا۔ ظاہری تعلق بھی تمہارے ساتھ یہ ہے کہ تم میرے بھائی کی اولاد ہو اور بھائی کی اولاد بھائی کی طرف منسوب ہوا کرتی ہے چنانچہ قرآن پاک میں آیا ہے</div><div> *و اتبعت ملت آبائی ابراہیم و اسمٰعیل و اسحٰق و یعقوب*</div><div>اور ظاہر ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نسب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ملتا ہے نہ کہ حضرت اسحٰق علیہ السلام سے مگر چونکہ حضرت اسحٰق علیہ السلام حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کے بھائی تھے۔ ان کو بھی باپ کہا گیا۔ لہٰذا تم بھی میری اولاد معنوی ہو اور شریعت و طریقت میں میرے جانشین ہو ۔</div><div>اسی طرح سرکار قطب المدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے وصال سے قبل تمام خلفاء و مریدین سے ارشاد فرمایا کہ محمد ارغون کو میں نے اپنا جانشین کیا اور ان تینوں یعنی سید محمد ارغون، سید ابو تراب فنصور، سید ابو الحسن طیفور کو بجائے میرے کنفس واحدہ تصور کرنا اور جو کوئی مشکل پیش آئے تو ان کی طرف رجوع کرنا۔ باقی میں جس طرح اب تم لوگوں کی تربیت کرتا ہوں ۔ ان شاء اللّٰہ بعد وصال بھی اسی طرح تم نگاہ میں ہوگے جو کوئی مجھ سے ارادت رکھتا ہے میں نے اسے قبول کیا ۔ اوراس کی نسلوں کو بھی قبول کیا اور جو کوئی میرے ان فرزندوں سے ارادت رکھتا ہے میں نے اسے بھی قبول کیا ۔</div><div> </div><div>*کرامات* آپ کی پوری زندگی اللّٰہ اور اس کے رسول علیہ السلام کی اطاعت، عبادت ، ریاضت ،مجاہدہ نفس، و تزکیۂ قلب اور رشدو ہدایت میں گزری۔</div><div>حالت نوم میں بھی ذکر الٰہی میں مصروف رہتے۔</div><div>جب تلاوت قرآن مجید فرماتے تو لوگ مسرورو مست ہو جاتے تھے۔ چرند پرند بھی پاس جمع ہونے لگتے تھے اور سنتے تھے۔</div><div>آپ کی آواز بہت دلکش تھی اسی وجہ سے </div><div><br></div><div> *لقب ارغون* سے ملقب فرمایا گیا ۔ ارغون ایک قسم کے نفیس باجے کو کہتے ہیں۔ </div><div>*اولاد امجاد* </div><div>حضرت سیدنا سید ابو محمد محمد ارغون قدس سرہ کے پانچ بیٹے تھے</div><div>: 1</div><div>حضرت خواجہ ابو الفائض قدس سرہ۔</div><div> 2: حضرت خواجہ سید محمود قدس سرہ،،</div><div>3: حضرت خواجہ سید داؤد قدس سرہ،،</div><div>4: </div><div> حضرت خواجہ سید اسمعٰیل قدس سرہ،،</div><div>5: حضرت خواجہ سید حامد محامد قدس سرہ </div><div>ان شاءاللہ ان حضرات کی نسل مبارکہ کی تفصیل مع شجرات کتاب کی دوسری جلد میں پیش کیا جاۓگی</div><div><br></div><div>*خلفاۓ کرام* </div><div>حضرت خواجہ سید ابوالفائض محمد سجادہ نشین، حضرت خواجہ سید محمود صدر نشین۔ حضرت خواجہ سید داؤد، حضرتِ خواجہ سید اسماعیل، شاہ سید حسین سر ہندی حضرت شیخ سیف الدین۔حضرت خواجہ سید محمد، شیخ کامل حضرت شاہ واصل حضرت شاہ قمر الدین حضرت شیخ کمال الدین مداری حضرت شاہ عبداللّٰہ حضرت پیر غلام علی شاہ حضرت نظام سنبھلی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھم *ہرسہ خواجگان سےجو سلسلے جاری ہوئے*</div><div>ان ہرسہ خواجگان سے جو سلاسل مبارک جاری ہیں انہیں خادمان کہا جاتا ہے۔</div><div>خادمان ارغونی، خادمان فنصوری ،خادمان طیفوری،۔ خادمان ارغونی سے جو گروہ نکلے انکے نام یہ ہیں </div><div> نقد ارغونی یہ خاص حضرت سید دادا محمد ارغون سے ہی جاری ہے جو آپ کی اولاد پاک کا خاندانی شجرہ ھے ، خادمان ابوالفائضی :یہ سید ابو محمد محمد ارغون رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے بڑے صاحبزادے سید محمد ابو الفائض ارغونی سے جاری ہے ، خادمان محمودی حضرت سید محمود رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ سے جاری ہے :یہ حضرت سید محمد ارغون رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے بیٹے ہیں آپ سے خادمان محمودی سلسلہ جاری ہوا ۔۔ حضرت سید شاہ معین الحق ابن علی المعروف بہ بابا اَبَّن صدرنشین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے خادمان اَبَّنی اور آپ کے بعد آپ کے مریدین سے خادمان سلوتری، خادمان سرموری ،خادمان سکندری گروہوں کا اجرا ہوا۔۔ حضرت سید شاہ اَبَّن رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ چوتھی پیڑھی میں حضرت سید شاہ محمد ارغون رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے فرزند ہیں ۔ جیسا کہ تذکرہ صوفیاۓ میوات کے مولف نے تحریر کیا ہے۔ حضرت سید شاہ معین الحق ابن علی المعروف بہ بابا اَبَّن صدرنشین رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے ایک مرید اور خلیفہ حضرت خاکی شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ ہیں جنکا روضۂ مبارک زیارت گاہ خلائق ہے. قصبہ ساکرس تحصیل فیروز پور جھرکہ ضلع گوڑگاوں میں ۔آپ کا سالانہ عرس ہوتا ہے،جائداد و جاگیر وقف کردہ سلاطین دہلی تا ہنوز آپ کے خلفاء کے قبضہ و تصرف میں ہے۔ اور چند مقامات پر جاگیرات موجود ہیں۔ موضع مروڑہ، و رنیالہ،اولیٹہ وغیرہ میں اہل تجرید آپ کے خلفاء و مریدین ہنوز اس پر قابض و متصرف ہیں۔ (تذکرہ صوفیاۓ میوات صفحہ 437 مصنف محمد حبیب الرحمن خان میواتی۔) ا ،سرموری، سلوتری، اَبًنِی،غلام علوی اور سکندری </div><div>بحر زخار میں حضرت سید ابو محمد محمد ارغون قدس سرہ کے ایک خلیفہ حضرت شیخ کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ ہے </div><div>"مظہر امن و امان حضرت شیخ کمال الدین ابن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ</div><div>آپ نسباًقریشی ہیں گلزار ابرار میں مرقوم ہے کہ آپ تقویٰ توکل،تسلیم و رضا کے مقام بلند پر فائز تھے ،شاہ ارغون مداری کے مرید تھے آپ نے شیخ ابو الفتح ہدایت اللہ سرمست کے صاحبزادے اور خلیفہ شیخ رکن الدین شطاری کی بار گاہ سے دعوت اسماءاللہ اور اذکار کی اجازت پائی</div><div>پھر بہادر افغان شجاول خاں کے زمانے میں مندو تشریف لائے نگارندۂ گلزار کے والد سے دوستی قائم کی ، میرے والد نے مجھے ان سے قران مجید کی تعلیم دلائی۔آپ نے سو سال زندگی توکل میں بسر کی ،کسی سے راز ونیاز بیان نہ کیا،اپنے اور بیگانے کسی سے خواہش کا اظہار نہ کیا سنہ 973 ھ وفات پائی مندو میں مدفون ہوۓ۔</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-37782970743040016032022-12-31T22:28:00.001-08:002022-12-31T22:28:00.971-08:00آداب حاضری دربار قطب المدار <div>*آدابِ حاضری دربار عالیہ مداریہ*</div><div>حضور سيدى سيد قطب المدار زنده شاه مدار قدس سره کے آستانہ عالیہ پر حاضری کا ایک خاص دستور ہے، يہاں نہایت ادب ضروری ہے، نگاہ نیچی هو،مدار پاک كا تصور ذہن وفکر پر مسلط ہو،</div><div> یہ یقین ہو کہ قطب المدار خلیفۃ اللہ فی الارض ہوتا ہے ظہور انوار ذات کا مرکز ہوتاہے،وہ نائب رسالت ہوتاہے،وہی منظور نظر الٰہی ہوتا ہے ،حق تعالیٰ کا فیض اسی کے واسطے سے عالم اور سارے جہاں کو پہنچتا ہے۔ وہ جہاں قدم رکھ دیتا ہے وہ جگہ بقعۂ رحمت اور مہبط فیضان بن جاتی ہے ، برکات وانعامات الٰہیہ کا نزول ہونے لگتا ہے، عارف باللہ امام شعرانی قدس سرہ النورانی کے اس مشاھدہ پر یقین جمائے ہو کہ</div><div>,,رُوْحَانِيةُ الْوَلِيِّ اَذَا دَخَلَ مَكَانَاً اَوْ مٓشَيٰ فِي الْاَرْضِ تَبْقَيٰ تلك الروحانيةُ في ذالك المكانِ سِتَّةَ اَشْهُرٍ كما يشهده اَرْبابُ القلوبِ فَكَيْفَ فِي الْمَكانِ الَّذِي كَانَ مَسْكَنَ الوليِّ ليلاً و نهاراً "يعنى ولي كى روحانيت كى ىه شان هے کہ جب وہ کسی مکان میں داخل ہوتا ہے یا کسی سرزمین میں قدم رنجہ ہوتا ہے تو اس کی روحانیت کی برکت اس مکان میں چھ ماہ تک بنی رہتی ہے جیساکہ ارباب قلوب کا مشاہدہ ہے تو کیا عالم ہوگا اس مکان شریف کا جہاں دن رات اللہ کے ولی کا قیام رہتا ہے"</div><div>بغیر طہارت یہاں حاضری نہ ہو، اور زائر کو یہ تصور قائم رہے کہ یہ وارث سرکار رسالت ہیں ممکن ہے کہ ملٰئکہ بھی ان کے مزار کے گرد ہوں ،اور کم از کم یہ تو طے ہے کہ درگاہ کا حرم مقدس مَمَرًَاولیائے کرام و گزرگاہ صلحائے عظام ہے ممکن ہے کسی کے نشان قدم پر قدم پڑ جائے تو نجات اخروی کا سبب بنے اس لیئے بڑے وثوق واعتماد اور یقین و استناد کے ساتھ قدم بڑھائے ۔</div><div>فتاویٰ رضویہ میں تیسیر شرح جامع صغیر کے حوالے سے هے</div><div> کہ "اِنٌَ لِلّٰهِ عِبَاداًاِذَاْ نَظَرُوا اِلیٰ اَحَدًٍاَکسَبُوہ سعادۃَالاَبَدِ" یعنی اللہ کے کچھ بندے ہیں کہ جب ان کی نگاہ کسی پر پڑ جاتی ہے وہ اسے ہمیشہ کی سعادت عطا فرما دیتے ہیں ۔۔۔۔۔</div><div>اولیاءاللہ وارثانٕ سرکار رسالت ہیں ۔ممکن کہ ملٰئکہ ان کے مزارات کے گرد بھی ہوں اور ایسے امور میں علم درکار نہیں۔</div><div> تعرض نفحات کی شان یہ ہے کہ ،شاید، و' لَعَلّ' پر ہو ،مع ھٰذا مزارات اولیائےکرام ہر جانب سے مَمَرِّ صلحائے عظام ہوتے ہیں سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا الکریم وعلیہ الصلاۃ والسلام سے عرض کی گئی کہ حضور ایک جگہ قیام کیوں نہیں فرماتے شہروں شہروں جنگلوں جنگلوں دورے کیوں فرماتے ہیں ؟</div><div>فرمایا :اس امید پر کہ کسی بندۂ خدا کےنشان قدم پرقدم پڑ جائےتو میری نجات ہو جاوے ،</div><div>جب نبي الله و رسول اللہ کہ خمسۂ اولو العزم میں ہیں صلوٰت اللہ وسلام علیھم کہ ان کا یہ ارشاد تواضع ہے، </div><div>تو ہم تو سخت محتاج ہیں۔</div><div> (فتاویٰ رضویہ ج٢٢ص٣٩٥رضا فاؤنڈیشن لاہور) یہ دیار محبت ہے یہاں قدم قدم سنبھال کے رکھے ،طہارت کے ساتھ حرم اول مىں داخل ہو ، یہ تصور کرتے ھوئے کہ میں اس قطب المدار کے آستانہ پر حاضر ہوں جو دل کی دھڑکنوں سے بھی آگاہ ہے ،</div><div> یہاں چپہ چپہ رحمت ونور کی بارش ہو رہی ہے، </div><div>رجال الغیب كا هر جگه حصار ہے، صاحب مزار کا تصرف بہت قوی ہے، وہ ہمارے حال و احوال سے واقف ہیں،باب حرم سے داخل ہو تو کلمۂ طیبہ پڑھتے ہوئےدہلیز کو با ادب عبور کرےحرم ثانی میں مزارات مقدسہ کو سلام پیش کرتے ہوئے سیدھے حرم دربار میں داخل ہو،</div><div> اور*مکی جالی* کے قریب جائےجو مغرب کی سمت ہے، اسے گروہ طالبان كي جالی بھی کہتے ہیں اور سلام پیش کرے،”السلام علیک یا فضلَ اللہ،یاسیِّدُ بدیعَ الدینِ قطبُ المدارِشَیْأً لِلّٰهِ،پھر فاتحہ پڑھے، *طریقۂ ختم خواجگان مداریہ* فاتحہ میں متعدد سورتیں جو یاد ہوں پڑھے سورۂ زلزال ،دو مرتبہ اور سورۂ کوثرایک مرتبہ و سورۂ كافرون ایک مرتبہ کے بعد </div><div>سورۂ اخلاص ١١ مرتبہ پڑھے </div><div>اور اس کے بعد سورۂ فلک ایک بار سورۂ ناس ایک بار</div><div> سورۂ فاتحہ ایک بار </div><div>سورۂ بقر مفلحون تک</div><div> اس کے بعد والٌھُکُم اٍلٰهٌ واحد الیٰ آخرہ</div><div> پڑھے </div><div>پھر درود ابراھیمی اور درود مداری پڑھے اور ،ختم خواجگان مداريه کرے۔اوردعاۓ حاجات پڑھے .پھر دونوں ہاته اٹھا کر نذر پیش کرے ۔ یا اللہ یا رحمٰن یا رحیم یا دَایِمُ یَا قَدِیمُ یا اَحَدُ یا وَتْرُ یا فَرْدُ یا صَمَدُ یا مَنْ لَمْ یَلِد وَلَم یُولَد وَلَم یَکُن لَهُ کُفُواً اَحَدٌ یا حَیُّ یا قیومُ برحمتک یا ارحم الراحمین یا واسع یا باسط یا رزاق یا ذاالفضل الکریم یا غنی یا مغنی یا رب العالمین </div><div>الہ العالمین جو کچھ پڑھا وہ تیرے حبیب کی بارگاہ میں نذر ہے </div><div>قبول و مقبول فرما ان کے صدقے جملہ انبیاء و مرسلین علیہم الصلوات والتسلیم کی بارگاہوں میں نذر ہے قبول و مقبول فرما اور انکے طفیل اولاد پاک رسول عليه الصلاة و السلام و خلفاۓ راشدین سابقين اولين و حضرات حسنین کریمین و ازواج مطہرات،و اصحاب بدرو احد و عشرہ مبشرہ وجملہ صحابہ و صحابیات و شھداۓ کربلاء و تابعین وتابعات رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کی ارواح طیبات کو نذر پیش کرتے ہیں قبول و مقبول فرما .</div><div>خصوصا تیرے محبوب کے سلسلے کے جمیع مشائخ و خصوصا قطب المدار سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار اور ان سے منشعب سلاسل حقہ ہفت گروہ کے مشائخ خادمان دیوانگان عاشقان، طالبان، حسامیان، اجملیان و مخدومیان کے جملہ مشایخ کو نذر قبول و مقبول فرما اور میری میرے والدین، عزیز و اقارب،اور محبین و متوسلین کی مغفرت فرما کر اپنی خوشنودی عطا فرما، بحق سیدنا محمد والہ وصحبہ اجمعین یا ربّ العالمین </div><div> یہ سجادہ نشین حضرت سید محمد مجیب الباقی مداری و خواجہ سید مصباح المراد مداری کے خانوادے کا معمول ہے.</div><div> اور </div><div> شیخ المشائخ سید انتخاب عالم ابن حضرت سید خورشید عالم قدس سرہ فرماتے ھیں کہ ہر جالی پر ہفت اسماۓ طبقاتی جو تحفۃالابرار میں بھی منقول ہیں ان کے ساتھ اس طرح سلام پیش کرے السلام علیک یا نجمَ اللہ ۔السلامُ علیک زینَ اللہ السلام علیک یا صبغةَاللهِ السلامُ علیکَ یا فضلَ اللهِ السلامُ علیکَ یا فریدَ اللهِ السلامُ علیکَ یا مُجتَمَعَ اللهِ السلامُ عليكَ یا بدیعَ اللهِ </div><div> لیکن اس سے پہلے دعائے محمودی کا یہ حصہ دعا میں ضرور شامل کرے اَنْتَ سيدي و مولائي ,,اِنِّیْ عَاجِزٌ فی کل شیئٍ یا رئیس المدار ، انی جاھل فی علم اللہ تعالیٰ اعطنی علما نافعا یا مولانا المدار انی فقیر غریب کلب مضطر انت غفور اشفق علیًَ بحرمتک یا سیدی المدار یا نورُ یا مُنَوِّرُ یا حافظ خُذْ بیدی یا سلطان المدار یا ولی یا بدیع خذ بیدی یا سید المدار یا مُشفق المدار یا مدار شیخونا یا مدار ھَنجَلِیشَا یا مدارَ الاَتْقیِاء اَحیِنِی اَیَا ھِیطَ یا مدارَ السِّلمِ تَغِیطَ یا مدارَ الجبالِ یا مدار الاٰنھمون یا مدارَ الأِکلیل یا مدارَ البطوشا یا مدار الحق بالمقتدر یا مدار مفرد یا مدار صمد یا مدار وَطَالَ۔ </div><div> </div><div>**تحفۃ الابرار* </div><div>*و مناجات مداریہ*</div><div><br></div><div>تحفۃ الابرار مولفہ1616ء</div><div>میں ہے درگاہ عالیہ مداریہ میں مناجات اس طرح پڑھے۔</div><div>*مناجات بدرگاہ قطب المدار*</div><div>بسم اللہ الرحمٌٰن الرحیم </div><div>يَا اَللّٰهُ </div><div>يااَللّٰهُ يَااَللّٰهُ</div><div> يا مدارُیَا مَدارُ يامُنِىرَ المدَارِ ،يَا مُنِيرَ المنيرِ</div><div> يَا بَرقَلِيطَس،يَابَرفَلِيس يا اٍهياً </div><div>يا اٍشرَاهٓياً، اٰذوني اَصبَاؤثُ اَصْبَاؤثُون يا مَدَارَالذى لا بِدَايةَ لٍذاتهٖ و لا نهايةَ لِصِفَاتِهٖ يا مدارَالدُّنْيَا وَالاٰخِرَةِ يا مدارَ السمٰواتِ وَالْاَرْضِينَ يا مدارَالاَروَاحِ ورُوحِ الَامِينَ ويا مدارَالملٰئكةٍ المقربين ..</div><div>يا قطبُ المدار!اِنٌِي عاجزفي كلٌِ شيئ يا رئيسُ المدار إني مَردُودٌخُذْبيدي يا سلطانُ المدار اِنٌِى فقيرٌ في الفَقرِ الظاهرِ اِئتِنِيْ غِنَي الظَاهِرِ وَالبَاطِنِ يا شيخُ المدارُ اِنِّي محجوبٌ في المقاماتِ والمُشاهداتِ إئتني مقاما مشاهدا ويا علماء المداراني جاهل بعلم الله تعالى علٌِمنِي علماًنافعاًبرحمتك يا ارحمَ الراحمين</div><div> ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر درود مداری پڑھتا ہوا سرہانے کی جالی پرجائے جسے گروہ دیوانگان کی جالی بھی کہتے ہیں اور ہفت اسمائے طبقاتی کے ذریعہ سلام پیش کرے پھر یہ پڑھے السلام علیک یا حضرت رجال الغیب یا السلام علیک یا ارواح المقدس و یا ارواح المطہر یا عباد الله اعينوني بقوة فانظرونى بنظرة يا رقباء يا نجباء ،يا اخيار،يا سياح يازهاد يا عباد يا ابدال يا اوتاد يا غوث ىا قطب يا قطب القطاب يا صمد يا مدار اعينوني اعينوني اعينوني اغيثوني اغيثوني اغيثوني بحق اياك نعبد واياك نستعين وبحق سيدنا محمد واله ،</div><div>*درود مداری*</div><div><br></div><div> درود مدارى یہ ہے:</div><div>”اَللّٰهَمَّ صَلِّ عَلىٰ سَيِّدِنَا وَمَولَانَا مُحَمَّدَ نَ النَّبِيِّ الاُمِّيِّ وَآلِهٖ المَدَارِ البَدِيعِ الكَرِيمِ اِبنِ الكَرِيمِ وَبَارِك وَسَلِّم“ </div><div> قمرالمشائخ وارث ابو الوقار حضور سیدی و مرشدی سيد ذوالفقار علی قمر فنصورى مداری قدس سرہ العزیز و حضور سیدی ظھیر المشائخ سید ظہیر المنعم المعروف بہ ببّن میاں طيفورى قدس سرہ النوراور حضور سيدى بابا ولى شكوه ارغونى قدس سره فرماتے تھے کہ اس درود شریف کو اگر معمول میں رکھو گے ،اور کثرت سے پڑھو گے تو ان شاءاللہ تعالىٰ حضور مدار پاک کی زیارت مقدسہ سے مشرف ہوجاوگے۔( ان تىنوں بزرگوں کی بےشمار نوازشات اور عنايتيں اس فقیر مداری ابوالحمّاد حیدری پر رہیں )</div><div>اور اگر یاد ہوتو دعائے بشمخ شریف پڑھے ۔ اور دعائےبشمخ شریف یہ ہے:</div><div>بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ</div><div> اَللّٰهُمَّ يَا بَشْمَخُ بِشْمُخُ ذَالَاهَامُو شِيْطِيْثُونْ .</div><div>اَللّٰهُمَّ يَاذانُوْمَلْخُوْثُوْدَمُوْثُوْ دَائِمُوْنْ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَاخِيْثُوْمَيْمُونَ اَرْقِشْ دَارَ عِلِّيُوْنْ ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَارَحْمِيْثا رَحلِيْلُونَ مَيْتَطِرُوْنْ ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَارَخِتيْثُوْاَخْلَاقَ اَخْلَاقُوْنْ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَارَحمِيْثُوْ اَرْخِيْمَا اَرْخِيْمُوْنْ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَا إِهْيًا اِشْرَاهِيَا اَذوْنِيْ اَصْبَاؤُثُوْاَصْبَاءُثُوْنْ ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَا اَرْغِشْ اَرْعِيْ تَطْلِيْثُوْنْ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَا اَشْبَرُاِشْبَرُ اَسْمَاءُاَسْمَاءُوْنْ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَا مَلِيعُوْثا اَمْلِيْخَا مَلْخَامَلْخُوْنْ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَا عَلَّامُ اَرْعِدْاَرْعِيْ يَذْنُوْنْ ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَا مَشْمَخُ مَشْمَخِيْثَا مَثَلَامُوْنْ،</div><div>اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿۸۲﴾فَسُبۡحٰنَ الَّذِیۡ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿٪۸۳﴾ انتخاب المشائخ موصوف نے اپنی مجلسی گفتگو میں فرمایا کہ دعائے بشمخ شریف پڑھنے سے سے قبل اس کا حصار ضرور پڑھے ،اس میں اسماء جلالی ہیں اور احتیاط لازمی ہے اس لیئے دعائے حصار ضرور پڑھ لے </div><div>دعائے حصار حضرت انتخاب المشائخ موصوف کےخلیفہ صوفی قاری افتخارعلی بہرائچی نے رسالہ حجۃ النجات میں نقل فرمایا ہے اور سیر المدار کے مصنف نے بھی یہ حصار سیر المدار میں درج کیا ہے </div><div>*حصار دعائے بشمخ شریف*</div><div><br></div><div>بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرحيم</div><div>اَللّٰہُمَّ یَاحَافِظَ نُوْحٍ فِی الْمَاءِ وَیُوْسُفَ فِی الْبِئْرِ وَاَیُّوبَ فِی الضَّرِّوَمُوْسٰی فِی الْیَمِّ وَعِيْسٰي فِي الرَّحْمِ وَيُوْسُفَ فِيْ بَطْنِ الْحُوْتِ وَاِبْرَاهِيْمَ فِي النَّارِ وَاِسْمٰعِيْلَ تَحْتَ السِّكِّيْنِ وَمُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَارِ اِحْفَظْنَا مِنَ الْأَعْدَاءِ وَالْحُسّادِ،اَللّٰهُمَّ صَلَّ عَلٰي سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ نِ النَبِيِّ الْاُمِّيِّ وَآلِهٖ الْمَدَارِ الْبَدِيْعِ الْكَرِيْمِ،وَأُفَوِّضُ اَمْرِيْ إلَي اللّٰهِ إنَّ اللّٰهَ بَصِيْرٌ بِالْعِبَادِ وَإِذَا سَالَكَ عَنِّيْ فَإِنِّيْ قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دعوة الداع إذا دعان فليستجيبوا إلي واليؤمنوابي ،لعلهم يرشدون عالم الغيب فلا يظهر على غيببه احداإلا من ارتضي من رسول فإنه يسلك من بين يديه ومن خلفه رصدا وماكان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب أو يرسل رسولا فيوحي بإذنه مايشاء إنه علي حكيم،وكذلك أوحينا اليك روحا من أمرنا ماكنت تدري ماالكتاب ولاالايمان ولكن جعلناه نورا نهدي به من نشاء من عبادنا وانك لتهدي إلي صراط مستقيم صراط الله الذي له ما في السموت وما في الأرض،ألا إلي الله تصير الأمور،حسبي ربي جل الله مافي قلبي غيرالله ،نورمحمد صلى الله،لا إله إلا الله محمد رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم وصلي الله تعالى عليه وعلي خير خلقه سيدنا محمد وآله وأصحابه وأتباعه أجمعين والحمد لله رب العالمي</div><div>اس کے بعد اختتامِ دعائے بشمخ پڑھے </div><div><br></div><div>*اختتام دعائے بشمخ **</div><div><br></div><div>اَللّٰهُمَّ اِنِّىْ اَسْئَلُكَ يَا اَللّٰهُ يَا اَللّٰهُ يا اَللّٰهُ اَنْ تَحْفِظْنِيْ مِنْ كُلِّ بَلَاءٍ وآفةٍوَعَاهَةٍوَوَجْعٍ وَمِنْ كُلِّ عِلَّةٍ وَبَلِيَّةٍ وَمِنْ كُلِّ فِتنَةٍ وَشِدَّةٍ وَزِلزَالٍ وَزَلْزَلَةٍ وَمِن كل شرالانس والجن ومِنْ كُلِّ شَرِّ السُلْطَانِ الْجَابرِ ومِنْ كُلِّ حاسِدٍ اذا حسد َالٰهى بحقِّ هٰذهٖ الأسماءِ الْعِظَامِ وَبِحَقِّ يا هُو وَبِحقِّ يا من لا الٰه إلا هو احفظني مِنْ جَمىعِ البلاءَ والاٰفاتِ والامراضَ بحق سيدنا محمدٍ سيدِ الانبياءِ وَالمُرسَلِينَ وعلى آلِه وَأَصحابِه أجْمَعِينَ برحمتك يا ارحم الراحمين اَجِبْ يابَرهائيلُ يا برقائيلُ يا بَريوشُ سَامِعاً مُطِيعاًبِحَقِّ هٰذهٖ الأَسماءِ اَنْ تَقْضِىَ حَاجَاتِي يا رَبًّ الْعَالَمِينَ</div><div><br></div><div>اس کے بعد مشرقی جالی پرآئے جسے ارغونی جالی اور خادمان جالى بھی کہتےہیں،</div><div>وہیں "جنتی دروازہ" بھی ہے،اسی لئے اسے جنتی جالی بھی کہتےہیں،یہ دعا کا خاص مقام ہے،اس جالی پر جاکر کہے اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا نجمَ اللهِ،پھر درود مداری 11/گیارہ بارپڑھے اور اپنامدعا عرض کرے اور حضور مدار پاک کے وسیلے سے اپنے رب تعالیٰ سے خوب دعائیں کرے</div><div> پھر پائینتی جالی پر کھڑے ہوکر یا مَجمَعَ اللّٰهِ یَا عبدَاللهِ زندانَ الصفوف 11/گیارہ مرتبہ پڑھے اس کے بعد استغفار پڑھے۔ یہ</div><div>استغفار افضل اور اسم اعظم پر مشتمل ہے ،حدیث شریف میں ہے </div><div>اگر سمندر کى آگ کے برابر گناہ ہوں اس کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ وه سب معاف فرما دےگا </div><div>*استغفار*۔ </div><div>" اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذٍيْ لَا اٍلٰهَ اِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَ اَتُوبُ اِلَيْهِ "</div><div> اور اپنے مقاصد بیان کرے سرکار مدارکے وسیلے سے رب تعالیٰ سے دعاکرے،</div><div>پھر الٹے پاؤں کلمہ شہادت پڑھتا ہواجنوبی دروازے سے باہر آئے،پھر باہر نکل کر دعائے ابدال 3/تین بار پڑھے،</div><div>**دعائے ابدال**</div><div> دعائے ابدال</div><div> یہ ہے:</div><div><br></div><div><br></div><div>یَا لَطِیْفُ بِخَلْقِہِ یَاعَلِیْمُ بِخَلْقِہٖ</div><div> يَا خَبِيْرُ بِخَلْقِهٖ اُلْطُفْ! اُلْطُفْ!اُلْطُفْ يَا لَطِيْفُ،يَاعَلِيْمُ يَا خَبِيْرُ ۔</div><div>اس کے بعد یہ دعا پڑھے۔</div><div>سُبحَانَ المَلِکِ القُّدُّوسِ سُبحَانَ المَلِکِ المَعبُودِ سُبْحَانَ المَلِکِ المَوجُودِ سُبحَانَ المَلِکِ المَقصُودِ سُبحَانَ المَلِکِ الحَیِّ الَّذِّی لاَّ یَنَامُ وَلَا یَمُوتُ سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبَّنَا وَرَبُّ الم٘لٰئِکة </div><div> وَالرُّوحِ بِحَقِّ اِیَّاکَ نَعبُدُ وَاِیَّاکَ نَستَعِینُ </div><div>پھر اس کے بعد یہ دعا مانگے۔</div><div>اَللّٰهُّمَّ احفِظْنَا مِنْ كُلِّ بِلَاءِ الدُّنیَا وَعَذَابِ الاٰخِرَةِ بِحُرمَةِ النَّبِيِّ الاُمِّیِّ وَآلِهٖ وَ بِحَقِّ السَ٘یِّدِ الشَّاهِ بَدِيعِ الدِّينِ الم٘دَارِ </div><div>الوداعى سلام كرتا هوا حرم سے باہر نکل جائے </div><div><br></div><div> *درود مداری کبیر * اسے درود محمودی بھیں کہتے ہیں یہ درود حضرت قاضی سید محمود الدین کنتوری سے منقول ہے حصول برکات ، فراخئ رزق اور زیارت قطب المدار کیلئے مجرب ہے خاصان بارگاہ"** باب مراد** کے پاس اسے پڑھتے ہیں ۔مہتمم درگاہ عزیزی سید موجود عالم میاں مداری کی اجازت سے بغرض افادہ پیش خدمت ہے۔</div><div><br></div><div> </div><div>یہ بہت ہی نافع و بابرکت ہے </div><div><br></div><div>اَللّٰھُمَّ یَاحَیُّ یَا قَیُّومُ یَا سُبُّوحُ یَا قَدُّوسُ یَا اَحَدُ یَا صَمَدُ یَا مَنْ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَلَمَ یَکُنْ لَهُ</div><div> کُفُوًا اَحَدٌ، یَانُوْرُ یَامُنَوَّرُ یَاھَادِیُ یَا حَافِظُ یَا بَدِیْعُ یَا رَفِیْعُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَااَرْحَمَ الَّراحِمِیْنَ یَا سَرِیْعُ یَاحَنَّانُ یَا مَنَّانُ یَا بَدِیْعَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِ کْرَامِ یَابَدِیْعَ الْعَجَائِبِ بِالْخَیْرِ یَابَدِیْعُ یَاذَالَفَضْلِ الْع٘ظِیْمُ اَلْلًٰھُّمَّ یَا ھُوَ ھُوَ ھُوَ یَامَنْ ھُوَ ھُوَ یَا مَنْ لَااِلٰهَ اِلّا ھُوَ وَ یَامَنْ لَااِلٰهَ اِلَّااَنْتَ اَلْلّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلَیٰ خَیْرِ خَلْقِهٖ مَدِینَۃِ الْعِلْمِ وَ نٰوْرِ النُّورِ وَ سُرُورِ السُّرُوْرِ وّرُوْحٍ الرُّوْحِ وَ مفتاح الْخَزَائِنِ الْاِلٰھِیٍّةِ وَمُخْتَار الحَضْرَۃِ الاَ حَدِیَّةِ وَعَرُوسِ الْمَمْلَکَةِ الرَّبَّانِیَةِ صَاحِبِ الْجِسْمٍ الْمُعَنْبَرِ الْمُعَطَّرِ الْمُقَدَّسِ الْمُطَھَّرِ الْمُنَوَّرِ الْمِسْکِیِّ الْنَّبِیِّ الْاِ مِّیِّ سَیِّدِنَا وَ سَنَدِنَا وَ شَیْخِنَا وَ شَفِیعِنَا وَ غَیَاثِنَا وَ مُغِيثِنَاوَ اَوَّلِيٰنَا وَ مَولَانَا الْسُّلْطَانُ سَیِّدِنَا مُحَمَّدَ نِ الْاَ حْمَدِ وَ اَصْحَابِهِ الْاَ خْیَارِ وَ آلِهِ الْا َطْھَارِ لَا سِیِّمَا عَلَیٰ ھٰذَا الْوَلِیِّ الْنُّورِیِّ اَعْجَبِ الزَّمَانِ وَ اَغْرَبِ الْمَکَانِ اَعَزًِالْعِزَّۃِ فِی الْفَوَادِ وَالْاَ کْبَادِ وَاَحَبِّ سَیِّدَتِنَا فَاطِمَةَ الزَّھْرَاءِ وَ سَنَدِنَا عَلَيِّ نِ الْمُرْتَضَیٰ وَ بَرْدِالْحَدَائِقِ الْعِطْرِیَّةِ سَیِّدِنَا الْحَسَنِ وَ الْحُسَینِ رِضْوَانُ اللّٰهِ تَعَالَیٰ عَلَیھِمْ اَجْمَعِینَ جَامِعِ الْاسْرَارِ مَجْمَعٍ الْاَنْوَارِ کَاشِفِ الرُّمُوزِ وَ الْاَسْتَارِ مَظْھَرَ الْعَجَائِبِ مَصْدَرِ الْغَرَائِبِ نَجْمِ شَرِیْعَةِ اللّٰهِ زَیْنِ مِلَّةِ بَیْضَاءِ رَسُولِ اللّٰهِ مَظْھَرِ جَمَالِ اللّٰهِ وَ مَنْبَعِ کَمَالِ اللّٰهِ قُطْبِ الْاِرْشَادِ قُطْبِ النَّظَامِ قُطب الاعظم قُطْبِ الاکبر قُطْبِ</div><div> الْوَحْدَۃِ فَرَدِ الْاَفْرَادِ الَّذِیْ ھُوَوَرَاءِ الْوَرَاءِ اَرْفَعِ الْمَدَارِجِ سَیِّدِنَا و َ شَیْخِنا وَ شَفِیْعِنَا وَ غَیَاثِنَا وَ مُرْشِدِنَا وَ ھَادِیِنَا وَ حَامِیِنَا وَ اٰخِذِ حُجُزِنَا وَاَیْدِیَنَا اَلْاَمَامِ مَوْلَانَا الْسلُّطَانِ اَبِیْ تُرَابِ سَیِّدِیْ اَحْمَدَ بَدِیْعِ الدِّیٰنِ قُطْبِ الْمَدَارِ الْحَسَنِیْ وَ الْحُسَیْنِیْ الْحَلَبِیِّ وَ الْمَکَنْفُورِیِّ مَحبُوبِ الرَّسُوٰلِ الْھَاشِمِیِّ الْاَبْطَحِیِّ الْمَکِّیِّ الْتَّھَامِیِّ اَلْمَدَنِیِّ عَدَدَخَلْقِکَ وَرِدَادَنَفْسِکَ وَ مُرَادَ کَلِمَاتِکَ فِیْ کُلِّ لَمْحَةٍ مَّاوَسَعَهٔ عِلْمُکَ وَفَضْلُکَ وَوَصْلُکَ وَجُودُکَ و َکَرَمُکَ وَ عَدَدَ کُلِّ ذَرَّۃٍ مِائَةَ اَلْفِ اَلْفِ مَرَّۃٍیَا حَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ یَااَرْحَمَ الْرَّاحِمِین *آدابِ حاضری دربار عالیہ مداریہ*</div><div>حضور سيدى سيد قطب المدار زنده شاه مدار قدس سره کے آستانہ عالیہ پر حاضری کا ایک خاص دستور ہے، يہاں نہایت ادب ضروری ہے، نگاہ نیچی هو،مدار پاک كا تصور ذہن وفکر پر مسلط ہو،</div><div> یہ یقین ہو کہ قطب المدار خلیفۃ اللہ فی الارض ہوتا ہے ظہور انوار ذات کا مرکز ہوتاہے،وہ نائب رسالت ہوتاہے،وہی منظور نظر الٰہی ہوتا ہے ،حق تعالیٰ کا فیض اسی کے واسطے سے عالم اور سارے جہاں کو پہنچتا ہے۔ وہ جہاں قدم رکھ دیتا ہے وہ جگہ بقعۂ رحمت اور مہبط فیضان بن جاتی ہے ، برکات وانعامات الٰہیہ کا نزول ہونے لگتا ہے، عارف باللہ امام شعرانی قدس سرہ النورانی کے اس مشاھدہ پر یقین جمائے ہو کہ</div><div>,,رُوْحَانِيةُ الْوَلِيِّ اَذَا دَخَلَ مَكَانَاً اَوْ مٓشَيٰ فِي الْاَرْضِ تَبْقَيٰ تلك الروحانيةُ في ذالك المكانِ سِتَّةَ اَشْهُرٍ كما يشهده اَرْبابُ القلوبِ فَكَيْفَ فِي الْمَكانِ الَّذِي كَانَ مَسْكَنَ الوليِّ ليلاً و نهاراً "يعنى ولي كى روحانيت كى ىه شان هے کہ جب وہ کسی مکان میں داخل ہوتا ہے یا کسی سرزمین میں قدم رنجہ ہوتا ہے تو اس کی روحانیت کی برکت اس مکان میں چھ ماہ تک بنی رہتی ہے جیساکہ ارباب قلوب کا مشاہدہ ہے تو کیا عالم ہوگا اس مکان شریف کا جہاں دن رات اللہ کے ولی کا قیام رہتا ہے"</div><div>بغیر طہارت یہاں حاضری نہ ہو، اور زائر کو یہ تصور قائم رہے کہ یہ وارث سرکار رسالت ہیں ممکن ہے کہ ملٰئکہ بھی ان کے مزار کے گرد ہوں ،اور کم از کم یہ تو طے ہے کہ درگاہ کا حرم مقدس مَمَرًَاولیائے کرام و گزرگاہ صلحائے عظام ہے ممکن ہے کسی کے نشان قدم پر قدم پڑ جائے تو نجات اخروی کا سبب بنے اس لیئے بڑے وثوق واعتماد اور یقین و استناد کے ساتھ قدم بڑھائے ۔</div><div>فتاویٰ رضویہ میں تیسیر شرح جامع صغیر کے حوالے سے هے</div><div> کہ "اِنٌَ لِلّٰهِ عِبَاداًاِذَاْ نَظَرُوا اِلیٰ اَحَدًٍاَکسَبُوہ سعادۃَالاَبَدِ" یعنی اللہ کے کچھ بندے ہیں کہ جب ان کی نگاہ کسی پر پڑ جاتی ہے وہ اسے ہمیشہ کی سعادت عطا فرما دیتے ہیں ۔۔۔۔۔</div><div>اولیاءاللہ وارثانٕ سرکار رسالت ہیں ۔ممکن کہ ملٰئکہ ان کے مزارات کے گرد بھی ہوں اور ایسے امور میں علم درکار نہیں۔</div><div> تعرض نفحات کی شان یہ ہے کہ ،شاید، و' لَعَلّ' پر ہو ،مع ھٰذا مزارات اولیائےکرام ہر جانب سے مَمَرِّ صلحائے عظام ہوتے ہیں سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا الکریم وعلیہ الصلاۃ والسلام سے عرض کی گئی کہ حضور ایک جگہ قیام کیوں نہیں فرماتے شہروں شہروں جنگلوں جنگلوں دورے کیوں فرماتے ہیں ؟</div><div>فرمایا :اس امید پر کہ کسی بندۂ خدا کےنشان قدم پرقدم پڑ جائےتو میری نجات ہو جاوے ،</div><div>جب نبي الله و رسول اللہ کہ خمسۂ اولو العزم میں ہیں صلوٰت اللہ وسلام علیھم کہ ان کا یہ ارشاد تواضع ہے، </div><div>تو ہم تو سخت محتاج ہیں۔</div><div> (فتاویٰ رضویہ ج٢٢ص٣٩٥رضا فاؤنڈیشن لاہور) یہ دیار محبت ہے یہاں قدم قدم سنبھال کے رکھے ،طہارت کے ساتھ حرم اول مىں داخل ہو ، یہ تصور کرتے ھوئے کہ میں اس قطب المدار کے آستانہ پر حاضر ہوں جو دل کی دھڑکنوں سے بھی آگاہ ہے ،</div><div> یہاں چپہ چپہ رحمت ونور کی بارش ہو رہی ہے، </div><div>رجال الغیب كا هر جگه حصار ہے، صاحب مزار کا تصرف بہت قوی ہے، وہ ہمارے حال و احوال سے واقف ہیں،باب حرم سے داخل ہو تو کلمۂ طیبہ پڑھتے ہوئےدہلیز کو با ادب عبور کرےحرم ثانی میں مزارات مقدسہ کو سلام پیش کرتے ہوئے سیدھے حرم دربار میں داخل ہو،</div><div> اور*مکی جالی* کے قریب جائےجو مغرب کی سمت ہے، اسے گروہ طالبان كي جالی بھی کہتے ہیں اور سلام پیش کرے،”السلام علیک یا فضلَ اللہ،یاسیِّدُ بدیعَ الدینِ قطبُ المدارِشَیْأً لِلّٰهِ،پھر فاتحہ پڑھے، *طریقۂ ختم خواجگان مداریہ* فاتحہ میں متعدد سورتیں جو یاد ہوں پڑھے سورۂ زلزال ،دو مرتبہ اور سورۂ کوثرایک مرتبہ و سورۂ كافرون ایک مرتبہ کے بعد </div><div>سورۂ اخلاص ١١ مرتبہ پڑھے </div><div>اور اس کے بعد سورۂ فلک ایک بار سورۂ ناس ایک بار</div><div> سورۂ فاتحہ ایک بار </div><div>سورۂ بقر مفلحون تک</div><div> اس کے بعد والٌھُکُم اٍلٰهٌ واحد الیٰ آخرہ</div><div> پڑھے </div><div>پھر درود ابراھیمی اور درود مداری پڑھے اور ،ختم خواجگان مداريه کرے۔اوردعاۓ حاجات پڑھے .پھر دونوں ہاته اٹھا کر نذر پیش کرے ۔ یا اللہ یا رحمٰن یا رحیم یا دَایِمُ یَا قَدِیمُ یا اَحَدُ یا وَتْرُ یا فَرْدُ یا صَمَدُ یا مَنْ لَمْ یَلِد وَلَم یُولَد وَلَم یَکُن لَهُ کُفُواً اَحَدٌ یا حَیُّ یا قیومُ برحمتک یا ارحم الراحمین یا واسع یا باسط یا رزاق یا ذاالفضل الکریم یا غنی یا مغنی یا رب العالمین </div><div>الہ العالمین جو کچھ پڑھا وہ تیرے حبیب کی بارگاہ میں نذر ہے </div><div>قبول و مقبول فرما ان کے صدقے جملہ انبیاء و مرسلین علیہم الصلوات والتسلیم کی بارگاہوں میں نذر ہے قبول و مقبول فرما اور انکے طفیل اولاد پاک رسول عليه الصلاة و السلام و خلفاۓ راشدین سابقين اولين و حضرات حسنین کریمین و ازواج مطہرات،و اصحاب بدرو احد و عشرہ مبشرہ وجملہ صحابہ و صحابیات و شھداۓ کربلاء و تابعین وتابعات رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کی ارواح طیبات کو نذر پیش کرتے ہیں قبول و مقبول فرما .</div><div>خصوصا تیرے محبوب کے سلسلے کے جمیع مشائخ و خصوصا قطب المدار سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار اور ان سے منشعب سلاسل حقہ ہفت گروہ کے مشائخ خادمان دیوانگان عاشقان، طالبان، حسامیان، اجملیان و مخدومیان کے جملہ مشایخ کو نذر قبول و مقبول فرما اور میری میرے والدین، عزیز و اقارب،اور محبین و متوسلین کی مغفرت فرما کر اپنی خوشنودی عطا فرما، بحق سیدنا محمد والہ وصحبہ اجمعین یا ربّ العالمین </div><div> یہ سجادہ نشین حضرت سید محمد مجیب الباقی مداری و خواجہ سید مصباح المراد مداری کے خانوادے کا معمول ہے.</div><div> اور </div><div> شیخ المشائخ سید انتخاب عالم ابن حضرت سید خورشید عالم قدس سرہ فرماتے ھیں کہ ہر جالی پر ہفت اسماۓ طبقاتی جو تحفۃالابرار میں بھی منقول ہیں ان کے ساتھ اس طرح سلام پیش کرے السلام علیک یا نجمَ اللہ ۔السلامُ علیک زینَ اللہ السلام علیک یا صبغةَاللهِ السلامُ علیکَ یا فضلَ اللهِ السلامُ علیکَ یا فریدَ اللهِ السلامُ علیکَ یا مُجتَمَعَ اللهِ السلامُ عليكَ یا بدیعَ اللهِ </div><div> لیکن اس سے پہلے دعائے محمودی کا یہ حصہ دعا میں ضرور شامل کرے اَنْتَ سيدي و مولائي ,,اِنِّیْ عَاجِزٌ فی کل شیئٍ یا رئیس المدار ، انی جاھل فی علم اللہ تعالیٰ اعطنی علما نافعا یا مولانا المدار انی فقیر غریب کلب مضطر انت غفور اشفق علیًَ بحرمتک یا سیدی المدار یا نورُ یا مُنَوِّرُ یا حافظ خُذْ بیدی یا سلطان المدار یا ولی یا بدیع خذ بیدی یا سید المدار یا مُشفق المدار یا مدار شیخونا یا مدار ھَنجَلِیشَا یا مدارَ الاَتْقیِاء اَحیِنِی اَیَا ھِیطَ یا مدارَ السِّلمِ تَغِیطَ یا مدارَ الجبالِ یا مدار الاٰنھمون یا مدارَ الأِکلیل یا مدارَ البطوشا یا مدار الحق بالمقتدر یا مدار مفرد یا مدار صمد یا مدار وَطَالَ۔ </div><div> </div><div>**تحفۃ الابرار* </div><div>*و مناجات مداریہ*</div><div><br></div><div>تحفۃ الابرار مولفہ1616ء</div><div>میں ہے درگاہ عالیہ مداریہ میں مناجات اس طرح پڑھے۔</div><div>*مناجات بدرگاہ قطب المدار*</div><div>بسم اللہ الرحمٌٰن الرحیم </div><div>يَا اَللّٰهُ </div><div>يااَللّٰهُ يَااَللّٰهُ</div><div> يا مدارُیَا مَدارُ يامُنِىرَ المدَارِ ،يَا مُنِيرَ المنيرِ</div><div> يَا بَرقَلِيطَس،يَابَرفَلِيس يا اٍهياً </div><div>يا اٍشرَاهٓياً، اٰذوني اَصبَاؤثُ اَصْبَاؤثُون يا مَدَارَالذى لا بِدَايةَ لٍذاتهٖ و لا نهايةَ لِصِفَاتِهٖ يا مدارَالدُّنْيَا وَالاٰخِرَةِ يا مدارَ السمٰواتِ وَالْاَرْضِينَ يا مدارَالاَروَاحِ ورُوحِ الَامِينَ ويا مدارَالملٰئكةٍ المقربين ..</div><div>يا قطبُ المدار!اِنٌِي عاجزفي كلٌِ شيئ يا رئيسُ المدار إني مَردُودٌخُذْبيدي يا سلطانُ المدار اِنٌِى فقيرٌ في الفَقرِ الظاهرِ اِئتِنِيْ غِنَي الظَاهِرِ وَالبَاطِنِ يا شيخُ المدارُ اِنِّي محجوبٌ في المقاماتِ والمُشاهداتِ إئتني مقاما مشاهدا ويا علماء المداراني جاهل بعلم الله تعالى علٌِمنِي علماًنافعاًبرحمتك يا ارحمَ الراحمين</div><div> ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر درود مداری پڑھتا ہوا سرہانے کی جالی پرجائے جسے گروہ دیوانگان کی جالی بھی کہتے ہیں اور ہفت اسمائے طبقاتی کے ذریعہ سلام پیش کرے پھر یہ پڑھے السلام علیک یا حضرت رجال الغیب یا السلام علیک یا ارواح المقدس و یا ارواح المطہر یا عباد الله اعينوني بقوة فانظرونى بنظرة يا رقباء يا نجباء ،يا اخيار،يا سياح يازهاد يا عباد يا ابدال يا اوتاد يا غوث ىا قطب يا قطب القطاب يا صمد يا مدار اعينوني اعينوني اعينوني اغيثوني اغيثوني اغيثوني بحق اياك نعبد واياك نستعين وبحق سيدنا محمد واله ،</div><div>*درود مداری*</div><div><br></div><div> درود مدارى یہ ہے:</div><div>”اَللّٰهَمَّ صَلِّ عَلىٰ سَيِّدِنَا وَمَولَانَا مُحَمَّدَ نَ النَّبِيِّ الاُمِّيِّ وَآلِهٖ المَدَارِ البَدِيعِ الكَرِيمِ اِبنِ الكَرِيمِ وَبَارِك وَسَلِّم“ </div><div> قمرالمشائخ وارث ابو الوقار حضور سیدی و مرشدی سيد ذوالفقار علی قمر فنصورى مداری قدس سرہ العزیز و حضور سیدی ظھیر المشائخ سید ظہیر المنعم المعروف بہ ببّن میاں طيفورى قدس سرہ النوراور حضور سيدى بابا ولى شكوه ارغونى قدس سره فرماتے تھے کہ اس درود شریف کو اگر معمول میں رکھو گے ،اور کثرت سے پڑھو گے تو ان شاءاللہ تعالىٰ حضور مدار پاک کی زیارت مقدسہ سے مشرف ہوجاوگے۔( ان تىنوں بزرگوں کی بےشمار نوازشات اور عنايتيں اس فقیر مداری ابوالحمّاد حیدری پر رہیں )</div><div>اور اگر یاد ہوتو دعائے بشمخ شریف پڑھے ۔ اور دعائےبشمخ شریف یہ ہے:</div><div>بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ</div><div> اَللّٰهُمَّ يَا بَشْمَخُ بِشْمُخُ ذَالَاهَامُو شِيْطِيْثُونْ .</div><div>اَللّٰهُمَّ يَاذانُوْمَلْخُوْثُوْدَمُوْثُوْ دَائِمُوْنْ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَاخِيْثُوْمَيْمُونَ اَرْقِشْ دَارَ عِلِّيُوْنْ ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَارَحْمِيْثا رَحلِيْلُونَ مَيْتَطِرُوْنْ ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَارَخِتيْثُوْاَخْلَاقَ اَخْلَاقُوْنْ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَارَحمِيْثُوْ اَرْخِيْمَا اَرْخِيْمُوْنْ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَا إِهْيًا اِشْرَاهِيَا اَذوْنِيْ اَصْبَاؤُثُوْاَصْبَاءُثُوْنْ ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَا اَرْغِشْ اَرْعِيْ تَطْلِيْثُوْنْ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَا اَشْبَرُاِشْبَرُ اَسْمَاءُاَسْمَاءُوْنْ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَا مَلِيعُوْثا اَمْلِيْخَا مَلْخَامَلْخُوْنْ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَا عَلَّامُ اَرْعِدْاَرْعِيْ يَذْنُوْنْ ،</div><div>اَللّٰهُمَّ يَا مَشْمَخُ مَشْمَخِيْثَا مَثَلَامُوْنْ،</div><div>اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿۸۲﴾فَسُبۡحٰنَ الَّذِیۡ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿٪۸۳﴾ انتخاب المشائخ موصوف نے اپنی مجلسی گفتگو میں فرمایا کہ دعائے بشمخ شریف پڑھنے سے سے قبل اس کا حصار ضرور پڑھے ،اس میں اسماء جلالی ہیں اور احتیاط لازمی ہے اس لیئے دعائے حصار ضرور پڑھ لے </div><div>دعائے حصار حضرت انتخاب المشائخ موصوف کےخلیفہ صوفی قاری افتخارعلی بہرائچی نے رسالہ حجۃ النجات میں نقل فرمایا ہے اور سیر المدار کے مصنف نے بھی یہ حصار سیر المدار میں درج کیا ہے </div><div>*حصار دعائے بشمخ شریف*</div><div><br></div><div>بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرحيم</div><div>اَللّٰہُمَّ یَاحَافِظَ نُوْحٍ فِی الْمَاءِ وَیُوْسُفَ فِی الْبِئْرِ وَاَیُّوبَ فِی الضَّرِّوَمُوْسٰی فِی الْیَمِّ وَعِيْسٰي فِي الرَّحْمِ وَيُوْسُفَ فِيْ بَطْنِ الْحُوْتِ وَاِبْرَاهِيْمَ فِي النَّارِ وَاِسْمٰعِيْلَ تَحْتَ السِّكِّيْنِ وَمُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَارِ اِحْفَظْنَا مِنَ الْأَعْدَاءِ وَالْحُسّادِ،اَللّٰهُمَّ صَلَّ عَلٰي سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ نِ النَبِيِّ الْاُمِّيِّ وَآلِهٖ الْمَدَارِ الْبَدِيْعِ الْكَرِيْمِ،وَأُفَوِّضُ اَمْرِيْ إلَي اللّٰهِ إنَّ اللّٰهَ بَصِيْرٌ بِالْعِبَادِ وَإِذَا سَالَكَ عَنِّيْ فَإِنِّيْ قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دعوة الداع إذا دعان فليستجيبوا إلي واليؤمنوابي ،لعلهم يرشدون عالم الغيب فلا يظهر على غيببه احداإلا من ارتضي من رسول فإنه يسلك من بين يديه ومن خلفه رصدا وماكان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب أو يرسل رسولا فيوحي بإذنه مايشاء إنه علي حكيم،وكذلك أوحينا اليك روحا من أمرنا ماكنت تدري ماالكتاب ولاالايمان ولكن جعلناه نورا نهدي به من نشاء من عبادنا وانك لتهدي إلي صراط مستقيم صراط الله الذي له ما في السموت وما في الأرض،ألا إلي الله تصير الأمور،حسبي ربي جل الله مافي قلبي غيرالله ،نورمحمد صلى الله،لا إله إلا الله محمد رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم وصلي الله تعالى عليه وعلي خير خلقه سيدنا محمد وآله وأصحابه وأتباعه أجمعين والحمد لله رب العالمي</div><div>اس کے بعد اختتامِ دعائے بشمخ پڑھے </div><div><br></div><div>*اختتام دعائے بشمخ **</div><div><br></div><div>اَللّٰهُمَّ اِنِّىْ اَسْئَلُكَ يَا اَللّٰهُ يَا اَللّٰهُ يا اَللّٰهُ اَنْ تَحْفِظْنِيْ مِنْ كُلِّ بَلَاءٍ وآفةٍوَعَاهَةٍوَوَجْعٍ وَمِنْ كُلِّ عِلَّةٍ وَبَلِيَّةٍ وَمِنْ كُلِّ فِتنَةٍ وَشِدَّةٍ وَزِلزَالٍ وَزَلْزَلَةٍ وَمِن كل شرالانس والجن ومِنْ كُلِّ شَرِّ السُلْطَانِ الْجَابرِ ومِنْ كُلِّ حاسِدٍ اذا حسد َالٰهى بحقِّ هٰذهٖ الأسماءِ الْعِظَامِ وَبِحَقِّ يا هُو وَبِحقِّ يا من لا الٰه إلا هو احفظني مِنْ جَمىعِ البلاءَ والاٰفاتِ والامراضَ بحق سيدنا محمدٍ سيدِ الانبياءِ وَالمُرسَلِينَ وعلى آلِه وَأَصحابِه أجْمَعِينَ برحمتك يا ارحم الراحمين اَجِبْ يابَرهائيلُ يا برقائيلُ يا بَريوشُ سَامِعاً مُطِيعاًبِحَقِّ هٰذهٖ الأَسماءِ اَنْ تَقْضِىَ حَاجَاتِي يا رَبًّ الْعَالَمِينَ</div><div><br></div><div>اس کے بعد مشرقی جالی پرآئے جسے ارغونی جالی اور خادمان جالى بھی کہتےہیں،</div><div>وہیں "جنتی دروازہ" بھی ہے،اسی لئے اسے جنتی جالی بھی کہتےہیں،یہ دعا کا خاص مقام ہے،اس جالی پر جاکر کہے اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا نجمَ اللهِ،پھر درود مداری 11/گیارہ بارپڑھے اور اپنامدعا عرض کرے اور حضور مدار پاک کے وسیلے سے اپنے رب تعالیٰ سے خوب دعائیں کرے</div><div> پھر پائینتی جالی پر کھڑے ہوکر یا مَجمَعَ اللّٰهِ یَا عبدَاللهِ زندانَ الصفوف 11/گیارہ مرتبہ پڑھے اس کے بعد ایک مرتبہ درود مداری کبیر پڑھے اسے درود محمودی بھی کہتے ہیں </div><div><br></div><div>*درود مداری کبیر * </div><div> یہ درود شریف حضرت قاضی سید محمود الدین کنتوری سے منقول ہے۔ حصول برکات ، فراخئ رزق، طلب اولاد اور زیارت قطب المدار کیلئے اسےمجرب کہا گیا ہے۔</div><div> خاصان بارگاہ اسے" باب مراد" کے پاس" *دریچہ نور* سے بائیں طرف</div><div> پڑھتے ہیں</div><div> ۔مہتمم درگاہ عزیزی سید موجود عالم میاں مداری کی اجازت سے بغرض افادہ پیش خدمت ہے</div><div>یہ بہت ہی نافع و بابرکت ہے </div><div><br></div><div><br></div><div>*درود مداری کبیر* یہ ہے</div><div><br></div><div><br></div><div>اَللّٰھُمَّ یَاحَیُّ یَا قَیُّومُ یَا سُبُّوحُ یَا قَدُّوسُ یَا اَحَدُ یَا صَمَدُ یَا مَنْ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَلَمَ یَکُنْ لَهُ</div><div> کُفُوًا اَحَدٌ، یَانُوْرُ یَامُنَوَّرُ یَاھَادِیُ یَا حَافِظُ یَا بَدِیْعُ یَا رَفِیْعُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَااَرْحَمَ الَّراحِمِیْنَ یَا سَرِیْعُ یَاحَنَّانُ یَا مَنَّانُ یَا بَدِیْعَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِ کْرَامِ یَابَدِیْعَ الْعَجَائِبِ بِالْخَیْرِ یَابَدِیْعُ یَاذَالَفَضْلِ الْع٘ظِیْمُ اَلْلًٰھُّمَّ یَا ھُوَ ھُوَ ھُوَ یَامَنْ ھُوَ ھُوَ یَا مَنْ لَااِلٰهَ اِلّا ھُوَ وَ یَامَنْ لَااِلٰهَ اِلَّااَنْتَ اَلْلّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلَیٰ خَیْرِ خَلْقِهٖ مَدِینَۃِ الْعِلْمِ وَ نٰوْرِ النُّورِ وَ سُرُورِ السُّرُوْرِ وّرُوْحٍ الرُّوْحِ وَ مفتاح الْخَزَائِنِ الْاِلٰھِیٍّةِ وَمُخْتَار الحَضْرَۃِ الاَ حَدِیَّةِ وَعَرُوسِ الْمَمْلَکَةِ الرَّبَّانِیَةِ صَاحِبِ الْجِسْمٍ الْمُعَنْبَرِ الْمُعَطَّرِ الْمُقَدَّسِ الْمُطَھَّرِ الْمُنَوَّرِ الْمِسْکِیِّ الْنَّبِیِّ الْاِ مِّیِّ سَیِّدِنَا وَ سَنَدِنَا وَ شَیْخِنَا وَ شَفِیعِنَا وَ غَیَاثِنَا وَ مُغِيثِنَاوَ اَوَّلِيٰنَا وَ مَولَانَا الْسُّلْطَانُ سَیِّدِنَا مُحَمَّدَ نِ الْاَ حْمَدِ وَ اَصْحَابِهِ الْاَ خْیَارِ وَ آلِهِ الْا َطْھَارِ لَا سِیِّمَا عَلَیٰ ھٰذَا الْوَلِیِّ الْنُّورِیِّ اَعْجَبِ الزَّمَانِ وَ اَغْرَبِ الْمَکَانِ اَعَزًِالْعِزَّۃِ فِی الْفَوَادِ وَالْاَ کْبَادِ وَاَحَبِّ سَیِّدَتِنَا فَاطِمَةَ الزَّھْرَاءِ وَ سَنَدِنَا عَلَيِّ نِ الْمُرْتَضَیٰ وَ بَرْدِالْحَدَائِقِ الْعِطْرِیَّةِ سَیِّدِنَا الْحَسَنِ وَ الْحُسَینِ رِضْوَانُ اللّٰهِ تَعَالَیٰ عَلَیھِمْ اَجْمَعِینَ جَامِعِ الْاسْرَارِ مَجْمَعٍ الْاَنْوَارِ کَاشِفِ الرُّمُوزِ وَ الْاَسْتَارِ مَظْھَرَ الْعَجَائِبِ مَصْدَرِ الْغَرَائِبِ نَجْمِ شَرِیْعَةِ اللّٰهِ زَیْنِ مِلَّةِ بَیْضَاءِ رَسُولِ اللّٰهِ مَظْھَرِ جَمَالِ اللّٰهِ وَ مَنْبَعِ کَمَالِ اللّٰهِ قُطْبِ الْاِرْشَادِ قُطْبِ النَّظَامِ قُطب الاعظم قُطْبِ الاکبر قُطْبِ</div><div> الْوَحْدَۃِ فَرَدِ الْاَفْرَادِ الَّذِیْ ھُوَوَرَاءِ الْوَرَاءِ اَرْفَعِ الْمَدَارِجِ سَیِّدِنَا و َ شَیْخِنا وَ شَفِیْعِنَا وَ غَیَاثِنَا وَ مُرْشِدِنَا وَ ھَادِیِنَا وَ حَامِیِنَا وَ اٰخِذِ حُجُزِنَا وَاَیْدِیَنَا اَلْاَمَامِ مَوْلَانَا الْسلُّطَانِ اَبِیْ تُرَابِ سَیِّدِیْ اَحْمَدَ بَدِیْعِ الدِّیٰنِ قُطْبِ الْمَدَارِ الْحَسَنِیْ وَ الْحُسَیْنِیْ الْحَلَبِیِّ وَ الْمَکَنْفُورِیِّ مَحبُوبِ الرَّسُوٰلِ الْھَاشِمِیِّ الْاَبْطَحِیِّ الْمَکِّیِّ الْتَّھَامِیِّ اَلْمَدَنِیِّ عَدَدَخَلْقِکَ وَرِدَادَنَفْسِکَ وَ مُرَادَ کَلِمَاتِکَ فِیْ کُلِّ لَمْحَةٍ مَّاوَسَعَهٔ عِلْمُکَ وَفَضْلُکَ وَوَصْلُکَ وَجُودُکَ و َکَرَمُکَ وَ عَدَدَ کُلِّ ذَرَّۃٍ مِائَةَ اَلْفِ اَلْفِ مَرَّۃٍیَا حَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ یَااَرْحَمَ الْرَّاحِمِیْنَ</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-90546268143867711072022-12-26T05:54:00.001-08:002022-12-26T05:54:58.432-08:00قطب المدار المعروف زندہ شاہ مدار ایک تعارف <div>بسم اللہ الرحمن الرحیم</div><div><br></div><div><br></div><div>از قلم ابوالحماد محمد اسرافیل حیدری المداری دارالنور مکن پور شریف کان پور نگر </div><div><br></div><div><br></div><div>شاھے کہ کمال اسم اعظم با اوست</div><div>نقش آدم نگین خاتم با اوست</div><div>در ہند ظہور کرد بر نام مدار</div><div>حقا کہ مدار کار عالم با اوست</div><div><br></div><div>-------------------------------------------------</div><div><br></div><div><br></div><div>حضرت سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار قدس سرّه۔ 242ھ۔ 838ه کی ذات محتاج تعارف نہیں ہے</div><div> آپ ھادی راہ شریعت ,امام ارباب طریقت, پیشواۓ اصحاب حقیقت و مقتدائے اھل معرفت، صاحب تلوین و تمکين، اہل صحو و یقین ، صوفئ صافئ مطلق ، رازدار اوامر حقیقت، کاشف رموز معرفت ، امین تجلیات الوہیت , نور یقین و معرفت، امیر کشور فقرو عزلت ، شاہ اقلیم عرفاں ، امیر عالم امر ، شاہ معمورۂ خلق، انیس محفل انبیاء، جلیس جلوہ گاہ ذات کبریا ، مستغرق ذات ذوالجلال ، ناطق بلسان احوال غریباں ، عروۂ سلسلئہ طبقۂ حیدریاں ،منبع عوارف و معارف ، مصدر کرامات و خوارق، بلند و بالا، اعلی و اسنی، مصفًٰی و مزکًیٰ، متصرف عالم علویت و سفلیت ، مصرّف مقام صمدیت، مجدد قول قم باذن اللہ ، نظر حق بیناں عین جمال اللہ ،مترنًم ترانۂ شوق، متصرفً مقامات ما فوق ' مظہر شان تفرید ،آفتاب آسمان تجرید ،معدن عشق و وفا، بحر صدق و صفا ،فخر عالم نوری، مفتخر جہان بشری، دلیل ولایت کمال ، برہان محویت و اتّصال ،شاہباز ولایت جلی، درّیگانئہ صدف ولایت علی نزھت آرائےچمن توحید ،تراوت پیرائے گلشن تجرید، خلیل آتش عشق خدا ، جلیل امت محمد مصطفٰی ، صاحب کمال اسم اعظم، مثل و مثال نقش آدم آئنئہ تجلیات ربانی ، مصحف انوار سبحانی ، غیرت خورشید تاباں، جلوہ سامان بدر آسماں ، نیّر برج قطبیت، ماہتاب چرخ ولایت ،</div><div><br></div><div>قاسم نعمات الٰہی ،مقسم فیوض ذات لا متناہی، اجمل اھل جمال، اکمل اصحاب کمال، شمع کاشانۂ احمدیت، بدر منیر آستانئہ محمدیت ،مصباح المقربین، سراج السالکین، ملک العارفین، امام المتقین، قدوہ اہل یقین، مفسر آیات ولایت سبحانی،</div><div> مترجم مقالات عاشقان رحمانی، مخدوم خاد مان حضرت رحمانی، مٌحدًث کلمات دیوان گان بار گاہ نورانی، مطلوب طالبان اسرار یزدانی، قمرالافاق، شمس الافلاک، شیخ الاولیاء ،سر حلقہ اصفیاء، سر گروہ اتقیا، صدر الشریعۃ بدرالطریقۃ، قطب الحقیقۃ، شمس المعرفۃ، سرالاسرار ،نورالانوار، قمرالاقمار ،مظہر جمال کبریائی، معدن انوار الٰہی، مصدر فیضان احمدی، منبع تجلیات محمدی، اویس امام مہدی و علی، اویسئ حجرۂ عنایت نبی، واقف حالات عرشیان ، سامع مقالات نوریان ، شہباز باغ انس ، بلند پرواز ریاض قدس،جامع اسرار علوم صفات، لمعۂ لامع انوار عالم ذات،غوّاص بحرالحقائق والمعانی سیاح عالم حقیقی نورانی، صاحب نعمات دو جہانی ، محرم قصر سلطانی ،قطب ربانی ، محبوب صمدانی ،خاصہ بارگاہ رحمانی ، خضر مقامات معنوی ،مجمع بحرین حقیقی و مجازی،موسئ طور جلال،عیسئ دم جمال ،یوسف مصر حسن لا یزال،زکریاۓ صاحب حسن مقال،ایوب شکیب خصال قطب الاوتاد ، قطب الابدال قطب النجباء قطب النقباء قطب الاولیاء قطب ہر قطب، قطب الامامین، قطب الثقلین، قطب الکونین، قطب عالم ،قطب کبری، قطب اکبر ،قطب الاقطاب، قطب الارشاد قطب الدائرہ ،قطب المدار ،فرد الافراد، محبوب حقیقی، حسنی و حسینی جعفری،ابن قدوۃالدین علی الحلبی ،سید السادات ہیں۔۔</div><div><br></div><div>آپ مرتبۂ قطب المدار سے ہی زیادہ مشہور ہوئے </div><div>اتنا زیادہ کہ عہدہ ہی اسم بامسمًٰی کی طرح ہوگیا </div><div><br></div><div><br></div><div>*قطب المدار کا تعارف*</div><div><br></div><div>اللّٰہ تعالی کا جو بندہ مرتبۂ قطب المدار پر مسند نشین ہوتا ہے اللّٰہ تعالی کی طرف سے اسے حلۂ برکات و کرامات عطا کیا جاتا ہے اور اس کے سر پر تاج کرامت رکھ کے اسے تخت دل نشین پہ بٹھایا جاتا ہے اور اللّٰہ تعالی اپنی خلافت و نیابت سے اسے سر فراز فرما کر اس دور میں اسے عالمین کا مطاع و مراد قرار دے دیتا ہے۔</div><div><br></div><div>چنانچہ شیخ اکبر فتوحات مکیہ میں فرما تے ہیں کہ,,</div><div> جب اللّٰہ تعالی کسی بندہ کو مرتبئہ قطبیت کبری میں متولی فرماتا ہے تو عالم مثال میں اس کیلئیے ایک تخت بچھا کر اس پر اس کو بیٹھاتا ہے اور اس مکان کی صورت بحیثیت اس کے مرتبہ کے بناتا ہے مثلا اس کو عرش پر مستوی ہونے کی صورت بناتا ہے اپنی ہر چیز کے ساتھ احاطۂ علمی کے ذریعے ،</div><div>اور اللّٰہ سے بڑھ کر کون اعلی مثل دے سکتا ہے،؟ تو جب وہ تخت بچھا لیا جاتا ہے تو اس کے بعد اس کو تمام اسماء کا خلعت دیا جاتا ہے جن کا طالب تمام عالم ہے اور اسماء اس عالم کے طالب ہوتے ہیں پھر اس سے حلًے ظاہر ہوتے ہیں وہ سب اس قطب کو پہناکر اور تاج کرامت دے کر اس کو تخت پر بٹھا تے ہیں اسوقت اس کی حالت خلیفہ کی ہوتی ہے پھر اللّٰہ جل شانہ تمام عالم کو حکم دیتا ہے اس سے بیعت کرنے کا</div><div> اس شرط پر کہ سب لوگ اس کی اطاعت کریں ،</div><div>اور سختی اور راحت ہر حال میں کریں ۔</div><div> پس سارا عالم ادنی و اعلیٰ سب اس کی بیعت میں داخل ہو جاتے ہیں سوائے عالون کے </div><div><br></div><div>عالون سے مراد </div><div>وہ لوگ ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کے جلال میں درآئے ہوئے ہیں اور وہ لوگ بالذات حق کی عبادت کرتے ہیں نہ کہ امر ظاہری شرعی کی وجہ سے</div><div> اور قوم ملاء ا علیٰ بھی اس قطب کے پاس سب سے پہلے آتے ہیں </div><div>اپنے مراتب کے مواقف یعنی کوئی پہلے کوئی پیچھے اور وہ سب اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں بناکسی سختی و راحت کی قید کے </div><div>اور وہ لوگ ان دونوں صفتوں کو اپنے میں جانتے ہی نہیں </div><div>اس لئے کہ کسی شیئ کی شناخت کما حقہ بغیر اس کی ضد کے نہیں ہوتی </div><div>اور ملاءاعلیٰ ایسے ذوق میں ہوتے ہیں جس میں امر مکروہ کی گنجائش ہی نہیں ہوتی</div><div><br></div><div>تو جو روحیں قطب کے پاس بیعت کیلئے آتی ہیں تو اس سے علم الہیٰ سے متعلق کوئی</div><div>مسلئہ ضرور پوچھتی ہیں</div><div> اور وہ جواب میں کہتا ہے اے شخص کیا تو فلاں فلاں امر کا قائل ہے جب وہ اس کا اقرار کرتا ہے تو قطب اس سے کہتا ہے اس مسلئے میں دو جہتیں ہیں اور وہ دونوں جہتیں متعلق علم الٰہی ہیں </div><div> جن میں ایک دوسرے سے اعلیٰ ہیں جو اس شخص کو معلوم ہوتی ہیں</div><div> تو ہر بیعت کرنے والا اس قطب سے مستفید ہوتا ہے اور وہ علم حاصل کرتا ہے جو اسکو معلوم نہیں ہوتا ہے ،،</div><div>حضرت شیخ اکبر فرماتے ہیں میں نے کل سوالات قطبیت ایک علیحدہ رسالے میں لکھا ہے اور مجھ سے پہلے کسی نے ان کو نہیں لکھا ھے اور وہ مسائل معین نہیں ہوتے ہیں کہ بار بار اس قطب سے وہی پوچھے جائیں ۔بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ خود بخود سائل کے دل میں ڈال دیتا ہے یعنی پہلے سے وہ سوال اس کے ذہن میں نہیں ہوتا ہے بلکہ پوچھنے کے وقت فوراً ذہن میں آجاتا ہے ۔</div><div>شیخ اکبر فرماتے ہیں پہلے اس قطب سے عقل اول سوال کرتی ہے پھر نفس پھر وہ ملائکہ جو مقدم ہیں ان ملائکہ سے جو آسمان و زمین کے بنانے والے ہیں یا ان پر مؤکل </div><div>پھر وہ روحیں جو ان ہیاکل کے مدبّرہ ہیں جنہوں نے بعد انتقال اپنے جسموں سے مفارقت کی ہے</div><div>پھر اجنّہ پھر مولّدات پھر باقی وہ جو اللہ کی تسبیح کرتے ہیں</div><div>(فتوحات مکیہ 336واں باب بحوالہ الدر المنظم)</div><div><br></div><div>عبارت فتوحات سے واضح ہے کہ پوری خلقت زمانے کے قطب المدار کے ہاتھ پر بیعت کرتی ہے اور اس وقت قطب المدار کی شان عظمت کا اظہار اللّٰہ تعالی کی طرف سے بڑے حسین طور پر کیا جاتا کہ اسے حلّۂ نورانی زیب تن کرایا جاتا ہے اور سر پر تاج کرامت رکھ کر اسے تخت نشین کیا جاتا ہے،</div><div> اور پھر اسکی خلافت و نیابت کی بیعت تمام عالم سے لی جاتی ہے اور تمام عالم میں اس کا تعارف کرایا جاتا ہے</div><div><br></div><div> * قطب المدارپر خلق کے احوال روشن ہوتے ہیں*</div><div><br></div><div>چونکہ قطب المدار پر خلق کے احوال گردش کرتے رہتے ہیں اسلیئے قطب المدار مخلوق کے احوال کو جانتا ہے </div><div>خلق کی حالت اس پر آشکار رہتی ہے </div><div>چنانچہ شیخ عبدالرزاق کا شانی رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول رسالہ ابن عابدین الشامی میں حضرت امام ابن عابدین الشامی اس طرح نقل فرماتے ہیں</div><div>,,</div><div>القطب فی اصطلا ح القوم اکمل الانسان متمکّن فی مقام الفردیۃ تد و رعلیہ احوال الخلق,,</div><div>_________________________</div><div>ترجمہ قطب المدار اس کامل انسان کو کہتے ہیں جو مقام فردیت میں متمکن ہو اس پر مخلوق کے احوال دورہ کرتے ہیں</div><div><br></div><div>(رسالہ ابن عابدین الشامی ص 265)</div><div>اسی رسالے میں مزید فرماتے ہیں,,</div><div>الخليفة الباطن و هو سيد اهل زمانه سُمّي قطبا لجمع جميع المقامات والاحوال ودورانها عليه,,</div><div>ترجمه.... قطب المدار باطن میں خلفۂ رسول اللہ فی الارض ہوتا ہے اور وہی اپنے زمانے کا سردار ہوتا ہے اس کا نام قطب المدار اس لیئے رکھا گیا کہ کہ وہ تمام مقامت و احوال کا جامع ہوتا ہے ،تمام مقامات ومراتب اسی کے گردا گرد گھومتے ہیں </div><div>رسالہ ابن عابدین شامی ص264</div><div><br></div><div><br></div><div><br></div><div>*مرتبۂ قطب المدار*</div><div>…......................................</div><div>حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ قطبیت کبری قطب الاقطاب کا مرتبہ ہے کہ جو مرتبہ باطن نبوت آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کا ہے</div><div> اور یہ مرتبہ سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ورثہ کیلئے مخصوص ہے</div><div> اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم</div><div> صاحب نبوت عامہ و رسالت شاملہ ہیں سارے عالم کے لئے اور اکملیت کے ساتھ مخصوص ہیں تو خاتم الولایت اور قطب الاقطاب وہی ہوگا جو باطن خاتم النبوت پر ہو _</div><div><br></div><div>(فتوحات فصل 31 باب 198 بحوالہ الدرالمنظم صفہ 150 )</div><div><br></div><div><br></div><div>* مرتبۂ قطب المدار منتہائے درجہ ولایت ہے _*</div><div> </div><div>====================</div><div>قطب المدار کا درجہ و مقام نہایت ہی بلند و بالا ہوتا ہے۔ </div><div>صاحب الدرالمنظم فرماتے ہیں" قطب الاقطاب وہ ہے جس کے مرتبہ سے اعلی سواے نبوت عامہ کے اور کوئ مرتبہ نہ ہو اسی وجہ سے قطب الاقطاب صدیقوں کا سردار ہوتا ہے </div><div>(الدرالمنظم ص 50) </div><div><br></div><div>حضرت باسط علی قلندر قدس سرہ الاطہر فرماتے ہیں مقام قطب الارشاد بہت رفیع المنزلت ہے جس کے آگے اولیاء کا مقام نہیں</div><div> (الدرالمنظم فی مناقب غوث الاعظم ص 60) </div><div><br></div><div>حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرًہ النورانی فرماتے ہیں کہ فتوحات مکیہ میں ہے </div><div>_اما القطب و ھو واحد الذی موضع نظر اللہ تعالی من العالم فی کل زمان و جمیع اوان و ھو علی قلب اسرافیل علیہ السلام والقطب الکبریٰ ھی مرتبۃ قطب الاقطاب و ھو باطن نبوتہ صلی اللہ علیہ وسلم فلایکون الالورثتہ لاختصاصہ عليه السلام بالاكملية فلا يكون خاتم الولاية وقطب الاقطاب الا عليٰ باطن خاتم النبوة </div><div><br></div><div>ترجمہ ۔۔ قطب سے مراد ایک ذات ہے کہ تمام عالم میں جس پر اللہ کی نظر ہوتی ہے ہر وقت اور ہر گھڑی اور وہ قلب اسرافیل علیہ السلام پر ہوتا ہے </div><div>قطب کبریٰ کا مرتبہ </div><div>قطب الاقطاب کا ہے اور وہ باطن نبوت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم پر ہوتا ہے اور یہ اکملیت اور خصوصیت نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوتی ہے</div><div> یہ مرتبہ کمال نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے وارثوں کے لئے ہے </div><div>اسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اکملیت سے مختص ہیں تو خاتم الولایت اور قطب الاقطاب باطن نبوت پر ہی ہوتا ہے </div><div>لطائف اشرفی مطبوعہ مخدوم اشرف اکیڈمی ص132</div><div><br></div><div>*اختیارات و تصرفات قطب المدار **</div><div>۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</div><div>چوں کہ قطب المدار جامع کمالات ولایت محمدیہ علی صاحبھا الصلوات و التسلیمات ہوتا ہے، رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر اتم اور سید اہل زمانہ اور خلیفۃ اللہ فی الارض ہوتا ہے۔ وہی باطن خاتم نبوت پر ہوتا ہے۔ اسلیئے بغیر کسی دوسرے کے واسطہ کے فیضان محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تقسیم اس کے زمانہ میں اسی کے ذریعے ہوتی ہے </div><div>اسی کو نعمات حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم پر متصرف و مختار بنا دیا جاتا ہے</div><div> اور مدار انعامات الہی ہونے کے شرف سے اسی کو مشرف کر دیا جاتا ہے</div><div> زمام عزل و نصب اسی کے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا ہے</div><div><br></div><div>حضور سیدنا نصیر الدین چراغ دلی قدس سرہ کے خلیفہ حضرت میر جعفر مکی علیہما الرحمہ اپنی کتاب بحرالمعانی میں رقم فرماتے ہیں_</div><div>،،</div><div>اے محبوب گوش دار کہ مراتب اقطاب و قطب المدار چیست؟ مراتب اقطاب آنست کہ ایشاں اگر بخواہند ولی را از ولایت معزول کنند و بجائے اودیگر را نصب کنندومرتبۂ قطب المدار یعنی قطب عالم آنست کہ او اگر بخواہد اقطاب را از مقام قطبیت معزول کند </div><div>و اگر اللّٰہ تعالی </div><div>فر شتہ را کا رفرمودہ با شد بگفت قطب مدار ازاں کار فرشتہ را معزول کند </div><div>و بگفت قطب مدار حضرت جلًت قدرتۃ لوح محفوظ را نیز محو گر داند </div><div>وزندہ کردن موتیٰ و انتقالات عرش و کرسی ایں جمیع تصرفات مر قطب مدار باشد ،،</div><div><br></div><div>_________________________</div><div>قطب عالم یعنی قطب مدار متصرف بر جمع اقالیم و بر جمیع اقطاب باشد و از عرش تا ثری متصرف بود </div><div><br></div><div> ( بحرالمعانی ص 92 میر جعفر مکی )</div><div>_________________________</div><div>ترجمہ- اے محبوب غور سے سنو کہ اقطاب اور قطب مدار کے مراتب کیا ہیں ؟؟</div><div>اقطاب کا مرتبہ یہ ہے کہ یہ لوگ اگر چاہیں تو ولی کو ولایت سے معزول کر دیں اور اسکی جگہ دوسرے کو مقرر فرما دیں اور قطب مدار یعنی قطب عالم کا مقام یہ ہے کہ اگر وہ چاہے تو قطبوں کو قطبیت سے معزول کر دے اور اگر اللّٰہ تعالی فرشتوں کو کسی کام کا حکم فرما چکا ہو اور قطب مدار کی مرضی ہو کہ یہ کام نہیں ہونا چاہئے تو اللّٰہ تعالی اپنے اس محبوب کی رضا کی خاطر فرشتوں کو اس کام سے روک دے </div><div>قطب مدار کے کہنے پر اللّٰہ تعالی لوح محفوظ کے نوشتہ کو بھی تبدیل فرما دے </div><div>مردوں کو زندہ کرنا عرش و کرسی کے لکھے ہوئے کو بدلنا یہ سب قطب مدار کے خصوصی تصرفات ہیں </div><div>مزید فرماتے ہیں کہ </div><div> قطب مدار یعنی قطب عالم تمام اقالیم اور سارے اقطاب پر متصرًف ہوتا ہے ،،</div><div><br></div><div>**قطب مدار عرش سے فرش تک ہر چیز پر متصرف ہوتا ہے**</div><div>====================</div><div><br></div><div>حضرت میر جعفر مکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ ،،</div><div>مقام جبروت یعنی مقام جبر و کسر خلائق مقام قطب مدار است یعنی قطب مدار کہ او متصرف است از عرش تا ثریٰ</div><div> و جبر و کسر درشش جہات کند</div><div> و قطب عالم یعنی قطب مدار را فیض از عرش مجید کہ تعلق بعزلیت و نصبیت دارد ،،</div><div>_____________________________</div><div>ترجمہ= مقام جبروت یعنی مخلوق کے جبر و کسر کا مقام قطب مدار سے متعلق ہے یعنی قطب مدار جو متصرف ہوتا ہے عرش سے تحت الشری تک چھ جہتوں فوق و تحت شمال و جنوب شرق و غرب میں جبر و کسر کرتا ہے </div><div>قطب مدار کو عرش مجید سے فیض پہنچتا ہے جو عزل و نصب سے تعلق رہتا ہے بحر المعانی ص93میر جعفر مکی</div><div><br></div><div>** نظام کائنات وقت کے قطب مدار کے ہاتھوں میں ہوتا ہے**</div><div>===================</div><div><br></div><div><br></div><div>مولانا غلام علی نقشبندی مجددی درالمعارف میں رقم فرماتے ہیں</div><div>حق تعالی اجرائے کار خانۂ ہستی و توابع ہستی قطب مدار را عطامی فرماید و ہدایت و رہنمائی گمراہاں بدست قطب ارشاد می سپارد و بعد ازاں فرمودند کہ حضرت بدیع الدین شیخ مدار قدّس سرہ قطب مدار بودند و شانے عظیم دارند</div><div><br></div><div> ترجمہ ..حق تعالی کار خانۂ ہستی و توابع ہستی کے اجراء کی ذمہ داری قطب مدار کے سپرد فرما دیتا ہے اور گمراہوں کی ہدایت و رہنمائی کا کام قطب ارشاد انجام دیتا ہے اس کے بعد فرمایا کہ حضرت بدیع الدین شیخ مدار قطب المدار تھے اور ایک عظیم شان کے مالک تھے </div><div>( درالمعارف مطبوعہ استنبول ترکی ص 243 )</div><div><br></div><div>8</div><div>*عالم کا وجود قطب المدار کی برکت سے قائم رہتا ہے*</div><div>===================</div><div>حضرت مجدد الف ثانی امام ربانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت خضرعلیہ السلام نے دوران مکاشفہ ارشاد فرمایا،،</div><div>جعلنا اللّٰہ تعالی معینا لقطب المدار من اولیا اللّٰہ تعالی الذی جعلہ اللّٰہ تعالی مدار للعالم و جعل بقاء العالم ببرکة وجودہ و افاضته</div><div>( الحدیقۃ النديه فی شرح الطریقۃ النقشبندیه مطبوعہ اخلاص و فقی استنبابول)</div><div> ،،</div><div> حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قطب المدار کا معین بنایا وہ قطب المدار جو اللّٰہ تعالی کا ایسا ولی ہے جس کو اللّٰہ تعالی نے عالم کیلئے مدار قرار دیا ہے</div><div> اور اللّٰہ تعالی نے عالم کی بقاء اس کے وجود کی برکت اور اس کے افاضہ پر مقرر فرما دیاہے،،</div><div><br></div><div>حضرت میر جعفر مکی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ</div><div>قطب عالم در ہر زمانہ و عصر یکے باشد ووجودجمیع موجودات از اہل دنیا و آخرت یعنی سفلی و علوی بوجود قطب عالم قائم باشد و قطب عالم را فیض از حق تعالی بے واسطہ باشد و قطب عالم را قطب مدار نیز گویند یعنی مدار موجود ات سفلی و علوی از برکت وجود اوست </div><div>ترجمہ= قطب عالم ہر زمانہ و ہر عصر میں ایک ہی ہوگا</div><div> اور تمامی موجودات کا وجود اہل دنیا و اہل آخرت میں سے یعنی عالم علوی و عالم سفلی میں سے هر ايک کا وجود قطب عالم کے وجود کے سبب قائم ہوتا ہے</div><div> اور قطب عالم کو حق تعالی سے بےواسطہ فیض پہنچتا ہے</div><div> قطب عالم کو قطب مدار بھی کہتے ہیں </div><div>یعنی موجودات عالم سفلی و علوی اس قطب مدار کے وجود کی برکت کے سبب ہوتا ہے</div><div><br></div><div>(بحرالمعانی ص 83)</div><div><br></div><div>*ایمان و ھدایت کا نور قطب المدار کے وسیلے سے ملتا ہے* "</div><div>۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</div><div><br></div><div>امام ربانی مجدد الف ثانی اپنے مکتوب میں رقم فرماتے ہیں کہ قطب ارشاد جو کمالات فردیہ کا بھی جامع ہوتا ہے بہت عزیزالوجود اور نایاب ہے</div><div> بہت سے قرنوں اور بے شمار زمانوں کے بعد اس قسم کا جوہر وجود میں آتا ہے</div><div> عالم تاریک اس کے نور ظہور سے نورانی ہوتا ہے اور اس کی ہدایت و ارشاد کا نور محیط عرش سے لے کر مرکز فرش تک تمام جہان کو شامل ہوتا ہے</div><div> اور اس کے وسیلے کے بغیر کوئی شخص اس دولت کو نہیں پا سکتا </div><div>- مثلا اس کی ہدایت کا نور دریائے </div><div> محیط کی طرح تمام جہان کو گھیرا ہوا ہے </div><div>اور وہ دریا گویا منجمد ہے اور ہرگز حرکت نہیں کرتا اور وہ شخص جو اس بزرگ کی طرف متوجہ ہے اور اس کے ساتھ اخلاص رکھتا ہے یا یہ کہ وہ بزرگ طالب کے حال کی طرف متوجہ </div><div>ہے</div><div> تو توجہ کے وقت گویا طالب کے دل میں ایک روزن کھل جاتا ہے اور اس راہ سےتوجہ واخلاص کے مطابق اس دریا سے سیراب ہوتا ہے ایسے ہی وہ شخص جو ذکر الہیٰ کی طرف متوجہ ہے اور اس عزیز کی طرف بلکل متوجہ نہیں ہے </div><div>انکار سے نہیں </div><div>بلکہ اس کو یہی پتہ نہیں ہے تو اس کو بھی یہ افادہ حاصل ہو جاتا ہے لیکن پہلی صورت میں دوسری صورت کی بنسبت افادہ بہتر اور بڑھ کر ہے لیکن وہ شخص جو اس بزرگ ( قطب الارشاد قطب المدار )کا منکر ہے یا وہ بزرگ اس سے آزردہ ہے تو اگرچہ وہ ذکر الٰہی میں مشغول ہے لیکن وہ رشد و ہدایت کی حقیقت سے محروم ہے</div><div> یہی انکار و آزار اس کے فیص کا مانع ہو جاتا ہے بغیر اس امر کے کہ وہ بزرگ اس کے عدم افادہ کی طرف متوجہ ہو یا اس کے ضرر کا قصد کرے کیوں کہ ہدایت کی حقیقت اس سے مفقود ہے وہ صرف مرشد کی صورت ہے اور صورت بے معنی کچھ فائدہ نہیں دیتی اور وہ لوگ جو اس عزیز (قطب المدار) کے ساتھ محبت و اخلاص رکھتے ہیں اگرچہ توجہ مذکورہ اور ذکر الٰہی سے خالی ہوں لیکن فقط محبت ہی کے باعث رشد و ہدایت کا نور ان کو پہنچ جاتا ہے- </div><div>(مکتوبات امام ربانی جلد دوئم دفتر اول حصہ چہارم مکتوب 260)</div><div><br></div><div>فتوحات مکیہ ،رسالہ ابن عابدین الشامی، الدرالمنظم، لطائف اشرفی، بحرالمعانی، درالمعارف اور مکتوبات امام ربانی کی عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کے قطب المدار کے زیر تصرف عالم امرو عالم خلق، عالم علوی، عالم سفلی ،ھفت آسمان ھفت اقلیم زمین ساری مقام عزل و نصب، مقام جبر و کسر، ہستی و توابع ہستی، عرش و فرش اور شس جہات و جمیع موجودات ہوتے ہیں ۔ ولایت و قطبیت کی سلطنت کا وہی بادشاہ وقت ہوتا ہے ۔رشد و ہدایت کی مملکت کا وہی تاجدار عصر ہوتا ہےاور وہی ترقی کر کے فرد الافراد اور محبوب حقیقی بنتا ہے</div><div><br></div><div>اسی لئے بزرگان طریقت کے سلسلے اور مشائخ حقیقت کے شجرے بھی اس قطب المدار کی نسبت سے معمور و منور ہوتے ہیں </div><div>ہر نسبت میں اس کی نسبت اور ہر محبت میں اسکی محبت کی جلوہ فرمائی ہوتی ہے, انسان سمجھے یا نہ سمجھے اسی کی ہدایت کے نور سے وہ ھادی و ہدایت یافتہ بنتا ہے, اسی کے جوہر نور سے وقت, زمانہ, زندگی کی خوشی, اور ہر چہل پہل باقی رہتی ہے اسکا وجود مسعود سب کے وجود کا سبب بنتا ہے</div><div> مصنف اسی کے مرہون منت, مفسر اس کے زیر احسان, محدث اسی کا منون ,مفکر کی فکر کو اسی سے سلامتی، مقرر کی زبان میں اسی سے حلاوت، اور حیات کی بقا اسی کے وجود کی برکت سے،بارش اسی کے فیض سے رزق اسی کے وسیلے سے،نعمتیں اسی کے صدقے سے ملتی ہے ۔اپنے زمانہ میں ہر فیض کا مصدر اور ہر بھلائی کا منبع وہی ہوتا ہے ۔</div><div>حضرت سید احمد بدیع الدین حلبی مکنپوری ولایت و قطبیت کے مقام کبری پر فائز ہوئے منصب قطب المدار پر سرفراز ہوکر فردالافراد و محبوب حقیقی و محبوب نازنین قرار پائے </div><div>سلطان العارفین با یزید بسطامی عرف طیفور شامی متوفی 261) </div><div>سے ظاہری بیعت و خلافت سے مشرف ہو کر ملک العارفین اور محبوب صمدانی کے منصب جلیل سے ارجمند ہوئے 70مرتبہ آپ نے شب قدر کی زیارت فرمائی </div><div>جناب لال بیگ بدخشی کی کتاب ثمرات القدس من شجرات الانس مصنفہ (1009) ھجری میں مرقوم ہے</div><div>سید بدیع الدین قطب الادوار لقب شاہ مدار قدس سرہ ھفتاد مرتبہ شب قدر را دریافتہ بود (ثمرات القدس من شجرات الانس مخطوطہ رضا لائبریری رام پور شمارہ کتاب نمبر 2304) </div><div>ترجمہ ا سید بدیع الدین قطب الادوار لقب شاہ مدار نے 70 ستر مرتبہ شب قدر کی زیارت فرمائی تھی یہ تو شب قدر کی بات ہے اصحاب سیر فرماتے ہیں کہ بطور اؤیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ نے کئی بار رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت فرمائی</div><div> اورمنصب اؤیس سے سرفراز ہوئے -</div><div><br></div><div>ملفوظات حضرت شیخ سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نورانی 707، ھ 808، ھ مطابق 1308،ء 1408، ء میں تذکرہ الاولیاء مصنفہ حضرت فرید الدین عطار 1145, ء 1221.ء نیشا پوری کے حوالہ سے مرقوم ہے-</div><div>،،</div><div>قومے از اولیاء اللّٰہ عز و جل باشند کہ ایں شاں را مشائخ طریقت و کبرائے حقیقت اؤیسیاں نامند کہ ایشاں را ظاہر بہ پیرے احتیاج نہ بود زیرا کہ ایشاں را حضرت رسالت پناہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم در حجرۂ عنایت خودپرورش و تعلیم می دہند بے واسطہ غیرے چناںکہ اویس دادہ۔ایں عظیم مقامے بود و روش عالی تر ۔کہ ایں جا رسانند؟وایں دولت بکہ رونماید</div><div> بموجب آیت کریمہ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم</div><div>ترجمہ۔ اللّٰہ عز و جل کے ولیوں میں سے کچھ لوگوں کو اویسی کہتے ہیں۔ حضرات مشائخ طریقت اور کبرائے حقیقت یہ بات فرماتےہیں۔ ان اویسیان کو بظاہر کسی پیر کی حاجت نہیں ہوتی ہے ۔اس لئے کہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے حجرۂ عنایت میں بذات خود ان کی تعلیم وتربیت فرماتےہیں بغیر کسی واسطے کے جس طرح حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیم وتربیت فرمائی۔یہ ایک عظیم مقام اور بہت بلند روش ھے۔ اس مقام اویسیہ تک کس کی رسائی ھے؟ اس دولت سے کون مشرف ہوتا ہے ؟یہ تو محض اللہ کا فضل ھے وہ جسے چاہتاہے عطا فرماتا ھے</div><div><br></div><div> </div><div> </div><div>( لطائف اشرفی فارسی مطبوعہ نصرت المطابع دہلی ص 354)</div><div><br></div><div>مزید فرماتے ہیں حضرت شیخ بدیع الدین ملقب بشاہ مدار ایشاں نیز اویسی بودہ اند و بسے مشرب عالی داشتند وبعض علوم نوادر از ھیمیاء و سیمیاء و کیمیاء و ریمیاء از ایشاں معائنہ شد کہ نادر ازیں طائفہ کسے را باشد </div><div><br></div><div>( لطائف اشرفی 354)</div><div><br></div><div>حجرہ عنایت میں بذات خود ان کی پرورش و تربیت فرماتے ہیں اس امر میں کسی کا واسطہ نہیں ہوتا جیسا کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیم و تربیت رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دی یہ</div><div> اویسیت ایک عظیم مقام اور بہت ہی بلند روش ہے ۔بھلا کسے اس مقام تک رسائی ہے؟ اس دولت سے کون مشرف ہوتا ہے؟ یہ تو صرف اللّٰہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے</div><div>مزید</div><div>فرماتے ہیں</div><div> شیخ بدیع الدین ملقب بشاہ مدار قدس سرہ بھی اویسی ہوئے ہیں آپ بہت ہی عالی مشرب رکھتے ہیں ،بعض علوم نوادر جیسے ھیمیاء و سیمیاء و کیمیاء و ریمیاء آپ ہی سے مشاہدہ ہوئے</div><div> اس جماعت اولیاء میں نادر ہی کسی کے پاس یہ علوم ہونگے </div><div><br></div><div><br></div><div>* *قطب المدار کو براہ راست رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تعلیم و تربیت دی**</div><div><br></div><div> مراۃ مداری میں ہے کے حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی خصوصی تعلیم وتربیت فرمائی چنانچہ فرماتے ہیں </div><div><br></div><div>بعد از صفائی باطن اورا حضور تمام بروحانیت حضرت رسالت پناہ میسرگشت </div><div>آنحضرت ازکمال مہربانی و کرم بخشی دست قطب المدار بدست حق پرست خود گرفتنہ تلقین اسلام حقیقی فرمود (مراۃ مداری مترجم ص 110 مطبوعہ المجمع المداری جہراوں سدھارتھ نگر) </div><div>ترجمہ۔</div><div> باطن کی صفائی کے بعد مدار پاک کو حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانیت پاک کی مکمل حضوری میسر آئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال کرم بخشی و لطف و مہربانی سے دست قطب المدار کو اپنے دست حق پرست میں لےکر اسلام حقیقی کی تعلیم فرمائی </div><div><br></div><div>*اویس زمانہ کو علم ھیمیاء ، سیمیاء ، ریمیاء اورکیمیاء کی خبر ہوتی ہے**</div><div><br></div><div>صاحب بحر زخار علامہ وجیہ الدین اشرف فرنگی محلی فضائل اویسیت کے باب میں تحفۃالابرارسے نقل فرماتے ہیں</div><div><br></div><div><br></div><div>اویسیاں را اکثر نوادر علوم خبرمی باشد مثل ھیمیاء و سیمیاء و ریمیاء و کیمیاء </div><div> </div><div>یعنی جو حضرات منصب اویسیت سے سرفراز ہوتے ہیں اکثر انہیں نوادر علوم ھیمیاء و سیمیاء و ریمیاء و کیمیاء وغیرہ کی خبر ہوتی ہے </div><div>(بحر زخار جلد سوم ••• ص 1007عکس علمی محفوظ مختار اشرف لائبریری کچھوجھہ شریف)</div><div><br></div><div>*ھیمیاء و سیمیاء و ریمیاء و کیمیاء کی تعریف*</div><div><br></div><div>ھیمیاء------- کیفیت علم ھیمیاء عبارت</div><div>از تو سعئہ وقت و قیل انتقال روح یعنی اکثر روح می خواہند بجہت اتمام کمالات بدنی دیگر اقوی ازیں بدن اختیار کند ایں قسم را بتناسخ نمی گویند و جائز می دارند چنانچہ خضر علیہ السلام درہر صد سال برائے خود بدنے دیگر اختیار می کند---</div><div>ریمیاء------ عبارت از دانستن</div><div><br></div><div>تفعلات بدن و اظہار از عجائب و نمودار غرائب</div><div> او آنست کہ روح اکثر خواہد از بدن جدا شدہ سیر فرماید و بدن حوالئہ معتمدے کند تاروزن مراجعت تلف نشود،،</div><div><br></div><div>در اصل علم ہیمیاء میں عالم علوی آسمانی کی قوتوں کو عالم سفلی کے عناصر سے مربوط کرنے کے ہنر سے بحث کرتے ہیں </div><div>اس علم پر قدرت پانے والے کے لئے وقت میں وسعت اور امتداد پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے</div><div> بعضے کہتے ہیں کہ انتقال روح پرقدرت پا جانے کا نام ہے یعنی کمالات بدنیہ کے اتمام کے لئے روح چاہتی ہے کہ اس بدن سے زیادہ اقوی بدن کو پسند کرلے جسکی وجہ سے عالم کثیف سے عالم لطیف کا سیر ممکن ہو سکے جیسا کہ شب معراج میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیلئے ہوا یا عالم نورانی سے عالم انسانی کا سیر سہل ہو سکے جیسےحضرت جبرائیل علیہ السلام کا حضرت دحیہ کلبیی رضی اللہ عنہ کی شکل میں آنا اس قسم کو تناسخ نہیں کیا جا سکتا ہے حضرت خضر علیہ السلام ہر سو سال میں اپنے لئے نیا بدن اختیار کر لیتے ہیں طریقہ نقشبمدیہ میں تفسیر مظہری و غیرہ میں حضرت خضر علیہ السلام کا قول منقول ہے</div><div>ان اللّٰہ تعالی جعل لارواحنا قوۃ نتجسد بھا ،،</div><div>یعنی اللّٰہ تعالی نے ہمیں ایسی قوت عطا فرمائی ہے کہ ہم جس شکل کو چاہیں اپنے لئے اختیار کر لیں یا یہکہ بدن کے مناسب طریقئہ عمل اور اس کے فعلی اثر جاننے کو سیمیاء سے تعبیر کرتے ہیں</div><div> یعنی وہ علم جس میں بدن کی صلاحیتوں کے کمال عروج سے بحث کرتے ہیں اس سے بدن انسان کی اعلیٰ کار کردگی کے جوہر ابھر کر سامنے آنے لگتے ہیں جسکی وجہ سے عجائب کا ظہور اور غرائب کا نمود ہونے لگتا ہے</div><div> اگرچہ روح کیلئے کوئی حجاب نہیں ہے لیکن جس بدن میں ساٹھ ستر سال رہی اور جس میں حشر کے بعد ابد تک رہے گی اس بدن سے روح کا تعلق زیادہ ہونا چاہئے ۔</div><div><br></div><div><br></div><div>واشارہ ریمیاء ------ عبارت از حیران در ہوا دانستہ اند</div><div><br></div><div><br></div><div>علم کیمیاء------------- عبارت از ساختن اکاسیر</div><div> از ایں جااست</div><div>کیمیاء و سیمیاء و ریمیاء۔ </div><div><br></div><div><br></div><div> ایں نمی دانند کس جز اولیاء </div><div><br></div><div>روح اکثر یہ چاہتی ہےکہ اپنے بدن سے جدا ہوکر سیر کرے اور بدن اپنے آپ کو کسی معتمد کے حوالہ رکھنا چاہتا ہے تاکہ روح کی مراجعت کا راستہ کسی طرح تلف نہ ہو سکے </div><div>علم ریمیاء،، مادی قوتوں کو مسخر کر کے اس سے عجیب و غریب آثار پیدا کرتا ہےجیسے ہواؤں پر قدم جما دینا یا سمندر کی لہروں پہ مصلی بچھا دینا یا آگ سے با سلامتی گذر جانا وغیرہ</div><div> یا یہ کہ</div><div>معدنی اجرام و قلذات کو دوسرے کے ساتھ خلط کر کے یا نگاہ کی قوت جاذبہ سے کسی شیئ کی ماھیت کو تبدیل کر دینے اور اکسیر بنانے کے فن کو علم کیمیاء کہتے ہیں اسی موقعے سے کسی نے کیا خوب کہا ہے</div><div> </div><div>کیمیاء و سیمیاء و ریمیاء </div><div> یہ وہ علوم اسرار ہیں کہ اولیاء کرام کے سوا دوسرے نہیں جانتے </div><div>(بحر زخار عکس مخطوطہ ص 1007)</div><div>====================</div><div>*مفہوم اویسیت بزبان مدار پاک*</div><div>===============</div><div>حضور سید بدیع الدین احمد الحلبی مکنپوری اپنی اویسیت کا ذکر اپنی زبان سے خود فرماتے ہیں </div><div>حضور مدار پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے سوال کیا کہ سنا ہے کہ آپ کو بے واسطہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کی سعادت حاصل ہوئی ہے</div><div> یہ بات نہایت عجیب لگتی ہے اور دوسرے یہ کہ العلماء ورثۃ الانبیاء سے مراد یہی علم ھے جسے ہم نے پڑھا ہے یا وہ کوئی دوسرا علم ہے ؟</div><div>اس کے جواب میں حضور مدار پاک سید بدیع الدین احمد قدس سرہ کا ایک مکتوب ہے جو کئی کتابوں میں الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ مرقوم ہے</div><div> رضا لائبریری رام پور میں ایک مکتوب، مکتوب شاہ مدار کے نام سے ہے</div><div>جس کا سلوک فارسی نمبر 462 ھے مخطوطہ بحر زخار ،تحفته الابرار اور تذکرۃالمتقین میں بھی مکتوب مرقوم ہے میں یہاں مراۃ مداری مصنفہ شیخ عبدالرحمن چشتی کے حوالہ سے مکتوب شڑیف نذر قارئین کر رہا ہوں</div><div> لیکن رضا لائبریری رام پور کے نسخے کا ابتدائیہ پہلے ملاحظہ کریں</div><div>مکتوب قطب الاقطاب شیخ بدیع الحق والشرع والدین شاہ مدار قدس سرہ بجانب قاضی شہاب الدین شمس عمر دولت آبادی بداں کہ کتابت شریف بنبیرہ سید المرسلین سید طاہر ادام اللہ سیادتہ و نظام الدین بردرویش رسانیدہ ،،</div><div><br></div><div>مراۃ مداری میں ابتدائیہ اس طرح ہے ھوالموجود : برادرم قاضی شہاب الدین شمس عمر دولت آبادی بداں کہ مکتوب ،،،آں برادر بہ نبیرہ سیدالمرسلین سید طاہر ادام اللہ سیادتہ و نظافتہ بریں درویس </div><div><br></div><div><br></div><div><br></div><div>از خویش رسانید ،در کتاب آں برادر چنیں باز دیدہ شد کہ از بیشتر مردماں تسامع می شود کہ مخصوص ملاقات حضرت سیدالمرسلین بے واسطہ بحسب ظاہر شمارا میسر بودہ است</div><div> ایں معنئ سعادت روئے بنماید و ہیچ یکے ایں دربستہ نمی کشاید، کہ چگونہ بود ؟،دیگر آنکہ العلماء ورثته الانبیاء ہمیں علوم است کہ ما تحصیل کردۂ ایم یاآنکہ علم دیگر است ایں دو لطیفہ بجواب حل گردانیدہ مرقوم فرمایند</div><div><br></div><div>*مکتوب شریف*– اے برادر ! عوام را ادائے دانستن اسرار خواص حضرت الوھیت بس مشکل است ۔بداں کہ گوشہ نشینان خانقاہ عدم مردانند و بر مرکب نفخت فیه من روحی شہسوار اند </div><div>کہ بندہ گاں را دراسرار شاھاں آں جا راہ نیست</div><div> از بس کہ در مقام قرب اند و از سایۂ حدوث خویش دوراند جبرائیل علیہ السلام را برکاب برادری نمی گیرند ،و میکائیل را بغاشیہ برداری نمی پزیرند بیک تگ از ہر دو عالم بیروں شدہ اند</div><div><br></div><div>و بصحرائے الوھیت بعالم لا مکاں کہ نا محدود و نا متناہی است </div><div>جولا نگری می نمایند، و لیس عند اللّٰہ صباح ولا مساء مقام دارند ،بعلم ،،یمحو اللہ مایشاء و یثبت ،،محو در محو اند ،</div><div>بے نام و نشان، از جملہ خلائق دوراند، حق تعالی از غیرتے کے دریں قوم است ازمر دماں محفوظ و مستور می دارد </div><div>و مگرآں کہ اور امیخواہد ،،له مقالید السموت و الارض ،،مر او را است ۔ایں درویش دربستہ بروے می کشاید ،و مامور بامر اللّٰہ تعالیٰ ،و اللّٰہ غالب علی امرہ، پیش می آید ۔و خویشتن را بکسوت بشریت بدو می نماید کہ بداں امراست حکایت دشت ارزن</div><div>، آں برادر شنیدہ باشد کہ اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ دو صد سال و کثیرے پیش از ولایت خود بہ امر حق تعالی بدن مثالی گرفتہ سلمان فارسی را از پیش شیر خلاص ساختہ بود پس ارواح مقربان درگاہ الوھیت را پیش از وجود عنصری و در وجود عنصری و بعد از گزاشتن وجود عنصری تصرف یکساں می باشد </div><div>،گاہے لباس عنصری می پوشند و گاہے وجود مثالی، چنانچہ بعضے ازاں طائفہ در مقام مناجات مہتر موسیٰ صلاۃ اللّٰہ علیہ حاضر بودند، </div><div>و چوں نود ہزار تکلم در مقام قاب قوسین او ادنی حق تعالی در شب معراج مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم</div><div><br></div><div>مکتوب زندہ شاہ مدار ---- برادرم قاضی شہاب الدین شمس عمر دولت آبادی کو معلوم ہو آپ کا خط بذریعہ نبیرہ سیدالمرسلین سید طاہر ادام اللہ میادتہ و نظافتہ پہنچا اس مکتوب میں اس طرح سمجھا گیا ہے کہ اکثر حضرات سے سنا جاتا ہے کہ حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بغیر کسی واسطہ کے ظاہری طور پر آپ کو مخصوص ملاقات میثر ہوتی ہے یہ یعنی سعادت درویش ہے کوئی شخص اس راز سربستہ کو نہیں کھولتا ہے کہ ملاقات کیسے ہوئ دوسرا یہ کہ العلماء ورثته الانبیاء سے یہی علوم مراد ہیں جنہیں ہم نے حاصل کیا ہے یا کوئی دوسرا علم مراد ہے ان دونوں لطیفوں کا حل فرمایں حضور مدار پاک جواب میں ارشاد فرماتے ہیں اے برادر ! بارگاہ الوھیت کے خواص حضرات کے اسرار کا علم عام لوگوں کیلئے بہت مشکل ہے_ غور سے سمجھو کے وہ حضرات عدم کے گوشہ نشین اور ٫٫نفخت فیه من روحی,, کے میدان کے شہسوار ہیں غلاموں کو بادشاہوں کے اسرار تک رسائی کی کوئی راہ نہیں ہے- اسلئے کہ وہ ایسے مقام قرب الہیٰ میں ہیں کہ وہ اپنے حدوث کے سایئے سے بھی دور ہیں وہ جناب جبرائیل علیہ السلام کو بھی اپنی رکاب داری میں نہیں لیتے اور نہ جناب میکائیل کو اپنی غاشیہ برداری میں قبول کرتے ہیں وہ ایک قدم میں دونوں عالم کو عبور کر لیتے ہیں! اور صحرائے الوھیت سے عالم لامکانی میں جو لا محدود و نا متناہی ہے آتے جاتے رہتے ہیں</div><div> اللّٰہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنے شب و روز گزار تے ہیں </div><div>حال یہ ہے کہ بارگاہ ربّ العزت میں صبح و شام کی قید نہیں ہے اور٫٫ یمحو اللّٰہ مایشاء و یثبت,, کے علم میں مستغرق ہوکر۔۔</div><div><br></div><div><br></div><div>فرمود می شنیدند و بادرویشان صحابہ رضی اللہ عنہم مصا فحہ داشتہ اندو درحیات و ممات بایشاں حاضر بودند،</div><div> و ہستند ،</div><div>کُل را دریافتہ اند تا بجز چہ رسد </div><div>چوں ایں معنی برادر را محقق و معلوم گشتہ۔۔</div><div><br></div><div><br></div><div>محو در محو ہو کر بے نام ونشاں ہو جاتے ہیں وہ جملہ خلائق سے دور ہیں حق تعالی کی اس قوم کے ساتھ ایسی غیرت ہے کہ اپنی غیرت داری میں لوگوں سے انہیں محفوظ و مستور رکھتا ہے٫٫ له مقالید السموت و الارض,, کا مژدہ انہیں کیلئے زیب ہے یہ فقیر اس بند دروازے کو اسی کیلئے کھولتا ہے جس کیلئے اللّٰہ تعالی کا حکم ہوتا ہے ،٫٫والله غالب علىٰ امره،،( اور اللّٰہ تعالی اپنے امر پر غالب ہے،) پیش نظر رکھتے ہیں اور خود کو جامۂ بشریت میں اسے ہی دکھاتے ہیں جس کے لیئے اللہ کا حکم ہوتا ھے۔</div><div> حکایت دشت ارزن اسی امر سے متعلق ہے اے برادر آپ نے سنا ہوگا کہ حضرت سیدنا اسداللہ الغالب حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم اپنی پیدائش سے کم و بیش دو سو سال پہلے اللّٰہ تعالی کے حکم سے بدن مثالی اختیار فرما کر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شیر کے حملہ سے رھائی دلائی تھی،</div><div> پس درگاہ الوھیت کے مقربین کی ارواح طیبہ کو وجود عنصری سے پہلے اور وجود عنصری میں اور وجود عنصری چھوڑ نے کے بعد بھی یکساں تصرف رہتا ہے ۔</div><div><br></div><div>کبھی لباس عنصری پہن لیتے ہیں اور کبھی وجود مثالی اختیار کر لیتے ہیں—</div><div>چنانچہ اسی طائف مخصوصہ میں سے بعض حضرات حضرت موسی صلاۃ اللّٰہ علیہ کے مقام مناجات میں حاضر تھے اور جب نوے ۹۰ ہزار کلام ٫٫مقامات قاب قوسین او ادنی ,, میں حضرت حق تعالی نے شب معراج حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے فرمایا تھا تو یہ حضرات طائفہ مخصوصہ بھی سن رہے تھے اور اصحاب صفہ کے درویشوں سے مصافحہ کر تے تھے اور حیات و ممات میں ان کے ساتھ حاضر رہتے تھے اور اب بھی ہیں ۔</div><div>وہ کل کو حاصل کر چکے ہیں ان کیلئے جز کی کیا حقیقت ہے ،</div><div>جب یہ ایک بات آپ کو معلوم ہوگئی تو العلماء ورثۃ الانبیاء کے بارے میں بھی اب سماعت کیجئے </div><div>،،،،،،الی آخرالمکتوب</div><div>(مراۃ مداری مترجم المجمع المداری جہراوں شریف سدھارتھ نگر یوپی)</div><div><br></div><div> </div><div><br></div><div>**شجرۂ اویسیہ مداریہ**</div><div><br></div><div>مکتوب شریف کے اس حصے سے حضور مدار پاک اپنی نسبت اویسیت کو خود آشکار فرما رہے ہیں اور اویسیت کا مفہوم و امکان صحبت رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وضاحت خود ہی فرماتے ہیں_</div><div>حضرت قاضی محمود الدین کنتوری بارہ بنکوی رحمة اللہ علیہ جو سرکار مدار پاک کے خلیفۂ اجل ہیں ، آپ نے ایک مرتبہ حضور مدار پاک سے یہ سوال کیا کہ حضور اپنا سلسلہ نسبت مجھے عنایت فرمائیں۔ کریم ابن کریم حضور سید بدیع الدین قطب المدار قدس سرہ نے اس شان سے ارشاد فرمایا </div><div>٫٫اکتب اسمک ثمہ اسمی ثمہ اسم رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ،،_ </div><div>یعنی اپنا نام لکھو پھر میرا اور ميرےآگے جناب محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی۔</div><div>بندۂ عشق شدی ترک نسب کن جامی </div><div>کہ دریں را فلاں ابن فلاں چیزے نیست—</div><div><br></div><div>تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ برکاتیہ میں ھےکہ حضرت محمد جمال الدین عرف جمال اولیاء کوڑا جہان آبادی قدس سرہ نے بلا واسطہ حضرت سید بدیع الدین قطب المدار سے نسبت اویسہ حاصل کیا۔</div><div> کاشف الاستار میں حضرت سید شاہ حمزہ مارہروی قدس سرہ نے اپنے لئے ایسا ہی لکھا ہے کہ آپ کو حضور مدار پاک سے اویسی نسبت حاصل ہوئی</div><div> (تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ صفحہ 130 عبدالمجتبی رضوی )</div><div>*قطب المدار کی اویسیت پر اھل بصیرت کا اتفاق**</div><div><br></div><div>حضرت عبد الرحمٰن چشتی قدس سرہٗ العزیز نقل فرماتے ہیں </div><div>,,</div><div>اہل بصیرت بریں متفق اند کہ قطب المدار اویسی بود و از روحانیت حضرت علی کرم اللہ وجہ تربیت و تکمیل یافتہ،، - ترجمہ ۔۔۔</div><div>اہل بصیرت اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت قطب المدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اویسی تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی روحانیت سے تکمیل پائی تھی۔ ،،</div><div>(مرات مداری مطبوعہ المجع المداری ص 123)</div><div><br></div><div>**مدار پاک سے پہلے ہندوستان میں اویسیت کی اشاعت نہیں تھی* *</div><div> میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ حضور مدار پاک کی آمد آمد سے پہلے ہندوستان میں خانوادۂ اویسیہ کی نشرو اشاعت نہیں تھی- لکھتے ہیں ,,الغرض پیش از تشریف آوردن شاہ مدار در ہندوستان خانوادۂ اویسیہ انتشار نیافتہ بود ۔ بعضے مشائخ ہند ازیں مقدمہ واقف نشدہ بودند ۔ </div><div>چوں حضرت شاہ مدار آمد ایں مشرب عالی قدر شائع گشت - </div><div>یعنی</div><div>حضرت مدار پاک کی تشریف آوری سے پہلے ہندوستان میں خانوادہ اویسیہ کا نشر و انتشار نہیں ہوا تھا ۔ </div><div>ہندوستان کے بعض مشائخ تو اس سلسلہ اویسیہ کے مقدمات سے واقف ہی نہیں تھے ۔جب حضور مدار پاک قدس سرہ تشریف لائے تو یہ مشرب عالی قدر شائع ہوا ۔</div><div><br></div><div>(مراۂ مداری ص 121)</div><div><br></div><div>ناچیز ابو الحماد محمداسرافیل حیدری المداری عرض کرتا ہے کہ</div><div>حضور مدار پاک کی قطبیت و مداریت اور اویسیت و صحبت کی قدرے تفصیل جاننے کے بعد ہندوستان میں آپ کی آمد اور آپ کی دعوت و تبلیغ کے اثرات کو سمجھنا سمجھانا بھی علمائے عصر اور فضلائے دہر کی ذمہ داری ہے۔</div><div> 242 ہجری میں پیدا ہونا اور 282 ہجری میں حجرۂ عنایات رسولِ مقبول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میں تعلیم علم مدنی ، تعلیم علوم نبوت اور معرفتِ ولایتِ رسالت سے سر فراز ہو کر بے شمار کرامات و نوازشات و شرفِ اویسیت سے مشرف ہونا اور مولی' علی باب العلم علیہ السلام سے تربیت و تکمیل و نسبت صغریٰ و نسبت کبریٰ سے شرف یابی اور کتب حقائق و صحف آسمانی کی تعلیم وتحصیل کے بعد مزید روحانیت حضرت امام مہدی موعود سے تربیت پانا,</div><div> اشارہ کرتا ہے کہ داعی اسلام حضرت مدار پاک کو تمام تر تبلیغی صلاحیتوں سے مسلح و مبرہن و مبین و مزین فرما کر ہندوستان بھیجا گیا ۔</div><div>282 ہجری میں ہندوستان میں اسلام اور تعلیم کا کیا حال رہا ہوگا اور یہاں کی تہذیب و ثقافت پر جہالت و توھم کا کتنا رنگ چڑھا ہوگا اہل شعور اور اہل سیر بخوبی جانتے ہوں گے ۔؟</div><div>جو پیغمبر جس قوم کے زمانے میں ہوتے تھے اس قوم کی قابلیت اور استعداد کے مطابق مبعوث کیئے جاتے تھے ۔</div><div>اسی طرح داعیان اسلام کو جن علاقوں کی دعوت کی ذمہ داری دی جاتی ہے وہاں کی قوموں کی استعداد و صلاحیت کے مطابق ہی ان ھادیوں اور داعیوں کا انتخاب ہوتا ہے۔</div><div>برصغیر کے لئے داعئ اسلام کا انتخاب بارگاہِ رسول سے ہو گیا ھے ۔</div><div>بحرزخار اور مراۃ مداری میں ہے کہ جب حضرت مہدی موعود علیہ السلام نے حضرت قطب المدار قدس سرہ کی تربیت فرماکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خدمت روحانیت میں پیش کیا تو حضرت مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے خوش ہوکر اپنی خلعت خاص معنوی سے مدار پاک کو سرفراز فرمایا اور مدینہ نبوی میں بھیج دیا - آقائے کریم نے نہایت ہی اکرام و نوازش فرما کر آپ کو ھندوستان جانے کا حکم صادر فرمادیا ۔</div><div>چنانچہ لکھتےہیں ,,</div><div>آنحضرت صلوات اللہ علیہ نہایت توجہ و مہربانی نمود فرمود کہ حالا حضرت حق سبحانہ و تعالٰی ترا باسرار مخفی خود شناساگردانید۔</div><div> بایدکہ بجہت اداۓ شکر نعمت الہی باز سعادت زیارت مکہ معظمہ بجا آر و از آں جابجانب ملک ہندوستان برو _...........</div><div>وگم گستگان بادیۂ ضلالت رابطریق صراط مستقیم ہدایت نما- (مراۃ مداری مطبوعہ المجمع المداری جہراؤں سدھارتھ نگر یوپی ص 120-119)</div><div>آنحضرت صلوۃ اللہ علیہ نے نہایت توجہ و مہربانی کا اظہار فرمایا اور حکم دیا کہ اب جبکہ حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو اپنے اسرار مخفیہ کا رازدار بنا لیا ہے تو آپ نعمت الہیہ کا شکر ادا کرنے کے لئے مکہ معظمہ جاؤ اور سعادت زیارت بجا لاؤ اور اس کے بعد ھندوستان روانہ ہو جاؤ </div><div>اور وھاں صحراۓ ضلالت میں بھٹکے ہوۓ لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرو</div><div><br></div><div><br></div><div>**سرزمین ہندکی پیشانی پر چار چاند لگ گئے* *</div><div><br></div><div>سرزمین ہند جس کی پیشانی پر آدمیت کا نمود ہوا -</div><div>جسکے سینے پر حضرت آدم علیہ السلام کا پہلا نقش چھپا ،جس کے رہ گزاروں اور لالہ زاروں میں بزبان آدم علیہ السلام اول اول صداۓ تکبیر گونجی، جس کا ذرہ ذرہ آدمیت کے نور کے پرتو سے آئینۂ تجلیات ربانی و عکس نور سبحانی بنا ،جس کے گلستانوں سے پھوٹنے والی ایمان و وفا کی خوشبو بارگاہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محسوس کی گئی۔</div><div>زبان اقبال بول اٹھی </div><div>میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے</div><div> میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے</div><div>ایمان و وفا کی اس خوشبو سے اہل ہند کے دل و دماغ اورفکر و شعور کو معطر کرنے کے لئے ہادئ عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے داعئ اسلام حضرت قطب المدار کو ہندوستان بھیج دیا ہے</div><div><br></div><div>مدار پاک سید بدیع الدین احمد قدس سرہ نے ہندوستان میں سب سے پہلے دعوت و تبلیغ کا کام اپنی شایان شان انجام دیا</div><div>قدیم ہندوستان کے گوشے گوشے اور خطے خطے میں دعوت اسلام پہنچائی،</div><div> اس کے شواہد مدار پاک کے نقوشِ قدم آج بھی دیتے ہیں</div><div><br></div><div>مدار گنج، مدار نگر، مدار پور، مدار کھیڑا، مدار ٹولہ، مدار پہاڑ، مدار وادی مدار گاوں، مدار ٹیکری ، مدار اسٹیشن ، مدار گیٹ، مدار تکیہ ،مدار چلہ ، مدار کا چاند 🌙 مدار کا مہینہ ،مدار نالہ، مدار ندی مدار پل، مدار کا مالیدہ، مدار کا مرغا ، مدار کا بکرا ،مدار کا پٹہ اور مدار بخش ، غلام مدار اور دیگر نشانیاں اور بر صغیر میں چودہ سو بیالیس چلہ گاہ قطب المدار وغیرہ یہ وہ سب منسوبات مدار پاک ہیں جو آپ کی دعوت و تبلیغ کی تکمیل کی شاہد ہیں</div><div> علماء ،صلحاء ،صوفیاء، مشائخ، اہل سلسلہ،فقرائے ہفت گروہ ، شاہان اسلام، اہل جمع اللہ ،پیرزادگان، سجادہ نشینان سبھوں کے پاس قطب المدار کی نسبت کا تاج ہے </div><div>رسول کونین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے جس شان سے اور جس کام سے حضور قطب المدار کو ہندوستان بھیجا تھا ہندوستان کے ہر وضیع و شریف میں اسی شان سے آپ نےاپنے کام کو انجام دیا</div><div><br></div><div>آپ نے اپنے مابعد آنے والوں کے لئے بہترین پلیٹ فارم تیار کیا آپ کے پلاٹ پہ خواجہ بزرگ حضرت معین الدین چشتی نے دین کی اعانت فرمائی ،حضرت نظام الدین اولیاء نے نظام اسلام کو سنورا ،حضرت صابر کلیر نے صبر و رضا کے پیغام نشر کئے ، حضرت نصیر الدین چرغ دلی نے اہل ہند کی نصرت و امداد فرمائی ، حضرت اشرف جہانگیر نے شرافت خلق کا درس دیا ، حضرت یحییٰ منیری نے اسلام کو حیات بخشی ، حضرت دانا بریلوی نے لوگوں کو دانائی عطا فرمائی ، حضرت مینا لکھنوی نے لوگوں کو عشق رسالت کا جام و مینا پیش فرمایا</div><div>حضرت گیسو دراز نے بندہ نوازی کی ، مخدوم ماہم نے اہل خدمات تیار کئے، شیخ علاؤالدین نے اعلاۓ کلمتہ الحق فرمایا ، غوث گوالیاری نے ملھوفین کی داد رسی کی ،شاہ عالم نے لوگوں کو آداب شہی سکھاے ،اولیاء نے ولاۓ مولی کا اظہار کیا، فقراء نے فقر حیدری کا راز کھولا، قلندروں نے عشق و مستی کے جام لٹائے، ہندوستان کے افق پر اسلام کا سورج طلوع ہوا صاحب برکات نے ہندوستان کو برکتوں سے مالامال کر دیا مجددین نے احیاء سنت کا کام کیا</div><div> سچ کہا گیا </div><div>صدائیں گونجتی ہیں ہند میں اللہ اکبر کی </div><div>جو سچ پوچھو تو یہ صدقہ مدار العالمیں کا ہے</div><div>خاکپائے مدار اعظم</div><div>ابوالحماد محمد اسرافیل حیدری المداری دارالنور مکن پور شریف9793347086</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-71029099987493265392022-12-22T07:25:00.001-08:002022-12-22T07:25:46.872-08:00مقام محبوبیت اور مقام فردیت کی مدت کتنی ہے<div>*بدیع الدین مظہر اسم ظاہر و اسم باطن*</div><div><br></div><div>حامل صمدیت، واصل مقام محبوبیت،جامع کمالات غوثیت و قطبیت و فردیت، شہنشاہ ولایت، معجزہء رہبر دین، ملک العارفین، حضور سرکار سرکاراں سید بدیع الدین احمد قطب المدار رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پانچ سو چھیانوے سالہ طویل ترین حیات مبارکہ کے حالات و کمالات، خوارق عادات، عبادات و ریاضات اور دعوت و تبلیغ اسلام و ترویج دین کی سرگرمیوں وغیرہ کو احاطہء تحریر میں لا پانا بہت ہی مشکل کام ہے</div><div>قاسم نعمات، مختار کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کی بشارت کے مطابق بدیع الدین ہیں اس لئے ان کی ذات کو عزیز الوجود اور نادر و انوکھا ہونا ہی چاہئے تھا تو بحمد اللہ تعالٰی باعجاز زبان حق ترجمان عجائب احوال و غرائب اطوار کا پیکر جلیل ہوئے بھی - جس کو شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ والرضوان بھی یوں تحریر فرماتے ہیں</div><div>" غرائب احوال و عجائب اطوار از وئے نقل میکنند گویند کہ وئے در مقام صمدیت کہ از مقامات سالکان است بود "</div><div>(شیخ بدیع الدین مدار کے عجیب و غریب حالات و اطوار لوگ روایت کرتے ہیں - کہتے ہیں کہ وہ سالکین کے مقامات میں سے مقام صمدیت پر فائز تھے)</div><div>اور ملا ابو الفضل جیسا غیر مقلد شخص بھی جس کی عجیب الحالی کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہے </div><div>" شاہ مدار : لقب بدیع الدین کہ و مہ ہندی بوم بدو گردد والا پائیگی بر گزارد....... وشگرف داستانہا ازو بر میگذارند " (آئین اکبری ج3 ص284) </div><div>(یعنی شاہ مدار کا لقب بدیع الدین ہے ہندوستان کا ہر خورد و بزرگ ان کا معتقد ہے اور بہت تعظیم کرتا ہے ....... ان کے بارے میں عجیب و غریب داستانیں لوگ بیان کرتے ہیں) </div><div>اولیآء کرام عجیب الاحوال ہوتے ہی ہیں مگر بدیع الدین وہ اسم بامسمی ہیں جو صف اولیآء میں غرائب اطوار و عجائب احوال کا پیکر جلیل بن کر عزیز الوجود، نادر روزگار اور بدیع العجائب ہیں </div><div>اسی عجیب الاحوالی اور بے مثالی نے انہیں ایک معمہ بنا دیا ہے اور محققین کے لئے ان کی سوانح ایک عقدہء لاینحل بن کر رہ گئی ہے </div><div>اہل تحقیق اپنے محدود پیرایہ میں عام اولیآء کرام کی طرح جب ان پر تحقیق کرتے ہیں تو کہیں نہ کہیں الجھ جاتے ہیں اور بسا اوقات ورطہءغلط میں پڑ جاتے ہیں</div><div>ان کی سیرت و سوانح کا مطالعہ باریکی سے کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسم ظاہر اور اسم باطن دونوں کے پرتو قدس سے مزین ہیں </div><div>جب کبھی اسم ظاہر کا پرتو ان پر غالب ہوتا ہے تو وہ کمال درجہ کی شہرت و مقبولیت کے حامل ہوتے ہیں - جیسا کہ ملا ابو الفضل کا قول آپ نے پڑھا کہ </div><div>" ہندوستان کا ہر چھوٹا بڑا ان کا معتقد ہے اور بہت تعظیم کرتا ہے "</div><div>شیخ محقق حضرت علامہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ فرماتے </div><div>" طریق او جذب خلائق بودہ عوام بسیار بر ایشاں گرد آیند و شہرتے عظیم شد " (اخبار الاخیار) </div><div>یعنی شیخ بدیع الدین مدار کا طریقہ جذب خلائق تھا کثیر عوام ان کے گرد آتے اور بڑی شہرت ہوگئ</div><div>حضرت واجد علی صاحب علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں - </div><div>" حضرت شاہ بدیع الدین قطب المدار کمالاتش در مملکت ہندوستان شہرت تمام دارد و تصرفات آنجناب در حیات و ممات برابر است " (مطلع العلوم و مجمع الفنون ص 144 - 124) </div><div>یعنی شیخ بدیع الدین مدار کے کمالات ملک ہندوستان میں بہت مشہور ہیں اور آنجناب کا تصرف حیات و ممات میں برابر ہے</div><div>غرض صفت ظاہر کا پرتو جب کبھی غالب ہوا تو حضور مدار العالمین کی معرفت ہوئ اور مشہور عالم ہوئے اور ان کی شہرت و مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ غیر منقسم ہندوستان میں سینکڑوں شہروں، قصبوں اور گاووں کے نام آپ کے نام سے موسوم ہیں - مثلاً مدار گنج، مدار نگر، مدار پور، مدار باڑی، پیرو مدارا وغیرہ </div><div>چودہ سو بیالیس مقامات پر آپ کی چلہ گاہیں ہیں جنہیں مدار چلہ، چلہ زندہ شاہ مدار، مدار استھان وغیرہ ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے، مدار ٹیکریاں مداریہ پہاڑ ، مدار ہل، مدار باؤلی، مدار گیٹ وغیرہ،</div><div>ماہ جمادی الاولی جس میں آپ کا وصال ہوا اس مہینہ کو مدار کا مہینہ اور مدار کا چاند کہا جاتا ہے</div><div>غرض یہ تمام چیزیں آپ کی شہرت و مقبولیت عامہ کی روشن دلیلیں ہیں </div><div>آپ سے منسوب متعدد کہاوتیں اور ضرب الامثال بھی ہیں مثلاً</div><div>(1) *حق اللہ محمد مدار*</div><div> جب حضرات فقراء مداریہ (زادھم اللہ شرفاً) آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اسوقت بولتے ہیں -</div><div> مطلب یہ ہوتا ہے کہ</div><div> اطیعوااللہ و اطیعواالرسول واولی الامرمنکم </div><div>کے مطابق اللہ ' رسول اور پیرو مرشد مدار کی اطاعت کرو ! </div><div> اسکے جواب میں سامعین بولتے ہیں</div><div>دم پیر زندہ شاہ مدار</div><div> </div><div>(2) *دم پیر زندہ شاہ مدار*</div><div> یعنی ہم ہر دم اطاعت مرشد ہی میں ہیں (جو دراصل اللہ ورسول ہی کی اطاعت ہے ـ) </div><div>(3) *مر ے کو ماریں شاہ مدار*</div><div><br></div><div>اس مقولہ کی وجہ یہ ہے کہ حضور مدار پاک منزل فنا پر فائز سالک کو واصل مقام فناءالفنا کر دیا کرتے ہیں - </div><div> عام زبان میں اس وقت بولتے ہیں کہ جب کسی مصیبت زدہ پر کوئ اور مصیبت آجائے</div><div><br></div><div>(4) *جب کمر میں زور ہوتا ہے تب مدار صاحب بھی بیٹا دیتے ہیں* </div><div>مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسی آدمی کی مدد کی جاسکتی ہے جو خود بھی کسی لائق ہو -</div><div> اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے </div><div>کہ </div><div>حضور مدار العالمین کے فیضان کرم سے انکی حیات ظاہری میں بھی اور بعد وصال بھی آج تک بے شمار لاولد صاحب اولاد ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں </div><div> پس لوگ جیسا دیکھتے ہیں ویسا بولتے ہیں - </div><div>(5) *کھائیں مدار کا گائیں سالار کا*</div><div>اس وقت بولتے ہیں جب آدمی فائدہ توکسی اور سے اٹھائے اور نام کسی اور کا لے ـ </div><div><br></div><div>(6) *گنگا جیسا نیر نہیں مدار جیسا پیر نہیں* </div><div> مدار پاک کے عقیدتمند ہنود جب کوئ قسم کھاتے ہیں تب بولتے ہیں ـ مقصد یہ ہوتا ہے کہ گنگا اور مدار کا واسطہ جھوٹ نہ بولا جائے !</div><div> اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے کہ سرکار مدار پاک جب غیر آباد اور بے نام جنگل *مکن پور شریف* آئے تو قرب و جوار میں آپ کا چرچہ ہوگیا اور حاجتمند آپ کے در فیض وعطا پر جوق در جوق آنے لگے ـ انہیں ایام میں بسنت پنچمی کے گنگا نہان کے موقعہ پر کچھ ہندو آپ کی خدمت میں آئے</div><div> آپ نے دریا فت فرمایا ! </div><div>کہاں کا ارادہ ہے؟ </div><div>بولے ! گنگا اشنان کا ! </div><div> آپ نے فرمایا ! اچها ! تو </div><div>گنگا کو میری انگوٹھی دیدینا </div><div>وہ لوگ انگوٹھی لیکر گنگا کنارے پہنچے مسخرے انداز میں کہا </div><div>لوگنگا میا !</div><div>انگو ٹھی مدار بابا نے بھیجی ہے </div><div> اور انگوٹھی گنگاکی طرف اچھال دی </div><div>دیکھتے کیا ہیں کہ گنگا میں سے ایک ہاتھ نکلا اور انگوٹھی خود بخود اسکی انگلی میں پہنچ گئی </div><div> یہ دیکھ کر وہ حیرت میں پڑگئے ـ بے اختیاربولے ۔</div><div>" اگر گنگا جیسانیر نہیں تومدار جیساپیر نہیں" </div><div>تب سے یہ محاورہ عام ہے </div><div><br></div><div>(7) *گنگا مدار کاکیاساتھ؟*</div><div>اس وقت بولتے ہیں جب دو لوگوں کو الگ الگ کام کرنا ہو یا الگ الگ راستہ پر جانا ہو ـ </div><div>اس کا پس منظر یہ ہے کہ </div><div>"گنگا جیسا نیر نہیں مدار جیسا پیر نہیں" سن کر کوئ حق گو عاشق مدار برداشت نہیں کرسکا اور بے ساختہ بول اٹھا "گنگا مدار کا کیا ساتھ ؟" </div><div> مطلب یہ ہے کہ اگر چہ گنگا کا کام سیراب کرنا ہے اور مدار کاکام بھی سیراب کرنا ہے مگر گنگا ظاہری جسمانی پیاس بجھاتی ہے </div><div>جبکہ مدارباطنی روحانی تشنگی کو بجھاتے ہیں </div><div>اگرچہ گنگا رواں دواں ہے چل پھر کر پیاس بجھاتی ہے اور مدار بھی سیر و سیاحت میں رواں دواں رہتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ گنگا اپنی مقررہ منزل کیلئے اپنی محدود وسعتوں میں رہتے ہوئے اپنے مخصوص راستہ ہی میں بہتی ہے اوراس کا دائرہ فیض اسکے مخصوص علاقوں ہی تک محدود ہے - جبکہ میرا مدار گنگا کی طرح کسی ایک راستہ کا پابند نہیں ہے اور اس کی اپنی کوئ منزل مقرر نہیں ہے اس کا دائرہء فیض و کرم کسی مخصوص علاقہ ہی تک کیلئے نہیں ہے - وہ گنگا کی طرح نہیں ہے کہ پیاسے اسکے کنارے پر پہنچ کرہی سیراب ہونگے - بلکہ وہ فیض و کرم کا ابر باراں ہے جو کبھی مشرق پر برستا ہے توکبھی مغرب میں، کبھی شمال میں تو کبھی جنوب میں، کبھی پہاڑوں پر توکبھی ریگزاروں پر، کبھی جنگلوں پر تو کبھی آبادیوں پر بلکہ خود گنگا جمنا اسکے باران فیض سے مستفیض ہوتی ہیں ـ </div><div> غرض تب سے یہ کہاوت بھی چلی آرہی ہے کہ </div><div>" گنگا مدار کا کیا ساتھ؟ </div><div> </div><div>(8) *پیسہ نہ کوڑی مدارن کو دوڑی*</div><div> یہ اس وقت بولتے ہیں</div><div>جب کوئ شخص ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں پیسوں ہی کا خرچہ ہو اور اس کے پاس پیسے نہ ہوں</div><div>اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے کہ</div><div>حضور سید بدیع الدیع احمد قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ جن کی محبوبییت و مقبولیت غیر منقسم ہندوستان کے ہر علاقہ اور ہر طبقہ میں تهی اور ہے اسی محبوبیت و مقبولیت ، عقیدت و محبت اور تعظیم و احترام کی وجہ سے غیر منقسم ہندوستان میں بے شمار مقامات پر سرکار مدار العالمین کے نام پاک سے منسوب میلے لگتے ہیں مثلاً</div><div>مارہرہ شریف کی مداری گدی پر </div><div>جس کے بارہ میں سید العلماء ابوالحسنین حضرت مولانا مفتی سید آل مصطفٰے مارہروی برکاتی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں</div><div> "مارہرہ مطہرہ میں بفضلہ تعالی مداری گدی صدیوں سے قائم ہے اور فقیر کے بزرگان کرام ہمیشہ سے اس کی خدمت کرتے چلے آئے ہیں- میرے جد کریم حضور شیدائے ملت والدین سیدنا آل احمد اچھے میاں قدس سرہ العزیز نے اپنے عہد مبارک میں سرکار مدار العالمین کے نام نامی سے منسوب میلہ قائم کرایا - جو 9 جمادی الاولی کو برابر ہوتا ہے" (مکتوب قلمی سید العلماء. ...جمادی الاولی 1381مطابق 9 دسمبر 1961)</div><div>غرض اس طرح بےشمار مقامات پر مدار کے میلے لگتے ہیں </div><div>اور قدیم زمانے میں ہندوستان کے چاروں طرف سے ان میلوں میں اکٹھا ہوکر لوگوں کے بڑے بڑے قافلے بن جاتے تهے اور وہ سب عرس مدارالعالمین مکن پور شریف میں پہنچتے تهے</div><div>مغلیہ دور حکومت میں ان کی تعداد پانچ چه لاکه ہوتی تهی</div><div> جیسا کہ شہزادہ دارا شکوہ قادری تحریر فرماتے ہیں "ہرسال در ماہ جمادی الاول کہ عرس ایشان است قریب بہ پنج شش لک آدم مرد و زن صغیر و کبیر از اطراف و جوانب ہندوستان در اں روز بزیارت روضہء شریفہ ایشاں با علمہائے بسیار جمع میشوند و ہمہ نذر و نیاز می آرند و کرامات و خوارق عجیبہ غریبہ الحال نیز نقل میکنند" (سفینتہ الاولیاء ص321)</div><div>یعنی ہر سال جمادی الاول کے مہینے میں کہ جب ان (سید بدیع الدین مدار) کا عرس ہوتا ہے قریب پانچ چه لاکه لوگ مرد و زن چهوٹے بڑے اطراف و جوانب ہندوستان سے اس روز ان کے روضہء شریفہ کی زیارت کے لئے بہت سے علموں کے ساتھ اکٹھا ہوتے ہیں </div><div>اور سب نذر و نیاز پیش کر تے ہیں اور عجیب و غریب خوارق و کرامات اب بهی روایت کرتے ہیں</div><div>غرض میلوں ٹهیلوں میں وہ بهی خاص طور سے اتنے عظیم میلہ میں بات بات پر قدم قدم پر پیسے ہی کی ضرورت ہوتی ہے</div><div>اور بعض عشاق مدار دیوانہ وار بلا اسباب و ضروریات ظاہری کے ہی دوڑے چلے آتے ہیں</div><div>جن کے لئے کہا جاتا ہے</div><div>"پیسہ نہ کوڑی مدارن کو دوڑی"</div><div><br></div><div>(9) *میلہ مدار کے دن*</div><div>درگاہ قطب المدار مکن پور شریف میں دو عظیم اجتماعات ہوتے ہیں</div><div>ایک بسنت پنچمی کے موقعہ پر جس کو میلہ کہا جاتا ہے </div><div>اور ایک ماہ جمادی الاولی میں جس کو عرس اور مدار کا مہینہ اور مدار کے دن کہا جاتا ہے</div><div>غرض میلہ ہو یا عرس دونوں ہی موقعوں پر اس میلہ یا عرس کی وجہ سے مکن پور شریف اور اطراف کی بستیوں میں مہمانوں کا کثرت سے آنا جانا ہوتا ہے</div><div>تو ان کے انتظامات وغیرہ بهی کرنے ہی پڑتے ہیں یا جن لوگوں کو پردیس جانا ہوتا ہے وه ان ایام میں پردیس نہ جاکے گھر پر ہی رہتے ہیں یا پردیسی گھر واپس آجائے ہیں غرض ایسے مواقع اور مہمانوں وغیرہ سے متعلق ضروریات کے پیش نظر جب کوئ بات کہتے ہیں تب بولتے ہیں ـ مثلاً</div><div>میلے مدار کے دن ہیں گھر کے سب انتظام ٹهیک ٹهاک کرلئے جائیں</div><div>میلے مدار کے دن ہیں اب کیا پردیس جاوگے وغیرہ</div><div><br></div><div>(10) "بعد جمعہ جو کیجو کار ساتھ میں ہو ویں شاہ مدار"</div><div><br></div><div>بعض حضرات سے یوں بهی سنا ہے</div><div> "بعد جمعہ جو کیجو کار اس کے ضامن شاہ مدار"</div><div><br></div><div>مطلب یہ ہے کہ نماز جمعہ کے بعد جو کام کیا جاتا ہے اس میں کامیابی ملتی ہے</div><div>قرآن وحدیث کی روشنی میں تو یہ بات واضح ہے ہی کہ نماز جمعہ سے فارغ ہو کر جو کام کیا جائے اس میں کامیابی ملتی ہے ساته میں لوگوں کے عینی مشاہدات اور عملی تجربات بهی شاہد ہیں کہ بعد جمعہ کئے جانے والے کاموں میں کامیابی ملتی ہے</div><div>اور حضور قطب المدار جن کی عمر مبارک دعوت و تبلیغ اسلام اور مخلوق خدا کی خدمت ، فیض رسانی اور حاجت روائی میں گذری ہے اور آج بھی آپ روحانی طور پر فریاد رسی اور مشکل کشائی فرما رہے ہیں جسے لوگ بخوبی محسوس کرتے ہیں اور منتیں وغیرہ گذار کر اعتراف اور تحدیث نعت کرتے بهی ہیں غرض لوگ سمجهتے ہیں کہ ہمارے مددگار اور پشت پناہ، کرم فرما مدار پاک ہیں جن کی کرم فرمائ سے ہمارے کام بن جاتے ہیں </div><div>وہ اپنی ہر کامیابی کو ان کا فیض مانتے ہیں اور سمجهتے ہیں کہ ان کے کرم سے کامیابی ضرور ملتی ہے</div><div>اور بعد جمعہ کے کاموں میں بهی کامیابی ملتی ہی ہے اس لئے بولتے ہیں کہ بعد جمعہ جو کیجو کار ساتھ میں ہو ویں شاہ مدار </div><div>یعنی کامیابی ضرور ملیگی</div><div>(11) *کوٹ پیس منہاج مریں کرامات ملیں جہندہ کو*</div><div><br></div><div>فیروز اللغات میں یوں ہے</div><div><br></div><div>"پیس پاس منہاج مرے کرامات محمد ججنڈے کو"</div><div><br></div><div>مطلب یہ ہے کہ محنت کوئ کرے اور پهل کسی اور کو ملے</div><div>اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت شیخ منہاج الدین بدایونی حضرت سید بدیع الدین احمد قطب المدار کے مرید و خلیفہ تهے پیر و مرشد کی خدمت و اطاعت میں بہت زیادہ رہتے تهے لوگ سمجھتے تھے کہ یہاں کی جانشینی انہیں کو ملیگی مگر قبل از وصال جب مدار پاک نے اپنے خلفاء کو علاقے تقسیم فرمائے تو اتفاق سے شیخ منہاج موقعہ پر موجود نہ تهے اس لئے ولایت بدایوں پر شیخ محمد جہندہ کو مقرر فرما دیا </div><div>جب سے یہ کہاوت چلی آرہی ہے</div><div>"کوٹ پیس منہاج مریں کرامات ملیں جہندہ کو "</div><div>(12) *تھوڑی آس مدار کی، بہت آس گلگلوں کی* </div><div>مطلب یہ ہے کہ پیروں کی قبروں پر چاہے کام ہونے کی امید کم ہو مٹھائی ملنے کی امید پر کئی آدمی جاتے ہیں (فیروز اللغات) </div><div>(13) *عید کا چاند، مدار کا پھندنا* </div><div>اس وقت بولتے ہیں جب کسی آدمی سے ملنے کا اشتیاق ہو لیکن لمبے انتظار کے بعد اس سے ملاقات ہو تو اس طرح بولتے ہیں </div><div>"آپ تو عید کا چاند مدار کا پھندنا ہوگئے "</div><div>پھندنا ایک قسم کا دھاگے کا پھول جیسا ہوتا ہے جو قدیم زمانہ میں عرس یا میلے کے دنوں میں لوگ مدار پاک کی درگاہ سے لے جاتے تھے اور اپنے چاہنے والوں میں بھی تقسیم کرتے تھے لوگوں کے عقیدہ کے مطابق مدار پاک کی نسبت کی برکت سے یہ پھندنا ہاتھوں میں باندھنے والا جادو سحر اور بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے _ اس لئے لوگ اس کی خواہش بھی کرتے تھے اور سال بھر کا طویل انتظار بھی _ پھندنا خوبصورت بھی ہوتا ہے اس لئے لوگ خوبصورت انسان کے لئے بطور تشبیہ یوں بھی بولتے ہیں </div><div>"چودھویں کا چاند، مدار کا پھندنا"</div><div>(14) *اینٹ کی پانت دم مدار*</div><div>اس وقت بولتے ہیں جب کام مشکل ہو لیکن آدمی اسے انجام دینے کی ٹھان لے </div><div>(15) *آرے چلے پھر بھی مدار ہی مدار* </div><div>عاشق ہر ظلم گوارا کرتا ہے مگر معشوق کا ذکر نہیں چھوڑتا </div><div><br></div><div>غرض اس طرح کی اور بھی کہاوتیں اور محاورے ہیں جو عوام و خواص میں بولے جاتے ہیں _ اور عوام و خواص میں مدار پاک کی شہرت و مقبولیت کی دلیل ہیں_</div><div>ان سب چیزوں کے ذکر سے بتانا یہ مقصود ہے کہ حضور سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار پرتو صفت ظاہر کے غلبہ کی وجہ سے معروف و مشہور عالم ہیں مگر عجیب بات یہ بھی ہے کہ جو ذات جتنی مشہور و معروف ہے وہی ذات صفت باطن سے متصف ہونے کی وجہ سے اتنی ہی غیر معروف اور مستور الحال بھی ہے _ </div><div>قادر مطلق جس کو جیسا بھی بنانا یا رکھنا چاہتا ہے اس کے لئے ویسے ہی اسباب و علل بھی پیدا کر دیتا ہے _ صفت باطن کے پرتو قدس سے مشرف کرنا تھا تو بندہ کو خفاء و استتار کی شان بھی ضرور بخشنی تھی تو اس کے لئے مادی خواہ روحانی اسباب بھی ویسے ہی بننے تھے</div><div>چنانچہ حضور مدار العالمین کی مستور الحالی کے اسباب کچھ روحانی ہیں تو کچھ مادی اور جو مادی بھی ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی آپ کی روحانیت کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ہیں</div><div>آپ کی روحانیت کو سمجھنے کے لئے پہلے حدیث شریف کا مطالعہ کرلیں پھر ارشادات اولیآء کرام بھی پیش کروں گا ان شآء اللہ تعالٰی </div><div>"عن ابی امامه عن رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیه وسلم قال ان اغبط الناس عندی مومن خفیف الحاذ ذو حظ من صلوٰۃ غامض فی الناس لایوبہ به کان رزقه کفافا و صبر علیه عجلت منیته و قل تراثه و قلت بواکیه" (ابن ماجه)</div><div>حضرت ابو امامہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک میرے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ قابل رشک مومن خفیف الحاذ ہے نماز میں اس کیلئے حصہ ہے " لوگوں میں پوشیدہ ہے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جاسکتا " اس کا رزق بقدر زندگی ہے اور وہ اس پر صابر ہے۔ اس کی خواہش جلد فنا ہو جائے گی اور اس کی میراث کم ہے اور اس کے رونے والے بیوی بچے نہیں ہیں۔ </div><div>(ابن ماجہ) </div><div>احمد ترمذی ابن ماجه سے مشکوٰۃ میں بایں الفاظ منقول ہے۔</div><div>"عن ابی امامه عن النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیه وسلم قال اغبط اولیائی عندی لمومن خفیف الحاذ ذو حظ من صلوٰۃ احسن عبادۃ ربه و اطاعه فی السر و کان غامضا فی الناس لایشار الیه بالا صابع و کان رزقه کفافا فصیر علی ذلک ثم نقد بیده فقال عجلت منیته قلت بو اکیه و قل تراثه"</div><div>حضرت ابو امامہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نزدیک میرے ولیوں میں سب سے زیادہ قابل رشک ضرور ایک مومن خفیف الحاذ ہے۔ نماز کا ایک بڑا حصہ دار ہے۔ اپنے رب کی عبادت و اطاعت بہترین طریقہ سے تنہائی گوشہ نشینی میں کرنے والا ہے۔ لوگوں میں وہ ایسا مستور و پوشیدہ رہے گا کہ انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا سے اس کا رزق قوت لا یموت یعنی بہت کم ہوگا اور وہ اپنے نفس کو اسی پر روک کر صبر کرے گا۔ پھر آپ نے اپنی انگلی دوسری انگلی سے ملا کر ارشاد فرمایا اس کی خواہشات نفسانیہ مرجائینگی۔ اس پر کوئی رونے والا یعنی اس کی بیوی بچے نہیں ہوں گے اور اس کی کچھ میراث نہیں ہوگی ۔</div><div>ان دونوں روایتوں میں "خفیف الحاذ" کی مستور الحالی کو یوں بیان کیا گیا " لوگوں میں پوشیدہ ہے اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہیں کیا جاسکتا" </div><div>آیئے معلوم کرتے ہیں کہ خفیف الحاذ کون ہے ؟</div><div>سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ تعالٰی عنہ کشف المحجوب میں حدیث نقل فرماتے ہیں _ </div><div>" خیر الناس فی آخر الزمان خفیف الحاذ (آخر زمانہ میں سب سے بہتر خفیف الحاذ ہے) </div><div>صحابہء کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم خفیف الحاذ کیا ہے ؟ فرمایا الذی لا اھل لہ ولا ولد لہ (وہ شخص جس کے نہ بیوی ہو اور نہ بچے) </div><div>شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رضی اللہ عنہ عوارف المعارف میں تحریر فرماتے ہیں </div><div>" حضرت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ دو سو برس کے بعد تمہارے درمیان سب سے بہتر خفیف الحاذ ہے _ صحابہء کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم خفیف الحاذ کیا چیز ہے؟ فرمایا وہ شخص ہے جس کے نہ بیوی ہو اور نہ اولاد "</div><div>حدیث کی روشنی میں بات بالکل واضح ہے کہ خفیف الحاذ مدار پاک ہیں ان کے بیوی بچے نہیں تھے اور " موتوا قبل ان تموتو" کے مطابق بہت جلد ان پر موت واقع ہوگئی یعنی خواہشات نفسانیہ مرگئیں کھانے، پینے، سونے، تبدیلی لباس وغیرہ حوائج بشریہ سے بے نیاز ہوگئے _ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کے دو سو سال بعد یعنی 242 ھ میں پیدا ہوئے اور جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرما دیا " لوگوں میں پوشیدہ ہے اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہیں کیا جاسکتا" تو پھر ظاہر سی بات ہے کہ اس کی 596 سالہ حیات کے تمام احوال و کوائف کو معلوم کر پانا اور ان کا ادراک کر پانا آسان نہیں ہے </div><div>ایں سعادت بزور بازو نیست </div><div>تا نہ بخشد خدائے بخشندہ</div><div>مدار پاک کی روحانیت اور ان کی مستور الحالی کو حدیث سے سمجھنے کے بعد محققین صوفیاء کرام کے اقوال و ارشادات کی روشنی میں سمجھتے ہیں تو اس سے بھی ہم پر یہی واضح ہوتا ہے کہ </div><div> روحانیت میں آپ اس عظیم منصب پر فائز کئے گئے ہیں جو کتمان و استتار کا مقام ہے اس مقام پر جلوہ گر اولیآء کرام خود بھی ایک دوسرے کی معرفت نہیں کر پاتے - حضرت خضر علیہ السلام بھی اسی گروہ سے ہیں اور اولیآئ تحت قبائ لا یعرفھم غیری کے صحیح مصداق یہی حضرات ہیں ان کی حقیقت و چگونگی کو اللہ و رسول ہی جانتے ہیں _ چنانچہ صاحب بغیۃ المفید تحریر فرماتے ہیں </div><div> "مقام الکتمیۃ الذی اخفی اللہ تعالٰی کنہ حقیقتہ عن جمیع الخلق، ولم یطلع علیہ الا سید الوجود (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) و صاحبہ المختص بہ بحکم اختیار الملک الحق، و ھو المقام الاخص الارفع الذی لیس فوقہ من مقامات العارفین و الصدیقین مقام الا ماثبت للصحابۃ الکرام الذین لیس فوقھم فی الفضیلۃ والسبق الا الانبیآء علیھم الصلوۃ و السلام "</div><div>(بغیۃ المستفید لشرح منیۃ المرید ص 241)</div><div><br></div><div>(یعنی پوشیدگی کا مقام وہ مقام ہے جس کی کنہ حقیقت (حقیقت کی گہرائ) کو اللہ تعالٰی جمیع مخلوقات سے مخفی فرما دیتا ہے _ اس مقام پر صرف سید الوجود محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کو اطلاع ہوتی ہے اور صاحب مقام کو جو اس مقام کے ساتھ مختص ہے _ اور یہ کتمیت اللہ تعالٰی کے حکم و اختیار سے ہوتی ہے اس میں بندہ کی مرضی کو دخل نہیں ہوتا ہے _ اور عارفین و صدیقین کے مقامات میں سے یہ (پوشیدگی کا) مقام نہایت ہی خاص و ارفع ہے جس کے اوپر کوئ مقام نہیں ہے سوائے (شرف صحابیت کے) جو صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے ثابت ہے جن کے اوپر فضیلت و سبقت میں انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کے علاوہ کوئ نہیں ہے _) </div><div>جب ہم حضور مدار پاک کے احوال و کمالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آپ کی ذات اقدس صفت ظاہر و باطن دونوں کی مظہر نظر آتی ہے اور یہ آپ کی علو شان اور عظمت روحانیت کی روشن دلیل ہے _ اور علو شان فہم و ادراک کے لئے حجاب ہے جب ہم محققین صوفیاء و عرفاء کے ارشادات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت وا ہوتی ہے کہ مدار پاک جب قطبیت کبری یا بلفظ دگر غوثیت عظمی پر فائز ہوتے ہیں تو معروف و مشہور ہوتے ہیں اور جب اس مقام سے ترقی فرما کر فردانیت کے مقام میں جلوہ گر ہوتے ہیں تو وہ مقام محجوبی و مستوری کا مقام ہے اس مقام میں " اولیآئ تحت قبائ لا یعرفھم غیری کے مصداق مستور و محجوب ہوتے ہیں _ اور ایسا آپ کی حیات اقدس میں متعدد بار ہونا حیرت انگیز ہے _ اس قفل کو کھولنے کے لئے عارفین کے اقوال ہی کنجی ہیں لھذا اس معمہ کو سمجھنے کے لئے اور منزل مقصود پر پہنچنے کے لئے ہم پہلے سید محمد ابن میر جعفر مکی قدس سرہ کی تحریر کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسی راہ سے آگے بڑھتے ہیں _ </div><div>سید محمد ابن میر جعفر مکی قدس سرہ قطبیت، فردیت اور محبوبیت کے مقامات پر قطب، فرد اور قطب حقیقی یعنی محبوب کے استقرار کی مدتیں بحر المعانی میں تحریر فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ </div><div>قطب المدار اپنے منصب پر کم از کم انیس سال پانچ ماہ اور دو دن رہتا ہے اور زیادہ سے زیادہ سے زیادہ تینتیس سال چار ماہ، اگر اس میعاد میں سالک کا اجل آجانا ہے تو وہ رحلت کر جاتا ہے اور اگر عمر دراز ہوتی ہے تو وہ اس مقام سے ترقی کر کے مقام فردانیت میں چلا جاتا ہے (یہ مقام قرب کا مقام ہے اور سالک اس مقام میں مستور الحال ہوتا ہے _ مقام فردانیت کی میعاد پچپن سال ہوتی ہے نہ زیادہ نہ کم _ اگر اس مدت میں سالک کا اجل آجانا ہے تو وہ دنیا سے رحلت کر جاتا ہے اور اگر عمر دراز ہوتی ہے تو سلوک میں ترقی کرکے مقام محبوبیت پر فائز ہوتا ہے یہ مقام معشوقی ہے اور قطب حقیقی و قطب وحدت اس کا نام ہوتا ہے_ اس سے اوپر کوئ مقام نہیں ہوتا اس منصب پر واصل کی میعاد تئیس سال اور دس دن ہوتی ہے</div><div>(مرآۃ الاسرار شیخ عبد الرحمن چشتی اردو ترجمہ مولانا کپتان واحد بخش سیال چشتی، مکتبہ جام نور دہلی ص 104/105)</div><div>تذکرہ نگاروں کی تصریحات کے مطابق حضور مدار پاک 282 ھ میں بعمر چالیس سال مرتبہء قطب المدار پر فائز ہوئے _ ہم اس مقام میں استقرار کی مدت زیادہ سے زیادہ تینتیس سال چار ماہ کو چالیس سے جوڑتے ہیں تو عمر شریف تہتر سال چار ماہ کی ہوجاتی ہے اور آپ کو اجل آیا نہیں تو سلوک میں ترقی کرکے فردیت میں پہنچے _ اس کی میعاد پچپن سال کو ہم تہتر سے جوڑتے ہیں تو 128 سال چار ماہ کی عمر ہوتی ہے _ اس عمر میں بھی آپ کو اجل آیا نہیں تو سلوک میں ترقی کرکے مقام محبوبیت پر پہنچے اس کی میعاد 23 سال دس دن ہے 128 میں جب ہم 23 جوڑ دیتے ہیں تو بنتے ہیں 151 سال مگر اس عمر میں بھی آپ کو اجل آیا نہیں اور یہ مقام سلوک کا نہیں بلکہ وصل کا ہے ولایت خاصہء محمدیہ میں اس سے اوپر کوئ مقام نہیں _</div><div>مدار پاک کی عمر 596 برس سے ہم 151 کم کرتے ہیں تو بچتے ہیں 445 سال _ صاحب بحر المعانی حضرت سید محمد ابن میر جعفر مکی قدس سرہ نے تو یہ تحریر نہیں فرمایا کہ واصل مقام محبوبیت مقام محبوبیت یعنی فردیت کاملہ میں 23 سال گذار لینے کے بعد کس مقام میں چلا جاتا ہے _</div><div>مگر سرکار غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کے کلام سے یہ بند دروازہ بھی کھل جاتا ہے آپ ارشاد فرماتے ہیں_</div><div>" فان اراد الحق بالعبد خیرا جعلہ دلیلھم و طبیبھم و مؤدبھم و مدربھم و ترجمانھم و سائحھم و منحقھم و سراجھم و شمسھم، فان اراد منہ ذلک کان، والا حجبہ عندہ و غیبہ عن غیرہ، آحاد افراد من ھذا الجنس یردھم الی الخلق مع الحفظ الکلی والسلامۃ الکلیۃ یوفقھم لمصالح الخلق و ھدایتھم "</div><div>یعنی جب حق تعالی کسی بندہ کے ساتھ بھلائ کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو لوگوں کا راہبر، ان کا طبیب، ان کا ادب سکھا نے والا، انکو مہذب بنا نے والا، ان کا ترجمان، ان کو ترانے والا، ان کا میل کچپل کھرچنے والا، ان کا چراغ، اور ان کا آفتاب بنا دیتا ہے ۔ پس اگر بندہ سے یہ (ارشاد و تربیت کا) کام لینا چاہتا ہے تو ایسا ہوتا ہے ورنہ اسکو اپنے پاس چھپا لیتا اور اپنے اغیار سے غائب کر لیتا ہے( کہ کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں چلتا) اس نوع کے افراد میں سے کسی کسی کو پوری حفاظت اور کامل سلامتی کے ساتھ مخلوق کی طرف لوٹا دیتا ہے اور انکو توفیق بخشتا ہے لوگوں کی مصلحتوں اور ان کو ہدایت کرنے کی </div><div>(فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی مجلس 5 ص 49 اعتقاد پبلشنگ ہاؤس دھلی)</div><div> قطب الارشاد جو کمالات فردیہ کا بھی جامع ہوتا ہے بہت عزیز الوجود اور نایاب ہے اور بہت سے قرنوں اور بے شمار زمانوں کے بعد اس قسم کا گوہر ظہور میں آتا ہے اور عالم تاریک اس کے نور ظہور سے نورانی ہوتا ہے اور اس کی ہدایت و ارشاد کا نور محیط عرش سے لیکر مرکز فرش تک تمام جہان کو شامل ہوتا ہے اور اس کے وسیلہ کے بغیر کوئی شخص اس دولت کو نہیں پا سکتا مثلا اس کی ہدایت کے نور نے دریائے محیط کی طرح تمام جہان کو گھیرا ہوا ہے اور وہ دریا گویا منجمد ہے اور ہر گز حرکت نہیں کرتا اور وہ شخص جو اس بزرگ کی طرف متوجہ ہے اور اس کے ساتھ اخلاص رکھتا ہے یا یہ کہ وہ بزرگ طالب کے حال کی طرف متوجہ ہے تو توجہ کے وقت گویا طالب کے دل میں ایک روزن کھل جاتا ہے اور اس راہ سے توجہ و اخلاص کے موافق اس دریا سے سیراب ہوتا ہے ایسے ہی وہ شخص جو ذکر الہیٰ کی طرف متوجہ ہے اور اس عزیز کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہے انکار سے نہیں بلکہ اس کو پہچانتا نہیں ہے اس کو بھی یہ افادہ حاصل ہو جاتا ہے لیکن پہلی صورت میں دوسری صورت کی نسبت افادہ بہتر اور بڑھ کر ہے لیکن وہ شخص جو اس بزرگ کا منکر ہے یا وہ بزرگ اس سے آزردہ ہے اگر چہ وہ ذکر الٰہی میں مشغول ہے لیکن وہ رشد و ہدایت کی حقیقت سے محروم ہے یہی انکار و آزار اس کے فیض کا مانع ہوتا ہے بغیر اس امر کے کہ وہ بزرگ اس کے عدم افادہ کی طرف متوجہ ہو یا اس کے ضرر کا قصد کرے کیونکہ ہدایت کی حقیقت اس سے مفقود ہے وہ صرف مرشد کی صورت ہے اور صورت بے معنی کچھ فائدہ نہیں دیتی اور وہ لوگ جو اس عزیز کے ساتھ محبت و اخلاص رکھتے ہیں اگرچہ توجہ مذکورہ اور ذکر الٰہی سے خالی ہوں لیکن فقط محبت ہی کے باعث رشد و ہدایت کا نور ان کو پہنچ جاتا ہے_</div><div>علامہ ابن حجر ہیتمی الشافعی تحریر فرماتے ہیں - </div><div>" القطب ھو الغوث الفرد الجامع جعلہ اللہ تعالٰی دائرا فی الآفاق الاربعۃ من ارکان الدنیآء کدوران الفلک فی افق السمآء و قد ستر اللہ احوالہ عن الخاصۃ و العامۃغیرۃ من الحق غیر انہ یری عالما کجاھل ابلہ کفطن تارکا آخذا قریباً بعیدا سھلا عسرا آمنا حذرا _ و مکانتۃ من الاولیآء کالنقطۃ من الدائرۃ اللتی ھی مرکزھا_ بہ یقع صلاح العالم "</div><div>(الفتاوی الحدیثیۃ ص 322)</div><div><br></div><div>(یعنی قطب المدار جو غوث و فرد ہے اور مقامات کا جامع ہے اللّٰہ تعالٰی اسے دنیا کے چاروں گوشوں میں گشت کراتا ہے جیسے آسمان کے افق میں فلک اور ستارے گردش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی غیرت داری میں اس کے احوال کو خواص و عام سے پوشیدہ رکھتا ہے۔ وہ عالم ہونے کے باوجود نا خواندہ لگتا ہے ذہین ہوتے ہوئے بھی کم فہم معلوم پڑتا ہے دنیا سے بے نیاز ہوکر بھی دنیا کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے خدائے تعالٰی سے قریب تر ہوتے ہوئے بھی کجھ دور سا لگتا ہے درد مند ہوتے ہوئے بھی تںگدل جان پڑتا ہے بے خوف ہونے کے باوجود سہما سہما سا محسوس ہوتا ہے</div><div>اولیآء اللہ میں اس کا مقام ایسا ہے جیسے دائرہ کے مرکز نقطہ کا _ اسی پر عالم کی درستگی کا دار و مدار ہے) </div><div>مدار پاک کی سوانح کا مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں ہے کہ اس بزرگ جامع قطبیت و غوثیت و فردیت کے اوصاف و کمالات کا مظہر آپ ہیں _ میرے اس دعوے کی تائید شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی قول سے بھی ہوتی ہے _ انہوں نے مدار پاک کے اوصاف میں تحریر فرمایا </div><div>" بعضے اوضاع ایشاں بر خلاف ظاہر شریعت بود " (اخبار الاخیار) </div><div>(شیخ بدیع الدین مدار کے بعض طریقے شریعت ظاہر کے خلاف تھے) </div><div>بات بالکل واضح ہو گئی کہ حضور مدار العالمین وہ قطب ہیں جو کمالات فردیہ کے بھی جامع ہیں یہی وجہ ہے کہ جب کبھی آپ قطبیت کی طرف نزول فرماتے ہیں تو کمالات قطبیت و غوثیت کا آپ سے ظہور ہوتا ہے اور آپ کی معرفت و شہرت ہوتی ہے اور جب مقام فردیت کی طرف عروج فرماتے ہیں تو اولیآئ تحت قبائ لا یعرفھم غیری کا مصداق بن کر علماء و عارفین کے بھی درک و معرفت سے باہر ہوجاتے ہیں_ یہی بنا ہے کہ بعض اولیآء کرام آپ کی عظمت و رفعت سے نا آشنا رہتے ہوئے آپ سے مناظرہ و مباحثہ اور مخالفت پر آمادہ ہوجاتے تھے _</div><div>اب آخر میں خود حضور مدار العالمین کی تحریر نقل کرنے کا شرف حاصل کر رہا ہوں تاکہ بات بخوبی واضح ہو جائے کہ حضور بدیع الدین مدار پاک کی شان ہی اتنی عظیم ہے کہ خدائے پاک نے انہیں اپنے قرب کی چادر میں ڈھانک کر مستور و محجوب کر لیا ہے اور جب وہی چاہتا ہے تو کسی کو اپنے اس محبوب کے درک و عرفان کی دولت عطا فرماتا ہے _ تو لیجئے ملاحظہ فرمائیں _ مدار پاک فرماتے ہیں </div><div>ائے برادر! عوام را..... دانستن اسرار خواص الوہیت از بس مشکل است_ بداں کہ گوشہ نشینان خانقاہ عدم مردانند و بر مرکب نفخت فیہ من روحی شہسوار اند کہ بندگاں را در اسرار شاہاں آں جا راہ نیست از بس کہ در مقام قرب اند و از سایہء حدوث خویش دور اند جبرائیل علیہ السلام را برکاب داری نمی گیرند و میکائیل را بغاشیہ برداری نمی پذیرند بیک تگ از ہر دو عالم بیروں شدہ اند و بصحرائے الوہیت بعالم لا مکاں کہ نا محدود و نا متناہی است جولانگری می نمایند و "لیس عند اللہ صباحا و لا مساء" مقام دارند بعلم "یمحو اللہ ما یشآء و یثبت" محو در محو اند، بے نام و بے نشاں، از جملہ خلائق دور اند_ حق تعالٰی از غیرتے کہ دریں قوم است از مردماں محفوظ و مستور می دارد مگر آنکہ اورا می خواہد " لہ مقالید السموات و الارض مر او را است ایں درویش در بستہ بر وے می کشاید و مامور بامر اللہ تعالٰی واللہ غالب علی امرہ پیش می آید و خویشتن را بکسوت بشریت بدو می نماید کہ بداں امر است (مکتوب شریف حضور مدار العالمین بنام ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی) </div><div>(یعنی ائے برادر! بارگاہ الوہیت کے خواص حضرات کے اسرار کا علم عام لوگوں کے لئے بہت مشکل ہے_ جان لو کہ وہ حضرات خانقاہ عدم کے گوشہ نشین اور "نفخت فیہ من روحی " کے میدان کے شہسوار ہیں غلاموں کو بادشاہوں کے اسرار تک رسائی کی کوئی راہ نہیں ہے اس لئے کہ وہ ایسے مقام قرب الہی میں ہیں کہ وہ اپنے حدوث کے سایہ سے بھی دور ہیں_ وہ جناب جبرئیل علیہ السلام کو بھی اپنی رکاب داری میں نہیں لیتے اور نہ جناب میکائیل کو اپنی غاشیہ برداری میں قبول کرتے ہیں وہ ایک قدم میں دونوں عالم کو عبور کر لیتے ہیں اور صحرائے الوہیت سے عالم لا مکانی میں جو لا محدود و نا متناہی ہے آتے جاتے رہتے ہیں، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنا شب و روز گزارتے ہیں حال یہ ہے کہ بارگاہ رب العزت میں صبح و شام کی قید نہیں ہے _ اور " یمحو اللہ ما یشآء و یثبت" کے علم میں مستغرق ہو کر محو در محو ہو کر بے نام و نشان ہوجاتے ہیں_ وہ جملہ خلائق سے دور ہیں حق تعالٰی کی اس قوم سے ایسی غیرت ہے کہ اپنی غیرت داری میں لوگوں سے انہیں محفوظ و مستور رکھتا ہے_ " لہ مقالید السموات و الارض" کا مزدہ انہیں کو زیب ہے _ یہ فقیر اس بند دروازے کو اس کے لئے کھولتا ہے جس کے لئے اللہ تعالٰی کا حکم ہوتا ہے اور اللہ تعالٰی اپنے امر پر غالب ہے یہ بات سامنے رہتی ہے اور خود کو جامہء بشریت میں اس لئے دکھاتا ہے کہ اسی کا حکم ہے) </div><div><br></div><div> مدار پاک کے سلاسل طریقت میں سے ایک سلسلہ قلندریہ بھی ہے</div><div>جو سلطان العارفین حضرت خواجہ بایزید بسطامی عرف طیفور شامی سے عین الدین شامی، یمین الدین شامی، عبد العزیز مکی عرف عبداللہ علمبردار کے توسط سے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہم سے ملتا ہے _ دوسرے سلاسل و مشارب طریقت کی طرح اس سلسلہ اور مشرب کا اثر بھی آپ کی ذات و صفات اور آپ سے منسلک حضرات پر پڑنا ہی چاہئے تھا تو پڑا _ مدار پاک اور سلسلہء مداریہ کے بزرگوں پر تحقیق کرتے وقت محققین کے لئے لازم ہے کہ ان کی نسبتوں اور مشرب کو بھی مد نظر رکھیں _ </div><div>سلسلہء قلندریہ کیا ہے ؟ اور اس کامشرب کیا ہے ؟ اسے جاننے کے لئے آیئے ایک طائرانہ نظر مشرب قلندریہ پر بھی ڈال لیتے ہیں تاکہ سمجھ میں آئے کہ مدار پاک پر یا سلسلہء مداریہ کے بزرگوں کے حالات پر تحقیق مشکل کیوں؟ </div><div>سلسلہء قلندریہ کیا ہے ؟ </div><div>وجود و شہود کی گہرائیوں میں غرق، اخفا و کتمان کا شائق، مخلوق سے علیحدگی میں گرم، سلسلہء قلندریہ ہے </div><div>اس سلسلہ کے سر گروہ مکہ معظمہ کے ایک گمنام و مستور الحال بزرگ حضرت عبدالعزیز مکی عبداللہ علمبردار تھے۔ اہل طریقت کے مطابق ان کو حضرت رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا اور اپنی خدمت و اطاعت سے قلندر کے معزز لقب سے سرفراز ہوئے</div><div>بعض اہل طریقت کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شیخ عبدالعزیز مکی کو علم برادری کا بھی منصب عطا ہوا تھا آپ کے استغراق کا یہ عالم تھا کہ تیس سال سکر و بیہوشی میں گزر گئے شہنشاہ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے وفات پائی خلفاء راشدین کا زمانہ آیا لیکن بادۂ وحدت کے مست کو ہوش نہ آیا وہ اپنے حال میں مست و سرشار رہا اور دنیا و مافیھا سے بے خبر اور بے نیاز ہی رہا۔ جنگ صفین کا زمانہ آیا اور مولائے کائنات حضرت امیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا لشکر ادھر سے گزرا فوج پر ظفر کی آواز کانوں سے ٹکرائی مستی و سرشاری سے چونکے اور جناب امیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر دوبارہ بیعت سے سرفراز ہوئے صد ہا سال کی عمر پائی لیکن جذب و سرمستی اور دائمی سرشاری اور سرمستی خمیر سے نہ گئی۔ آخر کار غیبی اشارے سے سیر و سیاحت کرتے ہوئے ملک ہند آئے اور پاک بٹن کے مقام پر ایک سردابہ میں داخل ہوکر ہمیشہ کیلئے یاد حق میں غرق ہو گئے۔</div><div>چونکہ حضرت شیخ عبدالعزیز رضی اللّٰہ تعلیٰ عنہ کو دربار رسالت سے قلندر کا بلند پا یہ خطاب ملا تھا۔ اسی کی کار فرمائی تھی کہ اسماء الرجال کی کتابوں میں کہیں ان کا نام نہیں ملتا۔ حضرات صحابہء کرام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم کی طویل فہرست میں کہیں پتہ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ علماء ظاہر کو ان کے وجود ہی سے انکار ہے۔ آپ کے ایک شاگرد رشید اور مرید خاص حضرت خضر رومی کھپراہاروی تھے جن کی ساری عمر تجرد، گمنانی اور گوشہ نشینی اور ریاضت شاقہ میں گزری۔ انہوں نے بھی اپنے پیر و مرشد کی طرح سینکڑوں سال کی عمر پائی۔ اس سلسلہ کے بزرگوں کی عمریں طویل ہوتی ہیں۔ انکی خود فراموشی اور نسبت حبی کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک مراقبہ میں چھ چھ ماہ گزر جاتے۔ گمنامی کے اس حدتک شائق کہ ولادت و وفات تو در کنار کسی کو آپ کے مزار مبارک تک کا علم نہ ہو سکا۔</div><div>آپ کے خلیفہ حضرت سید نجم الدین غوث الدہر قلندر نے ملک عرب کی سیاحت کر کے مالوہ اور وسط ہند میں قلندری کا ڈنکا بجایا۔ اس وقت کے بادشاہوں کا جلال آپکی نظر کرم کا رہین منت ہے۔ لیکن خول قلندری اپنی جگہ اسی آن بان اور شان سے اسی طرح جلوہ گر تھی کہ مزار مبارک کا صحیح نشان بھی نہیں ملتا۔ مؤرخین اور تذکرہ نگاروں کا بیان ہے کہ مانڈو کے قریب نعلچہ کے تالاب کے کنارے آپکی تربت تھی۔ غیاث الدین خلجی نے اس پر گنبد تعمیر کرایا۔ سلطان محمود شاہ نے اس کے چاروں سمت محلات اور باغات نصب کرائے نسبت قلندری کا ظہور ہوا محلات ویران ہوئے باغات خشک ہو گئے۔ اسی درمیان میں خطہء اودھ کے ایک عقیدت مند سیاح نے بہ ہزار تلاش و کوشش ایک تربت کا سراغ لگایا جسکی بابت یہ گمان ہوا کہ سید نجم الدین غوث الدہر قلندر کا آستانہ مبارک ہے اس بیچارے مسافر نے ریاست دھار کے ایک اعلی افسر کے ذریعے مزار کے کنارے پتھر نصب کرانا چاہا تو وہ افسر معزول ہوا اور لوح مزار گم ہو گئی۔</div><div><br></div><div>کیا خوب فرمایا ہے ایک عارف کامل نے </div><div>قلندر بے زمان و بے مکان است</div><div>قلندر را نشان بے نشان است</div><div><br></div><div>*شمالی ہند کے قلندری فقرا کا سر سری جائزہ*</div><div>شمالی ہند کے مغربی حصہ میں حضرت شاہ بو علی قلندر پانی پتی نے اور وسط میں قطب الدین بینائے دل قلندر سرانداز غوثی جونپوری نے قلندری جاہ و جلال کا جلوہ اور تماشہ دکھایا یہ تاریخی حقیقت ہے کے شاہان شرقی جونپور ان کے ادنٰی اشاروں پر سر تسلیم خم کرتے تھے ۔ مگر خمول و گمنامی مرشدین عظام کا مسلک اور مشرب جو تھا اس کا اثر کہاں چلا جاتا؟ حضرت بو علی قلندر کا نام کس کو معلوم نہیں۔ لیکن یہ مسئلہ آج تک حل نہ ہو سکا کہ آپ کا مدفن پانی پت ہے یا کرنال؟ اور یہی حال بالکل حضرت قطب الدین بینائے دل قلندر جونپوری کا ہے کہ چھ سو سال سے یہ مسئلہ نہ حل ہو سکا کہ آپ کا مزار جیل کے اندر ہے یا باہر؟ </div><div> الغرض، پوشیدگی و خود فراموشی اس سلسلہ کے مشرب میں ہے ۔ اور حضور مدار العالمین ، کو بایزید بسطامی کے توسط سے عین الدین شامی، یمین الدین شامی اور عبد العزیز مکی عبداللہ علمبردار کی نسبت بھی حاصل ہے تو اس نسبت کی وجہ سے بھی آپ اور آپ کے سلسلہ کے خلفاء کا مشرب بھی خمول و گمنامی اور مستور الحالی ہے جس کی وجہ سے مکمل حالات معلوم و مشہور نہیں ہو پاتے _ </div><div>یہی سب باتیں ہیں جنکی وجہ سے مدار پاک کے سن ولادت اور نسب شریف سے لیکر دوسرے معاملات میں بھی کثیر اختلافات ہیں اور یہ اختلافات در اصل ایک غلاف ہیں _ جو ان کی شخصیت و حقیقت کو چھپائے ہوئے ہیں _ اس کو بھی امر اتفاقی کہئے یا پھر امر ربی ہی سمجھئے کہ آپ کا نسبی تعلق بھی اس خاندان سے ہے جو حکومت عباسیہ کے ظلم و ستم اور خوارج کے فتنوں کی وجہ سے مستور و مکتوم رہا، آپ کے نسب شریف میں ایک جد بزرگوار ہیں سید محمد (مکتوم) ابن سید اسماعیل اعرج ابن امام جعفر صادق رضی اللہ عنہم کتمان و رو پوشی کی وجہ سے ان کا لقب ہی "مکتوم " ہو گیا، ان کی نسل سے سید قدوۃ الدین علی (مدار پاک کے والد محترم) خوارج کے فتوں کی وجہ سے مدینہء طیبہ سے ترک سکونت کرکے مضافات حلب میں اقامت پذیر ہوئے - غرض اسباب جو کچھ بنیں مگر حق یہ ہے کہ حق تعالٰی اپنے بندگان اخص الخواص کو اپنی غیرت داری میں لوگوں سے چھپاتا ہے</div><div>مدار پاک تیسری صدی ہجری میں ملک شام کے حلب میں پیدا ہوئے اور قدیم عربی مصادر آپ کے تذکرہ سے خالی ہیں اس کے باطنی اسباب کے علاوہ ظاہری اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شخصیات کے تذکرے عموماً بعد وصال لکھے جاتے ہیں اور آپ کی ولادت 242 ھ میں ہوئ جبکہ وصال شریف 838 ھ میں بعمر 596 سال ہوا </div><div>دوسرا سبب آپ کے دعوتی و تبلیغی اسفار بھی ہیں 17 سال کی عمر شریف تک درس و تدریس میں گذری _ پھر 259 ھ میں بقصد حج و زیارت راہئ حرمین شریفین ہوئے _ وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کے حکم باطنی پر دنیا میں دعوت و تبلیغ کے لئے سیر و سیاحت اختیار کی یہ سفر ایک ایسا سفر تھا جس میں نہ تو کوئ منزل متعین تھی اور نہ ہی کوئ راستہ مقرر، کم و بیش 23 برس حجاز، عراق، ایران وغیرہ کی سیر و سیاحت فرمائ وہ بھی اس طرح کہ کسی مقام پر مہینہ دو مہینہ سے زیادہ قیام پذیر نہ ہوتے اس سے قبل ہی کہ کہیں کے لوگ اچھی طرح آشنا ہوپاتے وہاں سے کوچ کر جاتے اور دوسری جگہ اقامت کرتے _ </div><div>282 ھ میں وارد ہندوستان ہوئے اور یہاں کے جاہلوں، کافروں میں چل پھر کر دعوت و تبلیغ و ترویج اسلام کی خدمت انجام دیتے رہے، آبادیوں سے دور جنگلوں اور پہاڑوں میں قیام پذیر ہوکر یاد حق میں مشغول رہتے _ بھارت کی سر زمین پر 1442 مقامات پر آپ کی چلہ گاہیں، انگنت گدیاں اور بے شمار تکئے آج بھی آپ کی دعوت و تبلیغ اسلام اور ترویج دین متین کی کہانیاں اہل فہم و بصیرت کو سناتے ہوئے نظر آتے ہیں اور زبان حال سے کہتے ہیں کہ مدار پاک اہل اسلام و اہل علم کے درمیان رہ کر عبادت و ریاضت اور رشد و ہدایت وغیرہ کا فریضہ انجام نہیں دے رہے تھے جو اہل علم و قلم ان کے حالات و کمالات لکھتے بلکہ جاہلوں، گنواروں، کافروں میں دعوت و تبلیغ اور ترویج دین کا مشن چلا رہے تھے _ ان لوگوں کے بیچ یہ کام کر رہے تھے جو لوگ آپ کے لئے اجنبی تھے اور آپ ان کے لئے اجنبی جو لوگ خود اپنے راجے مہاراجے اور رشیوں، منیوں کی تاریخ محفوظ نہ کرسکے وہ بھلا مدار پاک کے حالات کیا لکھتے</div><div><br></div><div> حضرت علامہ، مولانا مفتی ہاشم علی بدیعی مصباحی ایک نکتہ داں , محقق , مفکر , مدبر, ,سنجیدہ طبیعت, متحرک اور فعال شخصیت کا نام ہے جس نے اتنی کم عمر میں تحقیق و تاریخ کے گہرے سمندرمیں غواصی کرکے نہ صرف دامن طلب میں گوہر مراد بھرلئے ہیں بلکہ کمال یہ ہے کہ انہوں نے سمندر کو ہی کوزے </div><div>میں بھر دیا یہی وجہ ہے کہ </div><div>*تذکرہء مشائخ مداریہ*</div><div>عام تصنیفات کی طرح نہیں نہیں ہے بلکہ اپنی نوعیت کی ایک تحقیقی طرز تحریر کا مرقع ہے جسے پڑھ کر آپ اس جواں دل مصنف کے جنون عشق کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں </div><div>کہ</div><div>یہ بے مثل لعل نہ تو شاہوں کے خزانوں میں ہے نہ فقیر کی گدڑی میں </div><div>بلکہ قطب مدار کی نگہ التفات کا انتخاب ہے جس نے انہیں اپنی قصیدہ نویسی و مدحت سرائ کیلئے منتخب کرلیا </div><div><br></div><div>اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ علامہ موصوف کو ہمیشہ اپنے فضل وکرم کی چادر کاسایہ میں رکھے صحت وتبدرستی کے ساتھ عمر خضری عطافرمائے نیز علم میں، عمل میں شہرت میں فضل میں شرف میں کرم میں برکتیں عطافرماکر مقبول.انام بنائے اور کتاب تذکرہء مشائخ مداریہ کو شہرت و قبولیت عام عطافرماکر اپنی بارگاہ میں مقبول فرمائے </div><div>آمین</div><div>سید منور علی حسینی جعفری مداری</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-4827106283260369372022-12-01T05:18:00.001-08:002022-12-01T05:18:53.832-08:00خادمان گروہ اور اسکا مطلب،<div>از قلم مفتی ابو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری </div><div><br></div><div>*گروہ خادمان*</div><div><br></div><div>گروہ خادمان حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاری ہے۔</div><div>آپ کے ساتھ آپ کے دو بھائی خواجہ سید ابو الحسن طیفور و خواجہ سید ابوتراب فنصور رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی گروہ خادمان کا اجراء ہوا ہے بغض کتابوں میں خادمان طیفوری،اور خادمان فنصوری کا ذکر ہوا ہے۔</div><div>ان تینوں بزرگوں کا حسب و نسب حضور بدیع الزماں سیدنا سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سگے بھائی سید محمود الدین سے ملتا ہے۔</div><div>ان ہرسہ خواجگان سے خادمان کے درج ذیل گروہ جاری ہوئے ہیں۔</div><div>خادمان ارغونی خادمان طیفوری خادمان فنصوری، اور خادمان ارغونی سے نقدارغونی، ابولفائضی، محمودی، سرموری، سلوتری ،غلام علوی، اَبَّنِی اور سکندری گروہ کا اجراء ہوا ہے۔</div><div><br></div><div>*خادمان کا مطلب کیا ہے*</div><div><br></div><div> خادمان کا مطلب درگاہ و مزار کے خادم و خدمت گزار نہیں ہے،جیسا کہ جہلاء سمجھتے ہیں</div><div> بلکہ خادمان اولیاء اللّٰہ کی وہ عظیم الشان جماعت ہے جو مقام ،، *مَاخَدَمنَاکَ حقًَ خِدمَتِکَ* کے وارث ہیں *مَا عَبَد نَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ* کے عابد ہیں اور *مقام مَاعَرَفنَاکَ حَقّ مَعرِفَتَکَ* کے عارف ہیں۔</div><div>یہ سلوک و طریقت میں ایک مقام ہے اور یہ تینوں عبارتیں حدیث نبوی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں۔</div><div>اول کا مطلب ہے اے اللّٰہ ہم نے تیری ویسی خدمت نہیں کی جیسی تیری خدمت کا حق ہے ۔ دوسری عبارت کا مطلب ہے اے اللّٰہ ہم نے تیری اسطرح عبادت نہیں کی جیسی تیری عبادت ہونی چاہئے</div><div>اور تیسری عبارت کا مطلب ہے اے اللّٰہ! ہم نے تجھےاس طرح نہیں پہچانا جس طرح تیری معرفت کا حق ہے۔</div><div>اہل عرفان کی یہ جماعت *مَن رَأٰنِی فَقَد رَأَی الحَقَّ* "جس نے مجھے دیکھا بلاشبہ اس نےحق کو دیکھا" کے رمز کو جاننے والی ہے۔ یہ لوگ خانقاہ اُلُوہیت میں باریاب ہیں اور بارگاہ اَحَدِیَت کے مقربین ہیں شریعت و طریقت کے مسلکوں اور معرفت و حقیقت کے راستوں کے رہبر ہیں۔ یہ حضرات روز بروز ان مقامات و مناصب پر ترقی پا کر انتہائے مدارج و مراتب کو پنہچے ہوئے ہیں۔ یہ ہستیاں بارگاہ احدیت میں اتنی عالی مرتبہ والی ہیں اتنا قرب خصوصی رکھتی ہیں کہ *من خَدَمَ خُدِمَ* انہیں پر صادق آتا ہے۔</div><div> در حقیقت انہیں کے لئے کہا گیا ہے،</div><div>*ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد*</div><div>*ہر کہ خود را دید او محروم شد*</div><div>*جس نے خدمت کی وہی مخدوم ہے خود نمائی جس نے کی وہ محروم ہے*</div><div><br></div><div>کتنی اچھی خدمت ہے جس کا ثمرہ مخدومی ہے۔ تذکرۃ المتقین میں ہے</div><div>ان خادمان حقیقی کے بارے میں شاہ عبدالحق مداری قدس سرہ نے اپنے رسالہ پنجم میں نقل فرمایا ہے کہ شاہ حسین مداری نے شاہ عبدالرشید طالبان المداری کو ایک مکتوب لکھا جس میں پوچھا گیا کہ حضور اصطلاح تصوف میں خادمان کن لوگوں کو کہتے ہیں۔ آپ نے اس کے جواب میں یہ تحریر فرمایا کہ میرے بھائی خادمان اولیاء اللّٰہ کا ایک گروہ ہے جن کا ظاہر حال او امر الٰہیہ متصف ہے اور منہیات شرعیہ سے پاک و مبرّا ہے، اور رعایت شریعت سے آراستہ ہے، اور ان کا باطن اللّٰہ و رسول کی محبت سے مزیّن و پیراستہ ہے۔ ورثہ عبدیت سے ان کو پورا حصہ ملا ہے جو الفاظ خادمان کا منشا بھی ہے۔</div><div>کامل طور خدمت الہیٰ بجالا نے کے سبب تقرب احدیت کی خصوصیت سے یہ لوگ سرفراز ہیں،</div><div> اور شریعت محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی و اطاعت گزاری میں کمال خدمت و اطاعت کی وجہ سے اور اپنے شیخ طریقت کی شفقت کی بنا پر مقام قرب اقرب پر سرفرازی حاصل کرتے ہیں اس لئے انہیں خادمان کہا جاتا ہے۔</div><div> *قطب زمن حضرت خواجہ سید محمد ارغون قدس سرہ*</div><div><br></div><div>مقتدائے اولیاء شاہ باز اتقیاء آسمان ولایت و کرامت، میدان سخاوت و قناعت، ھادئی راہ شریعت، جامع طریقت، معلم رموز حکمت، واقف اسرار حقیقت، غواص بحر معرفت، قدوۃ العارفین عمدۃ الکاملین رہبر دین، قبلہ اہل یقین، حضرت خواجہ سید ابو محمد محمد ارغون قدس سرہ خلیفہ و جانشین حضرت قطب المدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں خاندان عالیہ مداریہ کے سر گروہ اور جامع کمالات صوری و معنوی بزرگ ہیں ۔ آپ کے دو برادر حضرت خواجہ سید ابوالحسن طیفور و حضرت خواجہ سید ابو تراب فنصور قدست اسرارھم بھی حضور مدار پاک کے معزز خلیفہ اور سر گروہ خادمان اور</div><div>جانشین قطب المدار ہوئے ہیں ۔ آپ تینوں شہزادگان کو حضور مدار پاک اپنے ساتھ ارض مقدس ہندوستان لے کر آۓ</div><div>آپ کے خوارق کرامات و محاسن و کمالات کو بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہے۔ </div><div>اس سر چشمئہ فیص و ارشاد سے ایک عالم سیراب ہوا۔ </div><div>آپ قطب الافراد قطب وحدت حضور سیدنا سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے برادازادے ، فرزند معنوی، خلیفہ اور سجادہ نشین ہیں۔</div><div>*حضرت ابو محمد محمد ارغون قدس سرہ* </div><div>آپ کا اسم گرام </div><div>*محمد ہے۔اور کنیت ابو محمد ہے اور خوش آوازی کی بناء پر لقب ارغون رکھا گیا جو اب اسم با مسمَیٰ کی طرح ہو گیا۔*</div><div>آپ کا مولد قصبہ چنار شہر حلب ملک شام ہے۔ ۔۔۔ آپ سید السادات ہیں </div><div><br></div><div>*آپ کا نسب نامہ*</div><div>السید عبد اللّٰہ بن سید کبیر الدین بن وحید الدین بن سید یٰسین بن سید محمد بن سید داؤد بن سید محمد بن سید ابراہیم بن سید محمد بن سید اسمٰعیل بن سید محمد بن سید اسحاق بن سید عبدالرزاق بن سید نظام الدین بن سید ابوسعید بن سید محمد بن سید جعفر بن سید محمود الدین *برادر حضرت سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ* بن سید علی بن سید بہا الدین بن سید ظہیر الدین احمد بن سید اسمٰعیل ثانی بن سید محمد بن سید اسمٰعیل بن سید امام جعفر صادق بن سید امام محمد باقر بن سید علی زین العابدین بن سید امام حسین بن سید مولا علی رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین۔ ہے</div><div><br></div><div>*ولادت سریف* یوم جمعہ بوقت فجر یکم ربیع الاول 783ھجری ہے</div><div>*تعلیم و تربیت* جد بزرگوار نے تعلیم وتربیت فرمائی</div><div> آپ کے جد مکرم حضرت علامہ خواجہ سید ابراہیم قدس سرہ نے مدرسہ ابرھیمیہ بیروت میں جاری فرمایا تھا۔ وہ اپنے زمانے کے معتبر عالم و صاحب کمال بزرگ اور خانقاہ مداریہ بیروت کے گدی نشین تھے۔</div><div>*آمد ہندوستان* آٹھویں صدی ہجری کے آخر میں حضور سیدنا سید بدیع الدین احمد قطب المدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بغرض حج ہندوستان سے حجاز روانہ ہوئے۔ مکہ المکرمہ پہنچے حج و زیارت سے فارغ ہو کر آپ </div><div>نے ملک شام کا قصد فرمایا</div><div><br></div><div> قصبہ چنار شہر حلب پہنچے </div><div>تو حضرت سید محمد ارغون نے اپنے والد محترم حضرت سید عبد اللّٰہ سے شوق دیدار کا اظہار کیا۔۔حضور سیدی قطب المدار کی نگاہ ا لتفات آپ کی طرف ہوئی تو آپ کی پیشانی پر انوار سعادت دیکھ کر ہر سہ برادران خواجگان کو اپنی صحبت میں قبول فرمایا۔ اور ان پر نوازشات فرمائی۔ اور انہیں تقرب خاص سے نوازا۔ اور اپنے ساتھ رکھنا پسند فرمایا۔</div><div>جب حضور شاہ والا عازم ہندوستان ہوئےتو اپنے ساتھ انہیں ہندوستان لاۓ۔ تذکرۃ المتقین اور ملفوظات شاہ مینا و دیگر کتب سیر میں ہے کہ</div><div>۔ مختلف مقامات پر تبلیغ و اشاعت دین متین فرماتے ہوئے لکھنؤ جلوہ افروز ہوئے۔</div><div>مخلوق خدا کو مستفیض فرمایا اسی دوران حضرت مخدوم شاہ مینا قدس سرہ العزیز کی ولادت ہوئی۔ آپ نے ان کی ولادت اور ولایت کو ظاہر فرمایا ۔</div><div>مختلف مقامات کا دورہ فرماتے ہوئے جونپور تشریف لائے کچھ عرصہ قیام کے بعد پھر لکھنؤ آئے لکھنؤ میں حضور شہاب الدین پر کالہ آتش کی معرفت سے مخدوم شاہ مینا کو اپنی جاءۓنماز تبرکاً عنایت فرمائی اور انکی قطبیت کا اعلان فرمایا 818 ھجری میں مکن پور شریف وارد ہوئے جو اس وقت غیر آباد تھا۔ اور رسول کریم کی بشارت کے مطابق یہیں طرح اقامت ڈال دی اور اسے خیرآباد بنایا ۔وقت گزرنے کے ساتھ علاقے میں شہرت پھیلی، لوگوں کی آمد رفت شروع ہوئی اور بالاٰخر مکن پور شریف معرض وجود میں آکر مرجع خلائق بنا </div><div> *نکاح* ایک دن حضور زندہ شاہ مدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خلفاء و مریدین کی مجلس میں ارشاد فرمایا کہ میں نے محمد ارغون کے نکاح اور انہیں اس زمین پر مستقلا آباد کرنے کا فیصلہ لے لیا ہے کیونکہ اسی میں رب تبارک تعالیٰ کی مرضی ہے۔</div><div>تذکرۃًکسی نے یہ بات حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغون کو بتائی تو آپ نے انکار فرمایا ،مگر سرکار مدارالعالم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے انہیں طلب کیا اور ارشاد فرمایا اے فرزند تمہارا اور تمہارے بھائیوں کا نکاح ہونا مشیت ایزدی ہے اور تم سے اجراۓنسل ہونا ہے۔ اس لئے انکار نہ کرنا چاہئے ۔حضور والا کا حکم سن کر آپ خاموش ہو گئے حضرت خواجہ سید جمال الدین جان من جنتی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ قصبہ جتھرا مضافات کالپی میں جناب سید احمد خاندان فاطمی کے ایک ممتاز شخص ہیں ان کی صاحبزادی جنت النساء کیلئے پیغام پہنچایا جائے۔ غرض کہ پیغام پہنچایا گیا تو حضرت احمد جتھراوی نے اسے بسر و چشم قبول کر لیا اور یکم ربیع الاول سنہ 824ھ۔ میں آپ کا نکاح ہو گیا۔</div><div>بعد میں آپ کے دونوں چھوٹے بھائی حضرت خواجہ سید ابو تراب فنصور و حضرت خواجہ سید ابو الحسن طیفور رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما کے نکاح بھی پاس کے مواضع میں ہوئے۔</div><div>*خلافت و جانشینی*</div><div> آپ کو بیعت و خلافت کا شرف تو حضور قطب مدار قدس سرہ سے حاصل ہی تھا شیخ مرشد کی نگاہ انتخاب نے اپنا جانشین بھی آپ ہی کو مقرر فرمایا چنانچہ تذکرۃ المتقین میں ہے</div><div> کہ "حضور مدار پاک نے ایک دن اپنے قریب بلایا اور ارشاد فرمایا اے فرزند! ولایت دو قسم کی ہوتی ہے ایک صلبی اور دوسری روحانی. صلبی تو ماں باپ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا تعلق عالم خلق سے ہے جو کوئی آتا ہے اس لباس ظاہری کو پہنے ہوئے آتا ہے۔ ایک دن اسکو ترک کرنا بھی ہوگا۔اور روحانی ولایت مربی روح سے متعلق ہوتی ہے۔ اس کا تعلق عالم امر سے ہے جو میرا اور تمہارا تعلق ہے یہ قیامت تک قائم رہے گا ۔ میں نے تم کو اپنا جانشین بنایا۔ ظاہری تعلق بھی تمہارے ساتھ یہ ہے کہ تم میرے بھائی کی اولاد ہو اور بھائی کی اولاد بھائی کی طرف منسوب ہوا کرتی ہے چنانچہ قرآن پاک میں آیا ہے</div><div> *و اتبعت ملت آبائی ابراہیم و اسمٰعیل و اسحٰق و یعقوب*</div><div>اور ظاہر ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نسب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ملتا ہے نہ کہ حضرت اسحٰق علیہ السلام سے مگر چونکہ حضرت اسحٰق علیہ السلام حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کے بھائی تھے۔ ان کو بھی باپ کہا گیا۔ لہٰذا تم بھی میری اولاد معنوی ہو اور شریعت و طریقت میں میرے جانشین ہو ۔</div><div>اسی طرح سرکار قطب المدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے وصال سے قبل تمام خلفاء و مریدین سے ارشاد فرمایا کہ محمد ارغون کو میں نے اپنا جانشین کیا اور ان تینوں یعنی سید محمد ارغون، سید ابو تراب فنصور، سید ابو الحسن طیفور کو بجائے میرے کنفس واحدہ تصور کرنا اور جو کوئی مشکل پیش آئے تو ان کی طرف رجوع کرنا۔ باقی میں جس طرح اب تم لوگوں کی تربیت کرتا ہوں ۔ ان شاء اللّٰہ بعد وصال بھی اسی طرح تم نگاہ میں ہوگے جو کوئی مجھ سے ارادت رکھتا ہے میں نے اسے قبول کیا ۔ اوراس کی نسلوں کو بھی قبول کیا اور جو کوئی میرے ان فرزندوں سے ارادت رکھتا ہے میں نے اسے بھی قبول کیا ۔</div><div> </div><div>*کرامات* آپ کی پوری زندگی اللّٰہ اور اس کے رسول علیہ السلام کی اطاعت، عبادت ، ریاضت ،مجاہدہ نفس، و تزکیۂ قلب اور رشدو ہدایت میں گزری۔</div><div>حالت نوم میں بھی ذکر الٰہی میں مصروف رہتے۔</div><div>جب تلاوت قرآن مجید فرماتے تو لوگ مسرورو مست ہو جاتے تھے۔ چرند پرند بھی پاس جمع ہونے لگتے تھے اور سنتے تھے۔</div><div>آپ کی آواز بہت دلکش تھی اسی وجہ سے </div><div><br></div><div> *لقب ارغون* سے ملقب فرمایا گیا ۔ ارغون ایک قسم کے نفیس باجے کو کہتے ہیں۔ </div><div>*اولاد امجاد* </div><div>حضرت سیدنا سید ابو محمد محمد ارغون قدس سرہ کے پانچ بیٹے تھے</div><div>: 1</div><div>حضرت خواجہ ابو الفائض قدس سرہ۔</div><div> 2: حضرت خواجہ سید محمود قدس سرہ،،</div><div>3: حضرت خواجہ سید داؤد قدس سرہ،،</div><div>4: </div><div> حضرت خواجہ سید اسمعٰیل قدس سرہ،،</div><div>5: حضرت خواجہ سید حامد محامد قدس سرہ </div><div>ان شاءاللہ ان حضرات کی نسل مبارکہ کی تفصیل مع شجرات کتاب کی دوسری جلد میں پیش کیا جاۓگی</div><div><br></div><div>*خلفاۓ کرام* </div><div>حضرت خواجہ سید ابوالفائض محمد سجادہ نشین، حضرت خواجہ سید محمود صدر نشین۔ حضرت خواجہ سید داؤد، حضرتِ خواجہ سید اسماعیل، شاہ سید حسین سر ہندی حضرت شیخ سیف الدین۔حضرت خواجہ سید محمد، شیخ کامل حضرت شاہ واصل حضرت شاہ قمر الدین حضرت شیخ کمال الدین مداری حضرت شاہ عبداللّٰہ حضرت پیر غلام علی شاہ حضرت نظام سنبھلی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھم *ہرسہ خواجگان سےجو سلسلے جاری ہوئے*</div><div>ان ہرسہ خواجگان سے جو سلاسل مبارک جاری ہیں انہیں خادمان کہا جاتا ہے۔</div><div>خادمان ارغونی، خادمان فنصوری ،خادمان طیفوری،۔ خادمان ارغونی سے جو گروہ نکلے انکے نام یہ ہیں </div><div> نقد ارغونی یہ خاص حضرت سید دادا محمد ارغون سے ہی جاری ہے جو آپ کی اولاد پاک کا خاندانی شجرہ ھے ، خادمان ابوالفائضی :یہ سید ابو محمد محمد ارغون رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے بڑے صاحبزادے سید محمد ابو الفائض ارغونی سے جاری ہے ، خادمان محمودی حضرت سید محمود رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ سے جاری ہے :یہ حضرت سید محمد ارغون رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے بیٹے ہیں آپ سے خادمان محمودی سلسلہ جاری ہوا ۔۔ حضرت سید شاہ معین الحق ابن علی المعروف بہ بابا اَبَّن صدرنشین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے خادمان اَبَّنی اور آپ کے بعد آپ کے مریدین سے خادمان سلوتری، خادمان سرموری ،خادمان سکندری گروہوں کا اجرا ہوا۔۔ حضرت سید شاہ اَبَّن رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ چوتھی پیڑھی میں حضرت سید شاہ محمد ارغون رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے فرزند ہیں ۔ جیسا کہ تذکرہ صوفیاۓ میوات کے مولف نے تحریر کیا ہے۔ حضرت سید شاہ معین الحق ابن علی المعروف بہ بابا اَبَّن صدرنشین رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے ایک مرید اور خلیفہ حضرت خاکی شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ ہیں جنکا روضۂ مبارک زیارت گاہ خلائق ہے. قصبہ ساکرس تحصیل فیروز پور جھرکہ ضلع گوڑگاوں میں ۔آپ کا سالانہ عرس ہوتا ہے،جائداد و جاگیر وقف کردہ سلاطین دہلی تا ہنوز آپ کے خلفاء کے قبضہ و تصرف میں ہے۔ اور چند مقامات پر جاگیرات موجود ہیں۔ موضع مروڑہ، و رنیالہ،اولیٹہ وغیرہ میں اہل تجرید آپ کے خلفاء و مریدین ہنوز اس پر قابض و متصرف ہیں۔ (تذکرہ صوفیاۓ میوات صفحہ 437 مصنف محمد حبیب الرحمن خان میواتی۔) ا ،سرموری، سلوتری، اَبًنِی،غلام علوی اور سکندری </div><div>بحر زخار میں حضرت سید ابو محمد محمد ارغون قدس سرہ کے ایک خلیفہ حضرت شیخ کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ ہے </div><div>"مظہر امن و امان حضرت شیخ کمال الدین ابن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ</div><div>آپ نسباًقریشی ہیں گلزار ابرار میں مرقوم ہے کہ آپ تقویٰ توکل،تسلیم و رضا کے مقام بلند پر فائز تھے ،شاہ ارغون مداری کے مرید تھے آپ نے شیخ ابو الفتح ہدایت اللہ سرمست کے صاحبزادے اور خلیفہ شیخ رکن الدین شطاری کی بار گاہ سے دعوت اسماءاللہ اور اذکار کی اجازت پائی</div><div>پھر بہادر افغان شجاول خاں کے زمانے میں مندو تشریف لائے نگارندۂ گلزار کے والد سے دوستی قائم کی ، میرے والد نے مجھے ان سے قران مجید کی تعلیم دلائی۔آپ نے سو سال زندگی توکل میں بسر کی ،کسی سے راز ونیاز بیان نہ کیا،اپنے اور بیگانے کسی سے خواہش کا اظہار نہ کیا سنہ 973 ھ وفات پائی مندو میں مدفون ہوۓ۔</div><div>پیش کردہ ولی عہد خانقاہ مداریہ مکنپور شریف حضرت علامہ مولانا سید محمد ظفر مجیب مداری</div><div> Www.Qutbulmadar.Org</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-73957511480448621072022-03-22T17:37:00.001-07:002022-03-22T17:37:40.357-07:00دوخانوادوں سے مرید ضرور ہونا <div>🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸</div><div>بسم اللہ الرحمٰن الرحیم</div><div><br></div><div>*دو خانقاہوں سے ضرور مرید ہوں*</div><div><br></div><div> (1) *مداری*</div><div> (2) *وارثی*</div><div><br></div><div>*یقینًا *فردالافراد قطب الاقطاب غوث الاغواث حضرت سید بدیع الدین احمدعلی حلبی حسنی الحسینی المعروف بہ زندہ شاہمدارقدس سرہ العزیز مکنپورشریف اور *حضورعالم پناہ سیدناسرکاروارثِ پاک رضی اللہ تعالی عنہ دیویٰ شریف دونوں ہی بہت مقدس ولیِ کامل ہیں ان دونوں بزرگوں نے اپنے بےشمار خلیفہ بنائےاوراپناجانشین بنایا لہٰذا ان دونوں بزرگوں کے سلسلہ سے مرید ہونا اور کرنا دونوں باعث برکت اورعین مطابق شریعت واصول طریقت ہے اور ان بزرگوں کےفیوض روحانی کاحاصل کرناہیے ۔۔۔۔*</div><div><br></div><div> *حضور سیّدی سرکارسید بدیع الدین احمدقطب المدار کے سلسلہ کے بارے میں گیارہویں صدی کے مجدّد سیّدنا میر عبدالواحد بلگرامی کی کراب سبع سنابل شریف میں ایک واقعہ تحریر ہے جس میں لکھاہیےکہ حضرت شاہ سراجِ سوختہ رحمة اللہ علیہ نے بددعا دی ہے کہ میں نے شاہ بدیع الدین مدار کے مریدوں کو گمراہ کیا اس بددعا کے بعد خود بدیع الدین شاہ مدار نے فرمایا ہے کہ میرے چند مرید ہیں انکو میں مریدی سے بے دخل کرتا ہوں اور خلافت میں نے نہ کسی کو دی ہے اور نہ خلافت کسی کو دونگا۔.. یہ واقعہ سراسرجھوٹ اور کفریات سےلبریزہیے لہذا اس فرضی واقعہ کواہلسنت اپنےجوتوں کی نوک سےاڑادیں اوردورِ حاضرہ کے مداری مشائخ پیران کرام جوکہ صاحبان شجرات صحیحہ متصلہ ہیں ان سےبیعت ہوں نیزان سے اجازت و خلافت حاصل کرکےفیضان قطب المدارسےمالامال ہوں کیونکہ سلاسل طریقت میں حضورپاک علیہ السلام سےسب سےقریب سلسلہ سلسلئہ عالیہ مقدسہ مداریہ ہی ہیے اس سلسلہ کےسندصرف چھہ واسطوں سےہی آقاعلیہ السلام تک پہونچ جاتی ہیے ـــــ اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ نے بھی فرمایا ہے کہ مجھے مداریہ سلسلہ کی اجازت وخلافت حاصل ہیے حوالہ کےلئےخوداعلحضرت کی کتاب الاجازات المتینہ دیکھیں اس کےعلاوہ اعلحضرت کےشاگردوخلیفہ مولاناظفرالدین بہاری علیہ الرحمہ کی کتاب حیات اعلحضرت جلدسوم دیکھں اس کتاب میں انہوں نےاعلحضرت کامکمل شجرۂ مداریہ تحریرفرمایاہیے لہذا اہلسنت وجماعت کو چاہئے کہ چندمجہول قسم کےجعلی مُلُّوں کےچکرمیں پڑکر گمراہ نہ ہوں اور جوحضرات انجانےطورپران کی گمراہی کےجال میں پھنس چکےہیں وہ گمراہی سے توبہ کرلیں اورگمراہ گراولیاءکےدشمن مُلِّےبھی ہوش کےناخن لیں اورسوچیں کہ کہیں یہ چند روزہ عیش و آرام اور مریدوں ومعتقدوں سے نزرانہ لینے کی وجہ سے توبہ تو نہیں کرتے بلکہ خود بھی گمراہ ہیں اور عوام کو بھی گمراہ کر رہے ہیں وہ عوام بھی بیوقوف ہے جو اپنی آخرت برباد کر رہی ہے (کیونکہ ایک متصل سلسلہ کی خلافت و اجازت اوربیعت وارادت کوگمراہی کہنابجائےخودگمراہی ہیے* </div><div><br></div><div>*حضرت سیدناسید بدیع الدین احمدقطب المدار نسب کے اعتبار سے حسنی حسینی یعنی سیدبرادری سے تعلّق رکھتے ہیں لیکن یہ نام کے چندرضوی آپ کوفقیربرادری کابتاکرقوم کوگمراہ کررہیےہیں جوکہ بالکل غلط ہے اور یہ عوام کو دھوکہ دینا ہے (آپ خود اپنی نظروں سے ان نام نہادفرضی رضویوں کےمکروہ چہرے دیکھیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں کہ کیا یہ کہیں سے امام حسن یا امام حسین یاآل رسول اورسادات کرام سےمحبت کرنےوالےچہرےلگ رہیےہیں؟ کیا آلِ نبی سےمحبت کرنےوالوں کی شکلیں ایسی ہی ہوتی ہیں؟ کیاکوئی سنی بزرگوں کےگیسوؤں ، لمبے لباس، ان کی انگوٹھی ،ان کے ہاراور مالے، پراعتراض کرسکتاہیے؟ یقینًا آپ کہینگے کہ یہ محبین اولیاء و سادات نہیں بلکہ اس قسم کےاعتراض کرنےوالے ایمان اور علم وعقل سب کےیتیم وفقیرہیں کیونکہ ایسی شکل صورت تو گستاخوں اور ملعونوں کی ہوتی ہے) واللہ لوگوں کو گمراہ نہ کرو کسی کہ عاقبت برباد نہ کرو اور اپنی جھوٹی مولویت وملائیت سے توبہ کرلو۔۔۔🙏🙏😢😢*</div><div><br></div><div>*اسی طرح دورِ حاضرہ کا سلسلہ وارثیہ ہے* </div><div><br></div><div>*وارثِ پاک نے بھی اپنا خلیفہ و جانشین بنایا لاکھوں لوگوں کومرید کیاکئی لائق اور صاحب ستطاعت اہل اللہ مریدوں کواجازت وخلافت بھی دی لہذا مذکورہ دونوں سلاسل طریقت میں بیعت اجازت اور خلافت سب درست اور باعث رحمت وبرکت ہیے*</div><div>*اعلحضرت اور ان کےپیرخانہ مارہرہ مطہرہ کےتمام مشائخ اوربزرگوں کوبھی مداریہ سلسلہ کی اجازت وخلافت ملی ہوئی ہیے خودحضرت میربلگرامی علیہ الرحمہ اور ان کےپورےخاندان کوسلسلئہ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل ہیے لہذا تحریف شدہ سبع سنابل کےایک فرضی واقعہ کوبنیادبناکرسلسلئہ عالیہ مداریہ کوسوخت یا بندکہنااعلحضرت میربلگرامی اور تمام اولیاءمارہرہ مطہرہ کی بےادبی اور ان کی شان میں گستاخی کرناہیے*</div><div><br></div><div>*یاد رکّھو کسی ملامولوی سےعقیدت وہیں تک اچّھی ہے جس میں حقیقت ہو ورنہ وہ گمراہی ہے*</div><div>*جو حقیقت تھی وہ میں نے بیان کر دی اب بھی اگر کوئی اندھی عقیدت میں اپنی آخرت برباد کرنا چاہتا ہے تو وہ جانے اور اسکا کام۔۔۔ مرنے کے بعد پچھتائے گا۔۔۔*</div><div> *واللہ اعلم باالصواب*</div><div>📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚</div><div><br></div><div>*یہ میسج آپ کے پاس امانت ہے میں نے اپنا کام کر دیا لیکن اگر آپ نے اپنے کانٹیکٹ میں سبکو یہ میسج نہ بھیجا تو میں بروزِ محشر آپکا دامن پکڑونگا کہ لوگ گمراہ ہو رہے تھے لیکن آپنے کسی کو نہیں روکا*</div><div><br></div><div>*گمراہی سے بچیں کہیں ایمان کی تلاش میں ایمان ہی نہ چلا جائے*</div><div>🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻</div><div>*محمدحبیب الرحمٰن علوی المــداری*</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-72728993443685506442022-01-26T06:15:00.001-08:002022-01-26T06:15:19.206-08:00سرزمین ہند میں سب سے پہلے اسلام کس نے پہلایا <div>*#حضور مدار پاک ہی سر زمین ہند پر سب سے پہلے داعئ اسلام فی الہند ایک تحقیقی جائزہ#* </div><div>اس بات سے کسی کو انحراف نہیں کہ حضور سیدنا خواجہ غریب نواز قدس سرہ الممتاز سید الشہدا فی الہند سالار مسعود غازی اور حضور سیدنا داتا گنج بخش ہجویری دونوں ذوات قدسیہ سے مؤخر الزمان بھی ہیں اور مؤخر البلاغ بھی،چونکہ مذکورہ دونوں شخصیتیں پانچویں صدی ہجری میں ہی داعئ اجل کو لبیک کہ گئیں جبکہ حضور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی ذات قدسیہ چھٹی صدی ہجری میں سرزمین ایران پر جلوہ گر ہوئی،بعد ازاں سن 588ھ میں بحکم رسالت مآب ﷺ سرزمین ہند پر آپ کا ورود مسعود ہوا-کما ذکر فی عامۃ الکتب متونا و شروحا-</div><div> اسی لیے یہ کہنا مبنی بر خطا ہوگا کہ ان چاروں حضرات اولیاے کرام میں سب پہلے حضور غریب نواز علیہ الرحمہ کے ذریعے سب سے پہلے لوگ سرزمین ہند پر مسلمان ہوے۔</div><div> اب باقی ماندہ تین شخصیات عظمی میں سالار مسعود غازی اور شیخ علی ہجویری رحمہما اللہ تعالیٰ کے مابین تو تقدم و تأخر واضح ہے کہ ان دونوں میں اولا حضرت مسعود غازی کے ہاتھوں ہندوستان میں اسلام پروان چڑھا،تاہم قدرے وضاحت درج کی جاتی ہے👇🏻</div><div> حضرت علی ہجویری کا سن ولادت ظن و تخمینے پر مبنی ہے،کہیں صحیح سن پر مہر ثبت نہیں،البتہ یہ ضرور وضاحت مذکور ہے کہ صاحب کشف المحجوب نے اپنے اصل وطن غزنی سے سرزمین ہند کے خطے لاہور کی طرف 453ھ(1030) سے 462ھ(1039)کے درمیان تشریف لاے،جبکہ شیخ مسعود غازی سن 405ھ میں سرزمین ہند کے خطہ اجمیر پیدا ہوے،اس سے اندازہ لگائیں کہ ان دونوں میں اولا داعئ اسلام فی الہند کون ہوا،بہر کیف یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت ہجویری علیہ الرحمہ کی شہرت کا باعث کشف المحجوب ہے۔۔۔</div><div> اب جب یہ واضح ہو گیا کہ سطور بالا میں ذکر کردہ تینوں شخصیات میں حضرت مسعود غازی ہی ہی اولا داعئ اسلام فی الہند ہیں،تو اب گفتگو کا رخ کتاب کے صفحۂ اخیر یعنی حضرت مسعود غازی اور حضور شیخ بدیع الدین احمد حلبی قدس سرھما کی جانب موڑتے ہیں،تو ان دونوں میں بلکہ مذکور الصدر تینوں شخصیات میں حضور مدار پاک کا زمانۂ تبلیغ مقدمۃ الجیش(پیش خیمہ) کا درجہ رکھتا ہے،حضور سید مسعود سالار غازی تولد بھی نہیں۔ ہوے تھے کہ حضور بدیع الدین مدار حلبی ہند میں تبلیغ اسلام کر رہے تھے،بلکہ حضور حلبی قدس سرہ نے ہی ان کے والد ماجد حضرت ساہو سالار غازی کو ان کے پیدا ہونے اور مقامات ارجمند پانے کی بشارت سنائی تھی،اس بات کی تائید و توثیق میں چند حوالے درج ذیل ہیں،ملاحظہ کریں👇🏻</div><div> رضا لائبریری رامپور کے ایک رسالۂ نادرہ فارسی میں مرقوم ہے:</div><div> "چنانچہ نقل است از تواریخ محمودہ کہ تصنیف ملا محمود غزنوی است کہ چوں ساہو سالار نزدیک اجمیر رسیدند براے امداد مظفر خاں اجمیری برآب جو خیمہ نصب کردند و بخدمت درویشے کبیرانش مستفیض گشتند و آنحضرت سید بدیع الدین مدار کہ خبر تولد شدن سالار مسعود غازی بزبان مبارک فرمودند کہ ہفت نام خود کہ ہفت آسمان ملائک بامر اللہ تعالیٰ تسبیح می کند بساہو سالار براے ترقئ درجات و کفایت مہمات عطا فرمود"</div><div>ترجمہ:چنانچہ ملا محمود غزنوی کی تصنیف تواریخ محمودی سے نقل ہے کہ جب ساہو سالار مظفر خاں اجمیری کی امداد کے لیے اجمیر کے نزدیک پہنچے تو ایک تالاب کے پاس خیمہ نصب کیا اور ایک بڑے درویش کی خدمت سے فیضیاب ہوے اور وہ درویش حضرت سید بدیع الدین قطب المدار تھے،اپنی زبان مبارک سے سالار مسعود غازی کے پیدا ہونے کی بشارت دی اور آپ نے اپنے وہ سات جن کے ذریعے ساتوں آسمانوں میں بحکم اللہ تعالیٰ فرشتیں تسبیح کرتے ہیں ساہو سالار کو ترقئ درجات اور کفایت مہمات کے لیے عطا فرماے۔(رسالۂ نادرہ(قلمی) رضا لائبریری رامپور) </div><div> نوٹ:واضح رہے ملا محمود غزنوی کا سن ولادت 392ھ ہے،اور کتاب مذکور آپ کے حکم سے تحریر فرمائی گئی،اور سید ساہو سالار کی فتوحات آپ کے زمانے میں ظہور پذیر ہوئیں،اس لیے اس یہ ماخذ زنہار قابل رد نہیں،اور یہ بھی واضح رہے کہ اب فقط تواریخ محمودی کے اقتباسات کتابوں مذکور ہیں،اصل کتاب کا کوئی نسخہ کہیں دستیاب نہیں۔۔</div><div>اس بات کو اخترگورگانی علیہ الرحمہ نے کتاب"خواجہ فرید"میں بھی نقل کیا ہے،نیز ایک ہندی مؤرخ آچاریہ چترسین کہ کتاب"سومنات "میں بھی یہ ملاقات منقول ہے،علاوہ ازیں ایک کتاب بنام"کرامات مسعودیہ مصنفۂ شیخ محمد ملیح اودھی" میں بھی یہ پورا واقعہ مزید صراحت کے ساتھ حضرت سید سکندر دیوانہ اور تواریخ محمودی کے حوالے سے مرقوم و مسطور ہے،یہ کتاب عربی میں لکھی گئی تھی،بعد ازاں اس کا فارسی و اردو دونوں زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے،یہ کتاب پہلی مرتبہ قومی کتب خانہ لکھنؤ سے 1296ھ میں چھپی،اس کے بعد مجاہد اعظم ہند پبلیکیشنز سے 1409ھ میں چھپی۔</div><div>مزید برآں کتب سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت سید مسعود سالار غازی نے بعد میں حضور مدار پاک سے خرقۂ خلافت بھی حاصل کیا،اس بات کی سند مذکورہ کتاب کرامات مسعودیہ سے بھی ملتی ہے،نیز اس کی تائید انھی کے خانوادے کی تالیف کردہ کتاب"کنز السلاسل"میں مذکور ان کے شجرۂ مداریہ سے بھی ہوتی ہے۔۔</div><div> پس بحمدہ تعالیٰ متذکرہ جملہ حوالہ جات سے یہ بات عیاں ہوئی کہ سوال میں مندرج تینوں شخصیتوں میں سب سے پہلے حضور مدار پاک ہی سرزمین ہند پر چراغ اسلام کو روشن کرنے والے ہیں۔،پس ہوا یہ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مستور الحال ہی رکھا۔۔۔</div><div> فیصلہ آپ کے ہاتھوں❤️❤️❤️ *#محمد ہاشم علی بدیعی مصباحی#*</div><div>www.qutbulmadar.org</div><div>plz visit us:مزید معلومات کے لاگ آن کریں</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-5659348116880970542022-01-11T20:13:00.001-08:002022-01-11T20:15:15.858-08:00خانقاہ مداریہ مکنپور شریف کے سجادہ نشین اور خانوادے مداریہ ایک تعارفی مضمون<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiVEW-CRrBTfTagdNmKbv-ElUV00LWKg3BVPYDPEEq3kNz-Mium3-q5ykF4BDifHerQH1KRUrXNz6FanG2SP_hhQR26wXVXvMyU6COWbd4zPeMAAjE0g1s-n39RnarZwlpQ4e6vp8wpCoIf/s1600/1641960907365786-0.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiVEW-CRrBTfTagdNmKbv-ElUV00LWKg3BVPYDPEEq3kNz-Mium3-q5ykF4BDifHerQH1KRUrXNz6FanG2SP_hhQR26wXVXvMyU6COWbd4zPeMAAjE0g1s-n39RnarZwlpQ4e6vp8wpCoIf/s1600/1641960907365786-0.png" width="400">
</a>
</div><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgKvsOXedLBICyRgaYadR8tH8R3TH4mt_VpXopF6kDMxKeYyXdRBCL4fLsjlJsH3e8TKMnZmwc8WukK1H21KADt8zbfRSDvSykjSZsth2YN8Z6-dcphrHu7_k1rlvWPjCjmNsGAFXI3CuWH/s1600/1641960902539392-1.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgKvsOXedLBICyRgaYadR8tH8R3TH4mt_VpXopF6kDMxKeYyXdRBCL4fLsjlJsH3e8TKMnZmwc8WukK1H21KADt8zbfRSDvSykjSZsth2YN8Z6-dcphrHu7_k1rlvWPjCjmNsGAFXI3CuWH/s1600/1641960902539392-1.png" width="400">
</a>
</div><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg6hlviTWLFPVFkMTVIjDDmWP9rTwUl45jzEX9IIfoSgSBCmsK3__wM006trx-D62IYup3aSVA5bSpfhgd0qwJPl0FHF8XdScLruR-rq3p9s7MUMNRoO9lCdcnnvLRh6tUlMLsEqizGJFSz/s1600/1641960895849621-2.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg6hlviTWLFPVFkMTVIjDDmWP9rTwUl45jzEX9IIfoSgSBCmsK3__wM006trx-D62IYup3aSVA5bSpfhgd0qwJPl0FHF8XdScLruR-rq3p9s7MUMNRoO9lCdcnnvLRh6tUlMLsEqizGJFSz/s1600/1641960895849621-2.png" width="400">
</a>
</div><div>*خانقاہ مداریہ مکن پورشریف میں بھی ایک وقت میں ایک ہی سجادہ نشین ہوتا ھے*</div><div><br></div><div>*نیز ہندوپاک میں سلسلۂ مداریہ مکن پورشریف سےمتعلق ہزارہاہزارخانقاہیں موجودہیں اوران سبھوں میں بھی ایک وقت میں ایک ہی سجادہ نشین ہوتاھے*</div><div> مکن پورشریف کوئی مافوق الفطرت یامافوق العادت جگہ نہیں ھے یہاں کانظام بھی ویسےہی دینی اورسماجی ہےجیسےکہ ہرخانقاہ کا ھے ائمۂ اہلبیت ہوں یاخلفائےراشدین خلافت یاامامت ایک وقت میں ایک ہی شخص کےذمےرہی ہے </div><div>پھربھلاخانقاہ مداریہ مکن پورشریف کامعیاراس سےالگ کیوں ہوگا؟</div><div>خانقاہ عالیہ مداریہ مکن پورشریف میں بھی سجادہ نشینی کےمنصب پرایک ہی بزرگ فائزہوتےرہے اس ضمن میں خانقاہ مداریہ مکن پورشریف کےپانچویں سجادہ نشین حضرت سیدناعبدالرحیم ارغونی مداری کا یہ واقعہ ضرورپڑھناچاہئے جونسلاً بعد نسلٍ بزرگوں سےمنقول ہوتاآرہاھے ہوایہ کہ اہل کنتورجوحضرت سیدابوالحسن عرف میٹھےمدارکی اولادتھے انھوں اکبری گورمنٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ ہم ہی درگاہ زندہ شاہ مدارکےسجادہ نشین ہیں انکےرسوخ اورکچھ منطقی دلائل کےبنیادپرگورمنٹ کی طرف سےاہل کنتورکےحق میں سجادہ نشینی بحال کردی گئی اہل مکن پورشریف بہت حیران و پریشان ہوئے اوراہل کنتورحکومت کےکارندوں اور شاہی فرمان کےبل بوتے درگاہ مدارالعٰلمین میں سجادہ نشین بن بیٹھے منقول ہےکہ ان دنوں خانقاہ شریف کےاصل سجادہ نشین حضرت سیدعبدالرحیم ارغونی مداری کہیں باہرتھے جب وہ سفرسےواپس آئےاورخانقاہ پہونچےتویہ جابرانہ ماحول دیکھکر غضبناک ہوگئےاورسجادۂ عالیہ سےاس گورمنٹی سجادہ نشین کو اٹھادیا جلال ولایت کارعب اس گورمنٹی سجادہ نشین کوپانی پانی کرنےلگا پھربھی اس شخص نےفرمان شاہی پیش کرتےہوئےکہاکہ درگاہ قطب المدارکی سجادہ نشینی میٹھےمدارکی اولادکے حق میں </div><div>بحال کی گئی ھے ثبوت کےطورپرفرمان شاہی حاضرہے </div><div>حضرت عبدالرحیم نےجوشِ غیظ وغضب میں اس شاہی فرمان پرتھوک دیا چونکہ اسوقت آپ پان کھائےہوئےتھےاسلئےپوراشاہی فرمان پان کی پیک سےرنگین ہوگیا حکومت کےپاس اسی شکل میں وہ فرمان لےجایاگیا اورخوب نمک مرچ لگاکرساراماجرابیان کیاگیا المختصرحضرت عبدالرحیم کوگرفتارکرکےدربارشاہی میں پیش کیاگیا اوربطورسزاآپکو ہاتھیوں اورشیروں کے سامنےزنجیروں میں جکڑکرپیش کردیاگیالیکن انھیں کوئی نقصان نہیں پہونچابلکہ ان جانوروں نےاپنےانداز میں ان بزرگوارکی تعظیم وتکریم کی فیل خانےاورشیروں کی خدمت پرمامورانسان حضرت عبدالرحیم ارغونی مداری کیساتھ ہاتھیوں اورشیروں کا یہ رویہ دیکھکر حیرت واستعجاب میں ڈوب گئے پھراچانک یہ شوراٹھاکہ مہارانی صاحبہ کےپیٹ میں بلاکادردہورہاھے حکماءواطباءعلاج سےعاجزہیں غرضیکہ اکبربادشاہ تک یہ خبرپہونچائی گئی کہ مکن پورسے جوقیدی لایاگیاھے وہ کوئی صاحب کمال بزرگ لگتاہے مہارانی صاحبہ کی شفایابی کیلئےان سےدعاءکروانافائدہ مند ثابت ہوسکتاھے المختصرحضرت سیدعبدالرحیم ارغونی مداری نےدعاءفرمائی اورمہارانی کواللہ پاک نےشفاءعطافرمادی اکبریہ دیکھکربہت مرعوب ہوااورحسب سابق درگاہ عالیہ مداریہ مکن پورشریف کی مجاورت وتولیت حضرت سید عبدالرحیم ارغونی مداری کے حق میں پھرسےبحال کی اورتاعمرآپ خانقاہ عالیہ کےسجادہ پر متمکن رہے اورآپکےبعدیہ منصب آپکی نسل میں بڑےبیٹےکےسپردہوتارہا جوکہ حسب سابق آج تک جاری وساری ھے ان دنوں اس منصب جلیل پر حضرت والاتبارصدرالمشائخ جناب سید محمدمجیب الباقی جعفری مداری اطال اللہ تعالیٰ عمرہ فائز ہیں </div><div>کسی بھی سلسلۂ طریقت کی خانقاہ کی عظمت وشوکت پریہ لفظ کاری ضرب سےکم نہیں کہ اس خانقاہ کا بچہ بچہ سجادہ نشین ہے کیونکہ یہ لفظ ہی اس خانقاہ کی بےضابطگی وبےقاعدگی کوبیان کرنے کیلئے بہت کافی ھے</div><div><br></div><div>قابل غوربات ہے جب حضرت سیدنااما حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےگھرکابچہ بچہ امام نہیں سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےگھرکابچہ بچہ امام نہیں </div><div>جب سیدناامام زین العابدین کےگھرکابچہ بچہ امام نہیں </div><div>جب امام باقرکےگھرکابچہ بچہ امام نہیں جب امام جعفرصادق کےگھرکابچہ بچہ امام نہیں توپھر مکن پورکےسادات کابچہ بچہ خانقاہ مداریہ کا سجادہ نشین کیسےبن سکتاھے؟؟</div><div><br></div><div> اس جملے پر مکن پورکےاصحاب علم کو نوٹس لینےکی ضرورت ہےسلسلۂ مداریہ کےسرکردہ علماءکوغورکرنےکی ضرورت ھے کیونکہ یہ لفظ سلسلۂ مداریہ کی عزت وعظمت کوللکاررہاھے </div><div>بچہ بچہ سجادہ نشین کہنےوالےذراغورکریں کسی بھی گھرمیں ہرفرد ذمہ دارنہیں ہوتاھے کسی بھی مدرسےمیں آبادی کاہرفرد ناظم اعلیٰ نہیں ہوتا کسی بھی مسجدکا ہرفرد صدراعلیٰ نہیں ہوتاکسی بھی گاؤں کا ہرفرد پردھان نہیں ہوتا کسی بھی ضلع کا ہرشخص مجسٹریٹ نہیں ہوتا کسی بھی ملک کا ہرفرد وزیراعظم نہیں ہوتا بالکل اسی طرح کسی بھی خانقاہ میں ہرفرد سجادہ نشین بھی نہیں ہوتاھے مکن پورکےسادات جعفری سید ہیں کیاامام جعفرصادق کےسات بیٹوں میں سب کےسب امام تھے؟؟؟</div><div>تعجب کی بات ہے</div><div>مکن پورشریف میں ایک عالمگیری مسجد ھے اوراسکےعلاوہ بھی مساجد ہیں لیکن پورامکن پورشریف امام نہیں ھے </div><div>خانقاہ مداریہ مکن پورشریف کےسادات میں خانقاہ کی ذمہ داریاں تقسیم ہیں کلیدبردارہرشخص نہیں ہے</div><div> درگاہ عالیہ کی کی کنجی ہرشخص کےپاس نہیں رہتی ہے</div><div> ہر شخص چاند کی 29 تاریخ کو روضۂ مبارکہ کا تالانہیں کھولتاھے </div><div>منصبِ دیوان پرہرشخص فائز نہیں ہے</div><div> ہرشخص مہتمم نہیں ھے</div><div> ہرشخص بھنڈاری نہیں ہے</div><div> ہرشخص چوبدارنہیں </div><div>ہرشخص کوتوال نہیں</div><div> ہرشخص اذنی نہیں </div><div>پھر ہرشخص سجادہ نشین کیسے ہوسکتاہے؟؟؟</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-91435132085093290482021-10-11T04:49:00.001-07:002021-10-11T04:49:09.148-07:00مقام صمدیت سالکوں کا مقام ہے جو قطب المدار کو حاصل تھا<div>*حضور مدارالعالمین مقام صمدیت پر فائز تھے*</div><div><br></div><div>*************************************</div><div>از قلم </div><div><br></div><div>*عمدۃ المحققین استاذالعلماء حضرت علامہ و مولانا مفتی* *سید منور علی جعفری المداری* </div><div>*مدرس مرکزی ادارہ الجامعتہ العربیہ مدارالعلوم مدینتہ* *الاولیاء* </div><div>سوال </div><div>کیا کوئی بندہ مقام صمدیت تک پہونچ سکتا ہے?????? </div><div> وصف صمدیت یہ اللہ کے ساتھ خاص ہے یا عام ہے ??????</div><div>ازراہ کرم مدلل جواب سے نوازیں </div><div>عنایت ہوگی</div><div><br></div><div>ایم ایس رضا نوری</div><div><br></div><div> 👇iska Jawab👇</div><div><br></div><div>________________________</div><div><br></div><div>*الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ہدایۃ الحق والصواب* </div><div><br></div><div>اوصاف حمیدہ سب اللہ ہی کے ہیں اور انسان پر اللہ کی صفات کا پرتو ہوتا ہے - حدیث *"واتصفوا بصفات اللہ"* او *"تخلقوا باخلاق اللہ"* </div><div>یعنی اللہ کی صفات سے متصف ہوجاؤ - یا - اللہ کے اخلاق سے متخلق ہوجاؤ</div><div>*" من عرف نفسه فقد عرف ربه"*</div><div>( جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا )</div><div>*" ان الله خلق آدم علی' صورته"*</div><div>( بیشک اللہ نے آدم کو اپنی صورت یعنی صفات پر پیدا کیا) </div><div>ان احادیث کا مفہوم یہی ہے کہ انسان صفات خدا وندی کا مظہر ہوتا ہے -</div><div>غرض اللہ جب چاہتا ہے اپنے کسی خاص بندے کو اپنے کسی وصف کا مظہر بنا دیتا ہے - </div><div>جیسے اللہ رحیم ہے - کریم ہے - عالم ہے - سمیع ہے - بصیر ہے - مگر اللہ نے اپنے ان اوصاف کا مظہر انسان کو بنایا تو انسان بهی ان صفات کے پرتو سے رحیم ہوگیا ' کریم ہوگیا ، عالم ہو گیا ، سمیع اور بصیر ہو گیا -</div><div>اسی طرح صمدیت بهی اللہ ہی کی صفت ہے اور عبد الصمد اس صفت سے متصف ہوکر مقام صمدیت پر فائز ہوجاتا ہے جیسے حضور قطب المدار سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالٰی عنہ -</div><div>صوفیائے کرام کے نزدیک *صمدیت* بہت بلند مقام ہے - </div><div>تارک السلطنت غوث العالم حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں </div><div>*" در اول و آخر سلوک بعضے ازیں سالکان را میباشد کہ بہ " تجلئ صمدیت" مشرف میگردند و ایں جائے ہلاکت سالک است تا مرشد کامل میباید کہ ازیں ورطہ بدر آرد. .............. الحق مقام بسے عالی بود بعد ازیں بچند گاہ دیگر بتجلئ صمدیت متجلی شد و آں مقام است بس عالی کہ درانجا احتیاج باکل و شرب از سالک بر میخیزد الخ"*</div><div>( لطائف اشرفی لطیفہ ہشتم ص 266)</div><div>"یعنی اول و آخر سلوک میں ان سالکین میں سے بعض کے ساته ہوتا ہے کہ تجلئ صمدیت سے مشرف ہوتے ہیں - اور یہ ہلاکت سالک کا مقام ہے (اگر اس کے اندر تکبر پیدا ہوجائے) حتیٰ کہ مرشد کامل کو چاہئے کہ سالک کو اس ورطہ سے باہر لائے ...................................... حق بات یہ ہے کہ مقام بہت بلند تها اس کے بعد چند دوسری مرتبہ تجلئ صمدیت سے متجلی ہوا اور وہ مقام بہت بلند ہے کہ اس مقام میں کهانے پینے کی حاجت سالک سے رفع ہوجاتی ہے "</div><div><br></div><div> غرض "صمدیت مقامات سلوک میں سے ایک بہت بلند مقام ہے جس پر فائز ہوکر سالک خورد و نوش وغیرہ حوائج بشری سے بے نیاز ہوجاتا ہے - سرکار قطب المدار اسی مقام صمدیت پر فائز تهے - چنانچہ شیخ محقق حضرت عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ حضور مدار پاک کے اوصاف میں تحریر فرماتے ہیں -</div><div>*" گویند کہ وے در " مقام صمدیت " کہ از مقامات سالکان است بود "*</div><div>( اخبار الاخیار)</div><div>یعنی کہتے ہیں کہ وہ (زندہ شاہ مدار) سالکین کے مقامات میں سے مقام " صمدیت " پر فائز تهے - </div><div><br></div><div>حضرت شیخ عبد الرزاق بانسوی علیہ الرحمتہ والرضوان مدار پاک کی منقبت میں یوں گویا ہیں -</div><div>*" صمدیت " از مرتبت حاصل شدہ نور یقیں*</div><div>*کن کرم بہر خدا سید بدیع الدیں مدار*</div><div>حضرت مولانا شاہ غلام علی نقشبندی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں -</div><div>*" حضرت بدیع الدین شیخ مدار قدس سرہ قطب مدار بودند و شان عظیم دارند - ایشاں دعائے کردہ بودند کہ الہی مرا گرسنگی نشود و لباس من کہنہ نگردد ہمچناں شد کہ بعد ازیں دعا بقیہ در تمام عمر طعامے نخورد و لباس ایشاں کہنہ نگشت ہموں یک لباس تا بممات کفایت کرد"*</div><div>(در المعارف ص 148 - 147)</div><div><br></div><div>یعنی حضرت بدیع الدین شیخ مدار قدس سرہ قطب مدار تهے اور شان عظیم رکهتے تهے - انہوں نے دعا کی تهی کہ الہی مجهے بهوک نہ ہو اور میرا لباس پرانا نہ ہو - ایسا ہی ہوا کہ اس دعا کے بعد بقیہ تمام عمر کهانا نہیں کهایا اور آپ کا لباس پرانا نہیں ہوا وہی ایک لباس ممات تک کافی رہا "</div><div>یہ واقعہ 282 هجری ساحل مالا بار گجرات کا ہے - اس دعا کے بعد 838 ہجری تک یعنی 556 سال تک حضور مدارالعالمین کهانے سے، پینے سے، تبدیلئ لباس اور سونے وغیرہ حوائج بشریہ سے بے نیاز رہے</div><div><br></div><div>*بحر زخار* کے مصنف علامہ وجیہ الدین فرنگی محلی قدس سرہ رقم فرماتے ہیں -</div><div> *"حضرت قطب المدار رامقام صمدیت میسر شدہ بود وآں مقام را چند علامت است - ہرگاہ صوفی بآں مقام می رسد باکل وشرب دنیا احتیاج نباشد -*</div><div>*وضعف و پیری نمی نماید -*</div><div>*ولباس او کہنہ وگریشتن نمی شود -*</div><div>*وہر کہ جمال با کمال او می بیند بے اختیار سجدہ میکند*</div><div> *ایں ہمہ علامت دراں حضرت موجود بود*</div><div>( بحر زخار جلد سوئم کا تیسرا حصہ مخطوطہ مختار اشرف لائبریری کچھوچھہ شریف)</div><div> </div><div>بحر زخار کی اس تحریر سے صاف واضح ہے کہ اولیاء میں بعض مقام صمدیت پر فائز ہوتے ہیں سرکار مدار پاک بھی مقام صمدیت پر فائز تھے </div><div>اس مقام کی چند علامات ہیں </div><div>1 - اسکا واصل دنیوی اکل و شرب کا محتاج نہیں رہتا </div><div>2 - اس پر ضعف اور بڑھاپے کا غلبہ نہیں ہوتا -</div><div> 3 -اس کا لباس میلا اور پرانا نہیں ہوتا -</div><div>4 - اس کے جمال باکمال کو دیکھ کر خدائے پاک کی یاد آتی ہے اور لوگ بے اختیار ہوکر سجدے میں چلے جاتے ہیں -</div><div>یہ سبھی علامتیں سرکار بدیع الدین قطب مدارقدس سرہ میں پائی جاتی تھیں -</div><div><br></div><div>طالب دعا</div><div>*فقیر مداری سید منورعلی حسینی جعفری*</div><div>*دارالنور مکن پور شریف*</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-85403126775609721242021-09-26T20:32:00.001-07:002021-09-26T20:32:12.568-07:00<div>*<b>بعض امور تعزیہ داری پر غلط فہمیاں، الزام تراشیاں اور ان کا ازالہ*</b></div><div><i><u><b></b></u></i></div><a href="http://www.qutbulmadar.org">Tqzاز قلم: محقق عصر، حضرت علامہ مولانا مفتی سید منور علی حسینی جعفری مداری استاذ جامعہ عربیہ مدار العلوم مدینہ الاولیآء دارالنور مکن پور شریف</a><div><i><u><b></b></u></i></div><div> کان پور یو پی انڈیا </div><div><br></div><div> </div><div>*غلط فہمی :-* تعزیہ دار محرم کے دنوں میں " مصنوعی قبریں "بناتے ہیں - یہ بھی ناجائز ہے -"</div><div>*ازالہ :-* ہماری شریعت میں مصنوعی قبریں بنانا بیشک ممنوع و ناجائز ہے - مگر تعزیوں کو مصنوعی قبریں کہنا ہرگز درست نہیں ہے - کیونکہ تعزئیے مصنوعی قبریں نہیں ہیں بلکہ قبر کے نقشے ہیں اور شرع شریف میں قبروں کے نقشے بنانا ممنوع و ناجائز نہیں - </div><div>مصنوعی قبر تو وہ ہوتی ہے کہ زمین پر قبر نما بنا دی جائے اور ان کے اندر میت دفن نہ ہو اور لوگ دھوکہ کھائیں کہ یہ قبر ہے - اس میں کوئ دفن ہے - یہ ہے مصنوعی قبر اور شریعت میں یہی منع ہے - رہا قبر نما تعزیہ تو وہ قبر کا نقشہ ہے مصنوعی قبر ہرگز نہیں - دنیا میں اتنا بڑا بیوقوف کون ہوگا جو کھپاج سے بنائے ہوئے اور کاغذ، پنی یا کپڑے سے سجائے ہوئے ڈھانچے سے (جسے لوگ کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ادھر ادھر پھرتے ہیں ) دھوکہ کھائے اور سمجھے کہ یہ کسی کی قبر ہے اور اس میں کوئ دفن ہے - غرض تعزیہ مصنوعی قبر نہیں ہے بلکہ قبر کا نقشہ ہے اسے مصنوعی قبر کہنا آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے -</div><div>*غلط فہمی :-* کسی کے گھر میں میت ہوجائے تو کیا وہاں ڈھول باجے بجائے جائیں گے یا جنازہ ڈھول باجوں کے ساتھ اٹھایا اور لے جایا جائے گا ؟</div><div>*ازالہ :-* اول تو یہ کہ تعزیوں کو جنازہ باور کرانا کھلا ہوا فریب اور آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے - کیونکہ تعزیہ جنازہ نہیں ہے - بلکہ روضۂ امام پاک کا تصوراتی نقشہ ہے - خواہ روضہ شریف سے مشابہ ہو یا نہ ہو اسے کوئ بھی امام پاک کا جنازہ نہیں سمجھتا ہے لھذا تعزیہ کو جنازہ باور کرانا بھی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہی ہے -</div><div>دوسرے یہ کہ ڈھول نقارے وغیرہ اعلان کے لئے بجانا جائز ہے جیسا کہ اوپر تفصیل گذری لھذا اگر کسی جگہ میت کے اعلان کیلئے ڈھول وغیرہ بجا نا ہی معمول و مقرر و متعارف ہو کہ لوگ اس علامت سے سمجھ لیں کہ میت ہوگئ یا یہ کہ جنازہ اٹھ گیا اور قبرستان کو لے جایا جا رہا ہے تو شرعاً میت کے گھر اور جنازے کے ساتھ ساتھ ڈھول بجانا بھی ممنوع نہیں ہوگا</div><div>*غلط فہمی :-* جاہلوں نے مصنوعی کربلائیں بنا لیں ان میں تعزیوں کو دفن کرتے ہیں - پھر تعزیہ کا تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں کرتے ہیں -</div><div>*ازالہ :-* مصنوعی کربلائیں در اصل یادگار کربلا ہیں اور ایسی یادگاریں بنانا شرعاً ممنوع نہیں - رہی بات تعزیوں کو دفن کرنے کی تو جن کے پاس سال بھر تک ادب و احترام کے ساتھ تعزیوں کو محفوظ رکھنے کی جگہ ہوتی ہے وہ محفوظ رکھتے ہیں - اور جن کے پاس جگہ نہیں ہوتی ہے وہ بے ادبی اور بے حرمتی سے بچانے کے لئے یا تو تعزیوں کو دفن کر دیتے ہیں یا پھر دریا برد کر دیتے ہیں کہ اس میں بھی شرعاً کوئ خرابی نہیں ہے - بلکہ یہ بھی تعظیم ہی کا ایک طریقہ ہے جیسے قرآن کریم کے کہنہ اور بوسیدہ اوراق کو یا تو دفن کر دیا جاتا ہے یا پھر دریا برد کر دیا جاتا ہے - رہی تعزیوں کے تیجے، دسویں، بیسویں اور چالیسویں کی بات تو یہ مسلمانوں پر کھلا ہوا بہتان ہے -</div><div>خدارا انصاف! لوگ شہیدان کربلا کا تیجہ، دسواں ، بیسواں، چالیسواں کرتے ہیں کہ تعزیوں کا؟ </div><div>تعزیوں کا تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں، بتانا یقیناً بہتان تراشی ہے اور خواہ ۔مخواہ مسلمانوں کی تجہیل و تحمیق اور ان کا تمسخر ہے جو بجائے خود حرام ہے -</div><div>*غلط فہمی* تعزیہ داری روافض کا شعار ہے اس لئے جائز نہیں - تعزیہ داری کا موجد تیمور لنگ شیعہ تھا اسی نے تعزیہ داری کو ایجاد کیا -</div><div>*ازالہ :-* پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ صدیوں سے غیر منقسم ہندوستان کے چپے چپے پر سنی مسلمان تعزیہ داری کر رہے ہیں پھر یہ روافض کا شعار کیسے ہوگیا دور حاضر میں روافض بھی تعزیہ داری کر رہے ہیں مگر کوئ یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ تعزیہ داری روافض کی ایجاد ہے اور ان کو دیکھ کر سنیوں نے اختیار کی ہے </div><div>شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں جب روافض کا وجود بھی نہیں تھا تب سے سنی مسلمانوں خاص کر اللہ والوں میں تعزیہ داری رائج تھی بعد میں جسے دیکھ کر رافضیوں نے بھی تعزیہ داری شروع کر دی مگر طریقہ میں قدرے ترمیم بھی کی جس سے سنیوں اور شیعوں کی تعزیہ داری میں واضح فرق ہوگیا </div><div>حضرت امیر تیمور لنگ گورگان رحمۃ اللہ علیہ اول تو رافضی نہیں تھے - سنی تھے - دوسرے یہ کہ تعزیہ داری کے موجد نہیں تھے - عاشق اہلبیت تھے تعزیہ داری کرتے ہونگے - ممکن ہے ان کے زمانہ میں تعزیہ داری کو فروغ ملا ہو - مگر وہ تعزیہ داری کے موجد نہیں تھے - ان سے تقریباً دو صدی قبل سلطان الہند، حضور خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چاندی کا تعزیہ شریف بنوایا تھا جو آج بھی اجمیر شریف میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رضی اللہ عنہ کی چلہ گاہ میں موجود ہے اور ہر سال 5/ محرم الحرام کو اس کی زیارت کرائ جاتی ہے </div><div>(تفصیل کیلئے دیکھیں "راہ اسلام ص 87/74)</div><div><br></div><div>لطائف اشرفی میں حضرت یوسف چشتی کے مرید سید علی قلندر اور مخدوم سید اشرف جہانگیر رضی اللہ عنھم کے محرم کے عشرہء اول میں علم کے نیچے بیٹھنے اور تھیلی باندھ کر گشت کرنے یعنی حسین پاک کا فقیر بننے کی روایت بھی موجود ہے </div><div>چنانچہ صاحب لطائف اشرفی تحریر فرماتے ہیں -</div><div>"اکابر روزگار اور سادات صحیح النسب کا عمل ہے کہ وہ محرم کے ابتدائ دس روز میں دورہ (گشت) کرتے ہیں اور زنبیل (تھیلی) کو بھی گردش دیتے (گھماتے) ہیں - ولایت سبزدار میں سید علی قلندر خواجہ یوسف چشتی کے مرید بڑے عالی مرتبہ بزرگ تھے - اور ان کا معمول تھا کہ محرم کے عشرہء اول میں علم کے نیچے بیٹھتے تھے اور اپنے مریدوں کو دورہ کیلئے بھج دیتے تھے اور کبھی خود بھی دورہ کرتے تھے - غم و اندوہ کے مراسم بجالاتے - نفیس لباس اس عشرہ میں نہیں پہنتے تھے اور عیش و شادی کے اسباب ترک کر دیتے تھے - سید اشرف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی کبھی یہ دور ترک نہیں کیا سید علی قلندر کی طرح خود علم کے نیچے بیٹھتے اور اصحاب کو دور کی اجازت دیتے لیکن عشرہ کے آخری تین دن خود بھی اصحاب کے ساتھ گلیوں میں گشت لگاتے تھے - </div><div>(لطائف اشرفی اردو لطیفہ اکیانواں ص 484 - 485 )</div><div>دیکھ رہے ہیں آپ؟ کتنے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ "اکابر روزگار اور سادات صحیح النسب کا عمل ہے " یعنی کسی امیر تیمور کا نہیں کیونکہ امیر تیمور گورگان رحمۃ اللہ علیہ نہ تو اکابر روزگار میں سے تھے اور نہ ہی سادات میں سے</div><div> خانقاہ عالیہ مداریہ دار النور مکن پور شریف میں تعزیہ داری کی تاریخ چھ سو سال پرانی ہے</div><div>یہاں تعزیہ داری کا آغاز حضور مدار العالمین کے برادر زادے، فرزند معنوی اور خلیفہ و جانشین، قطب الاقطاب حضور خواجہ سید ابو محمد، محمد ارغون رضی الله تعالیٰ عنہ نے کیا اور آج بھی خانقاہ عالیہ مداریہ میں یہ معمول جاری ہے -</div><div>ہر سال نویں اور دسویں محرم الحرام کو خانقاہ مداریہ کی طرف سے دو تعزئیے تیار کئے جاتے ہیں جن کے اخراجات کی کفیل درگاہ معلی ہی ہوتی ہے- خانقاہ شریف کی آمدنی سے خانقاہ شریف کے مصارف کا جو سالانہ بجٹ پاس کیا جاتا ہے اس میں لازمی طور پر دو تعزیوں اور ان کے گشت وغیرہ کے مصارف کا بجٹ بھی ہوتا ہے -</div><div>اسی طرح غیر منقسم بھارت کی دوسری خانقاہوں میں بھی تعزیہ داری کا رواج ہے - خواہ مہرولی شریف میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی خانقاہ ہو یا پاکپٹن شریف میں بابا فرید مسعود گنج شکر کی یا کلیر شریف میں مخدوم علی صابر پاک کی یا منیر شریف میں شیخ احمد یحییٰ منیری کی یا کچھوچھہ شریف میں سلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی یا ردولی شریف میں شیخ احمد عبد الحق ردولوی کی</div><div>غرض تمام خانقاہوں میں اور سنیوں کی اکثر آبادیوں شہروں، قصبوں اور دیہات میں تعزیہ داری ہوتی ہے - اس لئے اسے تیمور لنگ کی ایجاد اور روافض کا شعار کہنا بالکل غلط ہے - ہاں تعزیہ داری عاشقان اہلبیت اطہار کی ایجاد، سنیوں کا شعار، اہل اللہ کا طریقہ ہے - جس کا حکم قرآن کریم کی آیات " واتبع سبیل من اناب الی "(اس کے راستہ کی پیروی کر جو ہم تک پہنچ گیا ) " یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین " اور "اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم" کی بلیغ تفسیرات سے معلوم ہوتا ہے </div><div>جب ہم خاصان خدا کے معمولات میں تعزیہ داری کو دیکھتے ہیں اور آیات قرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تعزیہ داری خدا رسیدہ بزرگوں کا راستہ ہے - صادقین کی معیت ہے اور صراط مستقیم ہے -</div><div><br></div><div>*پیشکش:* سید منیر عالم جعفری مداری </div><div>دار النور مکن پور شریف</div><div> کان پور یو پی انڈیا</div><div><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEghohsIZD3tTxziNtar6Win4xFh80ME8pusZkbv_txVhAnNYbDiz1wzhyphenhyphenM1O6p7XrvaKiwgFOXnB2bfnlAMMLGrqCgUuBR0OjpZYM_rpfPv9CIamdy0YALMTTw8Hy6PZgMhMSO7VBarzw5D/s1600/1632713522217446-0.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEghohsIZD3tTxziNtar6Win4xFh80ME8pusZkbv_txVhAnNYbDiz1wzhyphenhyphenM1O6p7XrvaKiwgFOXnB2bfnlAMMLGrqCgUuBR0OjpZYM_rpfPv9CIamdy0YALMTTw8Hy6PZgMhMSO7VBarzw5D/s1600/1632713522217446-0.png" width="400">
</a>
</div><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiQ8fxyHCJrX-UmLpBTnvriS1ArWjI6snlDwuLUS8qkMp_89cHAiFNzl3zX27m3r4GwbUqfsfSQB4DfEH_0BfZ8J3K_RmbGnHNB5UnwR3mVNRaTiuJ4EYw5pWQRhdxlDR2e-pca2TLLOXw0/s1600/1632713517729082-1.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiQ8fxyHCJrX-UmLpBTnvriS1ArWjI6snlDwuLUS8qkMp_89cHAiFNzl3zX27m3r4GwbUqfsfSQB4DfEH_0BfZ8J3K_RmbGnHNB5UnwR3mVNRaTiuJ4EYw5pWQRhdxlDR2e-pca2TLLOXw0/s1600/1632713517729082-1.png" width="400">
</a>
</div><br></div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-7996978697513534282021-09-20T19:08:00.001-07:002021-09-20T19:08:56.275-07:00قدمی ھذا کا رٹ لگانے والے اناالحق اور سبحانی مااعظم الشانی کو کب بیان کرینگے <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjX9rZ-ZiwcOUNZhndavB7oJRVy23wQzjhA-S1y7XORTIGQedpDWS7soF01DmH2XZyeFp7IbZNpGJ63pAiJLvdjP5V3t3mJIn3Zj4nEX8fW4XY4gkxsFOfdG-r9S7Fb16jnw_8aI2yklHZW/s1600/1632190120974334-0.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjX9rZ-ZiwcOUNZhndavB7oJRVy23wQzjhA-S1y7XORTIGQedpDWS7soF01DmH2XZyeFp7IbZNpGJ63pAiJLvdjP5V3t3mJIn3Zj4nEX8fW4XY4gkxsFOfdG-r9S7Fb16jnw_8aI2yklHZW/s1600/1632190120974334-0.png" width="400">
</a>
</div><div>اناالحق» و «سبحانی ما اعظم شانی» </div><div>کو کب بیان کروگے </div><div>زندگی بھر قدمی ھذا کو بیان کرتے رہوگے</div><div>ارباب تصوف ہی میں بعض حضرات ایسے ہوتے ہیں کے جن پر دگر گوں حالات وقوع پزیر ہوتے ہیں جسکی وجہ ان سے غلبہ وحال سکر ومستی میں۔ ایسے کلمات وحرکات صادر ہوتے ہیں جو بظاہر خلاف سنت معلوم ہوتے ہیں اور انکا ادارک کرنا ہر کہہ ومہہ کی بس کی بات نہیں ہوتی اور یہ جماعت مرفوع القلم ہوتی ہے ا</div><div>جیسے منصور حلاج </div><div> </div><div>جیسے بایزید بسطامی رضی اللہ تعالی عنہ </div><div>ولایت کے اعلی درجات پر فائز المرام ہیں ولایت میں ان سے بڑا درجہ ومرتبہ کسی اور کے پاس نہیں ہے</div><div>آپ کو لوح محفوظ پر سلطان العارفین لکھا ہےیعنی جتنے بھی عارفین ہونگے انکے سلطان انکے رہبر آپ ہیں </div><div>آپکا قول ہے یہ الفاظ بلا قصد زبان سے جاری ہوتے ہیں سبحانی مااعظم شانی لاالہ الا آنافاعبدونی </div><div>اب اگر اس کلمہ سکرکو شدومد کے ساتھ بیان کروگےتو لوگ ورطہ حیرت پڑ جائینگے</div><div>اور فتنہ وفساد میں مبتلا ہوکر رہے جائینگے کے کس کی عبادت کی جائے بایزید کی عبادت کریں (معاذ اللہ رب العالمین خاکم بدہن </div><div>ایسے اقوال جو ولی اللہ سے عالم سکر وجد میں صدور پاتے ہیں وہ قابل عمل </div><div>اورلائق ارشاد نہیں ہوتے ہیں </div><div>کیونکہ انکا صبر وضبط ٹوٹ چکا ہوتا ہے </div><div> انکو محافل و مجالس میں بیان کرنے سے بچیں چیخ چیخ عام وتام نہ کریں</div><div>اس سے دوسرے تمام جلیل القدر اولیاء صالحین عارفین کی توہین وگستاخی کا عمل صادر ہوتا ہے </div><div><br></div><div>فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا </div><div>من خدائے وقتم من مصطفائے وقتم </div><div>اب کوئی عقل سے عاری اور علم سے محروم شخص ہی اسکو عوام میں بیان کرتا پھرے گا ان اقوال سے شریعت اسلامیہ کے کونسے مسئلے کی عقدہ کشائی </div><div>ہوتی ہے کونسے علمی ابواب منکشف ہوتے ہیں سوائے جہالت اور اہلسنت والجماعت کی رسوائی کے </div><div>خدا را ایسے ہفوات وخرافات سے متصوفین کی جماعت کو بدنام کرنے سے اجتناب کریں</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-32035552891375394432021-09-16T19:08:00.001-07:002021-09-16T19:08:13.308-07:00اجمیر شریف میں چلہ مدار پر حاضری <div>*اجمیر شریف میں حضور مدار پاک کے دو چلوں پر حاضری اور سلسلۂ مداریہ کی دیگر نشانیوں کی زیارت۔* </div><div>6/ستمبر 2021ء کو پورا دن ہند الولی تاجدار چشتیت حضرت سیدنا و سندنا خواجہ معین الدین اجمیری سجزی- رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ و ارضاہ عنا-کی بارگاہ سے مستفیض ہونے میں گزرا،اور وہاں پہنچ کر درگاہ شریف کی بغل میں اکبری مسجد میں دو رکعت صلاۃ التوبہ ادا کرکے بارگاہ خواجہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا،رضی اللہ تعالیٰ عنہ و أرضاہ عنا و أنار قلوبنا بفضلہ و کرمہ و ھدانا الی الصراط القویم۔آمین۔۔۔</div><div>بعضے ثقہ لوگوں سے سنا تھا کہ اجمیر شریف میں سلسلۂ مداریہ کی بہت سی نشانیوں کے ساتھ ساتھ حضور مدار پاک کی چلہ گاہیں بھی ہیں،،7/ستمبر کو وہ قول مسموع یقین میں تبدیل ہوا۔</div><div> ہم 7/ستمبر کی فجر ادا کرکے حضور سیدنا مدار پاک کی عبادت گاہوں(چلوں) پر حاضر ہوے،جب وہاں پہنچے تو حیران رہ گیے،وہاں صرف چلے ہی نہیں،بلکہ اور بھی چیزیں تھیں،مثلا مدار صاحب قبرستان،مدار مدرسہ،مدار مسجد۔جو تقریبا چھ یا سات بیگھہ کے رقبے پر منتشر تھیں۔</div><div>حضور سیدنا مدار پاک کے اجمیر شریف میں دو چلے ہیں،ایک مدار ٹیکری(جو اجمیر شریف کے سب سے بلند پروتوں میں سے ہے)اور دوم مدار پہاڑی پر،جہاں اب گھر آباد ہو چکے ہیں،سرکار مدار پاک کے یہ چلے سنت مصطفیٰ کے عکس جمیل ہیں،کہ ان چلوں میں غار حرا و ثور کا پرتو نظر آتا ہے۔</div><div>شیخ عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمہ نے ان چلوں کے بابت لطائف المنن میں لکھا ہے:</div><div>"إن روحانية الولي إذا دخل مكانا أو مشىٰ في أرض،تبقىٰ تلك الروحانية في ذلك المكان ستة أشهر كما يشهده أرباب القلوب فكيف بالمكان الذي كان مسكن الولي ليلا و نهارا"</div><div>ترجمہ:یقینا ولی کی روحانیت کا یہ حال ہے،جب وہ کسی جگہ پر داخل ہوتا ہے یا کسی زمین پر چلتا ہے تو اس کی وہ روحانیت اہل دل کے مشاہدے کے مطابق چھ ماہ باقی رہتی ہے،پھر اس جگہ کا کیا کہیے جہاں ولی دن رات رہتا ہو"</div><div>(لطائف المنن،ص:۵۲۲،دار الکتب العلمیہ)</div><div>تاجدار پھلواری شریف حضرت شاہ سلیمان قادری چشتی پھلواری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:</div><div>"اے عزیز!بزرگوں کے جو جا بجا چلے بنے ہوئے ہیں،اور ان کے عبادت خانوں کو لوگوں نے گھیر دیا ہے،بے شک ان مقاموں سے ان بزرگوں کی پاک روحانیت کا فیض آتا ہے،پس اے عزیز!ان بزرگوں کے مکانات چلہ کو عوام کا ڈھکوسلہ نہ سمجھو،در ہر عامے خاصے ہست یا یوں سمجھو ما من عام الا خص"</div><div>(شمس المعارف،ص:428،مرکز علوم اسلامیہ کراچی)</div><div>پھر اپنے مشاہدے بیان کرتے ہوے شاہ سلیمان پھلواری رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں:</div><div>"عجیب وغریب بات ہے کہ جب حضرت بدیع الدین مدار قدس سرہ کے چلے پر پہنچا،جہاں اس جناب نے سالہا سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تھی،تو بس اس مقام پر کھڑا ہونا تھا کہ ایک استغراقی تجلی نے اپنے آپ میں گم کر دیا اور کئی دن تک اس کا اثر محسوس ہوتا رہا"</div><div>(شمس المعارف م،ص:429،مرکز علوم اسلامیہ کراچی)</div><div>ان اقتباسات سے چلہ گاہوں کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں،اجمیر شریف میں نیچے والی پہاڑی کے چلے کی زیارت کرنے کے بعد مدار ٹیکری کا قصد کیا،وہاں جاتے وقت میرے ہمراہی اس بابت ششدر تھے کہ مدار پاک اس سو منزلہ سب سے اونچی پہاڑی پر کیسے چڑھ گیے،اگر چہ یہ بھی مستحضر تھا کہ حضرت قطب المدار کو روحانی تصرف حاصل تھا۔</div><div>بہر کیف ایک گھنٹہ کا راستہ طے کر کے مدار ٹیکری پہنچے،اور چلہ گاہ میں داخل ہوے،تو وہ سکون حاصل ہوا جو اس بے بس کی زبان سے باہر ہے۔</div><div>وہاں فاتحہ و درود شریف پڑھ کر اس کا ثواب صاحب چلہ حضرت سید قطب المدار حلبی کو پہنچایا،اور صلاۃ وسلام بھی پڑھا۔</div><div>غرض کہ وہاں مدار پاک کی اور بھی نشانیاں موجود ہیں،مثلا مدار جنکشن،مدار گیٹ،مدار ہل،مدار پورہ وغیرہ۔۔۔جو سب اس جانب دال ہیں کہ مدار پاک خواجہ پاک سے بہت پہلے اجمیر شریف کی دھرتی پر تبلیغ اسلام کر چکے تھے۔۔۔۔</div><div>مجھے یہ ساری باتیں لکھتے ہوے بہت شادمانی محسوس ہو رہی ہے،اللہ رب العزت دوبارہ حاضری کا شرف حاصل فرماے۔آمین بجاہ النبی الکریم-ﷺ-</div><div>۔۔۔ *بدیعی ہاشم مصباحی۔۔</div><div>مؤرخہ:9/ستمبر 2021ء بمطابق یکم/ صفر المظفر 1443ھ*</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-56457854230917485152021-08-07T19:11:00.001-07:002021-08-07T19:11:04.284-07:00مقام قطب المدار ہی سب بڑا مرتبہ ہے ولایت کا مولانا طاہرالقادری کے فرضی بے بنیاد بیان کا رد<div>🥀مقام مداریت💫</div><div> ازقلم:جامع معقول ومنقول حضرت العلام مفتی ابوالحماد محمد اسرافیل حیدری المداری۔</div><div><br></div><div>🥀قرآن مجید بلاشبه سارے عالم کے لیے هدایت وارشاد کی اصل هے ۔اس کی چھ هزار چھ سوچھیاسٹھ ٦٦٦٦ آیات تین درجوں میں منقسم هیں اس میں بعض آیات محکمات هیں توکچھ مجملات اوربعض ایسی متشابهات هیں جن کے معانی ومطالب الله تعالیٰ اور رسول کریم علیه التحیة والتسلیم کے کے درمیان صیغه راز هیں یه توقرآن حکیم کی بات هے جوصفات باری تعالی سے عبارت هے۔</div><div>اولیاء الله ومحبوبان بارگاه الٰه جوذات باری تعالی کے مظاهر ونائبین هیں انهیں بھی تین درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا هے۔ان میں بعض وه هیں جن کاعرفان عوام وخواص کوکسی نه کسی طرح هو جاتا هے اوربعض وه هیں جن کی شناخت صرف خواص هی کر پاتے هیں اورکچھ وه بھی هیں جن کی معرفت کما حقه اخص الخواص بھی نهیں کر پاتے هیں مگر جتنا الله جل جلاله چاهتا هے غالباً انهیں سے متعلق یه حدیث قدسی هے:</div><div>”اولیاءی تحت قبای لا یعرفهم غیری۔“یعنی میرے اولیاء میری قباء رحمت میں رهتے هیں میرے سواکسی غیر کو ان کی معرفت نهیں هوتی۔</div><div> امام محقق علامه یوسف نبهانی رحمة الله علیه شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمة الله علیه کے حواله سے نقل فرماتے هیں که طریقه ولایت میں مردان حق کا مشترکه نام تو”عالم الانفاس“ هے .لیکن ان حضرات کے کئی طبقات هیں اورمختلف احوال سے کئی وه نام دار بھی هیں جن میں یه سب طبقات واحوال بحیثیت مجموعی پائے جاتے هیں ۔اور کئی نفوس قدسیه کو ان طبقات واحوال میں سے کچھ ملتا هے جوالله چاهتا هے۔ان اصحاب احوال ومقامات کے هرطبقه کا ایک خاص لقب هوتا هے۔</div><div> پھرکچھ حضرات وه هیں جو هر دور میں مخصوص عددمیں هوتے هیں اورکچھ وه هیں جن کی تعداد متعین نهیں هوتی۔وه کم وبیش هوتے رهتے هیں.</div><div>(جامع کرامات اولیاء ۔اردو ص٢٢٩۔مطبوعه :مکتبه رضویه۔”امام محقق علامه یوسف نبهانی“)</div><div> وه صاحب مراتب مردان حق جنکی تعداد مقرر هیں ان کی کل سینتیس٣٧ قسمیں هیں۔جنمیں سے چند مشهور نام یه هیں</div><div>:١:اقطاب۔</div><div>٢:ائمه۔</div><div>٣: اوتاد</div><div> ٤:ابدال۔</div><div>٥:نقباء۔ </div><div>٦: نجباء۔ </div><div>٧:حواری۔ </div><div>٨: رجبی۔</div><div> ٩: ختم ۔</div><div> ١٠: قلب آدم علیه السلام کے مطابق دلوں والے۔</div><div> ١١: قلب نوح علیه السلام کے مطابق دلوں والے۔ </div><div>١٢:ترجمان قلب ابراهیم علیه السلام ۔</div><div>١٣:قلب جبرئیل علیه السلام کے نمائندے </div><div>۔١٤: قلب میکائیل علیه السلام کے نمائندے</div><div>۔١٥: قلب اسرافیل علیه السلام کانمائنده فرد واحد۔ حضرت بایزید بسطامی رحمة الله تعالی علیه قلب اسرافیل کے مطابق تھے۔</div><div> ١٦: مردان عالم الناس ۔</div><div>١٧:رجال الغیب وغیره۔</div><div> وه اولیاء الله جنکے لیے عدد متعین نهیں ان میں سے بعض کے نام یه هیں ۔:</div><div> ١: ملامتیه۔</div><div> ٢:فقراء۔ </div><div>٣: صوفیه</div><div>۔ ٤: عباد ۔</div><div>٥: معارف الٰهیه ۔</div><div>٦: زهاد۔</div><div> ٧: رجال الماء </div><div>۔٨: افراد۔</div><div> ٩: امناء ۔</div><div> ١٠: قراء </div><div>۔١١: احباب ۔</div><div>١٢: محدثون ۔</div><div>١٣: اخلاء ۔</div><div> ١٤: السمراء </div><div>۔ ١٥: ورثه۔ </div><div> ان اولیاء کرام میں سے یهاں صرف اقطاب کی منزلت ومرتبه پر خصوصی بحث کرتے هیں۔</div><div>قطب کی جمع اقطاب هے۔</div><div>🥀قطب کالغوی معنی:💫</div><div>چکی کی کیل جس پر چکی گھومتی هے۔مدارکار.سردارقوم۔ زمین کے محور کا کناره۔ایک ستاره کا نام جس سے قبله کی تعیین کرتے هیں۔</div><div><br></div><div>🥀قطب کا اصطلاحی معنی💫</div><div>جواصالةً یا نیابةً سب احوال ومقامات کا جامع هو ۔</div><div><br></div><div>کبھی لفظ قطب میں صوفیاء کرام وسعت پیدا کردیتے هیں اور ایسے شخص کوبھی قطب کہہ دیتے هیں جس پر مقامات میں سے کوی مقام طاری هوا هو۔یاوه اپنے ابنائے جنس میں انفرادی مقام اپنے دور میں پیدا کرچکا هو ۔اسی بناء پر شهر کے کامل کو اس شهر کا قطب کہہ دیتے هیں اورکسی جماعت کے شیخ ومرشد کو اس جماعت کا قطب کہہ دیتے هیں ۔یه تومجازی معانی تھے ۔</div><div> لیکن مشایخ کی اصطلاح میں جب یه لفظ بغیر اضافت استعمال هو توایسے عظیم انسان پر اس کا اطلاق هوتا هے جوزمانه بھر میں صرف ایک هی هوتا هے۔بعض اسی کو غوث بھی کهتے هیں ۔یه مقربین خدا هوتے هیں اور اپنے زمانه میں گروه اولیاء کے آقا هوتے هیں۔(جامع کرامات اولیاء:ص٢٣٠۔)</div><div> بعض حضرات قطب کی تعریف میں لکھتے هیں کہ قطب وه هے جوعالم میں منظور نظرحق تعالی هو اور وه حضرت اسرافیل علیه السلام کے قلب پر هوتا هے۔(الدرالمنظم فی مناقب غوث الاعظم ص: ٥٠)۔لطایف اشرفی)۔</div><div><br></div><div>حضرت شیخ اکبر فتوحات کے باب تین سوتراسی ٣٨٣؎میں لکھتے هیں که قطب کے سبب سے الله تعالی محفوظ رکھتا هے کل دائره وجود کو عالم کون وفساد سے اور امامین (ائمه)سے عالم غیب وشهادت کو اور اوتاد کی وجه سے جنوب وشمال کو مشرق ومغرب کو اورابدال کی وجه سے ساتوں ولایتوں کو محفوظ رکھتا هے۔</div><div> اور قطب الاقطاب ان سب کو محفوظ رکھتا هے کیونکه وه تووه شخص هے جس پر سارے عالم کا امردائر هے۔۔</div><div><br></div><div>🥀قطب علوم اسرار کا عالم هوتا هے💫</div><div> شیخ عبدالوهاب شعرانی ”الیواقیت والجواهر“کے باب دوسو پچیس٢٢٥.میں لکھتے هیں که قطب اپنی قطبیت میں قائم نهیں ره سکتا تاوقتیکه اس کو ان حروف مقطعات کے معانی نه معلوم هوں جواوائل سورقرآنیه میں هوتے هیں۔(الدرالمنظم)۔</div><div><br></div><div>شیخ اکبر فتوحات کے باب دوسوستر٢٧٠.میں لکھتے هیں کہ قطب کا نام هرزمانه میں عبدالله اورعبدالجامع هے اور اسکی تعریف یه هے که وه موصوف باوصاف الٰهی هو یعنی بمصداق ”اتصفوا بصفات الله وتخلقوا باخلاق الله “قطب اوصاف الٰهیه سے متصف هوتا هے اور اخلاق سرمدیه کے سانچے میں ڈھل جاتا هے ۔اس طور پر که اس میں تمامی معانی اسمائے حسنیٰ کی جلوه باری هوتی هے۔</div><div> مزید فرماتے هیں: قطب وه مردکامل هے جس نے وه چار دینار حاصل کیئے هوں جس کا هردینار پچیس قیراط کا هو اور ان سے مردان خدا کی کیفیت معلوم کی جاتی هو ۔اور ان چاردینارسے مراد رسل , انبیاء, اولیاء اور مومنین هیں اور ان سب کاوارث قطب هوتا هے۔</div><div><br></div><div>🥀ایک قطب کے تصرف کی حد 💫</div><div><br></div><div> سرکار غوث پاک عبدالقادرجیلانی رضی الله تعالی عنه فرماتے هیں که اقطاب کے لیئے سولہ عالم هیں اور هرعالم ان میں سے اتنا بڑا هے جواس عالم کےدنیاء وآخرت دونوں کو محیط هے مگراس امرکو سوائے قطب کے کوئی نهیں جانتا۔(الدرالمنظم ص ٥٨) </div><div> </div><div> یاد رکھیں اقطاب سے زمانه کبھی خالی نهیں رهتا شیخ اکبر فتوحات میں چودھویں باب میں رقم فرماتے هیں کہ امم گذشته کے تماما اقطاب کاملین حضرت آدم علیه السلام سے لے کر عہد رسالت مآب تک کل پچیس هوئے هیں۔۔</div><div><br></div><div>🥀وه اقطاب جوانبیاء علیهم السلام کے قلب پر هیں💫</div><div> </div><div>شیخ عبدالرحمن چشتی بحواله فتوحات نقل فرماتے هیں که باره اقطاب ایسے هیں جوبعضے انبیاء علیهم السلام کے قلب پر هیں جن میں پہلا قطب حضرت نوح علیه السلام کے قلب پر هے اس کا ورد سوره یَٰسین شریف هے ۔</div><div>دوسرا قطب حضرت ابراهیم علیه السلام کے قلب پر هے اس کا ورد سوره نصر هے۔</div><div>تیسرا قطب حضرت عیسیٰ علیه السلام کے قلب پر هے اس کا ورد سوره فتح هے۔</div><div>چوتھا قطب حضرت داؤد علیه السلام کے قلب پر هے اس کا وردسوره زلزال هے۔</div><div>پانچواں قطب حضرت سلیمان علیه السلام کے قلب پر هے اس کا ورد سوره واقعه هے۔..................</div><div>بارهواں قطب حضرت شیث علیه السلام کے قلب پر هے اسکا ورد سوره ملک هے ۔</div><div>اور قطب المدار قلب محمدی صلی الله علیه وسلم پرهوتا هے اور بڑے شهر میں هوتا هے اس کا فیض عالم علوی وسفلی پر برابر هوتا هے۔(مرأة الاسرار اردو ص٩٣ .مطبوعه :مکتبه جام نور دهلی۔شیخ عبدالرحمن چشتی)</div><div><br></div><div>🥀تمام اقطاب قطب المدار کے محکوم ہوتےہیں 💫</div><div><br></div><div>اقطاب جتنے ہوتے ہیں سب کے سب قطب المدار کے محکوم و ماتحت ہوتے ہیں اور وہ بارہ اقطاب بھی جن کا ما سبق میں ذکر ہوا قطب المدار کے محکوم ہوتے ہیں ان بارہ قطبوں میں سے سات ہفت اقلیم کے ہیں یعنی ہر اقلیم میں ایک قطب اور پانچ قطب یمن کی ولایت میں رہتے ہیں ان کو قطب ولایت کہتے ہیں </div><div>قطب عالم یعنی قطب المدار کا فیض اقطاب اقالیم پر وارد ہوتا ہے اور اقطاب اقالیم کا فیض اقطاب ولایت پر آتا ہے</div><div> اور اقطاب ولایت کا فیض تمام اولیاء پر جاتا ہے اور یہی طریقہ قیامت تک رہے گا... </div><div>(مراۃ الاسرار اردو... ص 938. مطبوعہ مکتبہ جام نور دہلی شیخ عبد الرحمٰن چشتی)</div><div><br></div><div>🥀قطب عالم ,صاحب زماں, قطب الاقطاب اور قطب المدار ایک ہی شخص کا نام ہیں 💫</div><div><br></div><div>سید السادات سید باسط علی قلندر قدس سرّہ الاطہر فرماتے ہیں قطب الارشاد قطب الاقطاب اور قطب عالم صاحب زماں اور قطب المدار ایک ہی شخص کے نام ہیں جو بالاصالت عرفان کی کنجی ہے</div><div> اور اقطاب کہ در اصل موصل الٰی اللہ ہیں اور وہ نیابت میں قطب الاقطاب کے رہتے ہیں اور اس قطبالاقطاب کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہے انکو اپنی نیابت میں رکھے یا نہ رکھے... (مطالب رشیدی ص 267. درالمنظم فی مناقب غوث اعظم) </div><div><br></div><div>حضرت سید جعفر مکّی رحمة اللہ علیہ جو حضرت سیدنا</div><div> نصیر الدین چراغ دهلوی کے مرید و خلیفہ ہیں اپنی کتاب ”بحر المعانی“ میں رقم فرماتے ہیں کہ قطب عالم ہر زمانہ میں ایک ہوتا ہے اور موجودات علوی اور سفلی کا وجود اس کے وجود کے سبب قائم ہوتا ہے اور بوجہ اس کے قطب عالم کےہونےکے سب چیزیں قائم ہوتی ہیں اور بارہ اقطاب اس کے سوا ہوتے ہیں قطب عالم کو حق تعالٰی سے بے واسطہ فیض پہنچتا ہے اور اسی کو قطب اکبر اور قطب الارشاد اور قطب الاقطاب اور قطب المدار بھی کہتے ہیں </div><div>(مراۃ الاسرار... ص 91 )</div><div><br></div><div>”تفسیر روح البیان“( مترجم زیر آیت و الجبال اوتادا.... پ. عمّ) میں مرقوم ہے کہ ہر زمانہ میں ایک قطب ہوتا ہے یہ قطب سب سے بڑا ہوتا ہے</div><div> اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے قطب عالم, قطب کبریٰ, قطب الارشاد, قطب المدار, قطب جہاں اور جہانگیر عالم </div><div>عالم علوی اور عالم سفلی میں اسی کا تصرف ہوتا ہے اور سارا عالم اسکے فیض و برکت سے قائم ہوتا ہے</div><div> اگر قطب عالم کا وجود درمیان سے ہٹا دیا جائے تو سارا عالم درہم برہم ہوکر رہے جائے </div><div>قطب عالم براہ راست اللہ تعالٰی سے احکام و فیض حاصل کرتا ہے اور ان فیوض کو اپنے ما تحت اقطاب میں تقسیم کرتا ہے وہ دنیا کے کسی بڑے شہر میں سکونت رکھتا ہے بڑی عمر پاتا ہے</div><div> نور خام مصطفوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی برکات ہر سمت سے حاصل کرتا ہے وہ اپنے ما تحت اقطاب کے تقرّر , تنزّل اور ترقّی کے اختیار کا مالک ہوتا ہے ولی کو معزول کرنا ولایت کو سلب کرنا ولی کو مقرر کرنا اس کے درجات میں ترقی دینا اسی کے فرائض میں ہے.</div><div> وہ ولایت شمس پر فائز ہوتا ہے لیکن اس کے ماتحت اقطاب کو ولایت قمر میں جگہ ملتی ہے قطب عالم اللہ تعالٰی کے اسم رحمٰن کی تجلی کا مظہر ہوتا ہے</div><div> سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مظہر خاص تجلیّ الولایت ہیں قطب عالم سالک بھی ہوتا ہے اس کا مقام ترقی پزیر ہوتا ہے حتٰی که وہ مقام فردانیت تک پہنچ جاتا ہے و ہی مقام محبوبیت ہے رجال اللہ میں اس قطب عالم کا نام عبداللہ بھی ہے ..( تفسیر روح البیان اردو ص 12 زیر آیت والجبال اوتادا پ عم مترجم مولانا فیض احمد اویسی مطبوعہ رضوی کتاب گھر دہلی). </div><div><br></div><div>قطب المدار پر مخلوق کے احوال روشن رہتے ہیں... چونکہ قطب المدار پر خلق کے احوال گردش کرتے رہتے ہیں اس لئے قطب المدار مخلوق کے احوال کو جانتا ہے اور اس پر خلق کی حالت آشکارا ہوتی ہے۔</div><div> شیخ عبد الرزاق قاشانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ”القطب فی اصطلاح القوم اکمل الانسان متمکن فی مقام الفردیّۃ تدور علیہ احوال الخلق“</div><div> یعنی صوفیہ کی اصطلاح میں قطب المدار. اس کامل ترین انسان کو کہتے ہیں جو مقام فردیت پر فائز ہو جس پر مخلوق کے احوال دائر ہوں اورگردش کرتے ہوں. ..(رسالہ ابن عابدین الشامی ص 265 )</div><div><br></div><div>صاحب فتاویٰ شامیہ امام ابن عابدین الشامی قدس سرہ النورانی نقل فرماتے ہیں.. ”الخلیفۃ الباطن ھو سید اھل زمانہ سمیَ قطباً لجمع جمیع المقامات والاحوال و دورانھا علیہ“.. (رسالہ ابن عابدین الشامی) </div><div>یعنی خلیفئہ باطن جو اپنے زمانہ والوں کا آقا ہوتا ہے اسی کو وہ قطب کہتے ہیں جسے قطب المدار کہا جاتا ہے کیونکہ تمام مقامات و احوال کا وہ جامع ہوتا ہے اور تمام مقامات و مراتب اسی کے گرد دائر ہوتے ہیں اور گھومتے ہیں. </div><div>لطائف اشرفی میں شیخ اکبر کے حوالے سے مرقوم ہے.۔.</div><div>” اما القطب وھو الواحد الذی موضع نظر اللہ تعالٰی من العالم فی کل زمان وجمیع اوان وھو علٰی قلب اسرافیل علیہ السلام و قطب الاقطاب باطن نبوته صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فلا یکون إلالورثتہ لا ختصاصہ علیہ السلام بلاکملیَّۃ فلا یکون خاتم الولایۃ و قطب الاقطاب اِلّاعَلٰی باطِن خاتم النبوَّۃ“. </div><div>یعنی قطب وہ ہے جو عالم میں منظور نظر الٰہی ہوتا ہے وہ ہر زمانے میں ہوتا ہے اور وہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کے مشرب پر ہوتا ہے اور قطبیت کبریٰ جو قطب الاقطاب ( قطب المدار) کا مرتبہ ہے اور یہ مرتبہ باطن نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور یہ مرتبئہ کمال صرف وارثان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اس لئے کہ آپ ہی اکملیت سے مختص ہیں تو خاتم الولایت اور قطب الاقطاب وہی ہوگا جو باطن خاتم نبوت پر ہو انتہی کلامہ (لطائف اشرفی نقل ازفتوحات فصل 31 باب 198)</div><div><br></div><div>عبارت بالا سے واضح ہوا کہ قطب المدار قطبیت کبریٰ کے مقام پر فائز ہوتا ہے</div><div> قطب المدار جسے قطب الاقطاب بھی کہتے ہیں وہی اکملیت کے ساتھ وراثت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا حامل و متحمل ہوتا ہے اور قطب المدار قطب الاقطاب خاتم النبین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وراثت سے منتہائے درجہ ولایت خاتم الولایت کے منصب پر فائز ہوتا ہے</div><div> اور وہی ولایت خاصہ محمدیہ علٰی صاحبھا الصلاۃ التسلیم کا وارث کامل ہوتا ہے </div><div><br></div><div>ولایت خاصہ محمدیہ کا فیضان.</div><div> حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ النورانی اپنے مکتوبات میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ولایت خاصہ سے ولایت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہے ولایت محمدیہ علٰی صاحبھا الصلاۃ والسلام میں فنائے اتم اور بقائے اکمل حاصل ہوتی ہے تو جو نیک بخت اس نعمت عظمیٰ سے مشرف کیا گیا اس کا جسم طاعت کے لئے نرم ہو گیا اور اس کا سینہ اسلام کے لئے کھل گیا اور اس کا نفس مطمئنہ ہو گیا اور اسکا نفس اپنے مولٰی سے راضی یو گیا اور اس کا مولٰی اس سے راضی ہو گیا اور اس کا دل رب تعالٰی کی ذات کے لئے خالص ہو گیا اور اس کی روح پورے طور پر صفات لاھوت کے مکاشفے کے لئے آزاد ہو گئ اور اس کا سِرّ شیون واعتبارات کے ملا حظہ کے ساتھ موصوف ہو گیا اور اس مقام میں تجلیات ذاتیہ برقیہ سے مشرف ہو گیا اس کا لطیفہ خفی رب تعالٰی کے تنزہ اور تقدس کبریا کے سامنے دریائے حیرت میں ڈوب گیا اس کا لطیفہ اخفیٰ اس ذات کے ساتھ بے کیف اور بے مثال طریقہ پر اتصال پزیر ہوگیا ...”ھنیئاً لاربابِ النعیم نعیمھا“. ارباب نعمت کو نعمتیں مبارک ہوں (مکتوبات جلد اول مکتوب نمبر 135 امام ربانی مجدد الف ثانی) </div><div><br></div><div>🥀کتبہ ابو الحماد محمد اسرافیل حیدری المداری💫<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgkMEPiWe6MpMBecM4I9ovuX2hw1k3Gv-RrLggaoGP79f7M_xSBxgszDIVW7F-PELPmgOqHGUAoGGDBCpJwjinyxfJABbR62ONCREeqCIjXcRcwHAYXB1hroD57BfH8qww5oJvzEHsytbPV/s1600/1628388655724971-0.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgkMEPiWe6MpMBecM4I9ovuX2hw1k3Gv-RrLggaoGP79f7M_xSBxgszDIVW7F-PELPmgOqHGUAoGGDBCpJwjinyxfJABbR62ONCREeqCIjXcRcwHAYXB1hroD57BfH8qww5oJvzEHsytbPV/s1600/1628388655724971-0.png" width="400">
</a>
</div></div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-39686615613381173132021-08-05T05:59:00.001-07:002021-08-05T06:07:06.812-07:00**سلسلۂ مداریہ اورسلسلۂ وارثیہ کےخلاف اس گھامڑکی تحریرکا مکمل رد اسکے اسی مضمون کےنیچے پڑھ لیجئے آپکو اسکے چتیاپےکا پتہ چل جائیگا* <a href="http://www.qutbulmadar.org">syed zafar mujeeb madari nayab Sajjada Nasheen dargha zinda shah madar makanpur mobile number 9838360930</a><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiC2DlRCfYJtN89QbaO-KQ6L_zmVbRFE9wdydujXRBk-YMawDbLD_nAnFF0Vhw6jFmY8kYkMut0UKte3v-gZ-ZizxkaM1gE7rVNUS4_B8C1GyNPCFN5_BgcCf6lWgKpRRXr2MvgStV7lTIQ/s1600/1628168819893195-0.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiC2DlRCfYJtN89QbaO-KQ6L_zmVbRFE9wdydujXRBk-YMawDbLD_nAnFF0Vhw6jFmY8kYkMut0UKte3v-gZ-ZizxkaM1gE7rVNUS4_B8C1GyNPCFN5_BgcCf6lWgKpRRXr2MvgStV7lTIQ/s1600/1628168819893195-0.png" width="400">
</a>
</div><div>**سلسلۂ مداریہ اورسلسلۂ وارثیہ کےخلاف اس گھامڑکی تحریرکا مکمل رد اسکے اسی مضمون کےنیچے پڑھ لیجئے آپکو اسکے چتیاپےکا پتہ چل جائیگا* </div><div>🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸</div><div><br></div><div>*دو خانقاہوں سے مرید ہر گز نا ہوں*</div><div><br></div><div> (1) *مداری*</div><div> (2) *وارثی*</div><div><br></div><div>*یقینًا *حضرت شاہ بدیع الدین مدار اور *وارثِ پاک دونوں ہی بہت مقدس ولیِ کامل ہیں لیکن ان دونوں بزرگوں نے اپنا کوئی خلیفہ و جانشین نہیں بنایا لہٰذا ان دونوں بزرگوں کے سلسلہ سے مرید ہونا اور کرنا دونوں گمراہی ہے اور خود ان بزرگوں کی توہین ہے۔۔۔۔*</div><div><br></div><div> *حضور سیّدی سرکار بدیع الدین شاہ مدار کے سلسلہ کے بارے میں خود گیارہویں صدی کے مجدّد سیّدنا میر عبدالواحد بلگرامی نے ایک مکمّل واقعہ (سبع سنابل شریف میں)تحریر فرمایا ہے جس میں آپ لکھتے ہیں کہ حضرت شاہ سراجِ سوختہ رحمة اللہ علیہ نے بدّعا دی ہے کہ میں نے شاہ بدیع الدین مدار کے مریدوں کو گمراہ کیا اس بدّعا کے بعد خود بدیع الدین شاہ مدار نے فرمایا ہے کہ میرے چند مرید ہیں انکو میں مریدی سے بے دخل کرتا ہوں اور خلافت میں نے نہ کسی کو دی ہے اور نہ خلافت کسی کو دونگا۔۔(اس کتاب کو بارگاہِ رسالت میں مقبولیت حاصل ہے) لیکن ایک ولیِ کامل کی بدّعا تھی تو شاہ مدار جانتے تھے کہ اسکا اثر ہوگا (اور یقینًا اسکا اثر ہوا بھی کہ دورِ حاضرہ کے مداری بغیر اجازت و خلافت کے مرید کرتے ہیں اور خود بھی گمراہ ہیں اور عوام کو بھی گمراہ کرتے ہیں) سیدنا سرکار اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ نے بھی فرمایا ہے کہ مداریہ سلسلہ سوخت ہے (اسی وجہ سے دورِ حاضرہ کے مداری سیدنا میر بلگرامی اور اعلٰی حضرت کو گالیاں بکتے ہیں کیونکہ ان دونوں بزرگوں نے اس سلسلہ سے مرید ہونا گمراہی بتائی ہے ) مداریوں کو چاہئے کہ اپنی گمراہی سے توبہ کرلیں لیکن یہ چند روزہ عیش و آرام اور مریدوں سے نزرانہ لینے کی وجہ سے توبہ تو نہیں کرتے بلکہ خود بھی گمراہ ہیں اور عوام کو بھی گمراہ کر رہے ہیں وہ عوام بھی بیوقوف ہے جو اپنی آخرت برباد کر رہی ہے (کیونکہ بغیر خلافت و اجازت کے مرید کرنا اور مرید ہونا دونوں گمراہی ہے)* </div><div><br></div><div>*حضرت بدیع الدین شاہ مدار نسب کے اعتبار سے شاہ (فقیر) برادری سے تعلّق رکھتے ہیں لیکن یہ نام کے مداری سب اپنے کو سیّد کہلاتے ہیں جو بالکل غلط ہے اور یہ عوام کو دھوکہ دینا ہے (آپ خود اپنی نظروں سے ان مداریوں کے چہرے دیکھیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں کہ کیا یہ کہیں سے امام حسن یا امام حسین کی اولادیں لگ رہی ہیں ۔ کیا آلِ نبی کی شکلیں ایسی ہوتی ہیں۔۔۔ بال اتنے لمبے لباس، کڑے ،چھلّے، مالے، یقینًا آپ کہینگے کہ یہ سید نہیں بلکہ فقیر ہی ہیں کیونکہ ایسی شکل صورت تو جوگیوں کی ہوتی ہے) واللہ لوگوں کو گمراہ نہ کرو کسی کہ عاقبت برباد نہ کرو اور اپنی پیری مریدی سے توبہ کرو۔۔۔🙏🙏😢😢*</div><div><br></div><div>*اسی طرح دورِ حاضرہ کا سلسلہ وارثیہ ہے* </div><div><br></div><div>*وارثِ پاک نے بھی اپنا خلیفہ و جانشین کسی کو نہیں بنایا لیکن مرید چند کیے ہیں لیکن انکو مرید کرنے کی اجازت نہیں دی ۔۔۔ وارثِ پاک اکثر حالتِ مجزوبیت میں رہتے تھے تو انکو نماز پڑھتے یا روزہ رکھتے اکثر کسی نے نہیں دیکھا اس لئے وارثِ پاک جانتے تھے کہ اگر میں نے سلسلہ جاری رکھا تو نام نمود کے وارثی نماز نہیں پڑھیں گےاور یہ کہیں گے کہ وارثِ پاک بھی نماز نہیں پڑھتے تھے اس لئے وارثِ پاک نے اپنے سلسلہ کو جاری نہ رکھ کر اپنے بعد ختم کر دیا۔ اس لئے سلسلئہ مداریہ اور سلسلئہ وارثیہ سے مرید ہونا جائز نہیں۔۔*</div><div>*یاد رکّھو عقیدت وہی تک اچّھی ہے جس میں حقیقت ہو ورنہ وہ گمراہی ہے*</div><div>*جو حقیقت تھی وہ میں نے بیان کر دی اب بھی اگر کوئی اندھی عقیدت میں اپنی آخرت برباد کرنا چاہتا ہے تو وہ جانے اور اسکا کا۔۔۔ مرنے کے بعد پچھتائے گا۔۔۔*</div><div> *واللہ اعلم باالصواب*</div><div>📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚📚</div><div><br></div><div>*یہ میسج آپ کے پاس امانت ہے میں نے اپنا کام کر دیا لیکن اگر آپ نے اپنے کانٹیکٹ میں سبکو یہ میسج نہ بھیجا تو میں بروزِ محشر آپکا دامن پکڑونگا کہ لوگ گمراہ ہو رہے تھے لیکن آپنے کسی کو نہیں روکا*</div><div><br></div><div>*گمراہی سے بچیں کہیں ایمان کی تلاش میں ایمان ہی نا چلا جائے*</div><div>🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻</div><div><br></div><div>*اب اُس جھوٹےمکارکی پرفریب تحریر پڑھنے کےبعد مندرجہ ذیل محققانہ ایمان دارانہ تحریربھی پڑھ لیں* </div><div>👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻 </div><div>*اجرائے سلسلہء مداریہ، سبع سنابل کا غیر معتبر ہونا- فاضل بریلوی کو سلسلۂ مداریہ میں اجازت و خلافت ہونا اور فتاویٰ فقیہ ملت میں فاضل بریلوی کی تکذیب اور اس کا بطلان*</div><div><br></div><div>*سلسلۂ عالیہ مداریہ جاری ہے*</div><div><br></div><div>نجیب الطرفین مدارالثقلین حامل مقام صمدیت واصل مقام محبوبیت حضورپرنورسیدنا سید بدیع الدین احمد قطب المدار زندہ شاہ مدار قدس سرہ امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰةوالسلام کےممتاز الاحوال منفرد الکمال نادر المثال ولی اللہ ہیں آپ نسباً حسنی حسینی سیدآل رسول ہیں آپکا سلسلۂ طریقت ہندوپاک کا سب قدیم سلسلہ ھے لیکن بعض ناواقف کار لوگ کچھ غلط فتوؤں کےچکرمیں پڑکر خود توگمراہ ہوہی گئےہیں ساتھ ہی وہی گمراہیت پوری سنیت میں تقسیم کرنےکا حلف لےرہےہیں اوردوسروں کوبھی وہی گمراہیت پھیلانے کی قسمیں دےرہےہیں زیرنظرتحریرملاحظہ فرمانےکےبعدآپ سمجھ جا ئینگے کہ سلسلۂ مداریہ کوسوخت کہنا کس پرلےدرجےکی جہالت اورہٹ دھرمی ھے </div><div>حضور مدارالعالمین سید بدیع الدین احمد قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ کے بے شمار خلفاء تهے</div><div>ان میں سے چند مخصوص خلفائے باوقار وہ ہیں جن سے سلسلۂ عالیہ مداریہ کی کئی کئی شاخیں جاری ہوئ ہیں - مثلاً</div><div>قطب الاقطاب خواجہ سید محمد جمال الدین جان من جنتی رضی اللہ عنہ سے سلسلۂ دیوانگان جاری ہوا (اس سلسلہ کے لوگ دیوان کہلاتے ہیں جیسے صاحب مناظرہ رشیدیہ حضرت دیوان عبد الرشید)</div><div>حضرت شیخ قاضی مطہر قلہ شیر ماوری رضی اللہ عنہ سے عاشقان</div><div>حضرت قاضی سید محمود الدین کنتوری رضی اللہ عنہ سے طالبان</div><div>جانشین حضور مدارالعالمین، قطب الاقطاب خواجہ سید ابو محمد محمد ارغون و خواجہ سید ابو تراب فنصور و خواجہ سید ابو الحسن طیفور رضی اللہ عنهم سے خادمان ، خادمان ارغونی، خادمان فنصوری و خادمان طیفوری سلاسل کا اجراء ہوا</div><div>ان کے علاوہ</div><div>حضرت مخدوم جہانیان جہانگشت سید جلال الدین بخاری رضی اللہ عنہ سے مخدومیان مداری</div><div>حضرت مولانا حسام الدین سلامتی جونپوری رضی اللہ عنہ سے حسامیان مداری</div><div>حضرت سید اجمل بہرائچی رضی اللہ عنہ سے اجملیان مداری </div><div>سلسلے جاری ہوئے -</div><div> اور مشائخ مداریہ کے علاوہ دیگر سلاسل طریقت کے مشائخ عظام نے سلاسل مبارکہ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ، نقشبندیہ، رفاعیہ وغیرهم کے ساتھ ساتھ سلسلۂ عالیہ مداریہ کو بهی حاصل کیا ہے اور اس سلسلہ میں بیعت و خلافت کی باقاعدہ اجازت و خلافت سے مستفیض ہوئے ہیں -</div><div>جس کی تفصیل مشائخ طریقت کی بے شمار کتابوں میں موجود ہے -</div><div>ان تمام کتب اکابر کی عبارات اور شجرات پڑهنے کے لئے *سعئ آخر* (مصنفہ حضور غازئ ملت سید محمد ہاشمی میاں صاحب قبلہ اشرفی الجیلانی دامت برکاتهم القدسیہ ) اور *سلسلہء مداریہ* (مصنفہ حضرت علامہ مولانا قیصر رضا شاہ علوی حنفی المداری ) وغیرهما کا مطالعہ کریں -</div><div>*مطبوعہ سبع سنابل* کذب، جہل، ضلالت اور کفری عبارات پر مشتمل ایک گندی اور غیر معتبر کتاب ہے</div><div>بقول حضرت مولانا محمد میاں قادری برکاتی مارہروی کے اس مطبوعہ ایڈیشن میں بعض غلطیاں رہ گئیں چنانچہ وہ لکهتے ہیں -</div><div>*" تصحیح میں بہت اہتمام مد نظر رکهنا بتایا گیا ہے مگر افسوس ہے بعض جگہ بعض اہم اغلاط رہ گئی ہیں (الی ان حرر) اور افسوس یہ ہے کہ وہ ہمارا قلمی صحیح نسخہ بهی بدایوں ہی میں رہ گیا اور اب نہ معلوم اس کا کیا حشر ہوا"*</div><div>( مقدمہ سبع سنابل اردو ص 43)</div><div><br></div><div>غازئ ملت حضرت علامہ سید محمد ہاشمی میاں صاحب قبلہ اشرفی الجیلانی دامت برکاتهم القدسیہ تحریر فرماتے ہیں -</div><div>*" حضرت میر عبد الواحد بلگرامی قدس سرہ کی طرف منسوب کتاب سبع سنابل قابل توجہ ہے اس میں وہی باتیں بلا شک و شبہ صحیح و درست ہیں جن کی تائید و توثیق علماء ربانیین کر چکے ہیں - یہ کتاب میر صاحب علیہ الرحمتہ کے وصال کے بہت بعد شائع ہوئ اور اس میں بعض عبارتیں الحاقی بهی ہیں مثلاً سلسلۂ مداریہ کے سوخت ہونے کی بات"*</div><div>( سعئ آخر ص 270)</div><div>پهر سلسلۂ مداریہ کے اجراء پر طویل بحث اور بے شمار دلائل پیش کرکے رقم طراز ہوتے ہیں</div><div>*" الحمد للہ ! میں نے بدلائل قاہرہ ثابت کر دیا کہ سلسلۂ عالیہ بدیعیہ جاری ہے اسے سوخت قرار دینا غلط خلاف واقعہ اور بے شمار اولیاء اللہ کی تکذیب ہے - ایسی بے سر و پا باتیں اگر سبع سنابل میں ہیں تو وہ میر عبد الواحد بلگرامی قدس سرہ کی تحریر کردہ ہرگز نہیں بلکہ الحاقی ہیں - اور جب الحاق و تحریف کسی تصنیف میں ثابت ہو تو اس سے استدلال کرنا تحقیق حق سے انحراف ہے - ایسی کتابوں کے مندرجات تحقیق اور علمائے ربانیین کی تائید کے بغیر قبول کرنا خشیت الہی سے محرومی کی علامت ہے -*</div><div>*" حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت میر عبد الواحد بلگرامی قدس سرہ کے وصال کے بعد شائع کردہ سبع سنابل کی بعض الحاقی عبارتوں نے اسے لائق استدلال نہیں رکها کہ اس کی ہر بات کو بلا چون و چرا تسلیم کر لیا جائے اور ایک سبع سنابل کے لئے مارہرہ مطہرہ، کچهوچهہ مقدسہ، بدایوں شریف، کالپی شریف اور بریلی شریف کے اکابرین و اولیائے کاملین کے شجروں کو ڈائنا میٹ کر دیا جائے اور ان کی دهجیاں اڑا دی جائیں - ایسا ہرگز نہ کیا جائے بلکہ اعلان کردیا جائے کہ سبع سنابل چونکہ الحاقی عبارتوں پر مشتمل ہے اس لئے اس کتاب کے جملہ مندرجات سے استدلال درست نہیں"*</div><div>( سعئ آخر ص 282 - 281)</div><div>غرض سلسلۂ عالیہ مداریہ اپنے مختلف ناموں اور متعدد شاخوں سے جاری ساری ہے - اور کتاب سبع سنابل غیر معتبر اور الحاقی کتاب ہے جس سے استدلال درست نہیں</div><div>خود میر سید عبد الواحد بلگرامی قدس سرہ السامی کو سلسلۂ عالیہ مداریہ میں بهی اجازت و خلافت حاصل تهی اور انہوں نے اس سلسلہ کی اجازت و خلافت عطا بهی فرمائ - چنانچہ حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی قدس سرہ نے سرکار سید ابوالحسین احمد نوری میاں قدس سرہ کی سند خلافت میں سلسلۂ *مداریہ قدیمہ و جدیدہ* دونوں کی اجازت و خلافت کو تحریر فرمایا ہے -</div><div>( تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ اور تذکرہ نوری وغیرهما کا مطالعہ کریں)</div><div>مارہرہ شریف میں سلاسل قدیمہ وہ سلاسل خمسہ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ، نقشبندیہ مداریہ کہلاتے ہیں جو حضرت سید شاہ برکت اللہ قدس سرہ کو اپنے والد ماجد میر سید اویس سے حاصل ہیں - اور جدیدہ وہ سلاسل خمسہ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ، نقشبندیہ، مداریہ کہلاتے ہیں جو حضرت سید شاہ برکت اللہ مارہروی قدس سرہ کو حضرت سید شاہ فضل اللہ کالپوی رضی اللہ عنہ سے حاصل تهے - چنانچہ سلاسل قدیمہ کے بارہ میں مولانا عبد المجتبی رضوی حضرت شاہ برکت اللہ مارہروی علیہ الرحمہ کے لئے تحریر فرماتے ہیں -</div><div>*"علوم باطن و سلوک بهی اپنے والد معظم حضرت سید شاہ اویس قدس سرہ سے حاصل فرمائے اور والد ماجد نے جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما کر سلاسل خمسہ قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ، مداریہ میں " بیعت لینے کی بهی اجازت" مرحمت فرمائی"*</div><div>( تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ ص 332)</div><div>مخفی نہ رہے کہ اس سلسلہ میں حضرت سید شاہ اویس قدس سرہ کو اجازت و خلافت اپنے والد ماجد میر سید عبد الجلیل سے - اور انہیں اپنے والد ماجد *میر سید عبد الواحد بلگرامی* سے - اور انہیں شیخ حسین سے - انہیں شیخ صفی سے - انہیں شیخ سعد سے - انہیں مخدوم شاہ مینا لکهنوی سے - انہیں شیخ سارنگ سے - انہیں سید صدر الدین راجو قتال سے - انہیں مخدوم جہانیان جہانگشت سید جلال الدین بخاری سے اور انہیں امام سلسلۂ عالیہ مداریہ حضور سید بدیع الدین احمد قطب المدار سے رضی اللہ عنهم </div><div>غرض میر سید عبد الواحد بلگرامی کو سلسلۂ عالیہ مداریہ میں اجازت و خلافت حاصل بهی تهی اور انہوں نے اس سلسلہ میں بیعت و خلافت کی اجازت و خلافت عطا بهی کی ہے تو سلسلۂ مداریہ کے سوختن والی بات کو ان کی طرف منسوب کرنا یقیناً کسی حاسد اور شرپسند کا کام ہے -</div><div>اسی لئے صاحبان انصاف اور حق پسند حضرات سبع سنابل کی اس منگهڑت مجہول روایت کو قابل اعتنا نہیں سمجهتے ہیں -</div><div>مارہرہ شریف سے مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کو اور سلاسل کی طرح سلسلہء عالیہ بدیعیہ مداریہ میں بهی اجازت و خلافت حاصل تهی - جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب *الاجازات المتینہ لعلماء بکه والمدینه* میں تین جگہ کیا ہے</div><div>ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں -</div><div><br></div><div>*" خامساً - طریقت کے ان تمام دل پسند سلسلوں کی بهی اجازت دیتا ہوں جن کی مجهے اجازت ہے جن میں کسی کو اپنا قائم مقام و جانشین کرنے کا صاحب خلافت کے ارشاد کے مطابق میں ماذون ہوں - وہ سلاسل طریقت یہ ہیں -*</div><div> *1 طریقہء عالیہ قادریہ برکاتیہ جدیدہ*</div><div>*( الی ان قال)* </div><div>*12 سلسلۂ بدیعیہ "*</div><div>(الاجازات المتینہ ص 165)</div><div><br></div><div>اہل انصاف غور فرمائیں کتنا صاف ارشاد ہے کہ</div><div>" طریقت کے ان تمام دل پسند سلسلوں کی بهی اجازت دیتا ہوں جن کی مجهے اجازت حاصل ہے - جن میں کسی کو اپنا قائم مقام و جانشین کرنے کا صاحب خلافت کے ارشاد کے مطابق میں ماذون ہوں"</div><div>مگر کیسا فریب اور کیسی جہالت ہے کہ فتاویٰ فقیہ ملت میں مرقوم ہے کہ</div><div>*"اعلیحضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کو سلسلۂ مداریہ میں بیعت کرنے کی خلافت و اجازت نہیں تهی -*</div><div>*بلکہ اس سلسلہ کے صرف اذکار و اشغال کی اجازت حاصل تهی "*</div><div>( فتاوٰی فقیہ ملت ج 2 ص 412)</div><div><br></div><div>پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی سلسلہ کی اجازت و خلافت فاضل بریلوی کو حاصل ہونا یا نہ ہونا اس سلسلہ کے اجراء و سوخت کی دلیل نہیں ہے - بہت سے سلاسل ہیں جن کی اجازت و خلافت فاضل بریلوی کو حاصل نہیں تو کیا وہ سلسلے سوخت سمجهے جائیں گے - یہ تو اجرائے سلسلۂ عالیہ مداریہ کا وہ سچ ہے جو سر چڑه کر بول رہا ہے کہ سوخت کہنے والوں کے اکابر بهی سلسلہء عالیہ مداریہ سے منسلک ہیں -</div><div>دوسری بات یہ کہ جب فاضل بریلوی نے واضح لفظوں میں سلاسل طریقت بشمول سلسلۂ مداریہ کی اجازت و خلافت حاصل ہونے اور عطا کرنے کا ذکر کیا ہے تو کسی دوسرے کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اس میں پیوند لگائے ؟</div><div>یہ تو خود فاضل بریلوی ہی کی تکذیب و توہین ہے -</div><div>تیسری بات یہ ہے کہ اعلیحضرت فاضل بریلوی نے کالم نمبر 5 میں صرف سلاسل طریقت (بشمول سلسلۂ مداریہ) کی اجازت و خلافت کا ذکر کیا ہے</div><div>جبکہ نمبر 6 میں ادعیہ وغیرہ کی اجازت کا ذکر کیا ہے تحریر فرماتے ہیں -</div><div>*" سادسا - درج ذیل ادعیہ وغیرہ کی بهی اجازت دیتا ہوں مجهے ان سب کی میرے مشائخ کرام نے مع اپنی برکات سنیہ کے اجازت بخشی ہے"*</div><div>( الاجازات المتینہ ص 167)</div><div>اور نمبر 7 میں اذکار، اشغال و اعمال وغیرہ کی اجازت کا ذکر کیا ہے - تحریر فرماتے ہیں -</div><div>*" سابعا - ان تمام اذکار، اشغال، اوفاق اور اعمال کی بهی اجازت دیتا ہوں جو مجه تک میرے استاذوں آقاؤں کی جانب سے پہنچے ہیں الخ</div><div>( ایضاً ص 169) </div><div>اتنی واضح تقسیم کے باوجود صاحب فتاویٰ فقیہ ملت کا یہ کہنا کہ "سلسلۂ مداریہ میں بیعت کرنے کی اجازت و خلافت نہیں تهی بلکہ اس سلسلہ کے صرف اذکار و اشغال کی اجازت تهی" یقیناً فاضل بریلوی کی تکذیب ہے اور اسے آنکهوں میں دهول جهونکنا نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے</div><div>اللہ کریم ہم سب کو نیک فکر و شعور عطا فرمائے اور عداوت و گستاخئ اولیاء کرام و سادات عظام و علماء ربانیین سے محفوظ فرمائے آمین !</div><div><br></div><div>*سلسلۂ وارثیہ بھی جاری ھے*</div><div><br></div><div>سیدنا حافظ وارث علی شاہ علیہ الرحمہ کے بارے میں بھی اس مضمون نگار کانظریہ باطل محض ہے مرید اور خلیفہ بنا نےکے طریقے جدا گانہ ھیں لہذا اپنے سلسلہ کے سلسلۂ وارثیہ کی مشہورکتاب مشکوٰةحقانیہ اورسعئ الحارث وغیرہ سے ظاہر ہوتاھے کہ حضرت وارث پاک نے اکئی لوگوں کواپنا خلیفہ بنایاتھا </div><div>آپکےہی زمانےمیں آپکےکچھ مریدین طالبین کو بیعت کرتےتھے اورپھرآپکی خدمت میں لاکر پیش کرتےتھے بسااوقات طالب کی چاہت کےپیش آپ بھی بیعت فرمالیتےاورکبھی ایسابھی ہوتاکہ اپنےمرید کےذریعہ لی ہوئی بیعت کوہی کافی سمجھتےتھے اورکہتےتھےکہ وہ ہاتھ اوریہ ہاتھ ایک ہی ھے اورطرح سفرحج کےدوران ناگورمیں ایک کامل الطریقت بزرگ کوآپ نے خلافت بخشی تھی اورآپکےجوجومرید آپکےحکم کےمطابق آپکی زندگی میں بیعت فرمانےلگےتھے وہ سب آپکے خلیفہ تھے اسلئےسلسلۂ وارثیہ کےخلاف ہرزہ سرائی محض بدبختی اورمحرومی ھے </div><div><br></div><div>اللہ عزوجل شروروفتن سےہم سبکو محفوظ رکھے اورصراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے ـ </div><div>آمین </div><div><br></div><div>سید منورعلی جعفری حسینی مداری خادم درس جامعہ عربیہ مدارالعلوم مدینتہ الاولیاء دارالنور مکن پورشریف ضلع کانپور نگر یوپی انڈیا </div><div>9935991140</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-68203009052346783142021-07-20T01:39:00.001-07:002021-08-05T06:05:04.628-07:00اول داعی اسلام فی ھند سید بدیع الدین قطب المدار زندہ شاہ مدار<a href="http://www.qutbulmadar.org">syed zafar mujeeb madari nayab Sajjada Nasheen makanpur shareef</a><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiLzyglXLXrcnTJ5rbqcOuXl8ZBM2KcutzXgZISQl86K84Qzyx-nxgMhje2Dp5I5iYaNiSda2QICquIaLAz3mynUcs0OAV2hDMWCZqFFWqXXqHROCMb0Lys8YJqt5wbgj5y2iJCi6VHqHaa/s1600/1628168694859592-0.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiLzyglXLXrcnTJ5rbqcOuXl8ZBM2KcutzXgZISQl86K84Qzyx-nxgMhje2Dp5I5iYaNiSda2QICquIaLAz3mynUcs0OAV2hDMWCZqFFWqXXqHROCMb0Lys8YJqt5wbgj5y2iJCi6VHqHaa/s1600/1628168694859592-0.png" width="400">
</a>
</div><div>*#حضور مدار پاک ہی سر زمین ہند پر سب سے پہلے داعئ اسلام فی الہند ایک تحقیقی جائزہ#* </div><div>اس بات سے کسی کو انحراف نہیں کہ حضور سیدنا خواجہ غریب نواز قدس سرہ الممتاز سید الشہدا فی الہند سالار مسعود غازی اور حضور سیدنا داتا گنج بخش ہجویری دونوں ذوات قدسیہ سے مؤخر الزمان بھی ہیں اور مؤخر البلاغ بھی،چونکہ مذکورہ دونوں شخصیتیں پانچویں صدی ہجری میں ہی داعئ اجل کو لبیک کہ گئیں جبکہ حضور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی ذات قدسیہ چھٹی صدی ہجری میں سرزمین ایران پر جلوہ گر ہوئی،بعد ازاں سن 588ھ میں بحکم رسالت مآب ﷺ سرزمین ہند پر آپ کا ورود مسعود ہوا-کما ذکر فی عامۃ الکتب متونا و شروحا-</div><div> اسی لیے یہ کہنا مبنی بر خطا ہوگا کہ ان چاروں حضرات اولیاے کرام میں سب پہلے حضور غریب نواز علیہ الرحمہ کے ذریعے سب سے پہلے لوگ سرزمین ہند پر مسلمان ہوے۔</div><div> اب باقی ماندہ تین شخصیات عظمی میں سالار مسعود غازی اور شیخ علی ہجویری رحمہما اللہ تعالیٰ کے مابین تو تقدم و تأخر واضح ہے کہ ان دونوں میں اولا حضرت مسعود غازی کے ہاتھوں ہندوستان میں اسلام پروان چڑھا،تاہم قدرے وضاحت درج کی جاتی ہے👇🏻</div><div> حضرت علی ہجویری کا سن ولادت ظن و تخمینے پر مبنی ہے،کہیں صحیح سن پر مہر ثبت نہیں،البتہ یہ ضرور وضاحت مذکور ہے کہ صاحب کشف المحجوب نے اپنے اصل وطن غزنی سے سرزمین ہند کے خطے لاہور کی طرف 453ھ(1030) سے 462ھ(1039)کے درمیان تشریف لاے،جبکہ شیخ مسعود غازی سن 405ھ میں سرزمین ہند کے خطہ اجمیر پیدا ہوے،اس سے اندازہ لگائیں کہ ان دونوں میں اولا داعئ اسلام فی الہند کون ہوا،بہر کیف یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت ہجویری علیہ الرحمہ کی شہرت کا باعث کشف المحجوب ہے۔۔۔</div><div> اب جب یہ واضح ہو گیا کہ سطور بالا میں ذکر کردہ تینوں شخصیات میں حضرت مسعود غازی ہی ہی اولا داعئ اسلام فی الہند ہیں،تو اب گفتگو کا رخ کتاب کے صفحۂ اخیر یعنی حضرت مسعود غازی اور حضور شیخ بدیع الدین احمد حلبی قدس سرھما کی جانب موڑتے ہیں،تو ان دونوں میں بلکہ مذکور الصدر تینوں شخصیات میں حضور مدار پاک کا زمانۂ تبلیغ مقدمۃ الجیش(پیش خیمہ) کا درجہ رکھتا ہے،حضور سید مسعود سالار غازی تولد بھی نہیں۔ ہوے تھے کہ حضور بدیع الدین مدار حلبی ہند میں تبلیغ اسلام کر رہے تھے،بلکہ حضور حلبی قدس سرہ نے ہی ان کے والد ماجد حضرت ساہو سالار غازی کو ان کے پیدا ہونے اور مقامات ارجمند پانے کی بشارت سنائی تھی،اس بات کی تائید و توثیق میں چند حوالے درج ذیل ہیں،ملاحظہ کریں👇🏻</div><div> رضا لائبریری رامپور کے ایک رسالۂ نادرہ فارسی میں مرقوم ہے:</div><div> "چنانچہ نقل است از تواریخ محمودہ کہ تصنیف ملا محمود غزنوی است کہ چوں ساہو سالار نزدیک اجمیر رسیدند براے امداد مظفر خاں اجمیری برآب جو خیمہ نصب کردند و بخدمت درویشے کبیرانش مستفیض گشتند و آنحضرت سید بدیع الدین مدار کہ خبر تولد شدن سالار مسعود غازی بزبان مبارک فرمودند کہ ہفت نام خود کہ ہفت آسمان ملائک بامر اللہ تعالیٰ تسبیح می کند بساہو سالار براے ترقئ درجات و کفایت مہمات عطا فرمود"</div><div>ترجمہ:چنانچہ ملا محمود غزنوی کی تصنیف تواریخ محمودی سے نقل ہے کہ جب ساہو سالار مظفر خاں اجمیری کی امداد کے لیے اجمیر کے نزدیک پہنچے تو ایک تالاب کے پاس خیمہ نصب کیا اور ایک بڑے درویش کی خدمت سے فیضیاب ہوے اور وہ درویش حضرت سید بدیع الدین قطب المدار تھے،اپنی زبان مبارک سے سالار مسعود غازی کے پیدا ہونے کی بشارت دی اور آپ نے اپنے وہ سات جن کے ذریعے ساتوں آسمانوں میں بحکم اللہ تعالیٰ فرشتیں تسبیح کرتے ہیں ساہو سالار کو ترقئ درجات اور کفایت مہمات کے لیے عطا فرماے۔(رسالۂ نادرہ(قلمی) رضا لائبریری رامپور) </div><div> نوٹ:واضح رہے ملا محمود غزنوی کا سن ولادت 392ھ ہے،اور کتاب مذکور آپ کے حکم سے تحریر فرمائی گئی،اور سید ساہو سالار کی فتوحات آپ کے زمانے میں ظہور پذیر ہوئیں،اس لیے اس یہ ماخذ زنہار قابل رد نہیں،اور یہ بھی واضح رہے کہ اب فقط تواریخ محمودی کے اقتباسات کتابوں مذکور ہیں،اصل کتاب کا کوئی نسخہ کہیں دستیاب نہیں۔۔</div><div>اس بات کو اخترگورگانی علیہ الرحمہ نے کتاب"خواجہ فرید"میں بھی نقل کیا ہے،نیز ایک ہندی مؤرخ آچاریہ چترسین کہ کتاب"سومنات "میں بھی یہ ملاقات منقول ہے،علاوہ ازیں ایک کتاب بنام"کرامات مسعودیہ مصنفۂ شیخ محمد ملیح اودھی" میں بھی یہ پورا واقعہ مزید صراحت کے ساتھ حضرت سید سکندر دیوانہ اور تواریخ محمودی کے حوالے سے مرقوم و مسطور ہے،یہ کتاب عربی میں لکھی گئی تھی،بعد ازاں اس کا فارسی و اردو دونوں زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے،یہ کتاب پہلی مرتبہ قومی کتب خانہ لکھنؤ سے 1296ھ میں چھپی،اس کے بعد مجاہد اعظم ہند پبلیکیشنز سے 1409ھ میں چھپی۔</div><div>مزید برآں کتب سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت سید مسعود سالار غازی نے بعد میں حضور مدار پاک سے خرقۂ خلافت بھی حاصل کیا،اس بات کی سند مذکورہ کتاب کرامات مسعودیہ سے بھی ملتی ہے،نیز اس کی تائید انھی کے خانوادے کی تالیف کردہ کتاب"کنز السلاسل"میں مذکور ان کے شجرۂ مداریہ سے بھی ہوتی ہے۔۔</div><div> پس بحمدہ تعالیٰ متذکرہ جملہ حوالہ جات سے یہ بات عیاں ہوئی کہ سوال میں مندرج تینوں شخصیتوں میں سب سے پہلے حضور مدار پاک ہی سرزمین ہند پر چراغ اسلام کو روشن کرنے والے ہیں۔،پس ہوا یہ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مستور الحال ہی رکھا۔۔۔</div><div> فیصلہ آپ کے ہاتھوں❤️❤️❤️ *#محمد ہاشم علی بدیعی مصباحی#*</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-91039002228900674612021-03-08T23:00:00.000-08:002021-08-05T06:08:39.093-07:00تعزیہ داری اھلسنت کا معمول ھے <a href="http://www.qutbulmadar.org">syed zafar mujeeb madari nayab Sajjada Nasheen dargha zinda shah madar makanpur</a><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiew_WEve4Yy2iPbjFAXIRxqAzmnptMnIJINKsiCsAqodKTcmuuhttWAA2FKoQhSFDpnj_q_EAmpRhAndpby11rBFapNq63BIDGC-sHmMLsHgOj7vm3nXcm5ctYfykVX6Op4OTa2yusFZkn/s1600/1628168912731140-0.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiew_WEve4Yy2iPbjFAXIRxqAzmnptMnIJINKsiCsAqodKTcmuuhttWAA2FKoQhSFDpnj_q_EAmpRhAndpby11rBFapNq63BIDGC-sHmMLsHgOj7vm3nXcm5ctYfykVX6Op4OTa2yusFZkn/s1600/1628168912731140-0.png" width="400">
</a>
</div><div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<u>تعزیہ داری اہلسنت کا معمول ہے</u><br>
<u>تعزیہ داری اھلسنت کا معمول ھے </u><br>
<u><br></u>
<u><br></u>
<u>حسنیت</u><br>
<u> زندہ باد تھی</u><br>
<u> ھے </u><br>
<u>اور رہیگی </u><br>
<u><br></u>
<u>یزیدیت مردہ باد تھی </u><br>
<u>مردہ باد ھے </u><br>
<u>مردہ باد رہیگی </u><br>
<u><br></u>
<u>یزید نواز چاہے جتنا زورلگالیں </u><br>
<u>مگر اسے زندہ باد نھیں کرسکتے </u><br>
<u><br></u>
<u>کیونکہ جسے اللہ پاک نے مردہ باد کردیا اب اسے کوئی بھی لابی زندہ باد نھیں کرسکتی </u><br>
<u><br></u>
<u>آج کل وھابیوں دیو بندیوں نے یزیدیت کے احیاء پر کافی زور باندھا ہواھے جگہ جگہ تعزیہ داری کے خلاف بلکہ مکمل محرم داری کے خلاف بدعت وحرام کے فتوئے داغ رہے ھیں </u><br>
<u><br></u>
<u>جبکہ اپنے پچاس سالہ مسلک کو منزل من السماء سمجھے ہوئے ھیں</u><br>
<u><br></u>
<u> مگر اللہ کا شکر ھے جسطرح پچھلی تین دھائیؤں میں یہ عملِ سلف وخلف وشغلِ اخیار وابرار کچھ متاثر ہوا اس کی بہ نسبت اس دھے میں اس کمی کوزیادتی کی طرف پھر رواں دواں دیکھا جا رہا ھے </u><br>
<u><br></u>
<u>افسوس صد افسوس قدیم معمولاتِ اھلسنت کے خلاف فتوئے بازی کرکے سنیت کی ترویج واشاعت کے دعوے ہورہے ھیں </u><br>
<u><br></u>
<u>تقریباً اکثر خانقاھیں آج بھی تعزیہ داری کرتی ھیں جنھیں اھلسنت کا قدیم مرکز ہونے کا شرف حاصل ھے </u><br>
<u><br></u>
<u><br></u>
<u>۲۵ محرم الحرام کو ھر سال حضور سیدنا سرکار بابا فریدالدین گنج شکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چلہ خانہ کھلتا ھے جسمیں عطاءالرسول سلطان الھند سیدنا غریب نواز قدس سرہ کا چاندی کا تعزیہ شریف آج بھی رکھا ہواھے </u><br>
<u><br></u>
<u>زائرین اسکی زیارت سے فیضیاب ھوتے ھیں </u><br>
<u>"دینِ محمدی اور تعزیہ داری "</u><br>
<u><br></u>
<u><br></u>
<u>سلسلۂ قادریہ کے عظیم المرتبت بزرگ اجلہ علماء فرنگی محل کےپیرو مرشد حضور سیدنا خواجہ عبدالرزاق بانسوی قدس سرہ فرماتے ھیں کہ "تعزیہ کو یہ نہ جانے کہ یہ خالی کاغز اور بتی ھے ارواحِ مقدسہ بھی اسکی طرف متوجہ ہوتی ھیں " کراماتِ رزاقیہ صفحہ ۱۵ </u><br>
<u><br></u>
<u>حضرت شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمتہ اللہ علیہ کا تعزیہ کو کاندھا لگانا علی التواتر مسموع ھے "منقول از سرالشھادتین صفحہ ۸۹ </u><br>
<u><br></u>
<u>حضرت شاہ عبدالرزاق بانسوی قدس سرہ جس وقت تعزیہ اٹھتا ننگے پاؤں تشریف لے جاتے جب تک تعزیہ رکھا رہتا ھاتھ باندھے کھڑے رہتے "کراماتِ رزاقیہ صفحہ ۱۵ </u><br>
<u><br></u>
<u>حضرت سیدنا شاہ نیاز بریلوی چشتی قدس سرہ شبِ عاشور دوبجے تعزیہ کی زیارت کیلئے تشریف لے جاتے جب حضور کو ضعف زیادہ ہوگیا تو دوسروں کی مدد سے تشریف لے جاتے حضرت نے تعزیہ کے تخت کو بوسہ دیا " کراماتِ نظامیہ صفحہ ۳۳۷ </u><br>
<u><br></u>
<u>شیخ المشائخ خواجہ حسن نظامی فرماتے ھیں کہ "تعزیہ داری میں اشاعتِ اسلام کی بھلائی پوشیدہ ھے "منقول از فاطمی دعوتِ اسلام صفحہ ۱۲۱ </u><br>
<u><br></u>
<u>حضورسیدنا شاہ قطب الدین سنبھلی رحمتہ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ جب "آپکے سامنے تعزیہ آتا تو آپ پلنگ سے نیچے اتر جاتے اور کھڑے ہوکر روتے رہتے "فتاویٰ تعزیہ داری صفحہ ۳ </u><br>
<u><br></u>
<u>تعزیہ کے سامنے جو کھانا رکھکر فاتحہ کیا جاتاھے وہ متبرک ھے "فتاویٰ عزیزیہ صفحہ ۷۵ </u><br>
<br>
<u><br></u>
<u>بعض منھیات تقریباً اکثر معمولات کا حصہ بن چکے ھیں جسکا مشاھدہ جملہ اھلِ علم ودانش کو بھی ھے مگر کلیتہً انھیں ناجائز وحرام نھیں کہاجاتا </u><br>
<u><br></u>
<u>مگر یادگار شھدائے کربلا سے خداجانے کس بلا کی مخالفت دلوں میں گھر کئے ہوئے ھے کہ ھر سال تعزیہ شریف کی روک تھام کیلئے قلمی علمی مالی لسانی قربانی پیش کی جاتی رہتی ھے اور دعوئے اھلسنت بھی ہوتا رہتا ھے </u><br>
<u><br></u>
<u>آج اس سے زیادہ حیرت کی بات اور کیا ھوگی کہ پچیس پچاس سال والوں کے مزارات کانقشہ ٹوپیوں میں بناکر کتابوں میں بناکر کلینڈروں میں بناکر انکی تاریخ سازی کی جارہی ھے بلکہ بعض مواقع پر باندازِ تعزیہ بناکر گلی گلی گشت بھی کرایا جاتا ھے اس پر کوئی دارلافتاء حرکت میں نھیں آتا کسی مفتی کی رگ نھیں پھڑ پھڑاتی مگر محرم کا مھینہ آتے ھی بی پی بڑھ جاتا ھے </u><br>
<u><br></u>
<u>عظمتِ اسلام ھے تعزیہ شوکتِ دین ھے تعزیہ </u><br>
<u>نشانِ غلامئ حسین ھے تعزیہ </u><br>
<u>بلکہ </u><br>
<u><br></u>
<u>پہچانِ سنیت وشریعت ھے تعزیہ </u><br>
<u>آقاحسینِ پاک کی نسبت ھے تعزیہ </u><br>
<u>سرکوفہ میں شھیدوں کا جوگھموائے تھے لعیں </u><br>
<u><br></u>
<u>اسکا بس اِک جوابِ عقیدت ھے تعزیہ</u><br>
<u><br></u>
<u>بدمذھبوں واھلِ تسنن کے درمیاں </u><br>
<u></u><br>
<u>اِک صاف صاف خطِّ تفاوت ھے تعزیہ</u></div>
Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-71015726477073693882021-03-08T22:59:00.000-08:002021-08-05T06:10:18.675-07:00Shah Madar completed his travel in Makanpur near<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi1F1zHNvxnDF2DDW-LXwtKKAg0yWV8oruGKHgKu0AbAIurpXT53J961YRMobrDWGIvlexF7-XRsepqD-zXzA70Hn4FICA-ttHvmfINPJ3-mjZWFLzHnpjtlNBMq1C-PYvABCj58RciGSEc/s1600/1628169012683716-0.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi1F1zHNvxnDF2DDW-LXwtKKAg0yWV8oruGKHgKu0AbAIurpXT53J961YRMobrDWGIvlexF7-XRsepqD-zXzA70Hn4FICA-ttHvmfINPJ3-mjZWFLzHnpjtlNBMq1C-PYvABCj58RciGSEc/s1600/1628169012683716-0.png" width="400">
</a>
</div><div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 style="text-align: left;">
<br></h2>
<h2 style="text-align: left;">
Shah Madar completed his travel in Makanpur near<a href="http://www.qutbulmadar.org">syed zafar mujeeb madari nayab Sajjada Nasheen dargha zinda shah madar makanpur shareef</a> Kannauj in 1397 AD and settled down there for 20 years. He passed away in 1417 AD. He was buried at Makanpur and a tomb was erected by King Ibrahim Sharki of Jaunpur in 1418 AD where thousand if devotees visit the Mazar offering their prayer and they get the blessings of the Sufi saint. During Mughal empire Akbar, Shahjahan and Alamgir carried out the construction work of Dargah Sharif. At the end of his life Shah Madar handed over his spiritual seat to his nephew Khwaja Mohammed Argoon. Sayyed Mohammed Mujeebul Baqi and his son Sayyed Mohammed Zafer Mujeeb have 16th genealogical record from Shah Madar and they are the chief Sajjadah Nashin of the Khankah-e-Madaria where an annual urs is celebrated with great fervor and gaiety on every 15th, 16th, 17th of Arabic lunar month Jamaid-ul-Awwal of Hizri year where lacs of people gather from all over the world to pay their homage to the great sufi saint Shah Madar for getting his blessings. <a href="http://www.qutbulmadar.org/" target="_blank">www.qutbulmadar.org</a></h2>
</div>
Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-49595358751424043132021-03-08T22:57:00.001-08:002021-08-05T06:02:56.148-07:00روشن ہے مثل آفتاب سلسلہ مداریہ<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhMcmB08Zv1mmuR93UsW4BCs4PIUCbkRoh6r2Yg4m9YYin4zJLKUNgJ-32NHUUvIvKf5lGZQ72jPDHsXszoE1PW-CoPFJY1mfnzrlgY3GhtlGA4ZK_cw6IOPGglJvsGUqFkHGQ9c1MXdNEp/s1600/1628168569108823-0.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhMcmB08Zv1mmuR93UsW4BCs4PIUCbkRoh6r2Yg4m9YYin4zJLKUNgJ-32NHUUvIvKf5lGZQ72jPDHsXszoE1PW-CoPFJY1mfnzrlgY3GhtlGA4ZK_cw6IOPGglJvsGUqFkHGQ9c1MXdNEp/s1600/1628168569108823-0.png" width="400">
</a>
</div><div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
*روشن ہے مثل آفتاب سلسلہ مداریہ*۔<br>۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br>*از قلم سید ازبر علی جعفری المداری خادم آستانئہ قطب المدار*<br>************************************<br><br>تیسری صدی ہجری سے لیکر نویں صدی ہجری تک جس عظیم خانوادہ کے بانی کی قربانیوں کا لہوکشت اسلام پر باغ و بہار بن کر پھیلا ہوجس کے حبس دم سے نسیم سحری کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے چلے ہوں جس کی ٹھوکروں سے سبزے اگے ہوں جس کی دعا سے مرادوں کی گرہیں کھلی ہوں جس کے دم سے دم کائنات قائم ہوجس کے دست حق پرست پرکرڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہو <br>ہر دور ہر زمانے میں <br>،،شاہی جہاں کی رہی ہوگدائ، <br>کائنات عالم میں وہ کیا کچھ نہیں ہوگا<br>صرف غیر منقسم ہندوستان میں جس کی تین لاکھ خانقاہوں کے حریم وفصیل سے وحدانیت کا پیغام دیا جاتا ہو سینئہ ارضی پرجسکی محنت نے اسلام کی عظمت کا مینار ہ کھڑا کردیا ہو پھر اسکی فلک بوس چوٹیوں سےصدائے اللہ اکبر نے کفر کے کان پھاڑ دئیے ہوں پورے ملک میں جس کے چودہ سو بیالیس چلے اسلام کی عظمتوں کا خطبہ پڑھ رہے ہوں تو پوری دنیا پر اس کے احسان کیا نہیں رہے ہونگے ؟؟<br>راجہ بلوان سنگھ ، جس کی محنت سے حلقہ بگوش اسلام ہوجائےراجہ جسونت سنگھ کو جو داخل اسلام کرلےمحمود غزنوی جسکی دعا ئیں لے کر سومنات فتح کرلے<br>حضور قطب المدار کی حیات طیبہ میں ابرہیم شرقی بادشاہ جونپور عشق مدار میں گرویدہ ہوکرعرض کرتا ہے حضور اگر آپ حکم دیں توآپکے شہزادوں کیلئے محلات تعمیر کرادیں آپ فرماتے ہیں ہم خاک نشین محلوں میں نہیں رہتے<br>بادشاہ ابراہیم شرقی ہجری 840 میں جس کا روضہ تعمیر کرائےاور متعلقہ آراضی کے علاوہ پانچسو بیگھا آراضی بھی لکھ دےجلال الدین اکبر کی جلالت جہاں لرزہ براندام1565ءمیں حاضر آستانہ ہوکرفرمانئہ شرقیہ کی تجدید کردےپھر 555 بیگہ آراضی کا اضافہ کرکے مزار مقدسہ پر چادر چڑھاکرجبین نیاز خم کردےنورالدین محمد سلیم حاضر آستانہ ہوکر منت مانگے اور پوری ہونے کےبعددریائے ایسن پر پل تعمیر کرادےشاہجہاں جس کے در پہ حاضر ہوکر مسجد،اور مسجد سےمتعلقہ حجرہ اور ایک وسیع دالان تعمیر کرائےاورنگ زیب عالمگیر جہاں گھٹنوں کے بل آئےاس صاحب بصیرت سے پوچھو کیا شہنشاہ ہند ؟<br>در مدار ولایت کی راجدھانی ہے کہ نہیں ؟تو پکار اٹھتا ہے<br>*بیاکہ اوج کمالات را ظہور اینجاست*<br>*بیاکہ مرجع ہر قیصرو قصور اینجاست*<br>*جناب اقدس شہنشاہ مدار جہاں بپائے دیدٰہ بیا و ببیں کہ نور اینجاست* <br>اسی آستانہ پرخاک نشین ہوجاتا ہے اور اپنی فتح و نصرت کی دعا مانگتا ہےپھر نگا ہ قطب المدار اس کی ارجمندی کا فیصلہ کردیتی ہےتوخانقاہ مدارالعالمین میں جامع مسجد ،دمال خانہ، بنواکرروضہ مقدسہ پر مرمرین جالیاں نصب کرا کےموجودہ اولاد ہر سہ خواجگان کیلئے مواضعات لکھدیتا ہے تاکہ انکی کفالت ہوانکے علاوہ سن 1603 ء<br>میں دولت خان رکن دربار دہلی نےسہ دری مسجد تعمیر کرائ سن 1794ء میں مچل لال پتو لال کھتری نے قرآن خوانی والا دالان تعمیر کرایاشہنشاہ شاہ عالم فرخ نے ایک سنگین دالان تعمیر کرایامہاراجہ گوالیر اور دبیر الملک منشی ٹکیٹ رائے نے ڈیگیں نذر کیں سیر محمد شاہ اور بہادر شاہ ظفر کے فرامین انکی عقیدت کی غمازی کرتے ہیں شاہان اسلام کی عقیدتیں انکی چوکھٹ سے وابستہ ہیں راجہ مہا راجاؤں نے انکی دہلیز پر سر خم کرکے اپنی عقیدتوں کا خراج عمارتوں کی شکل میں پیش کیا ہے<br>راجہ بھاگمل ، راجہ دتیا ، راجہ منجھولا ، راجہ ٹھٹھ ، و مسٹر ہیر ٹشن ، مسٹر گلے ، وغیرہ جیسے مہاراجاؤں کے فرامین انکی عقیدت کیشی کے مدح خواں ہیں سابق مکھ منتری اتر پردیش این ڈی تواری جہاں مرمرین فرش بچھائےیہ ہے وہ شہنشاہی جسے انکے درپہ جھکی پائ آئیے طریقت و تصوف میں سلسلہ مداریہ کی عظمتیں دیکھتے ہیں قادری سلسلہ مداریہ سلسلہ سے فیض یافتہ چشتی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے یافتہ سہروردی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ نقشبندی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ اشرفی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ صفوی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ نظامی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ ابو العلائ سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ جہانگیری سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ شیری سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ قدیری سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ بشیری سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ نیازی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ صابری سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ برکاتی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ وارثی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ نعیمی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ <br>چھوٹے بڑے تمام سلاسل سلسلہ مداریہ سے وابستہ جس کے در پر سالانہ بسنت پنچمی پر لگنے والےمیلے کا اژدہام کثیربارہ تیرہ لاکھ کا بلا تفریق مذہب و ملت مجمع پکار اٹھتا ہے<br>*پاکے قطب دوعالم کا در زندگی*<br> *بے بہا بن گئ کس قدر زندگی* <br>*بس یہیں پر ملی ہم کو تسکین دل* <br>*یوں تو لے کر پھری در بدر زندگی* <br>وہیں وہیں عرس پاک میں پندرہ بیس لاکھ کامجمع پکار اٹھتا ہے<br>*یگا نوں بے گا نوں کو بہم دیکھ رہے ہیں* <br>*تفریق کا سر ہوتے قلم دیکھ رہے ہیں*<br>*اغیار بھی حاضر ہیں در قطب جہاں پر*<br>*ہم مٹتے منافق کا بھرم دیکھ رہے ہیں* <br>اب بھی ہم کچھ نہیں ؟<br>یہ بات الگ ہے<br>وقت کے ہاتھوں کیسے ہم پس گئے<br>صبح کیا تھے اور شام کیا ہوگئے<br>مگر جوتم کہتے ہو تمہاری داستاں تک نہ بچی ان داستانوں میں <br>میں کہتا ہوں بد نیتوں کا غلبہ ہوا <br>بد خلوص جاہ حشم والے ہوئے<br>للہیت کے پیکروں کے وجود پر گرد جم نے لگی <br>جس کی جوتیوں کے نشان سے بھارت کی تقدیر روشن ہوئ آج نئے ملے اسے صفحہ دہر سے مٹانے میں لگے ہیں کہتے ہیں کتابوں میں تمہارا تذکرہ نہیں مولویوں کی زبانوں پر تمہارا نام نہیں پھر ....تم ہو کیایاد رکھوہم وقت کے ہاتھوں برباد تو ہوگئے مگر مٹے نہیں ہیں ہم کل بھی صاحب وقار تھےآج بھی صاحب وقار ہیں ہمیں وقار نہ نیتاؤں نے دیا تھانہ راجنیت سے زندہ نہ کل مولویت کے محتاج تھے نہ آج نہ کسی کے مرہون منت تھے نہ ہیں بھارت کی تاریخ رقم کرنے والے آج بے تاریخ کیوں گھوم رہے ہیں ؟<br>کیوں بے نام و نشاں سمجھے جا رہے ہیں ؟<br>تو سنواس ملک کی آزادی کیلئے سب سے پہلے1763میں علم آزادی جس ذات نے بلند کیا وہ ہے سلسلہ مداریہ کا ملنگ حضرت مجنوں شاہ مداری ہے مداری فقیروں ملنگوں ، پیروں ، شہزادوں نے تحریک چلائ تب برٹش سرکار نے ہمیں تہ و بالا کردیاکیونکہ اس کا گورا چہرہ ہم نے کالا کردیا<br>جسکی وجہ سے ہماری لائبریریاں پھونک دی گئیں ہماری تاریخ ختم کردی گئ ہماری خانقاہیں مسمار کردی گئیں ہمیں مٹانے کیلئے تنظیمیں چلیں تب !!!<br>ہم وقت کے ہاتھوں کچل گئےجس پر بے درد بلکہ <br>جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں <br>جب بولنے لگے تو ہمیں پہ برس پڑے <br>یہ مانا وقت کے ہاتھوں ہم برباد تو ہوگئے ہیں <br>املی کے درخت پر لوکی کی بیل چڑھ تو گئ ہےلیکن لوکی کی عمر ہی کتنی ہوتی ہےاملی بہر حال املی ہےآج نہیں تو کل جب لوکی سوکھے گی املی کی حقیقت سب پر عیاں ہوجاٰئیگی ان شاء اللہ<br> ہم اپنا ماضی واپس کر ہی لینگےہم نے راج بہادر کو عبدالرحیم میں ہم نے بدلا<br> رام دلارے کو عبد الرحمٰن کیا<br>ہم نے جنہیں مسلمان کیا مسلمان کیا<br>آج وہ ہنستے ہیں تم ہو کیا ؟اس سوال پر اتنا کہونگا<br>*مرے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر*<br>*ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں*<br> اللہ متکبر تکبر سے محفوظ رکھے آمین <br>طالب خیر<br>*سید ازبر علی شکو ہی المداری خادم آستانہ قطب المداردارالنور مکن پور شریف کانپور یوپی انڈیا*<br>*9648180965*</div>
Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-67754333031588079342021-03-08T22:57:00.000-08:002021-08-05T06:13:31.927-07:00 مدار پاک سے منسوب ضرب الامثال، محاورات اور انکی توضیحات 🌺🌹 <a href="http://www.qutbulmadar.org">syed zafar mujeeb madari nayab Sajjada Nasheen dargha zinda shah madar makanpur shareef mobile number 9838360930</a><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEha8cbJ5cCngxF0J-h5peG11Fs2afid9dDQXO7Y8AsdmdCdKExctcDDBlt3guC2bTk8eyZ8yqcP43FI5nnnbJSk-xD6TimTydabwXkLY6Ad8cvHYptvtS-S3lOr8ErdtPJ4vZ5Mjt9xe72i/s1600/1628169205993837-0.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;">
<img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEha8cbJ5cCngxF0J-h5peG11Fs2afid9dDQXO7Y8AsdmdCdKExctcDDBlt3guC2bTk8eyZ8yqcP43FI5nnnbJSk-xD6TimTydabwXkLY6Ad8cvHYptvtS-S3lOr8ErdtPJ4vZ5Mjt9xe72i/s1600/1628169205993837-0.png" width="400">
</a>
</div><div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
🌺🌹حضور مدار پاک سے منسوب <br> ضرب الامثال، محاورات اور انکی توضیحات 🌺🌹 . 1⃣ حق اللہ محد مدار . . جب حضرات<br><br> فقراء مداریہ <br><br>(زادھم اللہ شرفاً) <br>آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اسوقت بولتے ہیں مطلب یہ ہوتا ہے کہ<br><br> (اطیعوااللہ و اطیعواالرسول واولی الامرمنکم )<br><br>کے مطابق اللہ ' رسول اور پیرو مرشد مدار کی اطاعت کرو ! <br> اسکے جواب میں بولتے ہیں ـ . .2⃣ دم پیر زندہ شاہ مدار . . <br> ( یعنی ہم اطاعت مرشد ہی میں ہیں جو دراصل اللہ ورسول ہی کی اطاعت ہے ـ) <br><br> . .3⃣ مر ے کو ماریں شاہ مدار<br><br> اس مقولہ کی وجہ یہ ہے کہ حضور مدار پاک منزل فنا پر فائز سالک کو واصل مقام فناءالفنا کر دیا کرتے تھے . عام زبان میں اس وقت بولتے ہیں کہ <br> جب کسی مصیبت زدہ پر کوئ اور مصیبت آجائے . . 4⃣ جب کمر میں زور ہوتا ہے تب مدار صاحب بھی بیٹا دیتے ہیں <br><br> . مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسی آدمی کی مدد کی جاسکتی ہے جو خود بھی کسی لائق ہو <br> . اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے <br>کہ <br>حضور مدار العالمین کے فیضان کرم سے انکی حیات ظاہری میں بھی اور بعد وصال بھی آج تک بے شمار لاولد صاحب اولاد ہوئے ہیں <br> اور ہوتے ہیں <br> پس لوگ جیسا دیکھتے ہیں ویسا بولتے ہیں . . . 5⃣ کھائیں مدار کا گائیں سالار کا <br> . اس وقت بولتے ہیں جب آدمی فائدہ توکسی اور سے اٹھائے اور نام کسی اور کا لے ـ <br><br>6⃣ گنگا جیسا نیر نہیں مدار جیسا پیر نہیں ـ . مدار پاک کے عقیدتمند ہنود جب کوئ قسم کھاتے ہیں تب بولتے ہیں ـ مقصد یہ ہوتا ہے کہ . گنگا اور مدار کا واسطہ جھوٹ نہ بولا جائے ! . اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے کہ سرکار مدار پاک جب غیر آباد اور بے نام جنگل<br><br> (مکن پور شریف) <br><br> آئے قرب و جوار میں آپ کا چرچہ ہوگیا اور حاجتمند آپ کے در فیض وعطا پر جوق در جوق آنے لگے ـ انہیں ایام میں بسنت پنچمی کے گنگا نہان کے موقعہ پر کچھ ہندو آپ کی خدمت میں آئے<br> آپ نے دریا فت فرمایا کہاں کا ارادہ ہے؟ <br><br> بولے گنگا اشنان کا ! <br><br> آپ نے فرمایا تو ٹھیک ہے <br>گنگا کو میری انگوٹھی دیدینا <br>وہ لوگ انگوٹھی لیکر گنگا کنارے پہنچے مسخرے انداز میں کہا لوگنگا میا <br>انگو ٹھی مدار بابا نے بھیجی ہے <br><br> اور انگوٹھی گنگاکی طرف اچھال دی <br>دیکھتے کیا ہیں کہ گنگا میں سے ایک ہاتھ نکلا اور انگوٹھی خود بخود اسکی انگلی میں پہنچ گئی <br> یہ دیکھ کر وہ حیرت میں پڑگئے ـ <br>بے اختیاربولے ۔<br>" اگر گنگا جیسانیرنہیں تومدار جیساپیرنہیں" <br><br>تب سے یہ محاورہ عام ہے ـ<br><br> . .7⃣ گنگا مدار کاکیاساتھ؟ ـ <br><br> . اس وقت بولتے ہیں <br>جب دو لوگوں کو الگ الگ کام کرنا ہو یا الگ الگ راستہ پر جانا ہو ـ . اس کا پس منظر یہ ہے کہ <br>"گنگا جیسا نیر نہیں مدار جیسا پیر نہیں"<br><br> سنکر کوئ حق گو عاشق مدار برداشت نہیں کرسکا ـ<br> بے ساختہ بول اٹھا گنگا مدار کا کیا ساتھ؟ <br> . مطلب یہ ہے کہ اگر چہ گنگا کا کام سیراب کرنا ہے اور مدار کاکام بھی سیراب کرنا ہے مگر گنگا ظاہری جسمانی پیاس بجھاتی ہے <br>جبکہ مدارباطنی روحانی تشنگی کو بجھاتے ہیں <br><br> اگرچہ گنگارواں دواں ہے چل پھر کر پیاس بجھاتی ہے <br>اور مدار بھی سیروسیاحت میں رواں دواں رہتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ گنگا اپنی مقررہ منزل کیلئے اپنی محدود وسعتوں میں رہتے ہوئے اپنے مخصوص راستہ ہی میں بہتی ہے <br>اوراس کا دائرہ فیض اسکے مخصوص علاقوں ہی تک محدود ہے <br>جبکہ میرا مدار گنگا کی طرح کسی ایک راستہ کا پابند نہیں ہے <br>اسکی اپنی کوئ منزل مقرر نہیں ہے <br>ـ اس کا دائرہ فیض وکرم کسی مخصوص علاقہ ہی تک کیلئے نہیں ہے <br> وہ گنگا کی طرح نہیں ہے کہ پیاسے اسکے کنارے پر پہنچ کرہی سیراب ہونگے<br> بلکہ وہ فیض و کرم کا ابر باراں ہے جو کبھی مشرق پر برستا ہے توکبھی مغرب میں 'کبھی شمال میں تو کبھی جنوب میں، کبھی پہاڑوں پر توکبھی ریگزاروں پر، کبھی جنگلوں پر تو کبھی آبادیوں پر بلکہ خود گنگا جمنا اسکے باران فیض سے مستفیض ہوتی ہیں ـ . غرض تب سے یہ کہاوت بھی چلی آرہی ہے کہ <br><br>8⃣ پیسہ نہ کوڑی مدارن کو دوڑی<br>. یہ اس وقت بولتے ہیں<br>جب کوئ شخص ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں پیسوں ہی کا خرچہ ہو اور اس کے پاس پیسے نہ ہوں<br>اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے کہ<br>حضور سید بدیع الدیع احمد قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ جن کی محبوبییت و مقبولیت غیر منقسم ہندوستان کے ہر علاقہ اور ہر طبقہ میں تهی اور ہے<br><br>جیسا کہ شیخ محقق حضرت عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ<br>"طریق او بسیار جذب خلائق بودہ عوام بسیار بر ایشاں گرد آیند"<br>. (اخبار الاخبار)<br>یعنی شیخ بدیع الدین مدار کا طریقہ بہت جذب خلائق کا تها عوام بہت ان کے ارد گرد آتے تهے<br>اور ملا ابو الفضل تحریر کرتے ہیں<br>. "ہر کہ و مہ ہندی بوم بدو گردد والا پائیگی بر گذارد"<br>. (آئین اکبری)<br>یعنی ہندوستان کا ہر چهوٹا بڑا ان سے عقیدت رکهتا ہے غایت درجہ تعظیم کرتا ہے<br>اسی محبوبیت و مقبولیت ، عقیدت و محبت،اور تعظیم و احترام کی وجہ سے غیر منقسم ہندوستان میں بے شمار مقامات پر سرکار مدار العالمین کے نام پاک سے منسوب میلے لگتے ہیں مثلاً<br>ماہرہ شریف کی مداری گدی پر <br>جس کے بارہ میں <br>"سید العلماء ابوالحسنین حضرت مولانا مفتی سید آل مصطفٰے مارہروی برکاتی قدس سرہ " تحریر فرماتے ہیں<br>. "مارہرہ مطہرہ میں بفضلہ تعالی' <br>مداری گدی صدیوں سے قائم ہے اور فقیر کے بزرگان کرام ہمیشہ سے اس کی خدمت کرتے چلے آئے ہیں<br>میرے جد کریم حضور شیدائے ملت والدین سیدنا آل احمد اچھے میاں قدس سرہ العزیز نے اپنے عہد مبارک میں سرکار مدار العالمین کے نام نامی سے منسوب میلہ قائم کرایا<br> جو 9 جمادی الاولی کو برابر ہوتا ہے"<br>(مکتوب قلمی سید العلماء. ...جمادی الاولی 1381مطابق 9 دسمبر 1961)<br>غرض اس طرح بے بشمار مقامات پر میلے لگتے ہیں <br>اور قدیم زمانے میں ہندوستان کے چاروں طرف سے ان میلوں میں اکٹھا ہوکر لوگوں کے بڑے بڑے قافلے بن جاتے تهے اور وہ سب عرس مدارالعالمین مکن پور شریف میں پہنچتے تهے<br>مغلیہ دور حکومت میں ان کی تعداد پانچ چه لاکه ہوتی تهی<br> چنانچہ شہزادہ دارا شکوہ قادری تحریر فرماتے ہیں<br>. "ہرسال در ماہ جمادی الاول کہ عرس ایشان است قریب بہ پنج شش لک آدم مرد و زن صغیر و کبیر از اطراف و جوانب ہندوستان در اں روز بزیارت روضہء شریفہ ایشاں با علمہائے بسیار جمع میشوند و ہمہ نذر و نیاز می آرند و کرامات و خوارق عجیبہ غریبہ الحال نیز نقل میکنند"<br>. (سفینتہ الاولیاء ص321)<br>یعنی ہر سال جمادی الاول کے مہینے میں کہ جب ان (سید بدیع الدین مدار) کا عرس ہوتا ہے قریب پانچ چه لاکه لوگ مرد و زن چهوٹے بڑے اطراف و جوانب ہندوستان سے اس روز ان کے روضہء شریفہ کی زیارت کے لئے بہت سے علموں کے ساتھ اکٹھا ہوتے ہیں <br>اور سب نذر و نیاز پیش کر تے ہیں اور عجیب و غریب خوارق و کرامات اب بهی روایت کرتے ہیں<br>غرض میلوں ٹهیلوں میں وہ بهی خاص طور سے اتنے عظیم میلہ میں بات بات پر<br>قدم قدم پر پیسے ہی کی ضرورت ہوتی ہے<br>اور بعض عشاق مدار دیوانہ وار بلا اسباب و ضروریات ظاہری کے ہی دوڑے چلے آتے ہیں<br>جن کے لئے کہا جاتا ہے<br>"پیسہ نہ کوڑی مدارن کو دوڑی"<br><br>9⃣ میلہ مدار کے دن<br>درگاہ قطب المدار مکن پور شریف میں دو عظیم اجتماعات ہوتے ہیں<br>ایک بسنت پنچمی کے موقعہ پر جس کو میلہ کہا جاتا ہے <br>اور ایک ماہ جمادی الاولی میں جس کو عرس اور مدار کا مہینہ اور مدار کے دن کہا جاتا ہے<br>غرض میلہ ہو یا عرس دونوں ہی موقعوں پر اس میلہ یا عرس کی وجہ سے مکن پور شریف اور اطراف کی بستیوں میں مہمانوں کا کثرت سے آنا جانا ہوتا ہے<br>تو ان کے انتظامات وغیرہ بهی کرنے ہی پڑتے ہیں یا جن لوگوں کو پردیس جانا ہوتا ہے وه ان ایام میں پردیس نہ جاکے گھر پر ہی رہتے ہیں یا پردیسی گھر واپس آجائے ہیں غرض ایسے مواقع اور مہمانوں وغیرہ سے متعلق ضروریات کے پیش نظر جب کوئ بات کہتے ہیں تب بولتے ہیں ـ مثلاً<br>میلے مدار کے دن ہیں گھر کے سب انتظام ٹهیک ٹهاک کرلئے جائیں<br>میلے مدار کے دن ہیں اب کیا پردیس جاوگے وغیرہ<br>. <br>فقیر مداری سید منورعلی جعفری<br>پیش کردہ سید ظفر مجیب مداری ولی عہد خانقاہ مداریہ مکنپور شریف ضلع کانپور یوپی <br>www.qutbulmadar.org<br>plz visit Us: <br> <br><br> .</div>
Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-23663924881818127062021-03-08T22:56:00.000-08:002021-03-08T22:56:45.199-08:00<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 style="text-align: left;">
*Hazrat Syed Badi Uddeen Ahmad Zinda SHah Madar Ka SHajra e Nasab*<a href="http://www.qutbulmadar.org/" target="_blank">www.qutbulmadar.org</a></h2>
<br />
*Pidari Nasab*
Syed Badi Uddeen Qutbul Madar
Ibn e Qazi Syed Qudwatuddeen Ali Halbi
Ibn e Syed Bahauddeen
Ibn e Syed Zaheer Uddeen Ahmad
Ibne Syed Ismaeel Sani
Ibn e Syed Muhammad
Ibn e Syed Ismaeel
Ibn e Imam Jafar Sadiq
Ibn e Imam Muhammad Baqir
Ibn e Imam Zain ul Aabideen
Ibn e Imam Husain
Ibn e Syeda Fatima
Bint e Rasool e KHuda
Sallallahu Alaih e W Alaihim W Sallam
*Madri Nasab*
Syed Badi Uddeen Ahmad Zinda SHah Madar
Ibn e Syeda Fatima Saniya Urf Bibi Hajira Tabrezi
Bint e Syed Abd ul Lah Tabrezi
Ibn e Syed Zahid Muhammad
Ibn e Syed Aboo Muhammad Hasan Aabid
Ibn e Syed Sualeh
Ibn e Syed Aboo Yoosuf
Ibn e Syed Abul Qasim Nafs e Zakiyya
Ibn e Syed Abdullah Mahaz
Ibn e Ameer ul Momineen Imam Hasan
Ibn e Syeda Fatima Zahra
Bint e Rasool e KHuda Sallallahu Alaih e W Alaihim W Sallam</div>
Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-26779733727218103582021-03-08T22:55:00.001-08:002021-03-08T22:55:49.488-08:00ایمان ابو طالب .بعنوان مقدمہ کتاب خواجہ بطحا مولانا شیدا کمالی ..مقدمہ مفتی قیصر رضا مداری<div>*مقدمتہ الکتاب*</div><div><br></div><div>ازقلم ترجمان اہلبیت محقق ومدبر مصلح ومبلغ مفتی ومدرس مصنف ومولف حضرت علامہ مولانامحمد قیصررضا شاہ علوی حنفی مداری جامعہ عزیزیہ اہلسنت ضیاءالاسلام دائرةالاشراف جھہراؤں شریف ضلع سدھارتھنگر یوپی انڈیا </div><div>ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ</div><div>نحمدہ ونصلی ونسلم علی حبیبہ الکریم امابعد </div><div>اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم </div><div>مااٰتکم الرسول فخذوہ ومانھٰکم عنہ فانتھوا</div><div>یعنی رسول پاک جودیں اسےلےلواورجس بات سےمنع کردیں اس سےرک جاؤ </div><div>بعدخطبۂ مبارکہ مقدمتہ الکتاب کاآغازکرتاہوں حضرت پیرنصیرگولڑوی کےان اشعارسے </div><div><br></div><div>میں کہونگا کہ ہےمحروم بڑی نعمت سے </div><div>جوکوئی دست کشِ خوانِ ابوطالب ھے </div><div><br></div><div>الفت پنجتن پاک نےبخشا یہ شرف </div><div>آج کل دل مِرامہمان ابوطالب ھے</div><div> </div><div>بعدتحقیق احادیث وروایات نصیر</div><div>میرادل قائل ایمان ابوطالب ھے</div><div><br></div><div>ناظرین محترم!</div><div><br></div><div>جس طرح فخرملت پاسبان اہلسنت مقبول بارگاہ پاک عترت حضرت علامہ ومولانا صوفی پیر فخرعالم شیداکمالی صاحب قبلہ کی نامی گرامی بھاری بھرکم شخصیت ہرطبقےمیں کافی مشہورومقبول ھے اسی طرح انکی تصانیف بھی ہرطبقےکیلئےکسی عظیم سوغات سےکم نہیں ہوتی ہیں </div><div>میں ذاتی طورپرجناب مولف کتاب ھذاکوبہت قریب سےجانتاہوں اوراسکی روشنی میں لکھ رہاہوں کہ انھیں جیسی علمی ومذھبی شخصیات علمائےحق کی انجمن میں مسند عزت وعظمت کی زینت بنتےہیں انھیں کےمثل حق شعارعلمائےدین اس زمین کی زینت اورملت کاوقاروسرمایہ ہوتےہیں حضرت بابرکت علامہ پیرصوفی فخرعالم شیداکمالی کی یہ تصنیف لطیف المسمیٰ بہ خواجۂ بطحاءحضرت ابوطالب کودیکھکر دل کوبڑی راحت میسرہوئی ویسےتو علامہ کمالی کی اکثرتصنیفات اہلبیت پاک کےہی پاک تذکروں پرمشتمل ہیں </div><div>اورسب کی سب عوام وخواص کےدرمیان کافی مقبول ہیں </div><div>لیکن حضرت علامہ کی یہ تصنیف بہت ہی اہم اورخاص الخاص ھے کیونکہ یہ ایک ایسےموضوع پرلکھی گئی ھے جس پرخامہ فرسائی ہرکس وناکس کےبس کی بات نہیں ھے اس مسئلےکواعتدال ووسطیت کیساتھ نبھانےکیلئے بہت گہرےمطالعہ کیساتھ ساتھ کامل طورپرمومنانہ فہم وفراست درکارھے </div><div>میں نےحضرت علامہ کی اس کتاب کو بہت دلچسپی کیساتھ ملاحظہ کیاھے اسلئےمکمل یقین واعتمادکیساتھ لکھ رہاہوں کہ یہ مایہ ناز تصنیف بیشمار اہل علم کےافکارونظریات کاقبلہ تبدیل کردیگی کیونکہ حضرت مصنف نےاپنےموقف کودلائل قاہرہ وبراہین ساطعہ سےمرصع کرنےکےساتھ ساتھ بڑےسلیقہ وشعورکیساتھ اپنی بات کو پیش فرمائی ھے اوربڑے مزےکی بات یہ بھی ہےکہ یہ کتاب جس طرح حضرت ابوطالب کےایمان واسلام پر دلائل قاہرہ کا مجموعہ ھےاسی طرح اس بزرگوارکی سیرت وسوانح کابھی بیش بہاحصہ اس کتاب میں شامل ہوگیاھے </div><div>حضرت موصوف کااس زمانےمیں اس موضوع پرقلم اٹھانابہت ضروری تھا </div><div>کیونکہ اس مسئلےکےبابت اس دورمیں جوجاہلانہ اورمتعصبانہ رویہ اختیارکیاگیاھے وہ اس بات کامتقاضی تھاکہ اس عنوان پرپوری علمی دیانت داری کیساتھ کام کیاجائے ناظرین کتاب کےاندر بچشم خودملاحظہ کرینگے کہ مصنف موصوف نے اپنےموضوع کوبہت ہی خوبصورتی اوردیانتداری کیساتھ نبھایاھے </div><div><br></div><div>ناظرین گرامی قدر ! آپ مکمل وثوق کیساتھ جان لیں کہ </div><div>قرآنی آیات کےمفاہیم و احادیث کریمہ اوراقوال اکابرسےسرکاربطحاءسیدناحضرت ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامومن کامل ہوناروزروشن کی مانندعیاں ھے</div><div>قرآن عظیم کی کسی صریح آیت سےانکاعدم ایمان ثابت نہیں ہوتا نیزاگربنظرغائردیکھاجائےتوانکےعدم ایمان کی اکثرروایات قرآن عظیم سےمتعارض ومتصادم نظرآتی ہیں لھذایسی صورت میں ہروہ روایت غیردرست وناقابل قبول ہوگی جوکتاب اللہ سےمتعارض ومتصادم ہو </div><div> </div><div>*قرآن پاک سے حضرت ابوطالب کےمومن ہونےکی دلیل*</div><div><br></div><div>قال اللہ عزوجل *ماکنت تدری ماالکتاب والایمان* یعنی" نہ توآپ کتاب کوجانتےہیں اورنہ ہی آپکوایمان کاپتہ تھا "</div><div> (شوریٰ آیت نمبر۵۲ ) </div><div>حضرت امام قسطلانی اس آیت کریمہ کےتحت فرماتےہیں کہ امام مادردی امام واحدی اورامام قشیری رحمتہ اللہ علیہم نے اس آیت کےضمن میں روایت بیان کی ھےکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کایہ ارشاد کہ آپکواس سےپہلےکتاب اورایمان کی کچھ خبرنہ تھی حذف مضاف کےباب سےہے </div><div>یعنی ایمان کاپتہ نہیں تھا تویہ بات حضرت ابوطالب اورحضرت عباس اوردوسرےصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کےمتعلق ہےکہ محبوب ! آپ کےبتانےسےپہلےیہ نہ توکتاب کوجانتےتھےاورنہ ہی ایمان کی کچھ خبرتھی متن ملاحظہ ہو</div><div><br></div><div> *واماقولہ تعالیٰ "ماکنت تدری ماالکتاب والایمان*</div><div> *حکاہ المادردی والواحدی والقشیری وقیل انہ من باب حذف المضاف ای ماکنت تدری اہل الایمان ای من الذی یومن ابوطالب اوالعباس اوغیرھما*</div><div><br></div><div>(مواہب الدنیہ للامام احمدبن محمدبن ابی بکرالخطیب قسطلانی جلددوم ص۸۹ مطبوعہ بیروت )</div><div><br></div><div>امام زرقانی علیہ الرحمہ مذکورہ بالاعبارت کی تشریح فرماتےہوئےلکھتےہیں کہ</div><div> </div><div>*انہ من باب حذف المضاف أی ماکنت تدری اھل الایمان من الذی یومن ابوطالب (عبدمناف) اوالعباس اوغیرھمافلماینافی انہ مومن باللہ وصفاتہ وقدیدل لہ بقیتہ آیتہ ولٰکن جعلناہ نورًانہدی بہ من نشآءمن عبادنا*</div><div><br></div><div>یعنی یہ آیت حذف مضاف کےباب میں سےہے اوروہ اہل ایمان لوگ جوپہلےایمان کونہ جانتےتھے اورایمان لائےوہ ابوطالب (عبدمناف)</div><div>یاعباس اوردوسرےلوگ ہیں اوران لوگوں کااللہ عزوجل کی ذات وصفات پر ایمان لاناآیت مذکورہ کےمنافی نہیں بلکہ یہ توآیت کریمہ کےآئندہ آنےوالےبقیہ اس حصہ پردلالت کرتی ہےکہ "لیکن ہم نےاس قرآن کونوربنایا جس کےذریعہ سے ہم اپنےبندوں میں سےجس کوچاہیں ھدایت کرتےہیں "</div><div><br></div><div>ناظرین پرواضح ہوناچاہئےکہ مذکورہ دلیل ثبوت ایمان حضرت ابوطالب کےباب میں اس درجہ ٹھوس اورمضبوط ہےکہ جسےہزاروں تاویلوں کےباوجود نہ توالجھایاجاسکتاھے اورنہ ہی مستردکیاجاسکتاھے ـ ـ ـ </div><div>لھذا اب ہم ذیل میں اولاً انکےمومن ہونےکی کچھ روایات نقل کررہےہیں تاکہ انکی روشنی میں لوگوں کو اس عالی قدرکامقام ومرتبہ اورعلوِشان کاعلم ہوسکے </div><div><br></div><div>روایات ملاحظہ ہوں </div><div><br></div><div>*روایت نمبر۱*</div><div><br></div><div>*قَالَ العباس واللہ لقد قالَ اخی الکلمتہ اللتی امرتہ بھا*</div><div>یعنی حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کے رسول سے کہا خداکی قسم میرے بھائی نے وہ کلمہ پڑھ لیا ھے آپ انھیں جس کلمہ کے پڑھنے کا حکم دے رہیے تھے</div><div><br></div><div>(روض الانف مع سیرت ابن ھشام ج ۱ صفحہ ۲۸۵)</div><div><br></div><div>اسی روایت کوامام عبدالوھاب شعرانی نےاسطرح سےنقل کیاھے</div><div><br></div><div> *قال ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھمامات ابوطالب سنتہ عشرمن النبوةوکان قدبلغ عمرہ بضعاوثمانین سنۃودخَل علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی مرض موتہ وقال لہ یاعم قلہا یعنی کلمۃ الشھادة استحل لک بہاالشفاعتہ فلماتقارب منہ الموت جعل یحرک شفتیہ فأصغی الیہ العباس باُذنہ وقال واللہ یاابن اخی لقدقال کلمۃ التی امرتہ بہافقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الحمدللہ الذی ھداک یاعم*</div><div><br></div><div>یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھماسےروایت ھےکہ حضرت ابوطالب نےنبوت کےدسویں سال انتقال فرمایا اوراسوقت انکی عمرشریف ۸۵سال سےاوپرتھی اورانکےمرض الموت میں رسول پاک علیہ السلام انکےپاس تشریف لےگئےاورفرمایاچچاجان ! کہدیجئےیعنی کلمئہ شھادت پڑھئے تاکہ آپکی شفاعت کرناھمارےلئےجائزہوجائے پس جب آپکی وفات کاوقت قریب آیاتوآپکےہونٹ ہل رہےتھے توحضرت عباس نےآپکےہونٹوں پرکان لگادئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےکہاکہ *اےابن اخی خداکی قسم ابوطالب نےوہ کلمہ کہہ دیاھے جسکاآپ نےانھیں حکم دیاتھا یہ سن کرحضورانورعلیہ السلام نےفرمایاالحمدللہ الذی ھداک یاعم یعنی اےچچا شکرھےاس معبودبرحق کا جس نےآپ کوھدایت بخشا*</div><div><br></div><div>(کشف الغمہ للامام عبدالوھاب شعرانی ص ۱۲۰ مطبوعہ مصر) </div><div><br></div><div>حضرات! سیدناسرکار ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کلمہ پڑھ لینے کی یہ وہ شھادت ھے جو اسی وقت دےدی گئی تھی جس موقع پر آپ سے تلقینِ کلمہ کا معاملہ درپیش تھا</div><div>اس روایت کے ہوتے ھوئے وہ روایتں کیونکر دلیلِ کفر بنائی جاتی ھیں جنکے راویان نہ تو اس مجلس میں موجود تھے اور نہ ھی حضرت عباس سے زیادہ ثقہ وقوی ھیں</div><div><br></div><div>*روایت نمبر۲*</div><div><br></div><div>*اِنَّ اللہ تعالیٰ احیاللنبئِ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عمَّہ اباطالب وامن بہ*</div><div><br></div><div>یعنی اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کیلئے ابوطالب کو زندہ فرمایا اور وہ بزرگوار ان پر ایمان لے آئے</div><div><br></div><div>(مختصر تذکرۂ قرطبی ج۱ صفحہ ۶)</div><div><br></div><div>حضرات!</div><div><br></div><div>محبینِ ایمان واسلام کیلئے یہ روایت بھی کچھ کم نھیں ھے ھاں منکرین کیلئے ایک دفتر بھی ناکافی ھے</div><div>اس روایت کو قدرے کمی بیشی کےساتھ صاحب روح البیان علامہ اسماعیل حقی نے بھی بیان کیا ھے بلفظہ ملاحظہ فرمائیے</div><div><br></div><div>*روایت نمبر۳*</div><div><br></div><div>*وقد جاءفی بعض الروایات ان النبئ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لما عادَ مِن حجتہ الوداع احیئَ اللہ لہ ابویہ وعمہ فآمنوا بہ*</div><div><br></div><div>یعنی اور بیشک بعض روایات میں آیاھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے تشریف لائے تواللہ تعالیٰ نے آپکے لئے آپکے والدین اور چچا ابوطالب کو زندہ فرمایا اور وہ سب آپ پر ایمان لائے</div><div>(روح البیان ج۳صفحہ ۴۱۶)</div><div><br></div><div>علاوہ ازیں امام ابنِ حجر مکی قدس سرہ نے بھی آپکے ایمان کی یہ روایت نقل فرمائی ھے ملاحظہ کیجئے</div><div><br></div><div>*روایت نمبر ۴*</div><div><br></div><div>*ومن معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم احیاءالموتیٰ وکلامھم وفی الخبر ان اللہ تعالیٰ أحییٰ لہ ابویہ وعمہ اباطالب فآمنوابہ*</div><div><br></div><div>یعنی اللہ کے رسول علیہ السلام کے معجزات میں سے مردوں کو زندہ فرمانا اور انکے ساتھ گفتگو فرمانا ھے روایت میں آیاھے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کیلئے آپکے والدین کریمین اور عمِ محترم حضرت ابوطالب کو زندہ فرمایا اور وہ آپ پر ایمان لائے</div><div><br></div><div>(النعمتہ الکبریٰ صفحہ ۹۱)</div><div><br></div><div>حضرات! اسکے علاوہ امام عبدالوھاب شعرانی نے بھی آپکے ایمان کی روایت اس انداز میں بیان کی ھے ملاحظہ ھو</div><div><br></div><div>*روایت نمبر۵*</div><div><br></div><div>*ذکرَسلمہ بن سعید الجعفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ انَّ اللہ تعالیٰ احییٰ للنبئِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمَّہ اباطالب وآمنَ بہ*</div><div><br></div><div>یعنی روایت کیا حضرت سعید بن جعفی نے کہ بیشک زندہ کیا اللہ تعالیٰ نے حضورِ پاک علیہ السلام کے لئے انکے عمِ محترم حضرت ابوطالب کو اور وہ ان پر ایمان لائے </div><div><br></div><div>*روایت نمبر ۶*</div><div>*روئَ عن اسحاق بن عبداللہ بن حارث قال قال العباس لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اترجولابی طالب ؟ قال کل الخیرارجومن ربی* </div><div>یعنی اسحاق بن عبداللہ بن حرث سےروایت ہےکہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کیاآپ ابوطالب کیلئےپُرامیدہیں رسول پاک علیہ السلام نےارشادفرمایاکہ ہم اپنےپروردگارسےانکےلئےہرخیر اوربھلائی کیلئےامیدوارہیں</div><div><br></div><div>( طبقات ابن سعدجلداول ص ۱۲۱ </div><div>خصائص کبریٰ جلداول ص ۲۱۵ مطبوعہ مدینہ منورہ </div><div>تفسیرمراح لبیدجلددوم ص ۱۴۷ </div><div><br></div><div>صاحب تفسیرمراح لبید امام محمدنوی الجاوی مذکورہ حدیث پاک کی تشریح کرتےہوئےرقمطرازہیں کہ</div><div><br></div><div> *ممایدل علیٰ ان اباطالب مومن "ارجومن ربی "ورجاوہ محقق ولایرجو کل الخیرالامومن*</div><div> یعنی رسول کریم علیہ الصلوة والتسلیم کا یہ فرمان کہ میں اپنےپروردگارسے انکے (حضرت ابوطالب) کیلئےہربھلائی کی امیدکرتاہوں اس امرکی دلیل ھےکہ حضرت ابوطالب مومن ہیں اورحضور ختمی مرتبت علیہ السلام کاانکےلئےپُرامیدہونامحقق ہےجبکہ ہرخیراوربھلائی کی امید سوائےمومن کےنہیں کی جاسکتی</div><div><br></div><div>(تفسیرمراح لبیدجلددوم ص ۱۴۷ مطبوعہ مصر</div><div><br></div><div>*روایت نمبر۷* </div><div><br></div><div>*عن ابن عمرقال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اذاکان یوم القیامۃشفعتُ لابی وعمی*</div><div>یعنی حضرت عبداللہ بن عمرسےروایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشادفرمایا کہ جب قیامت قائم ہوگی تومیں اپنےوالدین اورچچاجان کی شفاعت کروں گا</div><div><br></div><div>(خصائص کبریٰ ص ۲۱۶ </div><div>مسالک الحنفاءص ۳۱ </div><div>الدرج المنیفہ ص ۷</div><div> الحاوی للفتاویٰ ص ۲۱۰ )</div><div><br></div><div>ناظرین روایت مذکورہ بھی حضرت ابوطالب کےمومن ہونےکی قوی دلیل ہےکیونکہ آقاعلیہ السلام کسی کافریامشرک کی شفاعت نہیں فرمائینگے چنانچہ مذکورہ بالاجملہ روایات سےیہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت سیدناابوطالب مومن کامل ہیں اورآپکےایمان لانےمیں کوئی شک وشبہ نہیں ھے راقم السطور گدائےکوئےسرکارابوطالب فقیر محمدقیصررضا شاہ علوی حنفی مداری عرض کرتا ھے کہ </div><div>کفر ابو طالب پر جتنی ساری روایتیں ھیں وہ سب درایۃً مشکوک اور مضطرب ہیں </div><div>ہماری مذکورہ تحریر پر احباب اھلسنت میں سے کچھ حضرات اختلاف ظاھر فرماسکتے ھیں </div><div>لھذا میں ان تمام حضرات سے عرض گزار ھوں کہ آپ تمامی صاحبانِ علم وتحقیق کو اختلاف کا بھر پور حق حاصل ھے لیکن </div><div> واضح ہونا چاہئے کہ نام جنکا عمران اور کنیت ابو طالب ھے</div><div> جو دادا ھیں حضرت امام عالی مقام سیدنا آقا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے</div><div> اور والد گرامی ھیں مولیٰ المسلمین سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے</div><div>اور </div><div> ھمدرد</div><div>وغمگسار</div><div>ووفا شعار</div><div> وجانثار</div><div>و عاشق زار </div><div>عمِّ باوقار </div><div>ہیں سید الانبیاء خاتم رسولاں سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے </div><div> ان برزگوار کے ایمان واسلام کا مسئلہ کچھ اسطرح سے اختلاف کا شکار ھے</div><div> کہ فرقہُ ضالہ حشویہ کلّی طور پر انھیں کافر قرار دیتا ھے</div><div> جبکہ دوسراگمراہ فرقہ رافضیہ کلّی طور پر انھیں مسلمان وصاحبِ ایمان کہتاھے</div><div> لیکن اکابرین اھلسنت میں کچھ حضرات انکے عدم ایمان کا قول کرتے ھیں</div><div>اور کچھ حضرات انکے ایمان وعدم ایمان کے بارے میں سکوت کے قائل ھیں</div><div> لیکن اکثر اکابرین انکے ایمان واسلام کے قصیدہ خواں ھیں</div><div> خاص طور سے بزرگان دین اولیاء کاملین ایمان ابوطالب کا ہی دم بھرتے ھیں </div><div> اب جبکہ صورت حال کچھ اس طرح کی ھے تو کچھ لوگ سنی العقیدہ ہونےکےباوجود انکے مسلمان اور صاحب ایمان ہونے کے قول کو پڑھکر </div><div>سنکر </div><div> یا انکے نام کے ساتھ "حضرت " یا " حضور" یا "رضی اللہ تعالیٰ عنہ" دیکھ کر وحشی نیل گاؤکی طرح کیونکر بدک جاتے ھیں؟</div><div> </div><div>چلئے یہ بات اپنی جگہ مسلم کہ بخاری ومسلم وترمذی اور دوسری کتب احادیث کے اندر انکے خاتمہ بالکفر کی وہی چارپانچ روایتیں گھوم گھوم کر لکھی گئی ہیں </div><div>مگر انھیں کی طرح والدین رسول گرامی وقار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بھی تو خاتمہ بالکفر کی روایت انھیں محدثین نے اپنی انھیں صحاح جوامع اور سنن میں تحریر کی ھیں </div><div> پھر کیا بات ھے کہ ایک روایت تسلیم ھے اور ایک سے انکار ھے؟؟</div><div><br></div><div> حضرت ابو طالب کا کفر ثابت کرنے کے لئے بخاری ومسلم کو سرپر لیکر گھومنے والے کیا اب والدین پاک مصطفیٰ علیھم السلام کو بھی کافر ومشرک تسلیم کرینگے؟؟</div><div>اس مقام پر حضور اعلیٰ حضرت کی یہ تحریر کافی مفید ھے </div><div>جوانہوں نےبخاری مسلم اورکچھ دیگرکتب حدیث کےتعلق سےالفضل الموہبی میں زیب قرطاس کی ہیں</div><div>نمونہ کےطورپرالفضل الموہبی ایک تحریرپیش کرتاہوں چنانچہ آپ لکھتےہیں کہ </div><div>*کس آیت یاحدیث میں ارشادہواھےکہ بخاری یاترمذی بلکہ امام احمدابن المدائنی جس حدیث کی تصحیح یاتخریج کردیں وہ واقع میں بھی ویسی ہی ھے کونسانص آیاھےکہ نقدرجال میں ذہبی وعسقلانی بلکہ نسائی وابن عدی ودارقطنی بلکہ یحی بن قطعان ویحی بن معین وشعبہ وابن مہدی جوکچھ کہہ دیں وہی حق جلی ھے جب خوداحکام الھیہ کےپہچاننےمیں ان اکابرکی تقلیدنہ ٹھہری جوان سےبدرجہاارفع واعلیٰ اعلم واعظم تھے جنکےیہ حضرات اورانکےامثال مقلدومتبع ہوئے جنکےدرجات رفیعئہ امامت انھیں مسلم تھے*</div><div><br></div><div>(الفضل الموہبی فی معنیٰ اذاصح الحدیث فھومذھبی منزل سوم ص ۱۲ )</div><div><br></div><div>تمام اھلسنت سے مخاطب ہوں کہ آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو عقلِ سلیم بخشی ھےاور علم دین کے نور سے پرنور کیا ھے تو آپ اسکا بھی کھبی کبھی استعمال فرمایاکریں اور ھرکسی روایت کو درایتہً بھی پرکھنے کی کو شش فرمائیں </div><div>دلائل کی کمزوری ومضبوطی پر بھی نظر رہنی چاہئے </div><div>حضرات!!</div><div>بخاری کی روایت ھے کہ جب حضرت سیدنا ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوگیا تو حضرت مولیٰ علی بارگاہِ نبوت میں تشریف لاےُ اور پیارے آقا علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوےُ فرمایا کہ</div><div>*یارسول اللہ آپکا گمراہ چچا مرگیا*</div><div>اھل ایمان وانصاف بتائیں کہ جو لب ولہجہ ایک محسن اسلام اور حضور پاک کے محبوب چچا کے لئے خود انکے دلبند حضرت علی کی جانب منسوب کیا گیا ھے کیا ان سے یہ ممکن ھے؟؟</div><div>کیا رسول عربی کی پرورش وتر بیت نے حضرت علی پر اتنا بھی اثر نہیں کیا تھا کہ جس باپ کا جسدِ خاکی ابھی سپرد خاک بھی نہیں ہواھے اس باپ کے موت کی خبر اس درجہ غیر مھذب انداز میں دیں؟؟</div><div><br></div><div>کیا مذکورہ بالا لب ولھجہ باب علم نبی کا ہوسکتاھے؟؟</div><div>ھرگز نہیں </div><div>حضرت ابوطالب کےعدم ایمان سےمتعلق مسلم اور بخاری کی ان روایات کی حقیقت اور قرار واقعی معلوم کرنےکےلیئے فقط اس قدر جان لینا کافی ھے کہ ان روایتوں میں جس آیت کو کفر حضرت ابو طالب سلام اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل کے طور پر ان کےحق میں نازل ہونا لکھا ہے وہ آیت مکہ میں نازل ہی نہیں ہوئی بلکہ دس بارہ برس کے بعد اسکا نزول مدینہُ طیبہ میں ہوا اور یہ متحقق ہےکہ وصال حضرت ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ھجرت سے تین سال قبل مکہ معظمہ میں ہوا ھے خود بخاری کے اندر بھی اسکا ثبوت موجود ھے </div><div>اسی طرح اس عنوان کی ایک روایت حضرت سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے منسوب کرکے بیان کی گئی ھے جبکہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح خیبر کے بعد سات ھجری میں مسلمان ہوےُ یعنی سرکار ابو طالب کے وصال پرملال کے دس سال بعد چنانچہ یہ بزرگوار اسوقت نہ تو مسلمان ہوےُ تھے اور نہ مکہ میں موجود تھے اور نہ تو روایت میں ایسا کوئی جملہ ہیےکہ مجھ سے یہ بات فلاں نے بیان کی </div><div><br></div><div>اور پھر اثبات کفر ابوطالب کا جنون جنکے آنکھوں کی نیندیں اڑا چکا ھے انھیں کیا تفاسیر میں یہ باتیں نہیں ملیں کہ آیات مبارکہ</div><div> *انَّکَ لا تَھدی من اَ حببت*</div><div>اور *ما کان للنبیُ*الخ 'حضرت ابو طالب کے حق میں نہیں ھیں؟؟</div><div><br></div><div>اگر نہیں ملیں تو مطالعے کو اور وسعت دیں اور اگر ملیں ھیں تو کیا سبب ھے کہ کفری روا یتوں پر ھی جان قربان کی جارہی ھے ؟؟؟</div><div><br></div><div>آیت کریمہ</div><div>*اِنَّکَ لاَتَھدِی مَن اَحبَبتَ حضرت ابوطالب کےحق میں نہیں نازل ہوئی* </div><div>چنانچہ پوری آیت میں ظاہرطورپر ایک بھی ایسالفظ نہیں ھےجس سےیہ ثابت کیاجاسکےکہ فی الواقع یہ آیت حضرت ابوطالب کےحق میں نازل ہوئی جیساکہ مفسرین کرام نےبھی لکھاہیکہ اس آیت میں کفرابی طالب پر کوئی دلیل ظاہرنہیں ھے چنانچہ رئیس المفسرین امام فخرالدین رازی اس آیت کی تفسیرکرتےہوئے سب سےپہلےیہی خیال ظاہرفرماتےہیں ملاحظہ ہو </div><div>*اعلم اِنَّ فی قولہ تعالیٰ انک لاتھدی من احببت ولٰکن اللہ یھدی من یشاءُ ــ مسائل المسئلۃالاولیٰ ھذہ الآیۃ لادلالتہ فی ظاھرھا علی کفرابی طالب*</div><div>یعنی جان لیجئےکہ بیشک *انک لاتھدی الی آخرالآیہ* میں کئی مسئلےہیں پہلامسئلہ نہیں دلالت کرتی یہ آیت اپنےظاہرمیں کفرابی طالب پر</div><div><br></div><div>(تفسیرکبیرجلدششم ص۴۴۹ )</div><div><br></div><div>علاوہ ازیں امام محمدبن عمرنوی جاوی اپنی مشھورانام تفسیر </div><div>*مراح لبید*میں *انک لاتھدی من احببت* کےتحت فرماتےہیں کہ </div><div>*انک لاتھدی*ـ *وھذہ الآیہ لادلالۃ فی ظاھرھاعلی کفرابی طالب لان اللہ ھوالذی ھداہ بعدان ائیس منه النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اماالحدیث الدلالۃ علی عذابہ ودخولہ فھوالترک النطق بالشھادةوان اِعتَدَّبہ فالعذاب یکون فی مقابلۃ ترک فرض آخروممایدل علی انہ آمن برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہ قدوصی عندموتہ باتباع رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم*</div><div>مراح لبید جلددوم صفحہ نمبـ ۱۴۶ ــر مطبوعہ مصر</div><div><br></div><div>یعنی یہ آیت ظاہری طورپر حضرت ابوطالب کےکفرپردلالت نہیں کرتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوطالب کوہدایت دےدی تھی جبکہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے مایوس ہوگئےتھے اوروہ حدیث جوآپکےعذاب اورجہنم میں داخل ہونےپردلالت کرتی ھے وہ اسلئےبھی ہوسکتی ھے کہ انھوں نےشھادت کوبیان نہ کیا اگراسکوشمارکربھی لیاجائےتویہ عذاب دوسرےفرض کےترک کرنےپر ہوگا اورآپکے ایمان لانےپردوسری اہم ترین دلیل یہ ہیےکہ آپ نےاپنی وفات کےوقت حضورپرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ سلم پرایمان لانےکی وصیت کی تھی</div><div>اسکےعلاوہ تفسیرابن کثیر اوردرمنثورمیں نقل ہیےکہ </div><div><br></div><div>*عن سعیدبن ابی راشدقال کان رسول قیصرجاءالی کتب معنی قیصرالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتاباً فاتیتہ فدفعت الکتاب فوضعہ فی حجرہ ثم قال عن الرجل قلت من تنوخ قال ھل لک فی دین ابیک ابراہیم الحنیفۃ قلت انی رسول قوم وعلی دینھم حتی ارجع الیھم فضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ونظرالی صحابہ وقال انک لاتھدی من احببت ولٰکن اللہ یھدی من یشاء*</div><div>تفسیرابن کثیرصفحہ ۲۸۲</div><div>تفسیردرمنثور صفحہ ۳۴۵</div><div><br></div><div>حضرت سعید بن ابی راشد سےروایت ہیکہ حضور علیہ السلام کی خدمت اقدس میں </div><div>قیصرروم کاقاصدخط لیکرحاضرہوا </div><div>توآپ نےوہ خط اس سےلیکر پتھروں کےدرمیان رکھدیا اورسوال کیاکہ یہ شخص کس قوم سےتعلق رکھتاھے کہاگیاکہ قبیلہ بنی تنوخ سے توآپ نےاس شخص سےفرمایا کہ کیاتوچاہتاہےکہ تجھےتیرےباپ ابراہیم کادین حنیف نہ پیش کیاجائے تواس نےکہاکہ میں اپنی قوم کا قاصدہوں جب تک واپس نہ جاؤں دین کو تبدیل نہیں کرسکتا توآپ نےتبسم فرماتےہوئے صحابئہ کرام کی طرف دیکھا اورارشادفرمایا *انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء*</div><div><br></div><div>مذکورہ تفسیرخود صاحب قرآن نےفرمائی ھے جبکہ اسکےبرخلاف پورےذخیرۂ احادیث میں خود حضور ختمی مرتبت علیہ السلام کاکہیں کوئی ایسال قول مندرج نہیں ہےکہ جس میں اس آیت کو آنحضرت علیہ السلام نےبزبان خود سرکارابوطالب کےحق میں بتایاہو</div><div>بھائیو!!</div><div>کیا صاحب قرآن کی اس تفسیر سے بہتر کسی کی تفسیر ھوسکتی ھے؟؟؟ </div><div><br></div><div>مزیدبرآں امام شیخ احمدصاوی مالکی رحمتہ اللہ علیہ زیرآیت</div><div>*انک لاتھدی*</div><div>فرماتےہیں کہ *وقیل انہ اُحیٰ واسلم ثم مات ونقل ھذالقول بعض الصوفیۃ*</div><div>تفسیرصاوی صفحہ ۱۸۳</div><div>مطبوعہ مصر</div><div>یعنی اورکہاکہ انھیں زندہ کیا اوروہ اسلام لائے اورپھرانتقال فرمایا اوریہ قول بعض صوفیائےاہل صفانےنقل فرمایاھے</div><div><br></div><div>منکرین ایمان سیدناابوطالب رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب سےانکےعدم ایمان پرپیش کی جانےوالی آیت کریمہ</div><div>*"وَھُم یَنھَونَ عَنہُ وَیَنئَونَ عَنہُ"بھی حضرت ابوطالب کےحق میں نہیں نازل ہوئی*</div><div> </div><div>پوری آیت کریمہ اس طرح سےہے </div><div><br></div><div>*حتیٰ اِذَاجَاءُوکَ یُجاَدِلُونَکَ یَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوآاِن ھَذآاِلاَّاَسَاطِیرُالاَوَّلِین وَھُم یَنھَونَ عَنہُ وَیَنئَونَ عَنہُ وَاَن یَھلِکُونَ اِلاَّاَنفُسُھُم وَماَیَشعُرُونَ*</div><div><br></div><div>(سورہ انعام آیت نمبر ۲۵/۲۶ )</div><div><br></div><div>یعنی یہاں تک کہ جب تمہارےحضور تم سےلڑتےجھگڑتےحاضرہوں توکافرکہیں کہ یہ توپہلوں کی داستانیں ہیں اوروہ اس سےروکتے اوراس سےدوربھاگتےہیں اورہلاک کرتےہیں اپنی جانیں اورانھیں شعورنہیں</div><div><br></div><div>زیرنظرآیت کاجوٹکڑاحضرت ابوطالب کیلئےپیش کیاجاتاھے اسکاحضرت ابوطالب سےدورکابھی کوئی رابطہ اورتعلق نہیں</div><div>دراصل یہ آیت عام کفارکیلئےہےجیساکہ آیت کاسیاق وسباق اس پرمشیرھے </div><div>چونکہ مضمون بھت زیادہ طوالت کامتحمل نہیں ھےاسلئے اختصارکےساتھ کام لیتےہوئے زیرنظرآیت کےتعلق سےچند مفسرین </div><div>کی کتب سےحوالہ جات پیش کئےجارہےہیں </div><div>*تفسیرابن عباس* میں ھے *(وھم ینھون عنہ)*</div><div>*وھوابوجھل واصحابہ وینھون عن محمدوالقرآن (وینئون عنہ)یمنعون عنہ ویتباعدون*</div><div>یعنی *وھم ینھون عنہُ* اوروہ ابوجہل اوراسکےساتھی ہیں جونہیں مانتےتھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورقرآن کو اور</div><div>*وینئون عنہ*دوسروں کومنع کرتےتھے (آپ سےاورقرآن سے)</div><div><br></div><div>(تفسیرابن عباس صـ ۹۲)</div><div> </div><div>*تفسیرخازن*</div><div><br></div><div>*(وھم ینھون عنہ*)</div><div><br></div><div>*یعنی ینھون الناس عن اتباع محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وینئون عنہ)یعنی یتباعدون عنہ بانفسھم نزلت فی کفارمکۃ کانوایمنعون الناس عن الایمان بمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعن الاجتماع بہ وینھونھم عن استماع القرآن*</div><div>تفسیرخازن صفحہ ۱۰</div><div><br></div><div>*(وھم ینھون عنہ*)یعنی لوگوں کا انکاراتباع محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے </div><div>*وینئون عنہ*یعنی دوررکھتےتھے ان سےاپنی جانوں کو نازل ہوئی یہ آیت کفارمکہ کےحق میں</div><div>منع کرتےتھےلوگوں کو محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےساتھ ایمان لانےسے اورآپکےپاس جمع ہونےسے اورمنع کرتےتھے قرآن سننے سے</div><div><br></div><div>*تفسیرنسفی مدارک*</div><div><br></div><div>*(وینھون عنہ)*</div><div><br></div><div>*ینھون الناس عن القرآن اوعن الرسول واتباعہ والایمان بہ*</div><div>*(وینئون عنہ)*</div><div>*ویبعدون عنہ بانفسھم*</div><div>تفسیرنسفی صفحہ ۸ مطبوعہ بیروت</div><div><br></div><div>یعنی *وینھون عنہ* انکارکرتےتھے لوگ قرآن سےیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےاورانکی اتباع سے اورایمان سے</div><div>*(وینئون عنہ)*</div><div>اوردوررکھتےتھےاپنی جانوں کو ان سے</div><div> </div><div>ناظرین پرواضح ہوناچاہئےکہ متذکرہ آیت کریمہ کااطلاق حضرت ابوطالب پرہوہی نہیں سکتا کیونکہ اھل تواریخ کااس بات پراجماع ھےکہ حضرت ابوطالب حضورپاک علیہ کی باتیں سنکرکبھی ان سےدورنہ بھاگے بلکہ تاحیات سایہ کی طرح آپکےساتھ رہے یہاں تک کہ تین سال کی پرمشقت زندگی شعب ابی طالب میں گزاری لیکن آپ سےدورنہ بھاگے نیز ہمیشہ آپکی باتوں کی تعریف وتوصیف اورانکےفوائدوفضائل بیان کرتےتھے اورلوگوں کوآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں پرعمل کرنےکامشورہ دیتےتھے یہاں تک کہ اپنی آخری وصیت میں بوقت نزع اھل قریش بالخصوص بنی ہاشم کو آپکےنقش قدم پرچلنےکی باضابطہ وصیت فرمائی اوریہی آپکی آخری وصیت ھے اوراسی کو بصیرت کےساتھ دیکھیں تو اقرارباللسان بھی ھے لھذا</div><div>*وینھون عنہ وینئون عنہ* </div><div>کوجن لوگوں نےآپکےلئےسمجھاھے ان سےضرورچوک ہوئی ہیے</div><div><br></div><div>آیت کریمہ *ماکان للنبی والذین آمنواان یستغفرواللمشرکین ــ حضرت ابوطالب کےحق میں نہیں نازل ہوئی* </div><div>جیساکہ سنن ترمذی میں روایت ہےکہ ایک شخص اپنے مشرک والدین کے لئے دعاء مغفرت کررہا تھا جب یہ بات حضور پاک علیہ السلام کے پاس پہونچی تو آیتِ مبارکہ *ماکان للنبیُ*الخ نازل ہوئی پوری حدیث بلفظہ ملاحظہ کریں</div><div>*عن علی قالَ سمعت رجلا یستغفر لاَبویہ وھما مشرکان فقلت لہ اتستغفر لابویکَ وھما مشرکان فقال اولیسَ استغفر ابراھیم لابیہ وھو مشرک فذکرت ذٰلک للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فنزلت ماکان للنبی والذین اٰمنواان یستغفرواللمشرکین* </div><div><br></div><div>(ترمذی جلد دوم صـ۱۴۱)</div><div><br></div><div>دوستو! بتاؤ اس آیتِ مبارکہ کی جو تفسیر بابِ علمِ نبی حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بیان فرمائی اور صاف صاف بتادیا کہ اس آیت کا نزول ایک شخص کی دعاء مغفرت جو اسکے مشرک والدین کیلئے ھورہی تھی اس کے تحت ھوا </div><div>اب بتائیے کہ حضرت مولیٰ علی سے بڑا مفسرِ قرآن کون ھے جسکی روایت اس روایت پر ترجیح پاسکے ؟؟</div><div><br></div><div>علاوہ ازیں اسی ایتِ کریمہ کے تحت صاحبِ تفسیرِ مراحِ لبید فرماتے ھیں کہ </div><div>*فظھرہ بھذالاخبار انَّ الآیۃ نزلت فی استغفارالمسلمین لاقاربھم المشرکین الانزلت فی حقِّ ابی طالب لانَّ ھٰذہ السُّورة کُلھا مدنیۃ نَزلت بعدتبوک اوبینھا وبین موت ابی طالب تکون اثنیٰ عشرسنۃ*</div><div>تفسیرمراح لبید</div><div>جلداول صفحہ ۳۵۷</div><div>یعنی پس یہ ظاھر خبریں ھیں اس آیت کے متعلق کہ اسکا نزول ان مسلمانوں کے حق میں ھے جنکے قریبی مشرک تھے اور نہیں نازل ھوئی یہ آیت حضرت ابوطالب کے حق میں تحقیق کہ یہ پوری سورة مدنی ھے اوراسکےنزول اور حضرت ابوطالب کی موت کے درمیان بارہ سال کاوقفہ ھے </div><div><br></div><div>نیزعلامہ ابن جوزی فرماتےہیں کہ</div><div><br></div><div> *لمامات ابوطالب جعل النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یستغفرلہ فقال المسلمون مایمنعنا ان نستغفرلآبآئناولذوی قرابتنا وقداستغفرابراہیم لابیہ وھذَامحمدیستغفرُلعمہ فستغفرواللمشرکین فنزلت ھذہ الایۃ قال ابوالحسین بن منادیٰ ھذالایصح انماقال النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لعمہ لاستغفرَنَّ لک مالم اُنہ عنک*</div><div>زادالمیسر</div><div>جلدسوم صفحہ ۵۰۸</div><div>مطبوعہ مصر</div><div><br></div><div>یعنی جب حضرت ابوطالب کاانتقال ہواتوحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےانکےلئےاستغفارکرنامقررفرمایا تومسلمانوں نےکہاکہ ھمارےآباءواجدادکیلئےاستغفارکرنا منع نہیں ہے اوربیشک استغفارکیاحضرت ابراہیم علیہ السلام نےاپنےچچاکیلئے اورمحمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنےچچاکیلئےاستغفارکرتےہیں پس مشرکین کےاستغفارسےمنع کرنےکیلئے یہ آیت نازل ہوئی ابوالحسین بن منادیٰ کہتےہیں کہ یہ صحیح نہیں ھےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنےچچاکوکہاتھا کہ میں آپکےلئےاستغفارکرونگا جب تک مجھےروکانہ جائے </div><div><br></div><div>اسکےعلاوہ امام فخرالدین رازی رحمۃاللہ علیہ نےبھی آیت کریمہ *ماکان للنبی* الخ کےنزول کوحضرت ابوطالب کیلئےنہیں بتایاھے بلکہ آپ فرماتےہیں کہ یہ آیت ان مسلمانوں کےحق میں نازل ہوئی جواپنےمشرک والدین کےاستغفارکوجائزسمجھتےتھے چنانچہ آپ لکھتےہیں کہ</div><div><br></div><div>*اِنَّماَظَھَرَفِی ھٰذِہِ السُّورةِ فلعل المومنین کان یجوزُلھم اَن یستغفروالابویھم من الکافرین*</div><div><br></div><div>(تفسیرکبیرجز۱۶ص۲۰۸)</div><div><br></div><div>نیزاسی کتاب مستطاب میں آپ نےامام واحدی کےحوالےسےحضرت حسین بن فضل کایہ قول بھی نقل فرمایاھے</div><div><br></div><div>*قال الواحدی قداستبعدَالحسین ابن فضل لان ھذہ السورة من آخرالقرآن نزولاً ووفاةابی طالبٍ کانت بمکۃ*</div><div>تفسیرکبیر جزء ۱۶</div><div>صفحہ ۲۰۸</div><div><br></div><div>یعنی واحدی کہتےہیں کہ حضرت حسین بن فضل نےاسکوبعیدجاناھے اس لئےکہ یہ سورة کریمہ نزول کےلحاظ سے قرآن کی آخری سورة ہے اوروفات حضرت ابی طالب مکہ میں ہوچکی تھی</div><div><br></div><div>نیزصاحب تفسیرروح المعانی نےبھی مذکورہ آیت کریمہ کودرحق حضرت ابوطالب ماننےسےانکارکیاھے جیساکہ روح المعانی میں نقل ہے</div><div><br></div><div>*لِاَنَّ ھذہ السورة من آخرقرآنٍ نزولاً ووفاةابی طالب کانت بمکۃ فی اول الاسلام*</div><div>تفسیرروح المعانی</div><div>جزء ۱۰</div><div>صفحہ ۹۲</div><div><br></div><div>یعنی تحقیق یہ آیت مبارکہ قرآن کےآخرپرنازل ہوئی اوروفات حضرت ابی طالب شروع اسلام کےوقت مکہ معظمہ میں ہوئی ھے</div><div><br></div><div>ان سب کےعلاوہ حضورسیدناامام سُھیلی رحمۃ اللہ علیہ نے متذکرہ آیت کریمہ یعنی *ماکان للنبی* الخ کےنزول کےتعلق سےبھت عمدہ وضاحت پیش کی ھے راقم الحروف افادۂ عام کی نیت سےاسےبھی نقل کرتاھےچنانچہ آپ لکھتےہیں کہ</div><div><br></div><div>*وذکرقول اللہ تعالیٰ ماکان للنبی والذین آمنوااَن یستغفرواللمشرکین ،وقداستغفرعلیہ السلام یوم اُحدفقال اللھم اغفرلقومی فانھم لایعلمون وذالک حین جرح المشرکون وجھہ وقتلواعمہ وکثیرامن اصحابہ ولایُصحُ اَنَّ تکون الآیۃ نزلت فی عمہ ناسخۃالاستغفار یوم احدلِاَنَّ وفاةعمہ کانت قبل ذالک بمکۃ ولاینسخ المتقدم المتاخر وقداجیب عن ھذہ السوال باجوبتہ قیل استغفارلقومہ مشروط بتوبتھم من الشرک کانہ ارادالدعاء لھم بالتوبۃحتیٰ یغفرلھم ویقوی ھذالقول وذکرھاابن اسحٰق وھوان تکون الآیۃ تَاَخَّرَنُزولُھافنزلت بالمدینۃِ*</div><div>الروض الانف</div><div>صفحہ ۲۵۸</div><div>مطبوعہ مصر</div><div><br></div><div>یعنی اورذکراللہ عزوجل کےاس فرمان کا *مَاکَانَ لِلنَّبِی*الخ </div><div>بیشک احدکےدن نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نےدعاءاستغفارفرمائی کہ یااللہ میری قوم کومعاف فرمادے کہ یہ نہیں جانتے اوریہ اسوقت فرمایا جبکہ مشرکین نےآپکےچہرۂ انورکوزخمی کیا اورآپکےچچا (حضرت امیرحمزہ) اورکثیرصحابئہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کوشھیدکیا ـــ اوریہ صحیح نہیں کہ آپکےچچا (حضرت ابوطالب) کےحق میں نازل ہوئی ھے جواحدکےدن کےاستغفارکی ناسخ ہے کیونکہ آپکےچچا (حضرت ابوطالب) کی وفات اس سےقبل مکہ میں ہوچکی تھی اورمقدم موخرکاناسخ نہیں ہوتا اس سوال کےکئی جواب ہیں بعض نےکہاکہ آپکی قوم کیلئے دعائےاستغفارانکی شرک سےتوبہ کےساتھ مشروط ھے گویاکہ انکی توبہ کیلئےدعاءکاارادہ کیا تاکہ اللہ تعالیٰ انھیں بخش دے اسکویہ قول قوی کرتاھے کہ حضرت ابن اسحاق نےفرمایا کہ اس آیت کریمہ کانزول متاخرہے اوریہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ھے </div><div><br></div><div>مزیدبرآں *ماکان للنبی*الخ </div><div> کےتحت ارشادالساری شرح بخاری میں امام قسطلانی فرماتےہیں کہ </div><div>*واستشکلَ ھذابان وفاةابی طالب وقعت قبل الھجرةبمکۃبغیرخلاف*</div><div><br></div><div>یعنی اوریہ مشکل ہےکیونکہ حضرت ابوطالب کی وفات ہجرت سےقبل مکہ معظمہ میں ہوچکی ھے اوراس معاملےمیں کوئی اختلاف نہیں ہے مزیدلکھتےہیں کہ</div><div><br></div><div>*وفی ذالک دلالت علی تاخرنزول اَلآیۃ عن وفاة ابی طالب والاصل عدم تکرارالنزول*</div><div><br></div><div>یعنی اس میں وفات ابی طالب آیت کےنزول کےتاخرپر دلالت کرتی ھے اوراصل یہ ہیےکہ عدم تکرار نزول ھے یعنی دوبارنازل نہیں ہوئی</div><div> </div><div>(ارشادالساری جلدہفتم ص۲۲۶ </div><div><br></div><div>نیزحضرت فاضل بریلوی اورانکےوالدگرامی کواجازت سندحدیث دینےوالے حضرت قاضی احمدزینی دحلان مکی رحمۃاللہ علیہ زیرآیت </div><div>*ماکان للنبی* الخ رقم طرازہیں کہ </div><div>*انھانُزلت فی استغفارٍ اُناسٍ لِآبائھم المشرکین لافی ابی طالب*</div><div><br></div><div>اسنی المطالب فی نجاۃابی طالب</div><div>صفحہ ۱۷</div><div>مطبوعہ مصر</div><div><br></div><div>یعنی بیشک یہ آیت مبارکہ ان لوگوں کیلئےنازل ہوئی ھے جواپنےمشرکین آباءکیلئےاستغفارکرتےتھے اوریہ ابوطالب کےحق میں نہیں ھے </div><div><br></div><div>راقم السطوراس بابت ابھی اوربہت سارے مفسرین ومحدثین وعلماءربانیین کےاقوال نقل کرسکتاھے لیکن انھیں چندپراکتفاءکرتاھے اھل محبت و انصاف کیلئے یہی بھت کچھ ھے اورضدی قسم کےلوگوں کیلئے پورادفتربھی ناکافی ھے </div><div><br></div><div>مجھےسخت تعجب ہیکہ جو یہ کہتے ہوےُ نہیں تھکتے کہ ایمان کا اگر احتمال واحد بھی پایا گیا تو منع تکفیر کے لئے کا فی ھے وہی حضرات اتنی صراحتوں کےباوجودبھی کفرہی کفرکارَٹّا ماررہےہیں </div><div> یاللعجب </div><div>اورانکےنزدیک ایمان ابوطالب سلام اللہ علیہ پر حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی یہ قسمیہ روایت بھی ناقابل التفات ھے</div><div>*قَالَ العباس واللہ لقدقال اخی الکلمۃ اللتی امرتہ بھا*</div><div><br></div><div>یعنی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسولِ پاک علیہ السلام سے بقسم بیان فرمایا کہ میرے بھائی نے وہ کلمہ پڑھ لیاجسکا حکم آپ نے انھیں دیاتھا </div><div>روض الانف مع سیرت ابن ھشام ج۱ صفحہ ۲۸۵</div><div><br></div><div>اللہ اکبر کبیرا</div><div><br></div><div>ھائےرے ستمگرانِ ابوطالب تمہیں انکے برادرِ گرامی کی قسم پر بھی اعتبارنہیں آتا؟</div><div><br></div><div>کیا احتمالِ واحد والا قانون صرف مخصوص ومحدود لوگوں کےلیئےہیے یا یہ ضابطہ عام ہیے؟</div><div>اگرعام ہیےتوکیااس قدر تصریحات و روایات کےبعدبھی ایمان سیدناابوطالب سلام اللہ علیہ کاواحداور ادنی احتمال بھی نہیں ملا؟</div><div><br></div><div>علاوہ ازیں اور دوسرے درجنوں اکابرکے اقوال کیوں کر بھول جاتے ہیں جو اس بزرگوار کے ایمان واسلام پر بین ثبوت ھیں </div><div>مثلاً</div><div>امام قرطبی نےبھی اثبات ایمان کی روایت پیش کی </div><div>امام سھیلی نےبھی پیش کی </div><div>امام شعرانی نےبھی پیش کی </div><div>امام قسطلانی نےبھی پیش کی </div><div>امام عینی نےبھی پیش کی </div><div>امام صاوی نےبھی پیش کی </div><div>امام سیوطی نےبھی پیش کی </div><div>امام ابن حجر نےبھی پیش کی</div><div>امام ابونعیم نےبھی پیش کی </div><div>امام نوی نےبھی پیش کی </div><div>امام رازی نےبھی پیش کی </div><div>امام نبھانی نےبھی پیش کی </div><div>امام اسماعیل حقی نےبھی پیش کی </div><div>علامہ نوربخش توکلی نےبھی پیش کی </div><div>علامہ معین واعظ کاشفی نےبھی پیش کی </div><div>علامہ شبلنجی نےبھی پیش کی </div><div><br></div><div> خدا جانے کس کی رعایت مد نظر ہے کہ اس مسئلہ پر بعض علماء اھلسنت خود اپنے ہی اصول سے مسلسل صرفِ نظر فرما رھے ھیں</div><div>اوراحتمال واحدوالےاصول سےقصداً منحرف ہیں</div><div> </div><div>دوستو!! </div><div>واضح کرتا چلوں کہ ایمان ابو طالب کا مسئلہ یا اھلبیت پاک کے کچھ اور معاملات کو قصداً عمداً ارادة ً اختلافی بنایا گیا ھے</div><div> چنانچہ اس امت میں خیر القرون سے لیکر آج تک اھلبیت کے ساتھ بَلا کی دشمنی رکھنے والے موجود پاےُ گئے ہیں</div><div>یہ وہی لوگ ہیں کہ جنکے بیچ خاندانِ علی پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے شش ماھے سے لیکر بزرگوں تک کو بے دردی کےساتھ ذبح کیا گیا </div><div>پردیس میں نبی زادوں کا خیمہ لوٹا اور پھر جلایا گیا </div><div> بےقصور سکینہ کے رخساروں پر طمانچے مارے گئے </div><div>خواتین اھلبیت کے سروں کی چادریں چھینی گئیں </div><div>بے خطا عابد لا غرو بیمار کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پیروں میں بیڑیا ں ڈالکر بے جرم وخطا قیدی بنا یا گیا </div><div>ذلیل کرنے کی غرض سے اسی امت کے لوگوں نے انہیں شہر شہر گھمایا اولاد رسول کے کٹے ھوےُ سروں کی نمائش کی گئی اب اگر آپ اتنا سمجھ چکے تو بس جان لیجئے کہ جو قوم نبی زادوں کے ساتھ اتنا سب کچھ کرسکتی ھے ائمہُ اھلبیت کو زہر دےکر انکی جان لے سکتی ھے انکے بچوں کو یتیم اور انکی بیویوں کو بیوہ بنا سکتی ھےتو بتائیے اس قوم سے یہ کب بعید ھے کہ ان تمام نفوسِ قدسیہ کے جدِّ اعلیٰ محسنِ اسلام جناب ابو طالب کے خلاف ایک ایسی روایت وضع کرلے اور اکابرین کے نام سے منسوب کرکے سپلائی کردے کہ جس سے انکے ایمان واسلام کا انکار ممکن ہوسکے ؟</div><div>اور علی کے باپ کو بھی اسی صف میں کھڑا کیا جاسکے جس صف میں بڑے بڑے دشمنانِ رسول پہلے سے ہی کھڑے ہیں</div><div> چونکہ عہدِ بنو امیّہ میں علی اور خاندان علی کو ممبر ومحراب سے گالی دینا عام بات تھی جابر حکاّم اس پاکیزہ خاندان کے پیچھے پڑے ہوےُ تھے ظلم وبربریت کی حد یہ تھی کہ روایانِ حدیث پر باضابطہ یہ پابندی تھی کہ جس روایت میں علی کا نام ہو تو وہ روایت انکا نام نہ لیتے ہوےُ ڈائرکٹ نبی علیہ السلام کے نام سے بیان کردی جاےُ </div><div>مطلب یہ کہ جہاں تک بن پڑے انکا نام کسی اچھی جگہ نہ آنے دیا جائے</div><div><br></div><div>دوستو!!</div><div>کیا یہ غلط ھے کہ حضرت علی کو گالی دینے کے جنون میں خطبہُ عیدین ایک زمانے تک قبل نماز عیدین دیا جاتا رھا؟؟</div><div><br></div><div>ُ حضرات!!</div><div><br></div><div> جب سلاطینِ زمانہ اس درجہ بغاوت پر آمادہ ہوں تو ان سے یہ کب غیر ممکن ھے کہ اس علی مرتضیٰ کے اس باپ کو جسکا گھردین اسلام کی دعوت کا اول مرکز بنا جو رسولِ گرامی وقار کا سب سے بڑا وفادار صلاح کار رہا جسکی موت کے سال کو رسول پاک علیہ السلام نے غم کا سال قراردیا اسکی تاریخ کےسا تھ بنی امیہ کے اوباش لونڈے کھلواڑ نہ کریں </div><div><br></div><div>اس کام کو مستقل تاریخ بنانے کے لئے کچھ بزرگ اصحاب کے ناموں کا استعمال کیا گیا </div><div>تا کہ بعد کے لوگوں کا اعتبارحاصل کیاجاسکے چنانچہ کچھ اس انداز فکر کےساتھ اس کام کو انجام دیا گیا جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ھمارے بھت سارے بزرگ بھی اس جھانسے میں آگئے اور متولئ کعبہ جانشین حضرت عبدالمطلب حضور سیدنا ومولانا وملجانا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کا فر ومشرک لکھ دیا </div><div><br></div><div>اور پھر انھیں کی اقتداء میں بعد کے بھی کچھ بزرگ اس کا شکار ہو گئے</div><div><br></div><div>جبکہ حدیثِ پاک کی روشنی میں ھمارے لئے اس قدر سمجھ لینا کافی تھا کہ مدارِ ھدایت ونجات اھلِ بیتِ رسول ہیں انھیں کےساتھ قرآن ھے اورانھیں کے پاس روح دین وایمان بھی ہیے ان سے بہتر قرآن فھمی شریعت شناسی بڑےسے بڑے مفسر</div><div>محدث</div><div> مجتھدوفقیہ</div><div> مجددومفتی کسی سے بھی متصور نہیں </div><div>چنانچہ مشھورکتاب</div><div>*معارج النبوة*</div><div>میں ان عالی قدر کے تعلق سے کئی روایات نقل کرنے کے بعد علامہ ملا معین واعظ کاشفی قدس سرہ لکھتے ہیں</div><div>*""ازاھلبیت ایشاں کہ اتفاق دارند برآنکہ ابوطالب بایمان رفتہ ""*</div><div>یعنی اھلِبیت کا اس بات پر اتفاق ہیے کہ ابوطالب اس دنیا سے باایمان تشریف لےگئے</div><div><br></div><div>معارج النبوة رکنِ دوم صفحہ 69</div><div><br></div><div>اس کتاب کا اردو ترجمہ رضااکیڈمی ممبئ نے بھی چھاپا ھے</div><div> </div><div>حضراتِ باوقار اھلِ بیت جب دیگر معاملاتِ دینی میں بھی حرفِ آخر ہیں تو خود انھیں کے گھر کی بات کے تعلق کسی کی واھی تباہی کا کیااعتبار ؟؟؟</div><div><br></div><div>فقیرمداری دعاءگوہےکہ اللہ عزوجل اس کتاب مستطاب کو قبول انام وشہرت دوام عطافرماکر عوام وخواص سبکےلئے مفیدومفیض بنائے اورحضرت مولف کی نجات ومغفرت اوربلندئ درجات کاوسیلہ بنائے .</div><div>آمین بجاہ النبی الامین الکریم علیہ الصلوٰةوالتسلیم </div><div><br></div><div>فقط یکےازخادمان سرکارابوطالب. فقیروحقیرمحمدقیصررضا شاہ علوی حنفی مداری </div><div>11محرم الحرام 1442ہجری </div><div>31اگست 2020عیسوی بروز دوشنبہ بوقت صبح</div>Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com4tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-86749745529677625092019-11-30T22:01:00.004-08:002019-11-30T22:01:43.308-08:00*ولادت وسیادت سرکارسیدنا قطب المــــدار*<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم<br />
<br />
*ولادت وسیادت سرکارسیدنا قطب المــــدار*<br />
<h2>
<a href="http://www.qutbulmadar.org/" target="_blank">www.qutbulmadar.org</a>م</h2>
(مولانامفتی محبوب رضوی صاحب کےدرس نمبر65 کاتعاقب ومحاسبہ/ اصلاح ومشورہ)<br />
<br />
ازقلم<br />
<br />
*محمدحبیب الرحمٰن علوی منظری المــداری*<br />
ترجمان<br />
آستانئہ عالیہ قدسیہ مداریہ<br />
بلدالسادات دارالنور مکنپورشریف کانپور<br />
یوپی 7<br />
ـــــــــــــــــــــ ـــــــــــــ<br />
<br />
*کیامدارپاک کاسنہ ولادت سنـ 300ـــہھ ہیے؟*<br />
<br />
*کیاسرکارمدارپاک سیدنہیں ہیں؟*<br />
<br />
*کیاسرکارمدارپاک منصب صمدیت پرفائزنہیں ہیں؟*<br />
<br />
*بعض حضرات سرکارمدارپاک کوسرکارغوث پاک سےافضل مانتےہیں*<br />
<br />
*تحقیق یہ ہیےکہ حضرت نےکسی کوخلافت نہیں دی یعنی سلسلئہ مداریہ سوخت ہیے*<br />
⬇<br />
تقریباایک ہفتہ قبل شوسل میڈیاکی شاخ واٹشاپ کےایک گروپ بنام "مسلک اعلحضرت زندہ باد" پر ایک عالم مولانامحبوب رضوی صاحب کی تحریرنظروں سےگزری جس کوانہوں نےدرس نمبر65 کی سرخی کےساتھ شائع کیاہیے مولاناکایہ درس مذکورہ پانچ باتوں پرمشتمل ہیے ـــــــــــ<br />
مولاناکی پوری تحریراورتحقیق کامدار<br />
انتصاح عن ذکراہل الصلاح<br />
منبع الانساب<br />
مکتوبات مجدد<br />
سبع سنابل نامی چار کتب ہیں انتصاح اور منبع الانساب پراعتمادکرکےمولانانےسرکارمدارپاک کاسنہ پیدائش ۳۰۰ ھ لکھاہیےاورانہیں کتب پراعتبارکرتےہوئےمولانانےسرکارمــدارپاک کی سیادت کاانکارکرتےہوئے آپ کوحضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کےخاندان سےلکھاہیے<br />
اور<br />
مکتوبات مجددکےحوالہ سےمولانانےآپ کےمقام صمدیت کاقول کرنےوالوں کوجاہل اورمخالف شرع لکھاہیے جب کہ سبع سنابل کےحوالہ سےآنجناب نےسلسلئہ مداریہ کاسوخت ہوناتحریرکیاہیے ـــــــ یہ مختصراشاریہ ہیےمولانامحبوب رضوی صاحب کی تحریر درس نمبر 65 کا ــــــــ<br />
مولانامحبوب صاحب سےان کےدرس نمبر65 کےمتعلق میری کافی طویل گفتگوہوئی جوکہ محفوظ ہیے<br />
دوران گفتگومولانانےایک کتاب *فتاوی شارح بخاری* کابھی متعددمرتبہ حوالہ پیش کیا لہذامیری تحریرفتاوی شارح بخاری سےبھی متلعق ہوگی جوآگےقارئین ملاحظہ فرمائیں گے ـــــــــــــ<br />
ہم سب سےپہلےمولاناکی تحقیق انیق اور ان کےمسلک مختارکاردبلیغ خودانہیں کی مسلمہ اور معتبرومحولہ کتب *انتصاح اورمنبع الانساب* ہی سےکرتےہیں<br />
چنانچہ مولنامحبوب صاحب لکھتےہیں<br />
<br />
*آپ کی ولادت 300 /ھ میں.... ہوئی ..... الانتصاح عن ذکراہل الصلاح بحوالہ منبع الانساب 366*<br />
<br />
میں یہاں مولانامحبوب رضوی کےنام لینےیالکھنےپرتبصرہ نہیں کروں گاکیونکہ کتاب کانام *انتصاح* ہیےجب کہ مولانانے *الانتصاح* لکھاہیے<br />
خیر<br />
قارئین کرام توجہ فرمائیں<br />
مولاناموصوف نےسرکارمدارپاک کی تاریخ ولادت کی تحقیق سےمتعلق منبع الانساب کےجس صفحہ کاحوالہ پیش کیاہیےوہ سراسرغلط باطل اور سورج کےاجالےمیں امت مسلمہ کودھوکہ دیاہیے نیز صاحب منبع الانساب پراتہام اورالزام تراشی جیسےعظیم جرم کاارتکاب کیاہیے کیونکہ صاحب منبع الانساب نےاپنی کسی تحریرمیں سرکارمدارپاک رضی اللہ تعالی عنہ کاسنہ ولادت لکھاہی نہیں ہیے<br />
البتہ اتناضرورہیےکہ منبع الانساب کےمحشی حضرت ساحل سہسرامی نےاپنےحاشیہ میں آپ کی تاریخ ولادت سنـ ۲۵۰ ھ یا ۳۰۰ ھ لکھاہیے<br />
اہل علم پریہ بات اچھی طرح روشن ہیےکہ محشی یامترجم کااپناقول وتحریرمصنف یامرتب کاقول وتحریرنہیں ہواکرتے اگرایساہوتاتوکتابوں کےسرورق پر مصنف مترجم اور محشی کےاسماءالگ الگ نہیں لکھےجاتے ـــ یہ توتھی مولانامحبوب صاحب رضوی کےدرس نمبر ۶۵ کی خیانت اورصاحب منبع الانساب پران کاکھلاہوابہتان وافتراء<br />
<br />
(مولانامحبوب صاحب نےمجھےخطاب کرتےہوئےمتعددمرتبہ یہ بات کہی ہیےکہ آپ کی تحریرکی روشنی میں صاحب منبع الانساب جاہل اور فتین قرارپائیں گے اب مولاناصاحب خودفیصلہ فرمالیں کہ مذکورہ اوصاف کاحامل کون ہوا)<br />
<br />
میں نےمنبع الانساب کےحوالہ سےاتنی طویل گفتگوفقط اس نیت وارادہ سےکی ہیےتاکہ ہرکس وناکس یہ سمجھ لےکہ صاحب منبع الانساب نےسرکارمدارپاک کی تاریخ ولادت لکھی ہی نہیں ہیےالبتہ انہوں نےسنـ 840 ــہھ کوآپ کاسال وفات لکھاہیے ـــ<br />
<br />
اب آتےہیں مولانامحبوب صاحب کی تحقیق کےدوسرےماخذجوکہ منبع الانساب کابھی ماخذومرجع ہیےیعنی *انتصاح عن ذکراہل الصلاح* کی طرف صاحب انتصاح نےسرکارمدارپاک کاسنہ ولادت سنـ ۳۰۰/یا سنـ ۲۵۰ ــہھ لکھاہیے<br />
چنانچہ وہ رقم طرازہیں<br />
*تولدوےدرسنہ ثلثماۃوقیل ماءتین بود*<br />
انتصاح صفحـ ۹۲ــہ سطرنمبــر۱<br />
<br />
( یادرہیے<br />
مولانامحبوب صاحب کےبہ قول *قیل* کےذریعہ لکھی گئی ہربات ہرروایت غیرمعتبر محرف اورناقابل اعتبار ہوتی ہیے)<br />
<br />
صاحب انتصاح نےسرکارمدارکاذکرجمیل کرتےہوئےاسی صفحہ کی سطرنمبرچارپرلکھاہیے<br />
<br />
*وبخدمت طیفورشامی بایزیدبسطامی قدس سرہ استفادہ پزیرفت*<br />
یعنی سرکارمدارپاک نےسرکاربایزیدبسطامی سےاستفادہ فرمایا<br />
<br />
اسی کتاب یعنی انتصاح کےصفحہ نمبر ۹۸/ پرسرکاربایزیدبسطامی کوصاف لفظوں میں سرکارمدارپاک کاپیرلکھاہواہیے<br />
<br />
اسی کتاب یعنی انتصاح عن ذکراہل الصلاح میں سرکارسیدنابایزیدبسطامی طیفورشامی رضی اللہ تعالی عنہ کاسنہ وفات 261 ہجری مرقوم ہیے<br />
<br />
اب آگےملاحظہ فرمائیں<br />
<br />
*صاحب انتصاح اور منبع الانساب کی تحریرسےولادت سرکارمدارپاک کےمتلعق مولانامحبوب صاحب کی تحقیق کارد اور ہمارےموقف کی تائیدہوتی ہیے*<br />
چنانچہ ہمارایعنی پورےمشرب مداریت کا<br />
*موقف اوربزرگوں کی صراحت اس بات کےیقین پرہیےکہ سرکارمدارپاک رضی اللہ تعالی عنہ کی تاریخ ولادت یکم شوال المکرم سنـ 242 ــہھ ہیے*<br />
<br />
صاحب منبع الانساب اور مصنف انتصاح عن ذکراہل الصلاح دونوں لکھتےہیں کہ *آپ محمدطیفورشامی کےمریدہیں*<br />
قارئین کرام حقیقت ملاحظہ فرمائیں صاحب منبع الانساب اور صاحب انتصاح دونوں نےمسلمہ اورمتفقہ طورپر<br />
سیدالطائفہ سرکارسیدنابایزیدبسطامی عرف طیفورشامی رضی اللہ تعالی عنہ کوسرکارمدارپاک کاپیراورسرکارمدارپاک کوآپ کامریدلکھاہیے<br />
بزرگان دین اولیاءاللہ کی سیرت وسوانح کاادنی مبتدی بھی جانتاہیےکہ سرکاربایزیدبسطامی کالقب طیفورشامی ہیے جن کی تاریخ ولادت بہ اختلاف روایت سنـ ۱۶۱/ یا سنـ ۱۸۱ ــہھ ہیے جب کہ تاریخ وفات سنـ ۲۳۴/ یا سنـ ۲۶۱ ــہھ ہیے<br />
اگرمولانامحبوب صاحب کی اعلی تحقیق کےمطابق سرکارمدارپاک کی تاریخ ولادت سنـ ۳۰۰ ھ تسلیم کرلیں توکیاصاحب منبع الانساب اور صاحب انتصاح کاجھوٹاہوناثابت نہیں آئےگا؟<br />
کیاانتصاح اور منبع الانساب لائق اعتبارکتب رہ جائیں گی؟<br />
<br />
نہیں رہ جائیں گی کیونکہ صاحب انتصاح اور منبع الانساب نےسرکارطیفورشامی کومدارپاک کاپیرلکھاہیے<br />
جب سرکاربایزیدبسطامی عرف طیفورشامی کاانتقال سنـ 261 ــھ میں ہوچکاتھاتوسنـ ۳۰۰ ھ میں پیداہونےوالےسرکارمدارپاک ان سےمریدکس طرح ہوگئے؟<br />
<br />
اب یاتومولانامحبوب کی تحقیق کودرست مانیں یا ان کےمعتبراورمعتمدمورخ وسیرت نگارصاحب انتصاح اور صاحب منبع الانساب کودرست مانیں؟.ـــــــ<br />
<br />
الغرض انتصاح اور منبع الانساب نامی کتب کےحوالہ جات سے مولانامحبوب صاحب نےجوبات لکھی اس کوتسلیم کرلینےکامطلب خودان کتابوں کےمصنفین کی تجہیل کےمترادف ہوگا<br />
اور<br />
انہیں کتب یعنی انتصاح اور منبع الانساب کےمندرجات سے مولانامحبوب صاحب کی تحقیق بھی باطل ثابت ہوئی ـــــــ اوریہ بھی واضح ہوگیاکہ ان حضرات نےمذکورہ سنوات ولادت کوفقط روایتالکھاہیےجب ان کاموقف وہ نہیں اگران کاوہی سنہ ۳۰۰ یا سنہ ۲۵۰/ والاموقف ہوتاتوسرکاربایزیدبسطامی کوسرکارمدارپاک کاپیرومرشدنہ لکھتے ــــــــــ<br />
<br />
اب آتےہیں مولانامحبوب صاحب کی دوسری تحقیق کی طرف یعنی<br />
*سرکارمدارپاک سیدنہیں تھے*<br />
<br />
مولانامحبوب صاحب نےاپنےدرس نمبر۶۵ میں سرکارمدارپاک رضی اللہ تعالی عنہ کی سیادت کاانکارکرتےہوئےلکھتےہیں<br />
<br />
*تحقیق یہ ہیےکہ آپ سیدنہیں باالکہ صحابی رسول حضرت ابوھریرہ کی نسل سےتھے*<br />
<br />
اس تحقیق کےبعدمولانانےسرکارمدارپاک کاشجرہ لکھاہیےجوکہ حضرت مدارپاک سےشروع ہوکرحضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ پرختم ہوجاتاہیے<br />
<br />
قارئین کرام وطالبان حق!<br />
<br />
اب فقیرمداری مولاناکی اس تحقیق یعنی اعتقادِانکارسیادت اورشجرۂ نسب کی طرف متوجہ ہوتاہیے فقیرکی تحریرانتہائی دیانت داری اورخالص مؤمنانہ قلب سےملاحظہ فرمائیں ـــ<br />
<br />
صاحب انتصاح سرکارمدارپاک کےنسب مبارک سےمتعلق سب سےپہلاقول نقل کرتےہوئےتحریرفرماتےہیں<br />
<br />
*بدانکہ نسب آنحضرت بعضےمی گویندکہ آنحضرت سیدبود*<br />
انتصاح صفحہ نمبر۹۱<br />
<br />
اب آتےہیں مولانامحبوب رضوی کی اعلی تحقیق بابت شجرۂ نسب سرکارمدارپاک کی طرف ـــ مولانانےاپنےدرس نمبر ۶۵ میں سرکارمدارپاک کاجوشجرہ نقل کیاہیے اس شجرہ میں سرکارمدارپاک اور حضرت ابوھریرہ کےدرمیان تیرہ (۱۳) نام ہیں جب کہ انتصاح عن ذکراہل الصلاح میں سرکارمدارپاک کاجوشجرہ نقل کیاگیاہیےاس شجرہ میں سرکارمدارپاک اور حضرت ابوھریرہ کےدرمیان اٹھارہ (۱۸) نام ہیں<br />
<br />
*قارئین کرام خداراانصاف کریں مولانامحبوب کاتحریرکردہ شجرہ درست ہیےیامولاناکی معتبراورمعتمدکتاب انتصاح میں لکھاہواشجرہ صحیح ہیے؟*<br />
اگرمولانامحبوب یہ کہیں کہ میں نےمنبع الانساب کےحوالہ سےلکھاہیےتوپھراس بات کابھی جواب دیتےچلیں کہ *منبع الانساب نےمذکورہ شجرہ کہاں سےلکھا جواب یقیناانتصاح کےحوالہ کاہوگا توپھرمحقق رضوی صاحب یہ ضروربتادیں کہ صاحب منبع الانساب نےاصل مرجع سےخیانت کیوں کی؟*<br />
اور کیایہی آپ کی اعلی تحقیق اورمنارہائےPHD ہیں؟<br />
<br />
(انہیں پراعتمادکلی فرماکرآپ نےاس عظیم اورتقدس مآب ذات پاک کی سیادت کاانکارکردیاجس ذات قدسی صفات کےقدوم نازکی برکتوں سےآپ جیسےبےشمارعلماءاورمفتیان دین کےآباءواجدادکودولت ایمان ملی؟ )<br />
<br />
خیــــر<br />
*ماہرین انساب اور علمائےرجال کےنزدیک کیاایساشجرہ معتبراورمتحقق ہوسکتاہیےجس شجرہ سےپانچ پانچ نام غائب ہوں؟*<br />
<br />
قارئین کرام دیکھ رہیےہیں آپ کس قدرجھول اورگول مال ہیے؟<br />
<br />
مولانامحبوب صاحب فقط زورزبان ہی سب کچھ نہیں ہیے تحقیق چرب زبانی اور زوربیانی میں بعدبین المشرقین کافاصلہ ہیے<br />
<br />
قارئین کرام<br />
*ایک نظرحقائق شجرات پربھی کرلیں*<br />
میرےآقاسرکارغوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کاسنہ ولادت 470/ یا 471 ہجری ہیے لیکن آپ اورسرکارمولائےکائنات علیہ السلام کےدرمیان فقط گیارہ یابارہ نام ہیں<br />
قابل توجہ بات ہیےکہ 470 ھ میں پیداہونےوالےبزرگ کاشجرہ گیارہ یا بارہ واسطوں سےآقائےکریم علیہ السلام تک پہونچ جاتاہیےلیکن ان سےایک سوستریادوسوبیس سال قبل یعنی سنہ ۳۰۰/ یا سنـ ۲۵۰ ھ میں پیداہونےوالےانسان کاشجرہ اپنےاٹھارہ واسطوں کےبعدپہونچتاہیے؟<br />
<br />
(جناب مولانامحبوب صاحب قبلہ عرب کی تہذیب اہل عرب کی عادت کےخلاف اگر سولہ یاسترہ یااٹھارہ سال کی عمرمیں ہی اپنےنقل کردہ اورمتحقق شجرہ کےافرادکوآپ باپ بنادیں پھربھی آپ کامنشاءپورانہ ہوسکےگا کلکولیٹ کرکےدیکھ لیں)<br />
<br />
ناظرین گرامی<br />
یہ ہیےمولانامحبوب صاحب رضوی کےمتحقق اورمحقق شجرہ کی حیثیت<br />
صاحب انتصاح پرمولانامحبوب صاحب نےالزام فاحش عائدکیاکہ *صاحب انتصاح نےآپ کوسیدنہیں ماناہیے*<br />
<br />
مولاناکےاس الزام کاردخودصاحب انتصاح سےملاحظہ کرلیں<br />
صاحب انتصاح نےاپنی کتاب کےصفحہ ۹۱ سے صفحہ ۹۸ تک سرکارمدارپاک کی سیرت وحالات سےمتعلق مختلف اقوال جمع کئےہیں لیکن کتاب کےصفحہ نمبر ۹۸/ پرجہاں آپ نےسرکارمدارپاک کاذکرجمیل ختم کیاہیے<br />
اختتامیہ کی آخری سطورآپ اس طرح لکھتےہیں *حضرت طیفورشامی بایزیدبسطامی کہ پیرحضرت سیدبدیع الدین مدارقدس سرہ اند*<br />
<br />
انتصاح عن ذکراہل الصلاح<br />
صفحہ ۹۸<br />
صاحب انتصاح نےتمام تراقوال جمع کرنےکےبعداپنےقلم سےسرکارمدارپاک کو *سید* لکھ کریہ واضح کردیاکہ گزشتہ صفحات پرمیں نے نسب پاک کےمتعلق مختلف روایات ضرورلکھی ہیں لیکن میں سرکارمدارپاک کوسیدآل رسول ہی یقین کرتاہوں اور مجھ کوسرکار مدارپاک کی سیادت کامنکربتانےوالےخاطی اورمجھ پرمفتری ہیں ـــ مولنامحبوب صاحب<br />
اپنی تحقیق کی روشنی میں جواب دیں کہ صاحب انتصاح اگرسرکارمدارپاک کی سیادت کےمنکرتھےتوانہوں نے *سیدبدیع الدین مدار* کیوں لکھا؟؟؟<br />
کسی بزرگ کےحسب ونسب کےاختلاف کاذکرالگ شئی ہیے لیکن اس ذکراختلاف کوجامع یامرتب کےاعتقادسےجوڑدینااس کاموقف قراردےدینایہ دجل وخیانت ہیے<br />
امام الاولیاءغوث الاغواث سرکارسیدناغوث اعظم بڑےپیردستگیررضی اللہ تعالی عنہ کوبھی لوگوں نےنہیں چھوڑااہل تشیع نےآپ کےنسب میں بھی اختلاف کیاہیے<br />
ملاحظہ فرمالیں<br />
فتاوی رضویہ جلددوازدھم صفحہ نمبر ۲۹۹<br />
توکیاہم اس اختلاف کےسبب سرکارغوثیت پناہ کےنسب شریف میں مشکوک ہوجائیں؟؟؟ اسی طرح عطائےرسول سلطان الہندسرکارغریب نوازرضی اللہ تعالی عنہ کےشجرہ کےمتعلق بھی مختلف اقوال ملتےہیں<br />
مراۃالاسرار<br />
شیخ عبدالرحمٰن چشتی علیہ الرحمہ<br />
اب اس اختلاف کےسبب کیاہم سرکاراجمیرکےشجرۂ مبارک سےبدظن ہوجائیں؟ ؟؟<br />
<br />
واللہ واللہ ثم واللہ یہ ہماری بدبختی اور بدنصیبی ہوگی ــــ<br />
<br />
*الغرض*<br />
انتصاح میں مذکورسرکارمدارپاک کاشجرۂ جدیہ نسبیہ قطعی اختراعی اور مصنوعی ہیےجس کااصل احوال سےدورکابھی کوئی واسطہ نہیں ــــــــــــــــــ<br />
<br />
اب آتےہیں کچھ منقولات کی طرف<br />
ہمارےسلسلئہ عالیہ قدسیہ مداریہ کےمشائخ اصحاب سیرت اورمؤرخینِ سلسلہ نیزسادات مکنپورشریف نےنسلابعدنسل قرنابعدقرن علی التواتر سرکارسیدنامدارپاک رضی اللہ تعالی عنہ کاشجرۂ جدیہ حسنیہ و حسینیہ تحریرفرمایاہیےجوکہ *الناس امناءعلی انسابھم* کےمطابق کافی اوروافی ہیے<br />
<br />
قارئین کرام<br />
مولانامحبوب صاحب یاان سےقبل مفتی شریف الحق امجدی صاحب مرحوم اس مسئلہ کےمتعلق شدیدطورپرتزلزل/ سھو/جہل یاتعصب کاشکارہوئے<br />
اعلحضرت کےمسلک سےمنحرف ہوئے<br />
اعلحضرت کےمزاج پراپنےمزاج کوترجیح دیا<br />
*اعلحضرت سےسوال کیاگیاکہ سادات سےان کی سیادت کی سندمانگناکیساہیے؟ اگرکوئی سیداپنی سندِسیادت نہ پیش کرسکےتواس کےسبب اسکی توہین یاتحقیرکرناکیساہیے؟*<br />
اس قسم کےایک طویل استفتاءکاجواب لکھتےہوئےاعلحضرت تحریرفرماتےہیں<br />
*اوریہ بھی فقیربارہافتوی دےچکاہیےکہ کسی سیدکوسیدسمجھنےاوراس کی تعظیم کرنےکےلئےہمیں اپنےذاتی علم سےاسےسیدجانناضروری نہیں جولوگ سیدکہلائےجاتےہیں ہم ان کی تعظیم کریں گےہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں نہ سیادت کی سندمانگنےکاہم کوحکم دیاگیاہیےاورخواہی نخواہی سنددکھانےپرمجبورکرنااورنہ دکھائیں تو براکہنامطعون کرناہرگزجائزنہیں الناس امناءعلی انسابھم*<br />
جوسیدنہ ہو لیکن سیدبن جائےاپنےکوسیدکہےاورکہلوائ اس کےمتعلق اعلحضرت لکھتےہیں<br />
*ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہوکہ یہ سیدنہیں اوروہ سیدبنےاس کی ہم تعظیم نہ کریں گےنہ اسےسیدکہیں گےاورمناسب ہوگاکہ ناواقفوں کواس کےفریب سےمطلع کردیاجائے*<br />
فتاوی رضویہ جلدنمبر۱۲ صفحہ نمبر۱۲۵<br />
قارئین باوقار<br />
فقیرمداری کےپیش کردہ دونوں پیراگراف کوکئی مرتبہ پڑھیں خوب پڑھیں ــــــ کیاسرکارمدارپاک کی سیادت مشہورومشتہرنہیں؟ ہیےیقیناہیےبلاشبہہ ہیےمولانامحبوب صاحب نے علامہ عمران مظہربرکاتی کےایک سوال کےجواب میں خوداپنی زبانی کہاہیےکہ میں بھی ان کوسیدہی سنتااورجانتارہا ــــــ مولانامحبوب صاحب کیااللہ کےاس عظیم ولی کےمتعلق صدیوں پرمحیط سیدہونےکی شہرت کافی نہیں تھی؟<br />
کیاآپ اورمفتی امجدی صاحب مرحوم کی تحقیق اعلحضرت کےاس فتوی کاردنہیں کررہی ہیے؟<br />
کیاآپ اورمفتی صاحب مرحوم کااعتقاداعلحضرت کےاس مسلک کےمخالف نہیں ہوا؟<br />
آپ اورمفتی صاحب مرحوم کی تحقیق کےتاروپوداچھی طرح سامنےآچکےہیں کیاآپ دونوں حضرات کی انتصاح اور منبع الانساب کےحوالہ سےلکھی گئی تحقیق *خوب تحقیق* کہی جاسکتی ہیے؟<br />
دورنگی چھوڑدےیک رنگ ہوجا<br />
<br />
( ہم اسی لئے باربارکہتےہیں آج آنکھ بندکرکےصرف اعلحضرت کہاجارہاہیےاعلحضرت کوپڑھایاسمجھانہیں جارہاہیےاوراگرکوئی کچھ پڑھتابھی ہیےتواصل ایک طرف رکھ کراپنی راگ ہی کومقدم کردیتاہیے الاماشاءاللہ) مولنامحبوب صاحب رضوی کی پیش کردہ تحقیق کی قرارواقعی سامنےآجانےکےبعدان کاموقف خودبہ خودباطل ثابت ہوجاتاہیے<br />
*وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا*<br />
مزیدکسی دلیل کی حاجت وضرورت باقی نہیں رہتی تاہم<br />
<br />
تشفئ خاطراحباب کےلئےکچھ بزرگوں کی تحریرات لکھ دیتاہوں تاکہ مولانامحبوب صاحب جیسےمحققین اپنی تحقیق پرنظرثانی کرلیں اوربعدوضوح حق رجوع کرکےاس بارگاہ قدس کےانعامات کےمستحق بن سکیں<br />
وماتوفیقی الابااللہ العلی العظیم<br />
<br />
نمبر۱/ مجددسلسلئہ اشرفیہ سرکاراعلی حضرت علی حسین اشرفی میاں رضی اللہ تعالی عنہ جن کےمتعلق اعلحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نےلکھا<br />
*اشرفی ائےرخت آئینئہ حسن خوباں*<br />
*ائےنظرکردہ وپردۂ سہ محبوباں*<br />
وہی سرکاراشرفی میاں اپنی کتاب صحائف اشرفی میں اپناسلسلئہ مداریہ اشرفیہ اس طرح نقل فرماتےہیں<br />
*دوسراسلسلہ حضرت سیدبدیع الدین مدارقدس سرہ کوحضرت شیخ مکی قدس سرہ سے.......الخ*<br />
پھراسی صفحہ پرآگےتحریرفرماتےہیں<br />
*حضرت سیدبدیع الدین مدارقدس سرہ نےحضرت محبوب یزدانی قدس سرہ کویہ دونوں سلسلہ عطاءکرکےاپناخرقئہ محبت پہنایا*<br />
صحائف اشرفی حصہ دوم صفحہ نمبر 47<br />
<br />
قارئین کرام توجہ فرمائیں<br />
یہی اعلحضرت اشرفی میاں ہیں جن کےمتعلق مشہورروایت ہیےکہ جب اعلحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کاانتقال ہواتواس وقت حضوراشرفی میاں وضوفرمارہیےتھے کہ اچانک بےچین ہوگئےلوگوں نےوجہ اضطراب پوچھاتوفرمایاکہ اپنےوقت کاقطب دنیاءسےچلاگیااس کاجنازہ دیکھ رہاہوں ـــــ اس واقعہ کودیکھیں اور ان کی کتاب صحائف اشرفی کےصفحہ کودیکھیں ــــ<br />
<br />
*مفتی شریف الحق امجدی صاحب مرحوم نےبھی مدارپاک کوسیدلکھاہیے*<br />
<br />
نمبر ۲ / جس فتاوی شارح بخاری کےحوالہ کی روشنی میں مولانامحبوب رضوی صاحب نےمتعددمرتبہ بزورحلق سیادتِ سیدنامدارالعلمین رضی اللہ تعالی عنہ کاانکار کیااسی فتاوی شارح بخاری میں سرکارمدارپاک کوسیدلکھاگیاہیے<br />
چنانچہ مفتی شریف الحق امجدی مرحوم لکھتےہیں *شریعت پرطریقت پرخودحضرت سیدشاہ قطب مداررحمۃاللہ علیہ پر.....الخ*<br />
فتاوی شارح بخاری جلددوم صفحہ ۱۹۲<br />
ناظرین کرام<br />
آپ دیکھ رہیےہیں کہ مولانامحبوب رضوی صاحب نےجس فتاوی شارح بخاری کی ثقاہت پرسارازورباندھااسی فتاوی شارح بخاری میں سرکارمدارپاک کو *سید* لکھاگیاہیے<br />
ممکن ہیےمولانامحبوب اوران جیسےدوسرےلوگ یہ کہیں کہ یہ کتابت کی خطاءہیےکمپیوٹرکی غلطی ہیےتواس طریقۂ تلبیس اورشبہہ کوبھی سمجھ لیں ایسانہیں ہیےباالکہ واقعتامفتی صاحب مرحوم نےاپنےفتوی میں سیدہی لکھاہیے<br />
<br />
(ہم اس سےانکارنہیں کرتےکہ مفتی صاحب مرحوم نےاپنےایک فتوی میں سرکارمدارپاک کی سیادت کاانکارکیاہیےانہوں نےمدارپاک کویہودی النسل تک ثابت کرنےکی مکمل کوشش کی ہیے (العیاذبااللہ) جیساکہ ان کےفتاوی شارح بخاری کےصفحہ 247/48 دیکھاجاسکتاہیے)<br />
<br />
ایک طرف تومفتی صاحب مرحوم نےسرکارمدارپاک کی سیادت کاانکارکیااوردوسری طرف اپنےہی فتوی میں سرکارمدارپاک کو *سید* بھی لکھا ــــــ آخرایساکیوں ہوا تواس کیوں کاجواب بھی ملاحظہ فرمالیں<br />
<br />
امرواقعہ یہ ہیے<br />
*تاڑنےوالےقیامت کی نظررکھتےہیں*<br />
مفتی شریف الحق صاحب مرحوم نےاپنےجس فتوی میں سرکارمدارپاک کو *سید* لکھاہیےاس فتوی کو سنـ ۱۳۸۱ــہھ میں تحریرکیاہیے<br />
اس قول واقرارسیادت والےفتوی کومفتی امجدی صاحب مرحوم نےمنظراسلام بریلی شریف کی ملازمت کےایام میں لکھاہیے اس فتوی پرحضورمفتئ اعظم ہندکی تصدیق بھی موجودہیےاب یہ بھی ثابت ہوگیاکہ حضورمفتئ اعظم ہندنےبھی سرکارمدارپاک کو *سید* ہی ماناہیےاگرایسانہ ہوتاتوآپ اس کی تصدیق نہ فرماتے ـــــــــ<br />
لیکن جس فتوی میں مفتی امجدی صاحب مرحوم نےسیادتِ مدارپاک کاانکارکیاہیےوہ فتوی سنـ 1409ــــہھ کاہیے یہ فتوی انہوں نےجامعہ اشرفیہ منارکپور کی ملازمت کےایام میں لکھاہیے<br />
یعنی مفتی امجدی صاحب مرحوم کےدونوں فتاوی کےدرمیان تقریبا۲۸/ سال کافاصلہ ہیے<br />
بریلی شریف میں لکھاگیافتوی سیدبتارہاہیےاوراس پرسرکارمفتئ اعظم ہندکی تصدیق بھی سیدبتارہی ہیےلیکن مبارکپورمیں لکھاگیافتوی یہودی النسل بتارہاہیے اب فیصلہ قارئین پرچھوڑتاہوں کہ وہ بریلی شریف میں لکھےگئےفتوی کومانتےہیں یامبارکپوروالےفتوی کوقبول کرتےہیں<br />
البتہ مولانامحبوب رضوی صاحب اس بات کاجواب ضروردیں کہ ایک ہی ذات کےمتعلق ایک ہی امرومسئلہ میں دوقسم کااعتقادرکھنےوالےمفتی امجدی صاحب مرحوم قابل استنادرہ گئےیانہیں؟ شرعی مزاجِ استنادکونظرمیں رکھ کرجواب لکھیں گے ـــــــ<br />
ان کےعلاوہ<br />
<br />
نمبر ۳/<br />
صاحب مراۃالانساب نےآپ کاشجرۂ جدیہ حسنیہ حسینیہ لکھاہیے<br />
مراۃالانساب صفحہ ۱۵۶/۵۷<br />
<br />
نمبر ۴/<br />
خزینۃالاصفیاءمیں آپ کاشجرۂ حسنیہ حسینیہ لکھاہواہیے<br />
جلدنمبر ۳ صفحہ ۳۱۱<br />
<br />
نمبر ۵/<br />
سفینۃالاولیاءمیں آپ کوخاندان سادات سےلکھاہیے<br />
صفحہ ۲۳۶<br />
<br />
نمبر۶/<br />
بحرزخارمیں سرکارمدارپاک کاشجرۂ سیادت لکھاہیے<br />
بحرزخارجلدنمبر۳ صفحہ ۹۷۷<br />
<br />
نمبر۷/<br />
اعلحضرت کےمنجھلےبھائی استاذزمن مولاناحسن رضابریلوی مرحوم نےاپنےنعتیہ دیوان ذوق نعت میں سرکارمدارپاک کو *کریم ابن کریم* تحریرفرمایاہیے<br />
یہ بات اہل علم سےمخفی نہیں کہ یہ لفظ سادات کرام اہلبیت عظام کےمتعلق ہی لکھااوربولاجاتاہیے<br />
ذوق نعت صفحہ ۱۰۶<br />
<br />
نمبر۸/<br />
پاسبان ملت علامہ مشتاق احمدنظامی مرحوم رقمطرازہیں<br />
*چنانچہ ایک بارسیدبدیع الدین زندہ شاہ مداررحمۃاللہ علیہ جونپورتشریف لائے....الخ*<br />
خطبات نظامی صفحہ ۲۹۸<br />
<br />
یہ تومشتےنمونہ ازخروارےوالی بات ہیےورنہ کتب تصوف اورطریقت میں بےشمارمقامات پرسرکارمدارپاک کوخاندان سادات سےلکھاگیاہیےاورآپ کےشجرات جدیہ حسنیہ حسینیہ نقل کئےگئےہیں.<br />
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ<br />
یہ تورہامولانامحبوب صاحب قبلہ کی پہلی دوتحقیقات کامحاسبہ اور ان کی اصلاح باقی دیگرتین تحقیقات اورمولاناصاحب کےلئےحرف آخرکی حیثیت رکھنےوالی ذات شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی صاحب مرحوم کےبعض فتاوی کامحاسبہ اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں<br />
<br />
والسلام<br />
*محمدحبیب الرحمٰن علوی منظری المـــداری*<br />
ترجمان<br />
آستانئہ عالیہ قدسیہ مداریہ<br />
بلدالسادات دارالنورمکنپورشریف کانپور یوپی<br />
۱۲/ اکتوبرسنـ ۲۰۱۹ ــہء</div>
Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-2876982974529030992019-11-30T21:48:00.001-08:002019-11-30T21:48:33.999-08:00*حضورقطب المدار :عالمی داعی اسلام*<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
*حضورقطب المدار :عالمی داعی اسلام*<br />
<h2>
<br /></h2>
قطب الاقطاب فردالافرادامام الاولیاء مدار العالمین شہزادہ مولائے کائنات داعی اسلام حضرت سیدنا بدیع الدین زندہ شاہ مدار علیہ الرحمۃ و الرضوان سرکار مکن پور کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں و کمالات کا پیکر بنا کر گمگشتگان راہ کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا آپ قرآن و احادیث فقہ کے علاوہ کتب اغیار پر کامل دسترس رکھنے کے ساتھ کتب سماوی تورات وزبور و انجیل کے بھی عالم تھے اور علوم ریمیا سیمیا ہیمیا کیمیا میں بھی مہارت تامہ حاصل تھی حضور قطب المدار خاندان رسالت کے ایک مہکتے پھول چمکتے تارے تھے آپکی ولادت با سعادت ولی کامل حضرت سید علی حلبی کے گھر میں ہوئی آپکے والد محترم حضرت سید علی حلبی اپنے وقت ایک جید عالم دین کے ساتھ ولی کامل تھے حضور سیدنا قطب المدار ملک شام کے مشہور شہر حلب میں پیدا ہوئے اور ملک شام وہ ملک جسکے لئے سرکار مدینہ راحت قلب وسینہ حضورپر نور سرکار مدینہﷺ دعائیں کرتے تھے ملک شام لاتعداداولیاء عظام کا مسکن و مدفن ہے ہمارے پیارے پیغمبر ﷺنے اعلان نبوت سے قبل دو بار تجارت کے لئے ملک شام کا سفر بھی کیا اس سرزمین کواپنے قدم میمنت لزوم سے سرفراز بھی فرمایا سرکار قطب المدار کی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی مزید تعلیم کے لئے والد محترم نے مشہور بزرگ عالم اجل حضور حذیفہ شامی کی بارگاہ میں پیش کیا حذیفہ شامی کی جب پہلی نظر سیدنا قطب المدار پر پڑی فوراً آپ نے پہچان لیا کہ یہ معمولی بچہ نہیں بلکہ بہت ہی ذہین وفطین کمال و خوبی والااور علم لدنی سے آراستہ و پیراستہ ہے<br />
بالائے سرش زہوشمندی<br />
می تافت ستارۂ سر بلندی<br />
حضور سیدنا قطب المدار کے احوال وکوائف ، کشف وکرامات وخدمات جلیلہ کو احاطہ تحریر کرنا بہت مشکل ہے آج تک کسی محقق و مصنٖف یا تبصرہ گار نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا کہ میں نے سوانح قطب المدار مکمل کر دیا اسلئے کہ آپکی ۵۹۶ سالہ زندگی اسکا ثبوت ہے حضور قطب المدار کے تمام اوصاف حمیدہ میں اشغال دعوت یہ نمایا وصف تھا اور آپ ایک عظیم داعی اسلام تھے پوری دنیا کی سیر کرکے آپ نے لاکھوں افراد کو حلقہ بگوش اسلام کیا یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں آپکا چلہ گاہ جسکا شمار بھی نا ممکن ہے آپنے دعوت کا کام فقط بنی نوع انسان ہی میں نہیں بلکہ اقوام جنہ میں بھی کرتے اسکا بین ثبوت ہے جنگلوں اور پہاڑوں میں آپکا چلہ گاہ ظاہر سی بات ہے کہ پہاڑوں کی غار میں جنگلوں کے درمیان انسانوں کا گزر بہت ہی کم ہوتا ہے اسکا وضح مطلب یہ ہے رجا ل الغیب حاضر خدمت ہوتے آپ انھیں اسلام کے کمالات سے واقف کرکے دائرہ اسلام میں داخل کرتے یہ بات اظھر من الشمس ہے کہ ملک ہندوستان میں جو اسلام کی بہاریں مسلمانوں کی ایک اچھی تعداد موجود ہے یہ سب اولیاء کرام کے محنتوں کا ثمرہ ہے یہ اہل اللہ جس آبادی میں جلوہ بار ہوتے وہاں کے ہنادکین و مشرکین انکے اخلاق کریمانہ سے متاثر ہو کر دامن اسلام میں داخل ہو جاتے اکابر اولیاء کرام کے مزارات اس پر شاہد ہیں لیکن اکثر علاقے ایسے بھی ہیں کہ پوری آبادی مسلمان اور دور دور تک کسی ولی کامل کا مزار نہیں صرف قطب المدار کا چلہ ہے یا پھر ملنگان کے مزارات ہیں ایک انسان کو یہ فیصلہ کرنے میں قطعاً تاخیر نہیں ہوگی یہ آبادی کیسے دولت اسلام سے مالامال ہے فوراً وہ پکار اٹھے گا کہ یہ قطب المدار کی دعوت کا نتیجہ جو اسلام پھول پھل رہا ہے مساجد میں اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں ،حضورقطب المدار جن جن علاقوں میں جلوہ فرما ہوتے ہیں پوری آبادی کلمہ پڑھ کے مسلمان ہو جاتی پھر آپ انکی تعلیم وتربیت کے لئے اپنا کوئی خلیفہ مقررکر دیتے یہی وجہ ہے کہ آپکے خلفاء کی تعداد بے شمار ہے چونکہ آپ داعی تھے اسلئے جہاں جیسی ضرورت آن پڑی آپ نے وہ کام کیا، ایک داعی کے لئے افراد ساز ہونا بھی ضروری ہے اسلئے آپ نے افراد سازی بھی فرمائی؛ گروہ ملنگان ،جماعت طالبان، جماعت عاشقان اورجماعت خادمان وغیرہ اسی قسم کی کئی جماعتیں حضور قطب المدار نے بنایا تھا ہر ایک جماعت کے لئے ان کے کام بھی مقرر کئے یہ جماعتیں آج بھی موجود ہیں اور اپنے فرائض منصبی کو بحسن وخوبی انجام دے رہی ہیں اسکا بھی مقصد تھا دعوت اسلام اغیار کو اسلام میں داخل کرنا۔حضور قطب المدار خورد و نوش سے بے پرواہ تھے ایسااسلئےتھا تا کہ دعوت کے راستے میں کھانا پینا رکاوٹ نہ بنے آپ کا لباس کبھی میلا نہ ہوتا تھا کہ دعوت کے راستے میں رکاوٹ نہ ہو حضور سیدنا قطب المدار کے طریقہ دعوت پر غور کرو اور آج کے ماحول کا جائزہ لو تو پتہ چلے گاکہ حضور زندہ شاہ مدار جب دعوت دے رہے تھے ماحول ایسا تھا کہ ہر طرف کفر و شرک کا بول بالا ، اللہ کا نام سننا بھی گوارہ نہ تھا، خدا کی وحدانیت رسول اللہ کی رسالت اور اسلام کی تعلیمات کی اگر کوئی بات کرتا تو لوگ اسکے جانی دشمن ہو جاتے بظاہر کوئی ذریعہ نہ تھا لیکن آج دعوت دین کے مختلف ذرائع ہیں اور آزادی بھی ہے پھر بھی اگر غور کیا جائے تو شاذ ونادر ہی کوئی داعی ملے ،مبلغ ہر جگہ ہیں لیکن داعی نہیں کیونکہ یہ بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ حضور قطب المدارنے دعوت دین کا عظیم کام انجام دینا شروع کیا، افراد سازی کی، خلفاء کے ذریعہ دور دراز تک پیغام پہونچایا یہی وجہ ہے کہ صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی تمام خانقاہوں میں قطب المدار کا سلسلہ چل رہا ہے جسکا اعتراف تحریری شکل میں وہاں کے لوگ کرتے ہیں اسلئے حضور قطب المدار زندہ شا ہ مدار علیہ الرحمہ کو کسی ایک چلہ، ایک خانقاہ میں محدود کرکے نہ دیکھا جائے بلکہ ہر جگہ آپکا جلوہ ہے<br />
حضور قطب المدار کا احسان صرف اہل ہند کے مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک کے مسلمانوں پر ہے آپ کو خالق کائنات نے اپنے حبیب علیہ السلام کے طفیل عالمی داعی اسلام بنایا اور حضور قطب المدار نے اپنے اس منصب کو بخوبی انجام دیا حضور زندہ شاہ مدار علیہ الرحمہ کی زندگی کا جب مطالعہ کرو تو آپ ہر نہج سے دعوت اسلام کا کام کرتے نظر آ رہے ہیں آپکی کرامتوں کو پڑھو اسمیں دعوت کا عنصر نمایاں ہے جب آپکی ملاقات خواجۂ خواجگاں حضورخواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری علیہ الرحمہ سرکار اجمیر سے پہلی بار ملک ہند میں ہوئی اور جس پہاڑ پریہ دونوں بزرگ ملے تھے آج بھی وہ پہاڑ قطب المدار کے نام سے موسوم ہے تاریخ بتا رہی ہے کہ دونوں بزرگ ایک ہفتہ تک خاموش بیٹھے رہے انکی کیا گفتگو ہوئی یہ کسی کو معلوم نہیں البتہ دونوں حضرات نسبی اعتبار سے ایک تھے اور دونوں کا مقصد بھی ایک تھاہو سکتا ہے کہ طریقہ کار پر گفتگو ہوئی ہوکہ کیسے ہندوستانیوں میں اسلام پھیلانا ہے کیونکہ ہندوستان میں مختلف قبائل کے لوگ بود وباش اختیارکرتےہیں لہذا انہیں دعوت اسلام کیسے دینا ہے یہ بھی دعوت کا ایک طریقہ رہا ہے کہ گھر کے فرد سے بھی مشورہ ہو الگ الگ طریقوں سے کام کیا جائے اور ہوا بھی ایسا کہ انھیں مقدس پاکیزہ خصائل بزرگوں کی جدو جہد سے ہر طرف اسلام کی بہار ہے یہ بات حق اور سچ ہے کہ جب تک چاند میں چاندنی اور سورج میں روشنی ہے ان شاء اللہ اہل اسلام باقی رہیں گے مساجد سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی رہیں گی حضور قطب المدار نے دعوت کاجو نمایاں کام انجام دیاہے اسکا اعتراف زمانہ کل بھی کر رہا تھا اور آج بھی کر رہا ہے اور ضروری ہے کہ آج حضور قطب المدار کے حالات زند گی کو پڑھا جائے ،دینی اداروں میں اس پر تحقیق ہوتا کہ ہر سال داعیوں کی ایک ٹیم تیار ہو اور دعوت دین کا کام کرے اور اگر یہ کام ہونے لگے تو ان شاء اللہ بزرگوں کی روحیں خوش ہونگی اور تائید خدا وندی بھی حاصل ہوگی اور اگر داعی کو مصائب کا سامنا کرنا پڑا تو اسے قطب المدار کی مقدس زندگی سہارا دے گی<br />
اللہ تعالیٰ ہمیں قطب المدار کے نقش پر چلنے کی توفیق بخشے اور دین کا داعی بنا ئے اور ایمان پر خاتمہ نصیب کرے<br />
<br />
آمین<br />
<br />
(مولانا) صاحب علی یارعلوی چترویدی<br />
چیف ایڈیٹر امام احمد رضا میگزین بندیشرپور<br />
پرنسپل دارالعلوم امام احمد رضا بندیشرپور پوسٹ اسکابازار، سدھارتھنگر یوپی</div>
Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-54923214462280729302019-11-30T21:47:00.001-08:002019-11-30T21:47:15.268-08:00سیدناحضور غوث اعظم شخصیت وتعارف* <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
*سیدناحضور غوث اعظم شخصیت وتعارف*<br />
<h2>
<br /></h2>
ازقلم ـ محمد قیصررضا شاہ علوی حنفی مداری دائرةالاشراف جھہراؤں شریف سدھارتھنگر یوپی<br />
<br />
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ<br />
<br />
اسلامی ومذہبی شخصیات میں جن کاتعارف تحریراوتقریرابہت بڑےپیمانےپر ہوتاآیاھے ان شخصیات میں غوث الثقلین نجیب الطرفین قطب ربانی محبوب سبحانی سلطان الاولیاء سیدنا ابومحمد محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی ذات بابرکات بھی شامل ہے<br />
زیرنظرمضمون کےاندر میں جوبھی لکھونگا وہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی مجھ سے قبل نہ جانے کتنے اہل قلم وہ باتیں سپرد قر طاس کرچکے ہیں اور میرے بعد بھی کرتے رہیں گے دراصل ایسا تسلسل وتعدد اس وجہ سے ہے کہ یہ مرضئ مولیٰ تعالیٰ ہے کہ محبوبین کا ذکر جمیل باربار ہوتا رہے یہی مشیت ہے محبوبین پر اللہ عزوجل کا یہ خصوصی انعام ہے جو قیامت تک جاری وساری رہےگا<br />
<br />
*اسم گرامی* ۔........... عبدالقادر ہے جیلان میں پیدائش کی وجہ سے شیخ عبدالقادر جیلانی سے مشہورہیں اور کنیت ابو محمد ہے<br />
*القاب وخطابات*<br />
آپکے القاب وخطابات بہت ہیں یہاں چندمشہور خطابات ذکرکئےجاتےہیں<br />
غوث اعظم،پیران پیردستگیر، محی الدین، قطب ربانی، محبوب سبحانی، غوث الثقلین<br />
*ولادت*۔ شب یکم رمضان المبارک 470 ہجری میں آپ کی ولادت ہوئی سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ مادرزادولی ہیں جس دن آپ کی ولادت ہوئی وہ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ تھی آپ نے احترام رمضان میں پورے دن دودھ نوشی نہیں فرمائی<br />
<br />
*والدین* آپ کے والد گرامی حضرت سیدابوصالح موسیٰ جنگی دوست ہیں اور والدہ ماجدہ ام الخیر امتہ الجبار حضرت سیدہ فاطمہ ہیں<br />
آپ نجیف الطرفین شریف الجانبین ہیں والد کی جانب سے حسنی اور والدہ کی طرف سے حسینی فاطمی سادات ہیں حضرت علامہ نورالدین جامی نے نفحات الانس میں آپ کی اعلیٰ نسبی کا ذکر خیر فرماتے ہوئے حسنی حسینی جلیل القدر سید لکھا ہے آپ کے عام تذکروں میں آپ کا پدری شجرہ اس طور سے تحریرکیا گیا ہے<br />
*آپکا شجرۂ پدری*<br />
شیخ سید عبدالقادر جیلانی بن سیدابوصالح موسیٰ جنگی دوست بن سید عبداللہ الجیلی بن سید یحیٰ زاہد بن سید محمد مورث بن سید داؤد بن سید موسیٰ ثانی بن سید موسیٰ الجون بن سید عبداللہ ثانی بن سید عبداللہ المحض بن سید حسن المثنیٰ بن سیدنا امام حسن مجتبیٰ بن سیدنا حضرت مولیٰ علی مشکل کشا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین<br />
<br />
*آپکا شجرۂ مادری* حضرت غوث اعظم سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ بن ام الخیر امتہ الجبار سیدہ بی بی فاطمہ رحمتہ اللہ علیہا بنت سید عبداللہ صومعی بن سید ابوجمال الدین محمد بن حضرت سید محمود بن حضرت سید ابی العطاء عبداللہ بن حضرت حضرت سید کمال الدین عیسیٰ بن حضرت سید علاؤالدین محمد الجواد بن حضرت سید امام علی رضا بن حضرت سید امام موسیٰ کاظم بن حضرت سید امام جعفر صادق بن حضرت سید امام محمد باقر بن حضرت سید امام زین العابدین بن حضرت سیدنا امام حسین شہید کربلا بن حضرت سیدنا مولا علی المرتضیٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین<br />
<br />
*تعلیم و تربیت* آپ نے نو برس تک بغداد میں رہ تعلیم حاصل فرمائی اوروہاں کےبڑے بڑےفضلاءسےاکتساب علم فرماکر علوم مروجہ پردسترس حاصل فرمائی اس دوران آپ کو بیحد مشکلات درپیش ہوئیں مگر آپ صبر فرماکر ہرقسم کی صعوبت برداشت فرماتے رہے منقول ہے کہ حضرت غوث اعظم نے شیخ طلحہ بن مظفر سے فرمایا کہ بغداد میں دوران قیام اکثر و بیشتر مجھے فاقہ کرنا پڑتا تھاایک بار تو بیس دن تک مسلسل مجھے بھوکا رہنا پڑا<br />
<br />
*درس وتدریس و فتویٰ نویسی*<br />
حضرت غوث پاک قدس سرہ ظاہری تعلیم و تربیت میں مہارت حاصل کرنے کےبعد درس وتدریس اور فتویٰ نویسی کا کام شروع فرمادیا لکھا ہے کہ آپ کی درسگاہ میں طالبان علوم اس کثرت سے آنے لگے کہ جگہ کم پڑگئی 528 ہجری میں مدرسہ کی عالیشان عمارت تعمیر کی گئی آپکےحلقۂ درس میں بڑےبڑے علماءوفضلاءبھی شریک ہوتےتھے اصلاح امت کیلئے چالیس سال تک آپ نےوعظ فرمایااور تینتیس سال تک درس وتدریس وفتویٰ نویسی کی خدمت انجام دی آپ امام شافعی اورامام احمدبن حنبل کے مذہب پر فتویٰ دیتےتھے<br />
<br />
*بیعت و خلافت* آپ کےپیرو مرشد حضرت سیدناقاضی ابو سعید مبارک مخزومی ہیں انہیں بزرگوار سے آپ کو خرقۂ خلافت عطا ہوا ہے آپ کا شجرۂ مرشدیہ حسب ذیل ہے<br />
*شجرۂ مرشدیہ* حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی حضرت شیخ ابوسعیدمبارک مخزومی حضرت شیخ محمد یوسف ابوالفرح طرطوسی حضرت شیخ ابوالفضل عبدالواحد تمیمی حضرت شیخ ابوبکر شبلی حضرت شیخ جنید بغدادی حضرت شیخ سری سقطی حضرت شیخ معروف کرخی حضرت سیدنا امام علی رضا حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظم حضرت سیدنا امام جعفرصادق حضرت سیدنا امام محمد باقر حضرت سیدنا امام زین العابدین حضرت سیدنا امام حسین شہید کربلا حضرت سیدنامولا علی مشکل کشا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حضرت سیدنا وسندنا امام الانبیاء خاتم النبین حضور پرنور محمد رسول اللہ صلیﷲ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر بہ طور تشکر یہ بات بھی رقم کررہا ہوں کہ بفضل مولیٰ تعالیٰ راقم السطور محمد قیصررضاشاہ علوی حنفی مداری اوربرادراکبر فقیہ عصرحضرت علامہ مفتی محمدحبیب الرحمٰن علوی مداری کو سلسلہ قادریہ میں تین طریقوں سے اجازت و خلافت حاصل ہوئی میرے مرشد معظم شہزادۂ غوث اعظم لخت دل محبوب یزدانی شیخ الہند اشرف ملت حضرت علامہ الحاج پیر صوفی سید محمد اشرف الاشرفی الجیلانی مدظلہ العالی نے فقیر سراپا تقصیر اوربرادراکبر مفتی محمدحبیب الرحمٰن صاحب قبلہ مدظلہ العالی کو سلسلۂ اشرفیہ نظامیہ کے ساتھ ساتھ سلسلہ قادریہ چشتیہ نقشبندیہ سہروردیہ قادریہ منوریہ معمریہ وغیرہ کی اجازت و خلافت مرحمت فرمائی فلحمدللہ علی ہذا۔ میرے خیال سے حضور سیدنا سرکار غوث اعظم قدس سرہ کی وہ سند جو میں نے اوپر نقل کی ہے وہ بہت ہی جید اور جلیل القدر ہے کیوں کہ اس سند میں سات ائمہ اہلبیت موجود ہیں اس مقام پر کوئی نہ سمجھے کہ یہ سند ہرسند سے افضل ہے ہاں ہر سلسلے کے مریدین پر یہ لازم ہے اپنی سند کو ہر سند سے بہتر جانیں اپنے پیر کو ہر پیر سے بہتر سمجھیں اور ہرسلسلہ ہر سند ہر پیر کی عزت کریں<br />
*تقویٰ وپرہیزگاری* شیخ ابوعبداللہ بن ابو الفتح ہروی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی چالیس سال تک خدمت کی اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے تھے اور آپ کا معلوم تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضو فرماکر دورکعت نماز نفل پڑھ لیتے تھے بہجتہ الاسرار میں لکھا ہے کہ آپ پندرہ سال تک مسلسل رات بھر میں ایک قرآن ختم کرتے رہے اسی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ حضور غوث اعظم 521 ہجری سے لیکر 561 ہجری تک خلق اللہ کی ہدایت کیلئے وعظو نصیحت فرماتے رہے<br />
بہجتہ الاسرار میں لکھا ہے کہ آپ کے بیانات میں اجنہ بھی شرکت کرتے تھے شیخ ابو زکریا یحیٰ بن ابی نصر صحراوی کے والد فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ عمل کے ذریعے جنات کو بلایاتو انہوں نے آنے میں کچھ زیادہ دیر کردی پھر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جب شیخ عبدالقادر خطاب فرمارہے ہوں تو اسوقت مجھے نہ بلایاکیجئے کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کیوں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم حضور غوث اعظم کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں میں نے کہا تم بھی انکی مجلس میں جاتے ہو انہوں نے کہا کہ ہاں ہم مردوں میں کثیر تعداد میں ہوتے ہیں ہمارے بہت سے گروہ ہیں کہ جنہوں نے حضور غوث پاک کے دست بابرکت پر اسلام قبول کیا ہے اس ضمن میں یہ روایت بھی قابل ذکر ہے کہ آپ کے دست حق پرست پر بہت سارے یہودو نصاریٰ بھی مشرف بہ اسلام ہوئے چنانچہ خود سرکار غوث پاک قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں میرے ہاتھ پرپانچ سو سے زائد یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اورایک لاکھ سے زائد ڈاکو چور فساق و فجار فسادی بدعتی لوگوں نے توبہ کی ۔<br />
*کرامات حضور غوث اعظم*<br />
سیدنا سرکار غوثیت مآب قدس سرہ کی کرامات کا دائرہ بہت وسیع ہے چونکہ آپ ولایت کے اس مقام پر پہونچے ہوئے تھے جس پر بہت کم لوگ پہونچتے ہیں اسلئے آپ جو چاہتے تھے وہ ہوجاتا تھا چور کا قطب بن جانا عصا کا چراغ کی طرح روشن ہوجانا ہاتھ کا روشن ہوجانا قبر کے مردوں کا آپ کے تصرف سے نجات پانا ذبح شدہ کھائی ہوئی مرغی کو دوبارہ زندہ کردینا بیماروں کا شفایاب ہونا ڈوبی ہوئی کشتی کو نکالدینا خلیفۂ بغداد کی بھیجی ہوئی اشرفیوں سے خون نکال دینا بغیر موسم کے سیب منگادینا اندھوں کو بینائی عطافرمادینا بغداد سے مرگی کی بیماری کو بھگا دینا لاغر اونٹنی کو تیز رفتار بنادینا جانوروں کو مطیع بنالینا دریاؤں پر تصرف کرنا اولاد نرینہ عطافرمانامنجملہ آپ کی کرامات سے ہیں<br />
<br />
*ازواج واولاد*<br />
آپ نے اکیاون سال کی عمرمیں حضورختمی مرتبت علیہ الصلوٰة والسلام کی اجازت کےبعد چاربیبیوں سےنکاح فرمایا آپکی ازواج طیبات کےنام یہ ہیں سیدہ بی بی مدینہ سیدہ بی بی صادقہ سیدہ بی بی مومنہ سیدہ بی بی محبوبہ آپکےیہاں ان تمام ازواج سےستائیس بیٹےاوربائیس بیٹیوں کی ولادت ہوئی<br />
<br />
*وصال پرملال*<br />
<br />
آپکی تاریخ وصال میں سیرت نگاروں نےاختلاف کیاھے لیکن عام طریقےسے11 ریبع الآخر 561ہجری آپکی تاریخ وصال مانی جاتی ھے<br />
<br />
مآخذ<br />
بہجتہ الاسرار<br />
غوث پاک کےحالات</div>
Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6735791994672962007.post-89396386662245928002019-11-30T21:45:00.001-08:002019-11-30T21:45:55.281-08:00حضورمدار پاک اورتبلیغ دین متین*<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
*حضورمدار پاک اورتبلیغ دین متین*<br />
<a href="http://www.qutbulmadar.org/" target="_blank">www.qutbulmadar.org</a><br />
ازقلم حضرت علامہ سید مختارشاہ اشرفی نعیمی مقیم حال امریکہ <br />
(خلیفہ حضورشیخ الاسلام سید محمدمدنی میاں الاشرفی الجیلانی )<br />
<br />
محترم گرامی قدرمحقق مداریت حضرت علامہ مفتی محمدقیصررضاصاحب قبلہ مداری دامت برکاتہم نےماہنامہ غوث العالم کچھوچھہ مقدسہ کے مدارپاک نمبرکی اشاعت پرمطلع فرماتےہوئےمجھ فقیرسیدمحمدمختارشاہ اشرفی نعیمی مقیم حال امریکہ سےقطب وحدت سیدناسرکارمدارالعلمین رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات ستودہ صفات سےمتعلق کچھ خامہ فرسائی کاحکم فرمایا ــــ اولاتواس عظیم خدمت وسعادت پرماہنامہ کےچیف ایڈیٹرحضوراشرف ملت قبلہ اورماہنامہ کی پوری ٹیم نیزخانقاہ اشرفیہ اور خانقاہ مداریہ مکنپورشریف کےجملہ احباب حل وعقدکومبارک بادپیش کرتاہوں<br />
ثانیاسفرِمسلسل کےسبب بڑاطول طویل مضمون تومتعذرہیےلیکن بارگاہ قطب المداررضی اللہ تعالی عنہ میں نذرانہ کے طورپرذہن میں مستحضرچندسطورمحض استواری نسبت غلامی کےلئےپیش ہیں اللہ کرےشرف قبولیت عطاءہو<br />
<br />
ناظرین وقارئین یہ بات قطعی مسلم ہےکہ کسی بھی نبی یاولی کی زندگی کا سب سےاہم پہلواسکےذریعہ دین برحق کی تبلیغ وتشہیرھے اس خاکدان گیتی پرجتنےبھی نبی یاولی تشریف لائے ان سبھوں نے سب سےزیادہ وقت دین برحق کی تبلیغ کیلئےصرف فرمایا اوریہ بات بھی قابل ملاحظہ ھےکہ ہردورمیں تبلیغ دین کی پالیساں بدلتی رہیں طریقےبدلتےرہے ہر نبی اورہرولی کواسکےدورکے طوروطریقہ کےمطابق دین برحق کی تبلیغ کیلئےمنجانب اللہ تیارکیاگیا اوراسی طرح یہ سلسلہ صدیوں تک جاری رہا اورہمیشہ جاری رہیگا<br />
نیز واضح رہے کہ حضورختمی مرتبت علیہ الصلوٰةوالسلام کےظاہری دورحیات کےبعد دین متین کی تبلیغ وتشہیر کی پوری ذمہ داری اولیائےامت وعلمائےربانیئین کےسپردہوئی اورقیامت تک اب یہ ذمہ داری یہی نفوس قدسیہ انجام دیتے رہینگے<br />
<br />
آمدم برسرےمطلب<br />
<br />
حامل مقام صمدیت حضورسیدنا سیدبدیع الدین احمد زندہ شاہ مدارقطب المدار قدس سرہ متولد242 ہجری متوفی 838 ہجری<br />
کااسم گرامی بھی مبلغین اسلام کی فہرست میں بہ حرف جلی لکھا ہوا ھے آپ<br />
متحدہ ہندوپاک کے اولین مبلغین اسلام میں سرفہرست ہیں آپکادائرہ تبلیغ و ارشاد اس درجہ وسیع و عریض ہے کہ بڑے سے بڑا مؤرخ و قلم کار اسے حصار تحریر میں لانے سے قاصر ہے اسکی وجہ خاص یہ ہے کہ چونکہ آپ کا دائرہ تبلیغ و ارشاد تقریباً ساڑھے پانچ صدیوں کو محیط ہے اور اس مدت دراز میں آپ نے پوری دنیا کا سفر فرما کر ساری دنیا میں اسلامی تعلیمات کو پہونچایا اور عموماً یہ بات پائی جاتی ہے کہ کسی کے کارنامے اسکی ظاہری زندگی میں لکھے نہیں جاتے حیات وخدمات پر قلم بعد وفات اٹھتے ہیں یہ سلسلہ شروع ہی سے چلا آرہا ہے اور آج تک جاری ہے یہی وجہ ہے کی آپ کہ حیات وخدمات کا تین حصہ منظر عام پر نہیں آ سکا آپ کی تبلیغ کا سلسلہ تیسری صدی ہجری کی آخری دو دہائیوں سے نوویں صدی ہجری کی ابتدائی چار دہائیوں تک چلتا رہا اس درمیان آپ بقید حیات رہے نیز کسی ایک مخصوص مقام کو مستقل جاۓ قیام نہیں بنایا ضرورت دعوت وتبلیغ کے مطابق ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہوتے رہے صاحب تذکرۃالکرام نے لکھا ہے کہ حضرت بدیع الدین شاہ مدار مرید شیخ طیفور بسطامی کے تھے کہتے ہیں کی وہ بظاھر کچھ نہیں کھاتے تھے اور انکا کپڑا کبھی میلا نہیں ہوتا تھا اور نہ اس پر مکھی بیٹھتی تھی اور انکے چہرے پر ہمیشہ نقاب پڑا رہتا تھا نہایت حسین و جمیل تھے چاروں کتب سماوی کے حافظ وعالم تھے کہتے ہیں کی آپ کی عمر چار سو برس سے زائد تھی واللہ اعلم اور تمام دنیا کا سفر انہوں نے کیا تھا اور وہ اپنے وقت کے قطب مدار تھے اسلۓ لوگ شاہ مدار کہتے ہیں <br />
(تذکرۃالکرام تاریخ خلفاۓ عرب و اسلام صفحہ 293)<br />
<br />
اقتباس مذکورہ بالا میں صاف تحریر ہے کہ آپ نے پوری دنیا کا سفر فرمایا تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر ممالک کی تفصیل اب تک نگاہوں سے نہیں گذری اور نہ ہی ہر ملک کی تاریخ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی عین ممکن ہے کہ مستقبل کے محققین کی دریافت میں مزید تفصیلات بھی آئیں ان شاءاللہ<br />
<br />
تاہم متحدہ ہندوستان جس میں پاکستان بنگلہ دیش شری لنکا برما وغیرہ کے علاقاجات بھی ہیں انکے علاوہ عرب بصرہ ایران عراق روم بخارا سمرقند تاشقند افریقہ امریکہ جرمن روس افغانستان چین نیپال وغیرہ کے اسفار دینی کا تذکرہ مصنفین مؤرخین نے اپنی کتابوں میں کیا ہے آج بھی دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ مکن پور شریف آتے ہیں اور بتاتے ہیں کی ہمارے ملک میں بھی حضور مدار پاک کے نشان قدم موجود ہیں افریقہ کے ایک صاحب نے فون کر کے بتا یا تھا کی ہمارے ملک میں سرکار مدار پاک کے کئ چلہ جات موجود ہیں روس اور امریکہ جیسے ممالک بھی قدم مدار کی برکت سے مستفیض ہیں خود عرب شریف خاص مکتہ المکرمہ کے اندر محلہ الشامیتہ المدرایتہ موجود ہے اور نسبت مداری سے منسوب حضرات آج بھی وہاں آباد ہیں مکنپور شریف کے ایک شیخ طریقت نے سفر حج کے دوران ملنگان کرام کی ایک جماعت خواب میں دیکھی اور ان سے پوچھا کی آپ حضرات بھی تشریف لاۓ ہیں ؟ ملنگان کرام نے فرمایا کہ ہم لوگ جدہ میں رہتے ہیں اور یہاں برابر آتے رہتے ہیں حضور مدار پاک قدس سرہ نے ہر چند کہ پوری دنیا کی سیاحت فرمائی اور ہر مقام پر دعوت اسلام کو پہونچانے کا بے مثال کارنامہ انجام دیا لیکن چونکہ ہندوستان بہت بڑا ملک تھا اور وہ بھی آپ کے دور کا اکھنڈ بھارت تو بہت ہی بڑا تھا جسکے پیش نظر اس ملک کو آپ کی برکات سب سے زیادہ میسر ہوئیں اور آپ نے پورے ہندوستان میں کوئی علاقہ نہیں چھوڑا جہاں آپ بغرض تبلیغ اسلام نہ پہونچے ہوں چنانچہ اس بابت آپ ہندوستان کے تمام بزرگان دین و مبلغین اسلام پر سبقت لے گئے اسکی ایک خاص وجہ جو آسانی کیساتھ سمجھ میں آتی ہے وہ آپکی چھ سو سالہ حیات طیبہ ہے جو دیگر مبلغین اسلام اور بزرگان دین کو نہیں ملی ہم نے ہندوستان کے طول و عرض میں جس قدر سفر کئے تو اس میں بھی یہی مشاھدہ ہوا کہ ملک بھارت کو جس بزرگ نے اپنے قدموں سے سب سے زیادہ فیضیاب کیا اور لوگوں کو داخل اسلام فرمایا وہ بلاشبہ حضور قطب وحدت سیدنا سرکار بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار قدس سرہ کی ذات والا صفات ہے اتر پردیش انڈیا میں ہزاروں مقامات ایسے ہیں جہاں آپکے سلسلہ پاک کے ملنگان عظام کی نشانیاں موجود ہیں اور آج بھی ان مقامات سے فیوض و برکات کی تقسیم ہورہی ھے ہر علاقے میں آپکی چلہ گاہیں موجود ہیں کانپور لکھنؤ بنارس جون پور اعظم گڈھ بھدوہی گورکھپور مرزا پور گونڈہ بارہ بنکی فیض آباد بھرائچ سلطان پور امیٹھی امبیڈ کر نگر رائے بریلی جالون جھانسی آگرہ متھرا الہ آباد سدھار تھ نگر سنت کبیر نگر بستی غرض یہ کہ پورے اتر پردیش میں آپکی چلہ گاہوں اور آپ کے ملنگان عظام کی گدیوں اور خلفائے کرام کی خانقاہوں کا جال بچھا ہوا ہے اور یہی حال صوبہ بہار ایم پی مہاراشٹر گوا گجرات راجستھان اندھرا پردیش بنگال مدراس دہلی پنجاب اور تمام صوبہ جات کا بھی ہے جہاں ہر چہار جانب آپ کے چلے اور خلفاء کی خانقاہیں ملنگان پاک باز کی گدیاں موجود ہیں جو ببانگ دہل آپ کی دینی خدمات کا اعلان کر رہی ہیں اورمزےکی بات یہ بھی ھے کہ حضرت مدار پاک کی چلہ گاہوں پرآج بھی خلقت کا ازدحام ہوتا ہے اور لوگ با مراد ہو کر واپس جاتے ہیں یہی تمام وجوہات ہیں کہ ہندوستان و بیرون ہند ہر مقام پر آپکی شہرت اور آپکا چرچہ ہے بعض مقامات تو ایسے ہیں جہاں آپ سے منسوب کئ رسومات بھی قائم ہیں جو آپکی مقبولیت کا احساس دلاتی ہیں<br />
<br />
تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ بغرض تبلیغ اسلام وندیا چل بدری ناتھ کاشی ایودھیا متھرا وغیرہ بھی تشریف لے گئے اس دور ترقی میں بھی اتنی تعداد میں مدارس اسلامیہ نہی ہیں جتنی تعداد میں سلسلہ مداریہ کی خانقاہیں ہیں بزرگان دین نے انکے احصار و شمار کا بھی اہتمام فرمایا ہے چنانچہ جناب معصوم علی شاہ ملنگ گدی نشین خانقاہ مداریہ پنہارضلع گوالیر ایم پی کے مطابق سلسلہ مداریہ کی خانقاہوں کی تعداد تین لاکھ سے زائد ھے فالحمدللہ علی ھذا</div>
Syed zafar mujeeb madari nayab sajjada nasheen dargha Zinda shah madarhttp://www.blogger.com/profile/13005959525025768474noreply@blogger.com0